تسلیمہ نسرین اور بھارتی انٹیلی جنس

   
تاریخ : 
جنوری ۱۹۹۶ء

تسلیمہ نسرین بنگلہ دیش کی ایک صاحبِ قلم خاتون ہے جس نے متعدد تصانیف میں اسلامی احکام کا مذاق اڑایا اور قرآن کریم کو آج کے دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہوئے اس پر نظرثانی کی تجویز پیش کی۔ اس پر ڈھاکہ کی ایک عدالت میں توہینِ مذہب کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور یہ بات مغربی ممالک میں اس کی مقبولیت کی وجہ بن گئی۔ یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے بون میں اجلاس کر کے اسے ڈھاکہ سے یورپ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، ڈھاکہ میں یورپی سفارتخانوں نے اسے ڈھاکہ سے نکالنے کی پلاننگ کی، وہ سویڈن پہنچی تو وزیر خارجہ نے اس کا استقبال کیا، اور یورپی ممالک نے اسے پیشکش کی کہ وہ جس یورپی ملک میں رہنا چاہے اسے مکمل پروٹوکول اور تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ مگر وہ ایک سال تک یورپی حکومتوں کی مہمانی کے مزے اڑانے کے بعد اب اس سے بھی تنگ آ گئی ہے اور دولت اور پروٹوکول کے باوجود اس کا جرم ایک آسیب کی طرح اس کے اعصاب پر سوار ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۵ دسمبر ۱۹۹۵ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ کےمطابق:

’’بنگلہ دیش کی گستاخِ رسولؐ ناول نگار تسلیمہ نسرین نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے بھارت کی رسوائے زمانہ خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ روابط تھے اور اسی کے ورغلانے پر اس نے توہینِ رسالت اور اسلام دشمنی پر مبنی مواد تحریر کیا تھا۔ یہ بات اس نے سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جہاں وہ ان دنوں خودساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہی ہے۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے ’’یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا‘‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ تسلیمہ نسرین نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ سویڈن میں اس کی ذہنی اور معاشی حالت انتہائی ابتر ہے اور اس کو اس حال تک پہنچانے کی تمام تر ذمہ داری ’’را‘‘ پر عائد ہوتی ہے جس نے اس کو مسلمانوں کے مذہبی جذبات مشتعل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے بعد اب آنکھیں بدل لی ہیں۔ تسلیمہ کا کہنا ہے کہ اس نے متعدد بار سویڈن کی آزاد زندگی سے تنگ آ کر بھارت جانے کے لیے ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو ہر بار انکار کر دیا گیا۔‘‘

اس میں جہاں اس حقیقت کا ایک بار پھر اظہار ہوتا ہے کہ دینِ اسلام اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے کو دنیا میں کہیں بھی سکون نہیں مل سکتا، وہاں یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے بھی عبرت کا سبق ہے جو دنیا کے مفادات کی خاطر غیر مسلم لابیوں اور ایجنسیوں کا آلہ کار بن کر مسلمانوں میں فکری انتشار اور سیاسی خلفشار پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter