تخصصات کا تعارف و پس منظر اور دعوت و ارشاد کے دائرے

   
تاریخ: 
۳۱ مئی ۲۰۲۳ء

۳۱ مئی ۲۰۲۳ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ’’التخصص فی الدعوۃ والارشاد‘‘ کی افتتاحی کلاس سے خطاب۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں آج تخصص فی الدعوۃ والارشاد کا پس منظر، مقاصد اور الشریعہ اکادمی کی ماضی کی سرگرمیوں کے حوالے سے تمہیدی گزارشات کروں گا اور ان شاء اللہ العزیز اتوار سے باقاعدہ کلاسوں کا آغاز ہو جائے گا۔ میرے ذمہ ایک تو آج کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کی تدریس ہے۔ پوری کتاب تو نہیں پڑھائی جا سکے گی لیکن کوشش کروں گا کہ خلاصہ کے انداز میں حجۃ اللہ البالغہ کے اہم موضوعات کا خلاصہ اور نچوڑ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا سکے۔ اس میں اگر کوئی سوال کرنا چاہے تو تحریری شکل میں واٹس ایپ پر بھیج دیا جائے، اگلی نشست میں پچھلی نشست میں کیے ہوئے سوالوں کا جواب دیا جائے گا۔ لیکن سوال موضوع اور گفتگو سے متعلق ہونا چاہیے، موضوع سے خارج اور غیر متعلقہ سوال ہمارے دائرے میں نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ ہم دوسرے موضوعات کی تقسیم کر لیں گے، جو آپ نے اشتہار میں پڑھے ہوں گے۔ اس پر میں مولانا فضل الہادی اور دیگر اساتذہ کے ساتھ مشاورت کروں گا کہ کن موضوعات پر میں نے بات کرنی ہے اور کن پر انہوں نے بات کرنی ہے۔

تعارف و پس منظر

آج پہلی بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تخصص کا پس منظر کیا ہے؟ تخصصات ماضی میں بھی ہوتے تھے لیکن ان کا عنوان کچھ اور تھا۔ ہمارے ہاں درسِ نظامی کے مدارس میں دورہ حدیث سے فارغ ہونے کے بعد تکمیل کے نام سے کسی خاص فن میں سال دو سال کا کورس کرایا جاتا تھا جس میں طالب علم کسی فن کے ماہر استاد کے پاس وقت گزارتا تھا، اسے ’’تکمیل‘‘ کہتے تھے۔ یہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا تھا۔ کوئی استاد نحو کے فن میں متخصص ہوتے، کوئی صرف کے فن میں، کوئی تفسیر میں، کوئی حدیث میں، کوئی میراث میں، کوئی منطق اور معقولات میں متخصص ہوتے۔ خود ہمارے یہاں انوار العلوم میں سابق مہتمم حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ معقولات کے متخصص تھے۔ وہ منقولات کے بھی بہت اچھے استاد تھے لیکن معقولات کے تو امام تھے۔ طلباء دورہ حدیث کے بعد فلسفہ و منطق کی کتابیں پڑھنے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ اس طرح کی تکمیلات ملک کے مختلف حصوں میں ہوتی تھیں۔

میں نے اس طرز کے مدارس دیکھے ہیں، ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی صاحبِ فن کسی مسجد میں خطیب و امام ہوتا تو اس فن کے شائقین اس کے پاس آجاتے۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ملک کے بڑے محدث اور شیخ الحدیث تھے، انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث کیا تھا۔ آپؒ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے۔ دونوں بھائیوں نے اکٹھے پڑھا اور اکٹھے دورہ حدیث کیا۔ اس کے بعد والد محترم گکھڑ چلے آئے، جبکہ چچا محترم طبیہ کالج حیدرآباد دکن چلے گئے، وہاں سے لکھنو گئے اور حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے دارالمبلغین میں کچھ عرصہ رہے۔

والد محترمؒ ۱۹۴۳ء میں گکھڑ تشریف لائے تھے۔ جب ابتدا میں گکھڑ میں آ کر بیٹھے تو ان کا امتیاز نحو میں تھا۔ بطور خاص نحو پڑھنے کے لیے علماء ان کے پاس آتے تھے۔ آپ گکھڑ کی جامع مسجد میں امام اور خطیب تھے۔ اور وہ پرانی طرز کا مدرسہ تھا، میں نے وہ دیکھا ہے اور وہاں کھیلا کرتا تھا۔ یہ بوہڑ والی مسجد کہلاتی تھی، طلباء کے لیے الگ کمرے نہیں تھے، وہ مسجد میں رہ کر پڑھتے تھے، محلے کے لوگ روٹی دے دیا کرتے تھے اور والد محترمؒ پڑھا دیا کرتے تھے۔ الگ سے تنخواہ وغیرہ کے تکلفات نہیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے حضرت والد گرامیؒ سے پوچھا کہ آپ اس زمانے میں کتنے سبق پڑھاتے تھے تو والد محترم نے فرمایا میں نے یومیہ اٹھارہ اٹھارہ سبق تک پڑھائے ہیں۔ اب کسی استاد کے اسباق چار پانچ سے بڑھ جائیں تو اس کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے کہ اتنے پیریڈ کیسے پڑھاؤں گا۔ اسی طرح میں نے ایک دفعہ حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے بائیس بائیس سبق بھی پڑھائے ہیں۔ ان کا تو کام ہی پڑھانا تھا اور کوئی کام نہیں تھا۔ ان پرانی طرز کے مدارس میں تکمیل کا دورہ ہوتا تھا۔ ایک ہمارے بزرگ حضرت مولانا عزیزالرحمنؒ تھے ان کا نام ہی صرفی استاد تھا۔ کچھ عرصہ جامعہ نصرۃ العلوم میں رہے اس کے بعد سکھے کی چلے گئے تھے۔

نئے دور کے تقاضے

اسی تکمیل کی نئی شکل تخصصات کی صورت میں ہے۔ جیسے یونیورسٹیوں میں خاص موضوع پر ایم فل ہوتا ہے، پھر کسی خاص موضوع پی ایچ ڈی ہوتا ہے، اس کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ ہم نے بھی اس کو تخصص کا نام دے دیا۔ تخصص فی التفسیر، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ، تخصص فی الافتاء، تخصص فی الدعوۃ والارشاد وغیرہ۔ ان تخصصات کے اپنے اپنے کورس ہیں، اب ان کی باقاعدہ سند بھی جاری ہوتی ہے۔ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ تخصصات کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ہم نے اسی پرانی طرز کو نئی شکل دی ہے، جس میں طالب علم کسی ایک فن میں مزید تعلیم حاصل کرتا ہے، پڑھی ہوئی تعلیم کو پالش کرتا ہے اور تحقیق و ریسرچ کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔

ایک دفعہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے تخصصات کے نصابوں کا جائزہ لینے کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی، مولانا منظور احمد مینگل اور میں بھی اس کے ممبر تھے۔ ہم نے جائزہ لے کر رپورٹ پیش کی تھی جو وفاق کے ریکارڈ میں ہوگی۔ اس میں ہمارے ساتھ ریسرچ میں حضرت ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ بھی شریک تھے بلکہ انہی کی لکھی ہوئی رپورٹ میں نے وفاق میں جمع کرائی تھی۔

تخصصات کے دائرے کیا ہیں؟ اس میں ایک فرق ہمیں محسوس کرنا چاہیے کہ تخصصات کے دائرے پہلے دور میں تو یہ ہوتے تھے کہ طالب علم کا ذوق کس فن میں زیادہ ہے۔ ذوق مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کا تفسیر کا ذوق ہوتا ہے، کسی کا حدیث کا ذوق ہوتا ہے۔ فقہ، اصول فقہ، میراث، صرف یا نحو وغیرہ کا ذوق ہوتا ہے۔ پہلے زمانے میں شخصی ذوق ہوتا تھا کہ جس کا تفسیر کا ذوق ہوتا وہ کسی استاد سے تفسیر پڑھتا۔ جس کا حدیث کا ذوق ہوتا وہ حدیث کے استاد کے پاس جاتا۔ جس کا صرف و نحو کا ذوق ہوتا وہ اسی استاد کی خدمت میں جاتا۔ پہلے طلباء ذوق اور ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر تخصص کے لیے استاد کے پاس جاتے تھے۔ لیکن اب یہ فرق آیا ہے کہ اب تخصصات میں معاشرتی ضروریات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ اس وقت کن تخصصات کی ضروریات ہیں۔ گویا اس میں اجتماعیت آگئی ہے۔ مدارس اور بڑے جامعات محسوس کرتے ہیں کہ سوسائٹی اور معاشرے کو کس تخصص کی زیادہ ضرورت ہے۔

چنانچہ ایک تخصص دورہ تفسیر قرآن کے نام سے بیسیوں جگہ پر شعبان رمضان کی چھٹیوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے دادا اُستاذ، شیخ الموحدین حضرت مولانا حسین علیؒ واں بچھراں کا دورہ تفسیر مشہور تھا۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا دورہ تفسیر مشہور تھا، بڑی دور دور سے لوگ استفادہ کے لیے آتے تھے۔ حضرت درخواستیؒ، حضرت مولانا حماداللہ ہالیجویؒ، حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئیؒ، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ وغیرہ کے دورہ تفسیر مشہور تھے۔ ان اکابر کے پاس طلباء قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے آتے تھے۔ وہ صرف ترجمہ تفسیر نہیں ہوتا تھا بلکہ استاد کا ذوق بھی منتقل ہوتا تھا۔ جس استاد کے پاس پڑھا ہے اس کا ذوق اور اس کے تفردات بھی منتقل ہوتے تھے۔ اس کے بعد تخصص فی الافتاء پر زیادہ زور ہوا ۔ تخصص فی الفقہ والافتاء بھی ملک میں مختلف جگہوں پر ہو رہا ہے۔ کہیں تخصص فی النحو اور کہیں تخصص فی المیراث ہوتا ہے۔

تخصص فی الدعوۃ والارشاد

اس دوران یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس وقت دنیا کے مجموعی ماحول میں دعوت و ارشاد کا ایک مستقل موضوع ہے۔ جس کے لیے علماء کو تیار کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ التخصص فی الدعوۃ والارشاد بھی مختلف جگہوں پر ہو رہا ہے۔

مسلم و غیر مسلم کے دائرے

دعوت سے مراد دعوتِ دین اور ارشاد کا معنیٰ ہے رہنمائی۔ دعوت کا دائرہ پوری انسانیت ہے اور ارشاد کا دائرہ امتِ مسلمہ ہے۔ ایک ہے غیر مسلموں کو دین میں داخل ہونے کی دعوت دینا، اور ایک ہے مسلمانوں کو دین کی طرف واپس آنے کی دعوت دینا۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہماری تبلیغی جماعت مسلمانوں کو دین کی طرف واپس آنے کی دعوت دینے کا عمل کر رہی ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاسؒ پر اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں، وہ اس شعبے کے مجدد تھے، انہوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا۔ تبلیغی جماعت کا سارا عمل امت کو دین کی طرف واپسی کی دعوت دینا ہے۔ مسلمان عموماً نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امت بحیثیت امت دین پر قائم ہے، نہ عمل کے اعتبار سے، نہ تہذیب، ماحول اور طرز عمل کے لحاظ سے۔ چنانچہ تبلیغی جماعت کی دعوت امت کو دین کے ماحول کی طرف واپس لانے کی دعوت ہے۔

دعوت کا ایک دائرہ غیر مسلموں کو دین میں داخل ہونے کی دعوت دینے کا ہے، اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ مثال کے طور پر عرض کروں گا کہ قرآن مجید کا دائرہ خطاب ’’ھدًی للناس‘‘ ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ’’یا ایہا الناس‘‘ کہہ کر خطاب کیا تھا۔ قرآن مجید نے نبی کریمؐ کے بارے میں واضح الفاظ میں فرمایا اور پوری صراحت کے ساتھ آپؐ سے کہلوایا ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘ کہ میں پوری نسل انسانی کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ نسلِ انسانی کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب کے قریب ہے۔ ان میں سے کلمہ پڑھنے والے کم و بیش دو ارب ہیں اور کلمہ نہ پڑھنے والے چھ ارب ہیں۔ ان چھ ارب انسانوں کو اللہ اور رسول سے متعارف کرانا، انہیں اسلام کی دعوت دینا، انہیں کلمہ اور دین سکھانا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ فرشتوں کا کام تو نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جسے ہماری اصطلاح میں فرضِ کفایہ کہتے ہیں کہ کوئی ادا کر لے تو سب کی طرف سے ہو گیا، لیکن کوئی بھی نہ ادا کرے تو سب گنہگار قرار پاتے ہیں۔

میں اس حوالے سے عرض کیا کرتا ہوں کہ دنیا میں نسلِ انسانی کو دین کی دعوت دینے کا نظم ہمارے ہاں اجتماعی طور پر کہیں نہیں ہے۔ ہمارا سب سے بڑا نیٹ ورک تبلیغی جماعت کا ہے جو امت کو دین کی طرف واپسی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا کام بہت اچھا اور بہت ضروری ہے لیکن ان کا دائرہ کار غیر مسلموں کو باقاعدہ اہتمام کر کے دین کی دعوت دینا نہیں ہے۔ میں اس کی مثال دوں گا۔ اس وقت دنیا میں نسلِ انسانی کا مذہب اسلام ہے۔ ہمارے علاوہ ایک اور مذہب پوری نسلِ انسانی کا دعویدار ہے اور وہ ہے عیسائیت۔ یہودیت نسلی دین ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے ہٹ کر بات نہیں کرتے، ہندو وطنی دین ہے اور وہ ہندوستان سے باہر کی بات نہیں کرتے۔ بدھ مت بھی وطنیت کے دائرے میں ہے۔ کوئی اور آدمی اپنے طور پر ہندو یا بدھ ہو جائے تو الگ بات ہے لیکن وہ دوسروں کو ہندو اور بدھ ہونے کی دعوت نہیں دیتے۔ یہودیوں کے ہاں یہودی ہونے کی دعوت کا کوئی نظام نہیں ہے۔ نسلِ انسانی کے حوالے سے یا مسلمان بات کرتے ہیں، یا عیسائی بات کرتے ہیں۔ دنیا میں دعوت کا نظم ہمارا یا عیسائیوں کا ہے۔ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ بنی اسرائیل کے نبی تھے، لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ وہ نسلِ انسانی کے پیغمبر تھے۔ اس پر ہمارا مستقل مکالمہ رہتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں آپ کو عیسائیوں کے مشنری ادارے ہزاروں کی تعداد میں ملیں گے۔ وہ ایشین، آسٹریلین، ہر ایک کو اپنا کلمہ پڑھاتے ہیں، بپتسمہ دیتے ہیں اور عیسائی بناتے ہیں۔

عیسائیوں کا مشن اور جدوجہد

چنانچہ یہ دعوٰی کہ ہم نے نسل انسانی کو اپنے مذہب میں لانا ہے، یہ ہمارا اور عیسائیوں دونوں کا ہے۔ جبکہ اجتماعی اور منظم محنت صرف عیسائیوں کی ہے، ہماری محنت اس سطح کی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گروپوں میں دعوت ہے، عیسائیوں کے ہاں دعوت کا اجتماعی نظم ہے۔ ان کی مشنریاں پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، نائیجیریا ہر علاقے میں ہیں۔

  • میں ان کی محنت کی ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ سوڈان افریقہ میں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ جنوبی سوڈان بت پرستوں کا علاقہ تھا۔ آج سے پون صدی پہلے عیسائی مشنریوں نے جنوبی سوڈان کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ وہ ان بت پرستوں کو چالیس پچاس سال میں عیسائی بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ علاقے کی ایک بڑی تعداد عیسائی ہو گئی ہے تو بین الاقوامی ماحول کے مطابق اقوام متحدہ میں گئے، ریفرنڈم کروایا اور جنوبی سوڈان کو الگ کروا لیا۔ جنوبی سوڈان اس بنیاد پر شمالی سوڈان سے الگ ہوا ہے کہ یہ آبادی علیحدگی چاہتی ہے کیونکہ وہ عیسائی ہیں۔ سوڈان کی تقسیم ہمارے سامنے ہوئی ہے۔ جنوبی سوڈان میں پادریوں نے کیسے تبلیغ کی؟ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ یورپ، فرانس اور جرمنی کے پادریوں نے اپنے دین کے پھیلاؤ کے لیے وہاں سالہا سال سال محنت کی اور بالآخر جنوبی سوڈان کو سوڈان سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ میں نے ایک مثال دی ہے۔
  • اس کی دوسری مثال انڈونیشیا کا جزیرہ تیمور ہے۔ اس کے ایک حصے کو بھی عیسائیوں نے ہدف بنایا، وہاں محنت کر کے عیسائی اکثریت پیدا کی، اور پھر ریفرنڈم کروا کے مشرقی تیمور کو مغربی تیمور سے علیحدہ کروا لیا جو کہ عیسائی ریاست ہے۔ یہ ہمارے سامنے کے حقائق ہیں پرانی باتیں نہیں ہیں۔
  • پاکستان میں بھی جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی طرز کی عیسائی ریاست بنانے کا پروگرام آج سے تیس سال پہلے سامنے آیا تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے، ہم نے بھی ماہنامہ الشریعہ میں اسے شائع کیا تھا۔ ۱۹۹۵ء کے لگ بھگ ایسی رپورٹیں آئیں کہ پاکستان کے ایک حصے کو عیسائی ریاست بنانا ہے۔ پلاننگ کے مطابق ۲۰۲۵ء ٹارگٹ تھا۔ اس ریاست کا دائرہ بھی انہوں نے متعین کیا تھا۔ خانیوال سے سیالکوٹ تک کا سرحدی علاقہ ان کا ہدف تھا۔ جس کا دارالحکومت گوجرانوالہ ہونا تھا۔ انہوں نے جو ٹارگٹ طے کیے تھے، ان میں ایک یہ تھا کہ اس خطے میں ملٹی نیشنل کمپنیاں آئیں گی، بگ فارمنگ کے نام سے یہاں کی زمینیں خریدیں گی کہ چھوٹے زمیندار مشینری استعمال نہیں کر سکتے، دو تین ہزار ایکڑ کا بڑا فارم ہو تو زراعت میں ترقی ہوگی۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں زمین خریدیں گی جیسے یہودیوں نے فلسطین میں خریدی تھیں۔ ان کا دوسرا ٹارگٹ یہ تھا کہ اس خطے میں دو سو خالص مسیحی کالونیاں بنائی جائیں گی جہاں پر صرف مسیحی رہیں گے۔ چنانچہ اس کے مطابق کام شروع ہوا، مسیحی بستیاں بننی شروع ہوئیں۔ فرانسیس آباد، مریم آباد وغیرہ دو تین تو ہمارے گوجرانوالہ میں ہیں۔ کالونیاں بننا بھی شروع ہوگئیں اور زمینوں کے خریداری بھی شروع ہو گئی۔ رائیونڈ کے علاقے کی زمینوں کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک شاگرد آیا اور کہنے لگا کہ استاذ جی ہماری لاٹری نکل آئی ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں آئی ہیں وہ زمین کی کئی گنا قیمت دے رہے ہیں۔ میں نے کہا بیڑا غرق ہونا شروع ہو گیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ زمینوں کا نظم چلانے والے ریونیو بورڈ کا ایک ممبر سپریم کورٹ میں چلا گیا اور درخواست دائر کی کہ ملک کی زمین غیر ملکیوں پر بیچنا ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے سٹے لیا جس کی بنیاد پر آج تک رکاوٹ موجود ہے ۔ سپریم کورٹ کے بعض سٹے ایسے ہیں جن پر ہمیں بہت غصہ آتا ہے لیکن بعض سٹے ہمارے فائدے کے بھی ہیں۔ کام کرنے والے کام کرتے ہیں، ہماری طرح نہیں کرتے کہ نعرے لگائے اور گھر میں جا کر سو گئے۔ جب سپریم کورٹ نے سٹے دیا تو نئی سمری آئی کہ زمینیں نہ بیچو بلکہ سو سال کے لیے ٹھیکے پر دے دو۔ یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مالک نہ بناؤ لیکن لمبے عرصے کے لیے ان کو ٹھیکے پر زمینیں دے دو۔ لیکن اس میں عملی طور پر کیا فرق ہے؟ اس کی سمری بھی میز پر پڑی ہوئی ہے، ان شاء اللہ کوئی اچھا نتیجہ ہی سامنے آئے گا۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جیسے عیسائی اپنے دین کی محنت کرتے ہیں، اس طرز کی ہماری کوئی محنت نہیں ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے گروپ محنت کر رہے ہیں۔ میں بعض گروپوں کو جانتا ہوں۔ ایک دفعہ شکاگو گیا، وہاں انڈیا کے ہمارے دوست سید امیر علی اور پاکستان کے ریاض وڑائچ تھے، انہوں نے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کا گروپ بنایا ہوا تھا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نوے کی دہائی میں وہاں بہت دفعہ گیا، ان کے پروگرام اٹینڈ کیے۔ میں یہ بتا رہا ہوں کہ دعوت کے محاذ پر اس وقت ہمارا عالمی مقابلہ عیسائیوں سے ہے اور میں نے ان کی محنت کا انداز بھی بتایا ہے، جبکہ ہمارا حال کیا ہے وہ بھی عرض کیا ہے۔

آج کا اسلوب اور تقاضے

ایک دائرہ یہ ہے کہ آج کے دور میں دعوت و ارشاد کے تقاضے کیا ہیں؟ آج آپ کس زبان، کس اسلوب اور کس دائرے میں بات کریں گے؟ آج کی نفسیات کیا ہیں؟ آج کی ذہنی سطح کیا ہے؟ آج کی دنیا کو سمجھانے کے ہتھیار کیا ہیں؟ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے اور ہم نہیں کر رہے، اب آہستہ آہستہ آہستہ احساس شروع ہوا ہے۔ ایک زمانہ مشاہدات کا تھا، پھر معقولات اور فلسفے کا زمانہ تھا۔ اب سائنس اور سماجیات کا زمانہ ہے۔ آج کی دنیا میں جب تک آپ لوگوں کے سماجی نفع کی بات نہیں کریں گے کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا۔ اس کو سوشیالوجی، سماجیات، ہیومینیٹی، ہیومن ازم کا دور کہتے ہیں۔ آج کی زبان اور اسلوب مختلف ہے۔ آج مشاہدات، تجربات، نفع، نقصان سماجیات کی زبان ہے۔ اس ماحول میں نئے سوالات پیدا ہو رہے ہیں، اشکالات جنم لے رہے ہیں۔ میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ آج کا نوجوان لڑکا یا لڑکی جو کالج کی حد تک پہنچ گیا ہے اور اس کے پاس دینی معلومات نہیں ہے تو اسے گمراہ سمجھ کر بات نہ کریں بلکہ نومسلم سمجھ کر بات کریں۔ ہم اس سے گفتگو کا آغاز ہی گمراہی کے فتوے سے کرتے ہیں، ہمیں بات کرنے سے پہلے نفسیات کو سمجھنا چاہیے۔ میں اس پر ایک حوالہ دوں گا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دین کی دعوت دی، اللہ تعالیٰ، رسالت اور قیامت کی بات کی، اس پر ملنے والے ثمرات کا تذکرہ کیا۔ لیکن جب ابوجہل نے آپؐ سے آپؐ کی دعوت کے بارے میں پوچھا کہ تو حضورؐ نے اسے جواب دیا کہ میں تمہیں ایسا کلمہ پیش کر رہا ہوں اگر اسے اپنا لو گے ’’تملک بہا العرب‘‘ تو عربوں کے بادشاہ بن جاؤ گے اور عجم تمہارے تابع ہوگا۔ اس پر میں کہا کرتا ہوں کہ حضورؐ نے ایک چودھری سے چودھریوں والی بات کی۔ اسی کلمے کی بنیاد پر مسلمان عرب کے بادشاہ بنے اور عجم ان کے تابع ہوا۔ لیکن یہ بات ابوجہل سے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے اس لہجے میں اس لیے بات کی کیونکہ وہ یہی زبان سمجھتا تھا۔ اس لیے ہمیں مخاطب کی زبان، اس کی ذہنی سطح اور نفسیات سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔ آج کا ماحول کیا ہے، کون سی زبان اور اسلوب چلتا ہے، ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے۔

شکوک و شبہات ہر زمانے میں رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتنے شبہات تھے مثلاً قرآن کریم کے بارے میں کہ ’’ان ہذا الا اساطیر الاولین‘‘ یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ ’’ان ھذا الا اختلاق‘‘ یہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ ’’ھل انتم الا بشر مثلکم‘‘ تم ہمارے جیسے انسان ہو۔ یہ اعتراضات اس زمانے کی زبان میں ہیں۔ آج بھی آپ کو اعتراضات کی بھرمار اور شکوک و شبہات کا جنگل ملے گا۔ فرق یہ ہے کہ آج تکنیکی اور منظم کام ہے۔ آج کا گمراہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ دس سال کے بچے کے ذہن میں کیا سوال ڈالنا ہے اور اَسی سال کے بوڑھے کے ذہن میں کیا اشکال ڈالنا ہے۔ کالج کے پروفیسر کے ذہن میں کیا سوال ڈالنا ہے اور بھٹی کے مزدور کے ذہن میں کیا سوال ڈالنا ہے۔ آپ کو جن شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، انہیں کس طرح ڈیل کریں گے؟ اگر آپ صفائی نہیں دیں گے تو کیا کریں گے؟ شکوک و شبہات کو دور کرنے کا ہمارا انداز کیا ہے؟ اگر ایک نوجوان کے ذہن میں شکوک و شبہات ہیں تو اگر میں فتوے سے کام شروع کروں تو اس کے اشکال کو دور کروں گا یا اسے مزید پکا کروں گا؟ اس کے ذہن میں جو شک ہے میں نے اس کی تیاری نہیں کی ہوئی تو اگر میں گول مول بات کروں گا تو اس کے شک کو اور پکا کر دوں گا۔ اس لیے اشکالات پہلے میرے علم میں ہونے چاہئیں، شکوک و شبہات پر خود تیاری کرنی چاہیے، پھر دوسرے سے بات کرنی چاہیے۔ یہ میں نے مختلف زاویے عرض کی ہیں کہ دعوت و ارشاد کے آج کے تقاضے کیا ہیں، دائرہ کار کیا ہے۔

میں ایک اور دائرہ عرض کر دیتا ہوں۔ آج ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں کام بھی ہونا چاہیے، فلاں کام بھی ہونا چاہیے، اور پھر ہم سب کام کرنے لگ پڑتے ہیں۔ میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ایک دائرہ یہ ہے کہ فلاں کام ہونا چاہیے، ٹھیک ہے اس کی ضرورت ہو گی، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس میں سے کتنا کام ہو سکتا ہے؟ ہمارا دھیان ’’ہونا چاہیے‘‘ پر ہوتا ہے، اس پر نہیں ہوتا کہ ’’کتنا ہو سکتا ہے‘‘۔ سو فیصد کے چکر میں ہم اس ستر فیصد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو کہ ہو سکتا ہے۔ پھر اس سے اگلا مرحلہ یہ دیکھنے کا ہے میں خود اس میں سے کتنا کام کر سکتا ہوں۔ اگر ہم کچھ منصوبہ بندی کر لیں کہ ایک کام کتنا ہو سکتا ہے اور میں اس میں کتنا حصہ ڈال سکتا ہوں، تو کام بہتر انداز سے ہو سکتا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی حجۃ اللہ البالغہ سے رہنمائی

آج کے دور میں دعوت و ارشاد کے حوالے سے یہ سب باتیں ہمارے دائرہ کار کی ہیں۔ دعوت و ارشاد کے دائرے میں ہم روایتی ماحول سے ہٹ کر بات کریں گے۔ سب سے پہلے ہماری بنیاد یہ ہوگی کہ آج کی سوشیالوجی کی زبان کیا ہے، سماجیات کی بنیاد کیا ہے، اور قرآن مجید کے احکام و قوانین کی سماجی تشریح کیا ہے؟ اس کے بعد نظام اور معاشرت کے حوالے سے ہماری بنیاد تو قرآن مجید، سنتِ رسول اور تعاملِ صحابہؓ بالخصوص خلافت راشدہ کا دور ہے۔ انہی میں قیامت تک کے لیے ہماری رہنمائی موجود ہے۔ لیکن آج کی زبان میں اس کی تعبیر و تشریح اور وضاحت میں ہمارے پاس کلاسیکل کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ ہے، ہم اس سے رہنمائی لینے کی کوشش کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’الفوز الکبیر‘‘ میں لکھا ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح پر بات کرنی چاہیے۔ مخاطبین کی ذہنی سطحیں مختلف ہوتی ہیں۔ آپؒ نے اس کی مثال یہ دی کہ اللہ تعالیٰ نے عام آدمی سے عام آدمی کی سطح پر بات کی ہے۔ قرآن مجید میں مکڑی، مکھی اور مچھر کی مثالیں دیں۔ زمین، آسمان، پہاڑ، اونٹ کو دیکھ کر ان میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی۔ یہ گراس لیول ہے۔ اگر اللہ تعالی اپنے لیول پر بات کرتے تو کسی کے پلے کچھ پڑتا؟ لیکن شاہ صاحبؒ نے ہمیں تو یہ سبق دیا ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح کو دیکھو جبکہ خود شاہ صاحبؒ چوتھے آسمان سے نیچے نہیں اترتے، ان کی اپنی زبان اور اصطلاحات کیا ہیں؟ بہرحال ہمارے پاس چونکہ سب سے بہتر اثاثہ وہی ہے اس لیے ہماری کوشش ہو گی کہ حجۃ اللہ البالغہ کے جتنے مباحث دعوت و ارشاد کے حوالے سے اور دین کی سماجی تعبیر و تشریح کے حوالے سے میسر ہیں، ان کا خلاصہ آسان لہجے میں پیش کر دیں۔

یہ ان شاء اللہ ہمارا دائرہ کار ہوگا۔ ہفتے میں اس کی ایک کلاس ہوا کرے گی، ہمارا تعلیمی سال آٹھ نو ماہ کے دورانیہ پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں ہم تخصص فی الدعوۃ والارشاد پر بات کریں گے جس کا آغاز ہم نے آج کر دیا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

2016ء سے
Flag Counter