دینی مدارس ایک بار پھر موضوع بحث

   
تاریخ: 
۹ جنوری ۲۰۱۵ء

آج کل مختلف مجالس و محافل میں دینی مدارس کے کردار اور ان کے بارے میں از سر نو منفی مہم کے حوالہ سے گفتگو کا موقع مل رہا ہے۔ ۹ جنوری کو گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کی مسجد میں نماز مغرب کے بعد ہفتہ وار درس کے دوران اس سلسلہ میں قدرے تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ ان محافل میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دینی مدرسہ ایک بار پھر عالمی اور ملکی ماحول میں مختلف سطحوں پر موضوع بحث ہے، اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر گفتگو ہو رہی ہے۔ ۱۶ دسمبر کے سانحۂ پشاور کے بعد اس بحث میں شدت آگئی ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی قومی پالیسی سامنے آنے کے بعد دہشت گردی کے ساتھ مدرسہ کے مبینہ تعلق کو اجاگر کرنے میں بہت سی سیکولر لابیاں اور حلقے از سرِ نو متحرک ہوگئے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ معروضی صورت حال میں اس مسئلہ کے ضروری پہلوؤں پر ایک بار نظر ڈال لی جائے۔ اگرچہ ان میں سے بہت سی باتیں مختلف مواقع پر بار بار کہی جا چکی ہیں مگر آج کے حالات میں ان پر پھر سے ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے۔

پہلے نمبر پر مدرسہ کے اس کام کو دیکھ لینا چاہیے جو وہ اس وقت معاشرہ میں عملاً کر رہا ہے۔ اس کے مختلف دائروں میں سے صرف تین کا اس وقت تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ ایک اسلامی ریاست میں عام شہریوں کو قرآن کریم، حدیث و سنت اور ضروری دینیات کی تعلیم دینا اصلاً حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان کے دستور میں اسے حکومت و ریاست کی ذمہ داریوں میں شمار کیا گیا ہے۔ مگر ہماری حکومتوں کا حال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک قومی نصاب تعلیم اور اسکول و کالج کے دائرہ میں کسی حکومت نے بھی اس ذمہ داری کی طرف سنجیدہ توجہ نہیں دی۔ حتیٰ کہ کچھ عرصہ قبل وفاقی محتسب اعلیٰ نے یہ حکم جاری کیا کہ میٹرک تک ہر بچے اور بچی کے لیے قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم مکمل کر لینے کو یقینی بنایا جائے۔ مگر محکمہ تعلیم نے اس سے معذرت کرلی اور آج تک اس کا اہتمام نہیں ہو سکا۔

قرآن و سنت اور ضروری دینیات کی تعلیم کا اہتمام ہر سطح پر حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر یہ کام ان کی بجائے مدرسہ کر رہا ہے۔ پورے ملک میں اور ہر سطح پر کر رہا ہے۔ اس کا دائرہ تعلیم صرف ضروری دینیات تک محدود نہیں بلکہ دینی تعلیم کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ سطح کی تعلیم کا اہتمام بھی اس کے نظام کا حصہ ہے۔ دینی مدارس سے تعلیم پانے والے ہزاروں فضلاء ملک کے طول و عرض میں خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں دینی تعلیمات کے فروغ کا فریضہ سر انجام دینے میں مسلسل مصروف ہیں اور ملک کی نیک نامی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

معاشرے میں دینی لحاظ سے پیدا ہونے والے فتنوں کے سدباب کے لیے بھی دینی مدارس ہی متحرک ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران دو بڑے فتنے ایسے کھڑے ہوئے جن کو اگر آزادی کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا تو پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا۔ ایک انکار ختم نبوت کا فتنہ، جو دجل و فریب کے پورے جال کے ساتھ شروع ہوا، مگر دینی مدارس اس کے خلاف سد سکندری ثابت ہوئے۔ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے عقیدہ کا تحفظ کر کے اس خطہ کے مسلمانوں کو مجموعی طور پر گمراہ ہونے سے بچا لیا۔ اس فتنہ کے سدباب میں دوسرے طبقات کے افراد اور ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے بھی حصہ لیا مگر اس کی بنیاد بھی یہ مدارس تھے۔ انکار ختم نبوت کے دجل و فریب کا پردہ چاک کرنے میں دینی مدارس کا کردار اساسی حیثیت رکھتا ہے۔

دوسرا بڑا فتنہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کی حجیت سے انکار کا ہے۔ اس کا ان مدارس نے سامنا کیا اور مسلم سوسائٹی کو اس کی لپیٹ میں آنے سے بچا لیا۔ اس فتنہ نے تو حکومتی حلقوں میں بھی ایک دور میں نقب لگا لی تھی اور اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا جاتا تو پاکستان کی ریاستی اساس ہی حدیث و سنت سے انحراف پر کھڑی ہو جاتی۔ مگر یہ دینی مدارس کا کردار ہے کہ انہوں نے دلیل و حجت کے ساتھ حدیث و سنت کا دفاع کیا۔

تیسرا بڑا محاذ معاشرتی لحاظ سے اسلامی روایات و اقدار کے تحفظ کا ہے۔ جس دور میں یہاں ہندو معاشرت اور تہذیب کے غلبہ اور برتری کا خوف تھا اس کے مقابلہ میں اسلامی روایات و اقدار کے تحفظ کے لیے یہ مدرسہ کردار ادا کر رہا تھا۔ آج جب کہ اس کے ساتھ مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار کا بھی سامنا ہے۔ خاندانی اور معاشرتی دائروں میں اسلامی اقدار و روایات کا سب سے بڑا مورچہ یہی مدرسہ ہے۔

ہمارا قومی نظام تعلیم مغربی تہذیب و ثقافت کے راستہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے اس کا معاون ثابت ہوا ہے۔ اور مغربی ثقافت کو ہمارے کالج اور یونیورسٹی کے ماحول میں پنپنے کے مواقع سب سے زیادہ میسر ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو ہمارے سیاسی جلسوں کا کلچر بھی عورتوں مردوں کے مخلوط اجتماعات اور ناچ گانے کو رواج دینے لگا ہے۔ اس تناظر میں دینی مدرسہ ہی وہ واحد دائرہ ہے جو اسلامی اور مشرقی تہذیب و ثقافت کے لیے نہ صرف آواز بلند کر رہا ہے بلکہ عملی طور پر بھی کسی حد تک اس ماحول کو باقی رکھے ہوئے ہے۔

دینی مدرسہ کے معاشرتی کردار کے اس کے علاوہ بھی بہت سے پہلو قابل توجہ ہیں لیکن میں نے نمونہ کے طور پر صرف تین کا ذکر کیا ہے، جس سے مدرسہ کے معاشرتی کردار کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر مدرسہ کے اس کردار کا اعتراف کرنے اور اسے سپورٹ کرنے کی بجائے اس کی کردار کشی اور حوصلہ شکنی کا مزاج ہمارے قومی اداروں میں مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

میں مدرسہ اور دہشت گردی کے حوالہ سے تفصیل میں جانے کی بجائے دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ جن افراد یا گروہوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے ان کی بڑی تعداد مدرسہ کی بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم یافتہ ہے۔ عالمی سطح اور قومی سطح پر دہشت گردی کے عنوان سے معروف بیشتر شخصیات کا دینی مدرسہ کی بجائے کالج اور یونیورسٹی سے تعلق ہے۔ لیکن سارا نزلہ دینی مدرسہ پر گرایا جا رہا ہے اور اس پر مجھے وہ کہاوت یاد آرہی ہے کہ کسی زمیندار کے ڈیرے پر ایک بندر روزانہ رات کو ایک برتن میں رکھا ہوا دودھ پی جاتا تھا۔ اور جاتے جاتے تھوڑی سی ملائی کٹے کے منہ پر مل جاتا تھا۔ زمیندار صبح دیکھتا تو اس کٹے کو پیٹتا کہ اس نے دودھ پی لیا ہے۔ ایک روز رات کو اچانک اس کی نظر پڑی کہ بندر دودھ پینے کے بعد ملائی کٹے کے منہ پر مل رہا ہے تو اس بے چارے کٹے کی جان چھوٹی۔

میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بندر کو تلاش کیا جائے جس نے دہشت گردی کا یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے۔ اور اب جاتے جاتے ملائی مدرسہ کے منہ پر مل کر خود بری الذمہ ہونا چاہتا ہے۔ دینی مدارس کے بہت سے افراد مسلح تحریکوں میں شامل ہوئے ہیں مگر انہیں اس کی ٹریننگ مدرسہ نے نہیں دی، اور نہ ہی مدرسہ کے پاس اس کے وسائل اور اسباب موجود ہیں۔ یہ تلاش کیا جائے کہ ٹریننگ دینے والا کون ہے، اور مسلح تحریکوں میں شریک ہونے والوں میں دوسرے تعلیمی اداروں کے افراد کا تناسب کیا ہے۔

میرے خیال میں دینی حلقوں کو دہشت گردی کے اسباب کے تعین کے لیے اعلیٰ سطحی قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرنا چاہیے جو دہشت گردی کی تعریف واضح کرے۔ جہاد، تحریک آزادی اور دہشت گردی کی حدود متعین کرے، اور اس کے سدباب کے لیے تجاویز اور سفارشات مرتب کرے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں، ریٹائرڈ جرنیلوں، دینی مدارس کے ذمہ دار نمائندوں اور ممتاز وکلاء پر مشتمل ایک پرائیویٹ کمیشن بھی قائم کیا جا سکتا ہے جو اس خلا کو پر کرے اور قوم کو اس کنفیوژن سے نکالے۔ اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوئی بھی کاروائی شکوک و شبہات اور تحفظات و اعتراضات سے پاک نہیں ہوگی۔

دوسری بات یہ کہ خود حکومت پاکستان نے اب تک باسٹھ گروہوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ان باسٹھ تنظیموں کی فہرست قومی پریس کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ان میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کے مرتکب گروہ بھی شامل ہیں، لسانیت اور قومیت کے عنوان سے مسلح کاروائیاں کرنے والے گروہ بھی موجود ہیں، اور دولت کے لیے یرغمال بنا کر دہشت پھیلانے والوں اور قتل و غارت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ ان میں سے صرف مذہبی افراد کو فوجی عدالت میں پیش کرنا اور باقی سب گروہوں کو اس دائرے سے خارج کر دینا نہ صرف یہ کہ نا انصافی ہے بلکہ قومیت، لسانیت، لوٹ مار اور دیگر مقاصد کے لیے دہشت گردی کرنے والوں کو کھلی چھٹی اور جواز فراہم کر دینے کے مترادف ہے۔ اس پر ہر محب وطن شخص کو آواز اٹھانی چاہیے اور اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۱ جنوری ۲۰۱۵ء)
2016ء سے
Flag Counter