این جی اوز اور انسانی حقوق کے ادارے

   
تاریخ اشاعت: 
۸ جنوری ۱۹۹۹ء

سوشل ویلفیئر کے صوبائی وزیر پیر محمد بنیامین رضوی ان دنوں این جی اوز کے تعاقب میں ہیں اور اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ فلاحی اداروں کی سکریننگ کے ذریعے وہ جعلی غیر سرکاری تنظیموں اور پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے والے اداروں کو بے نقاب کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ

’’فلاحی تنظیموں کی سکریننگ کا مقصد اس نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کر کے معاملات کو زیادہ بہتر و شفاف طریقے سے چلانا ہے۔ مگر بعض مشکوک عناصر ان تنظیموں اور این جی اوز کی آڑ میں غیر ملکی آقاؤں کے پاکستان دشمنی کے عزائم کی تکمیل میں سرگرم ادارے اسی لیے شور مچا رہے ہیں تاکہ ان کا مکروہ اور ملک دشمنی کا کھیل آئندہ بھی جاری رہے۔‘‘

جبکہ اسی روز ایک مسیحی رہنما اور پاکستان کرسچین لیگ کے صدر جناب صوبہ خان کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے غیر سرکاری اور نام نہاد سماجی تنظیموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ

’’ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کے لیے غیر سرکاری نام نہاد سماجی انسانی حقوق کی تنظیموں پر پابندی عائد کر کے ان کا ریکارڈ قبضہ میں لے کر چھان بین کی جائے۔‘‘

انہوں نے واضح کیا کہ یہ تنظیمیں غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر پراسرار سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بدعنوان اور شر پسند عناصر نے اس طریقہ کار کو اپنا کر ذریعۂ معاش بنا رکھا ہے۔ یہ پنجاب کا نہیں قومی معاملہ ہے، ان لوگوں کی جڑیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں جو قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسیحی مشنری فلاحی تنظیمیں بھی کرپشن اور غیر ملکی مفادات کی نگرانی جیسی پراسرار سرگرمیوں میں ملوث چلی آرہی ہیں اور ان سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ جبکہ یہی تنظیمیں بڑی بے دردی کے ساتھ ملک کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف ہیں۔

این جی اوز اور فلاحی و سماجی تنظیموں کے حوالہ سے ایک عرصہ سے اس قسم کی شکایات سامنے آرہی ہیں اور ان میں سے بیشتر کی سرگرمیاں ملک کے باشعور اور محب وطن شہریوں کے لیے تشویش و اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ ابھی اسی رمضان المبارک کے دوران ہم سے دو علاقوں کے حضرات نے رابطہ کیا۔ ایک عالم دین نے مینگورہ سوات سے خط لکھا کہ وہ سوات میں این جی اوز کی سرگرمیوں بالخصوص مسیحی مشنریوں کی بھاگ دوڑ کے بارے میں پریشان ہیں اور انہیں واچ کرنے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلہ میں ان کی رہنمائی کی جائے۔ دوسری طرف جلال پور پیر والا کی ایک دینی درسگاہ کے منتظم خود ملاقات کے لیے آئے اور کہا کہ ان کے علاقہ میں بھی این جی اوز نے جال پھیلا رکھا ہے اور مختلف ذرائع سے لوگوں کو لالچ دے کر گمراہ کر رہی ہیں۔ وہ ان کے تعاقب کے لیے سرگرم ہونا چاہتے ہیں اور مشورہ کے لیے آئے ہیں۔ اس سے قبل شمالی علاقہ جات کے متعدد علماء کرام بالخصوص مولانا قاضی نثار احمد خطیب مرکزی جامع مسجد گلگت نے مختلف مواقع پر ملاقات میں بتایا کہ پاکستان کے اس حساس خطے میں سینکڑوں این جی اوز متحرک ہیں اور وہاں محب وطن شہریوں کو اس سلسلہ میں بہت پریشانی لاحق ہے۔

یہ این جی اوز یعنی غیر سرکاری تنظیمیں سماجی خدمت، صحت، انسانی حقوق، اور نادار لوگوں کی خدمت کے نام پر ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ انہیں عالمی اداروں سے کروڑوں روپے کی امداد ملتی ہے اور وہ ایک وسیع نیٹ ورک میں لاکھوں پاکستانیوں کو شریک کار بنا کر اپنے مقاصد کے لیے مسلسل مصروف کار ہیں۔ یہ تنظیمیں اگر فی الواقع غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور نادار عوام کے نام پر حاصل ہونے والے فنڈز ان کی صحت اور بہبود کے لیے صرف کریں تو ان سے کسی کو کیا شکایت ہو سکتی ہے؟ لیکن ان کے بارے میں جو شکایات ملک کے عوام کو پیدا ہوگئی ہیں ان میں سے چند کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

  • حاصل ہونے والے فنڈز کا بیشتر حصہ تنظیموں کے عہدے دار باہمی بندر بانٹ سے ہضم کر جاتے ہیں۔
  • بہت سی تنظیمیں انسانی حقوق کا شعور پیدا کرنے کے نام پر اسلامی احکام و قوانین کے خلاف ملک کے شہریوں کو ورغلاتی ہیں اور قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف پراپیگنڈا کرتی ہیں۔
  • بعض تنظیمیں قومی وحدت اور ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے والی عالمی لابیوں اور تنظیموں کی پناہ گاہ بنتی ہیں اور بین الاقوامی تخریب کاروں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
  • مسیحی مشنریاں سماجی خدمات کی آڑ میں سادہ لوح مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر کے عیسائی بنانے میں مصروف ہیں اور ملک کے بنیادی نظریہ کے خلاف کام کر رہی ہیں۔
  • بعض این جی اوز سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے راہ نماؤں اور کارکنوں نیز صحافیوں میں کرپشن پھیلانے کے لیے سرگرم عمل ہیں تاکہ قومی زندگی میں اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکنے والے یہ ادارے بے اثر ہو کر رہ جائیں۔

اس پس منظر میں پیر بنیامین رضوی نے اگر ان اداروں کی سکریننگ کا بیڑا اٹھایا ہے تو ہم ان کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔ وہ ایک عالم دین کے بیٹے ہیں، ان کے والد محترم پیر سید محمد یعقوب شاہ مرحوم بریلوی مکتب فکر کے ممتاز عالم دین و خطیب تھے اور ہمارے مہربان دوست تھے۔ اس لیے ان سے ہمیں یہی توقع تھی کہ وہ اسلام اور پاکستان کے مفاد کے خلاف کوئی کام برداشت نہیں کر پائیں گے۔

اور محترم صوبہ خان صاحب کے اس ارشاد کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں بلکہ پورا پاکستان اس وبا کی لپیٹ میں ہے اور پنجاب کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے صوبوں اور علاقوں میں بھی سکریننگ کا یہ عمل جاری ہونا ضروری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter