’’طلوع اسلام‘‘ اور چوہدری غلام احمد پرویز

   
تاریخ : 
۲۶ و ۲۷ اپریل ۱۹۹۹ء
  1. مباحثے کا پس منظر
  2. قربانی کے مسئلے سے استدلال
  3. لغت کے معانی سے استدلال
  4. قرآنی الفاظ و عبارات کی تشریح کی اصل اتھارٹی کون؟
  5. اللہ تعالیٰ کی طرف سے حدیث و سنت کی توثیق

۱- مباحثے کا پس منظر

گزشتہ دنوں کویت سے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سیکرٹری اطلاعات عبد الخالق بھٹی صاحب کا ایک مراسلہ ’’اوصاف‘‘ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے منکرین حدیث بالخصوص چودھری غلام احمد پرویز صاحب کے افکار و نظریات پر تنقید کی ہے کہ وہ حدیث و سنت کی حجیت کے منکر ہیں۔ جبکہ امت مسلمہ کا اجماعی موقف ہے کہ جو شخص یا گروہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کو شرعی حجت تسلیم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ اس کے جواب میں پرویز صاحب کے حلقہ سے کسی صاحب نے ایک مضمون میں لکھا کہ انہیں حدیث و سنت کا منکر قرار دینا درست نہیں ہے۔

چنانچہ اس غلط فہمی کے ازالہ کے لیے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی ایک پرانی تصنیف (انکار حدیث کے نتائج) کا وہ حصہ جو پرویز صاحب کے بارے میں ہے ’’اوصاف‘‘ کو اشاعت کے لیے بھیج دیا گیا جو دو قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے پرویز صاحب کے آرگن ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے حوالوں سے یہ بات واضح کی ہے کہ پرویز صاحب نے دین کی تعبیر اور قرآن کی تشریح کا جو راستہ اختیار کیا ہے اس کی بنیاد سنت رسولؐ اور امت کے اجماعی تعامل پر نہیں ہے۔ بلکہ وہ امت کے جمہور اہل علم کی تشریحات، صحابہ کرامؓ کے اجماعی تعامل، اور جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات سب کو پھلانگ کر قرآن کریم کی براہ راست نئی تشریح کرنے کے درپے ہیں جو کہ بلاشبہ گمراہی کا راستہ ہے۔

اس کے جواب میں جناب محمد لطیف چودھری صاحب کا ایک تفصیلی مضمون ’’اوصاف‘‘ میں شائع ہوا ہے جس سے بحث کچھ اور آگے بڑھی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں قارئین کی خدمت میں کچھ اصولی گزارشات پیش کی جائیں۔ مگر اس سے قبل کویت کے عبد الخالق بھٹی صاحب کے مراسلہ کا کچھ پس منظر بیان کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

کویت میں ہمارے عزیز دوست مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج کافی عرصہ سے قیام پذیر ہیں اور ایک مسجد میں خطابت کے علاوہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے امیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ ایک فعال اور بیدار مغز دینی کارکن ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم نعمانیہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سراج الدین صاحب کے فرزند ہیں، اور ہمارے عزیز دوست و ساتھی ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کویت میں ’’طلوع اسلام‘‘ کے حلقہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں دیکھ کر وہاں کی وزارت اوقاف کو اس بات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا کہ یہ وہ حلقہ ہے جسے پاکستان کے علماء کرام نے حدیث و سنت کی حجیت سے انکار کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے رکھا ہے۔ انہوں نے وزارت اوقاف کویت کو باقاعدہ درخواست دی جس کے ساتھ علماء پاکستان کے فتاویٰ منسلک کیے۔ وزارت اوقاف نے ان کا موقف تسلیم کرتے ہوئے ’’طلوع اسلام‘‘ کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ اس کے جواب میں ’’طلوع اسلام‘‘ کے حلقہ نے وزارت اوقاف اور کویت کی شرعی عدالت سے رجوع کیا اور درخواست دائر کی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ’’طلوع اسلام‘‘ کے خلاف مولانا احمد علی سراج کا موقف تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ موقف نہیں ہے بلکہ ان کا ذاتی خیال ہے جو عناد اور تعصب کی وجہ سے درخواست کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے ’’طلوع اسلام‘‘ پر پابندی کا حکم واپس لیا جائے۔

مولانا احمد علی سراج نے اس سلسلہ میں راقم الحروف سے رابطہ کیا جس پر راقم الحروف نے لاہور کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام سے گزارش کی کہ اس سلسلے میں ایک فتویٰ ازسرنو مرتب کیا جائے۔ چنانچہ جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے صدر مولانا عبد المالک خان کی خصوصی محنت کے ساتھ چودھری غلام احمد پرویز اور ’’طلوع اسلام‘‘ کی عبارات کا ازسرنو جائزہ لے کر ایک متفقہ فتویٰ مرتب کیا گیا جس میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ پرویز صاحب اور ’’طلوع اسلام‘‘ کا حلقہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کو شرعی حجت تسلیم نہیں کرتے، اس لیے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اس فتویٰ پر جامعہ اشرفیہ، جامعہ مدنیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ رضویہ ماڈل ٹاؤن، جامعہ اہل حدیث اور دیگر علمی اداروں کی طرف سے مولانا مفتی عبد الواحد، مولانا شیر محمد علوی، مولانا عبد المالک خان، مولانا حافظ عبد القادر روپڑی، مولانا مفتی غلام سرور قادری، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے دستخط کیے اور یہ متفقہ فتویٰ کویت کی وزارت اوقاف اور عدالت کو بھجوا دیا گیا۔ جبکہ اس کے ساتھ دارالعلوم کراچی سے مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور بھارت کی امارت شرعیہ بہار سے مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے فتاویٰ کے علاوہ سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز کے فتاویٰ بھی عدالت میں پیش کیے گئے۔ چنانچہ ان تمام فتاویٰ کی بنیاد پر کویت کی شرعی عدالت نے ’’طلوع اسلام‘‘ کے حلقہ کی اپیل خارج کرتے ہوئے اس کی سرگرمیوں پر پابندی کے بارے میں وزارت اوقاف کے حکم کی توثیق کر دی ہے۔

اس پس منظر میں مولانا احمد علی سراج کے رفیق کار اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کویت کے سیکرٹری جنرل عبد الخالق بھٹی کا وہ مراسلہ ’’اوصاف‘‘ میں شائع ہوا جس سے اس بحث کا آغاز ہوا ہے۔ اور اسی سلسلہ میں جناب لطیف چودھری کا تفصیلی مضمون اس وقت ہمارے سامنے ہے جو حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تحریر کے جواب میں ہے۔

۲- قربانی کے مسئلے سے استدلال

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے اپنی تحریر میں یہ اصولی موقف اختیار کیا ہے کہ پرویز صاحب نے دین کی تعبیر و تشریح میں سنت رسولؐ، اسوہ صحابہ کرامؓ، اور امت مسلمہ کے چودہ سو سال سے چلے آنے والے اجماعی تعامل سے ہٹ کر ان سب سے الگ راستہ اختیار کیا ہے جو امت کے جمہور اہل علم کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مثال کے طور پر قطع ید، قربانی، تقدیر اور دیگر بعض امور کے بارے میں ’’طلوع اسلام‘‘ کی بعض عبارات یہ بات واضح کرنے کے لیے پیش کی ہیں کہ پرویز صاحب کا نکتہ نظر جمہور امت سے الگ ہے۔

اس کے جواب میں محمد لطیف چودھری نے اس اصولی موقف کو رد کیے بغیر ان مسائل میں پرویز صاحب کے موقف کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیے ہیں۔ حالانکہ زیر بحث مسئلہ یہ نہیں ہے کہ موقف کس کا درست ہے اور کس کے پاس دلائل ہیں۔ بلکہ غور طلب بات صرف اتنی ہے کہ ان مسائل میں پرویز صاحب کا موقف جمہور امت کے موقف سے الگ ہے یا نہیں؟ اس لیے محمد لطیف چودھری نے اصولی بحث کی طرف آئے بغیر پرویز صاحب کی عبارات کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرویز صاحب اور ’’طلوع اسلام‘‘ کے موقف کو امت کے جمہور اہل علم کے موقف سے الگ قرار دینے سے اتفاق کر رہے ہیں، اسی لیے انہیں اس کے حق میں دلائل دینے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

مثلاً انہوں نے سب سے زیادہ زور ’’قربانی‘‘ کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت میں صرف کیا ہے اور بلاوجہ حوالوں اور عبارات کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ’’طلوع اسلام‘‘ کے نزدیک قربانی کا تعلق صرف حج کے دنوں میں منٰی میں ذبح ہونے والے جانوروں سے ہے۔ اور اس کے علاوہ دنیا بھر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں وہ ان کے نزدیک ’’قربانی‘‘ کے شرعی حکم میں شامل نہیں ہیں۔ جبکہ جمہور اہل علم چودہ سو سال سے دنیا بھر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانوروں کو ’’شرعی قربانی‘‘ تصور کرتے ہیں اور اسی نیت کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال قربانی دیتے ہیں۔ اس پر محمد لطیف چودھری نے دو باتوں پر خواہ مخواہ اپنا اور قارئین کا وقت ضائع کیا۔ ایک اس بات پر کہ قربانی کو احناف واجب کہتے ہیں مگر دوسرے فقہی مکاتب فکر اسے واجب نہیں کہتے۔ جبکہ دوسرا اس پر کہ لغت میں قربانی کے فلاں فلاں معنیٰ بھی آئے ہیں۔

حالانکہ اصل بات صرف اتنی ہے کہ قربانی احناف کے نزدیک واجب اور دوسرے فقہاء کے نزدیک سنت ہے۔ مگر قربانی کے شرعی حکم سے مراد تو سب کی ایک ہی ہے کہ قربانی صرف حج اور منیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور شرعی قربانی کے زمرہ میں شامل ہیں۔ اس میں اگر فقہاء کے ہاں واجب اور سنت کی درجہ بندی کا فرق ہے تو اس سے یہ بات کہاں سے ثابت ہوئی کہ قربانی کے بارے میں پرویز صاحب کا موقف درست ہے۔ دنیا بھر میں آج بھی مشاہدہ کر لیجیے کہ کیا صرف حنفی مسلمان قربانی کرتے ہیں؟ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک اہل اسلام کے مسلّمہ فقہی مذاہب میں سے کس مذہب کے پیروکار یہ قربانی نہیں کرتے؟ بلکہ ہمارے ہاں پاکستان میں تو حنفی صرف تین دن قربانی کرتے ہیں مگر غیر حنفی حضرات کو چوتھے دن بھی یہ قربانی کرنے پر اصرار ہوتا ہے۔ اس لیے واجب اور سنت کی درجہ بندی کو بہانہ بنا کر ’’طلوع اسلام‘‘ کے گمراہ کن موقف کی تائید آخر کس طرح ممکن ہے؟

۳- لغت کے معانی سے استدلال

لغت کے مسئلہ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ کسی لفظ کے لغت میں دس معنی ہیں مگر جس شخصیت نے اپنی گفتگو میں وہ لفظ بولا ہے اس نے خود اس کا معنٰی متعین کر دیا ہے کہ اس لفظ سے میری مراد یہ ہے۔ اب اس کے بعد لغت کے بیان کردہ باقی نو معنوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ لیکن اگر اس کے بعد بھی کوئی صاحب لغت کی کتابیں سامنے رکھ کر بیٹھ جائیں کہ چونکہ اس لفظ کے بہت سے معنی ہیں، میں اس گفتگو کا مخاطب ہوں، مجھے عقل سلیم حاصل ہے، میں لغت پر عبور رکھتا ہوں، اس لیے اس گفتگو میں اس لفظ کے معنٰی اور مراد بھی میں خود متعین کروں گا۔ تو ایسے صاحب کی ’’عقل سلیم‘‘ کے لیے دعائے صحت کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟

اس سلسلہ میں صرف ’’طلوع اسلام‘‘ ہی نہیں بلکہ بعض دیگر حلقے بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ قرآن کریم کے کسی بھی لفظ یا اصطلاح کا معنٰی متعین کرنے کے لیے عربی لغت اور محاوروں کے دفتروں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ متکلم نے اگر اپنی مراد خود واضح کر دی ہے تو اس کے بعد اس کے خلاف کسی اور معنٰی اور مراد کو خواہ مخواہ اس کے ذمہ لگانے کے لیے لغت اور محاوروں کی صحرا نوردی کرنا متکلم کی مراد کو رد کرنے اور اس پر عدم اعتماد کے اظہار کے مترادف ہے۔

نماز ہی کو لے لیجیے کہ قرآن کریم نے اس کے لیے ’’صلوٰۃ‘‘ کا لفظ بولا ہے جس کے معنی لغت میں متعدد ہیں۔ مگر ان مختلف معنوں میں سے ایک معنٰی اور کیفیت خود صاحب قرآن کی وضاحت اور عمل سے متعین ہو گئی ہے۔ چنانچہ اب لغت میں بیان کیے گئے دیگر معنوں کی آڑ لے کر صاحب قرآن کی وضاحت و تشریح کے بارے میں شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنا صاحب قرآن پر بے اعتمادی کا اظہار ہے۔ اور ہمیں ’’طلوع اسلام‘‘ اور اس کے دیگر ہمنواؤں سے یہی شکایت ہے۔

۴- قرآنی الفاظ و عبارات کی تشریح کی اصل اتھارٹی کون؟

اب اس نکتہ کی طرف آجائیے کہ قرآن کریم کے حوالہ سے ’’متکلم‘‘ کون ہے اور قرآنی الفاظ و عبارات کی تشریح و توضیح میں اصل ’’اتھارٹی‘‘ کون ہے؟ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر ہمارے سامنے قرآن کریم کے متکلم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہمیں اللہ رب العزت نے قرآن کریم براہ راست عطا نہیں فرمایا بلکہ آنحضرتؐ کی وساطت سے دیا ہے۔ اور نبی اکرمؐ بھی ایک پوسٹ مین کی طرح قرآن کریم امت کے حوالہ کر کے فارغ نہیں ہوگئے (نعوذ باللہ) کہ بس میرا کام اتنا ہی تھا، اب تم جانو اور یہ قرآن جانے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ۲۳ سال تک اس قرآن کریم کی تعلیم دیتے رہے اور اس کے معانی بیان کرتے رہے، اس کی تشریح کرتے رہے اور اس کی روشنی میں احکام نافذ کرتے رہے۔ خود قرآن کریم نے جناب رسول اللہؐ کا منصب بیان کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ وہ صرف قرآن کریم کے الفاظ پہنچانے والے نہیں بلکہ اس کی تعلیم دینے والے اور اس کا بیان کرنے والے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ’’تعلیم‘‘ اور ’’بیان‘‘ کا یہ سلسلہ جو ۲۳ سال کے عرصہ پر محیط ہے اس کی حیثیت کیا ہے؟ اور قرآن کریم کے الفاظ و احکام کی شرح و تعبیر میں رسول اللہؐ کے ارشادات و اعمال اور وضاحت و تشریح کو کیا مقام حاصل ہے؟ مولانا سرفراز خان صفدر نے تو صرف اتنی بات واضح کی ہے کہ قرآن کریم کے متن و الفاظ کے علاوہ اس کی تعبیر و تشریح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات و توضیحات ہیں وہ پرویز صاحب اور ’’طلوع اسلام‘‘ کے نزدیک شرعی دلیل نہیں ہیں۔ مگر محمد لطیف چودھری صاحب اسے الزام قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ علم کے صرف دو ذرائع ہیں: قرآن کریم اور عقل و بصیرت۔ اور وحی صرف وہ ہے جو قرآن کریم میں ہے، اس کے باہر کہیں نہیں ہے۔ حالانکہ یہی بات مولانا محمد سرفراز خان صفدر سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ حدیث و سنت اور جناب رسول اللہؐ کے اپنے ارشادات و تعلیمات کو، جو قرآن کریم میں مذکور نہیں ہیں، انہیں ’’طلوع اسلام‘‘ کے نزدیک وحی اور علم کے ماخذ کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ جب چودھری صاحب موصوف کو یہ بات تسلیم ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ مولانا سرفراز خان صفدر کی کون سی بات کا رد کر رہے ہیں؟

ہم نے سطور بالا میں عرض کیا ہے کہ قرآن کریم کلام تو اللہ تعالیٰ کا ہے لیکن ہمارے سامنے اس کے متکلم جناب نبی اکرمؐ ہیں۔ اس لیے انہی کے بیان کردہ معنٰی اور مراد کو متکلم کی اپنی وضاحت کا درجہ حاصل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کسی اور ذریعہ سے بھیجا ہوتا اور حضورؐ الگ کھڑے اس کی تشریح و توضیح کر رہے ہوتے تو کسی درجہ میں سوچنے کی گنجائش ہو سکتی تھی کہ اس تشریح و تعبیر کی حیثیت کیا ہے؟ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ بھی حضورؐ بیان کر رہے ہیں اور ان کی تشریح و توضیح بھی آپؐ ہی فرما رہے ہیں۔ یعنی آپؐ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور یہ اس کا مطلب ہے۔‘‘

اب ہمارے پاس تو کوئی کسوٹی نہیں ہے کہ ان دو باتوں میں سے ایک کو قبول کرنا ضروری سمجھیں اور دوسری بات کے بارے میں یہ اختیار حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ جی آپ کی دوسری بات پہلی بات کے مطابق سمجھ آئی تو مانیں گے۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھے کہ آپ کی دوسری بات پہلی بات سے مطابقت نہیں رکھتی یا لغت، محاورہ اور دنیا کے عرف میں ہمیں آپ کی پہلی بات کا کوئی معنٰی اور مفہوم نظر آگیا تو پھر ہم آپ کی دوسری بات کو قبول کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔

’’طلوع اسلام‘‘ کے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس بات پر غور کریں کہ قرآن کریم اور اس سے باہر حدیث و سنت دونوں کا ’’متکلم‘‘ ایک ہے، مخاطب طبقہ بھی ایک ہے، اور ان دونوں کو امت تک پہنچانے والے ذرائع بھی ایک ہی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ متکلم کی ایک بات کو ہم مانیں گے لیکن دوسری بات کو ماننے کے پابند نہیں ہوگے، یہ خود متکلم کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار ہے۔ اور اسے الفاظ کی میناکاری کے جتنے پردوں میں بھی چھپانے کی کوشش کی جائے وہ اہل بصیرت کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ سکتی۔

۵- اللہ تعالیٰ کی طرف سے حدیث و سنت کی توثیق

’’طلوع اسلام‘‘ کے دوستوں کو حدیث و سنت کے وحی ہونے سے انکار ہے اور وہ قرآن کریم سے باہر کسی وحی کا وجود تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ان سے قرآن کریم ہی کی زبان میں بات کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اجتہادی فیصلوں پر اللہ تعالیٰ نے نکیر فرمائی۔ بات یوں ہوئی کہ آنحضرتؐ نے کئی مواقع پر وحی الٰہی نازل نہ ہونے کی صورت میں اپنے اجتہاد سے فیصلے فرمائے جن میں سے بعض کے بارے میں قرآن کریم میں کہا گیا کہ آپ کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مثلاً

  1. بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا ۔
  2. مسجد ضرار میں نماز کا وعدہ کرنا۔
  3. عبد اللہ بن ابی کا جنازہ پڑھانا۔
  4. شہد استعمال نہ کرنے کی قسم کھانا وغیر ذلک۔

اب ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیے کہ وحی تو رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری تھی اور قرآن کی آخری آیات آنحضرتؐ کی وفات سے چند روز پہلے نازل ہوئیں۔ اور پورے قرآن کریم میں جناب نبی اکرمؐ کے زندگی بھر کے تمام تر اعمال و افعال، ارشادات و اقوال اور فیصلوں میں سے صرف چار پانچ باتوں پر گرفت کی گئی۔ یہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت کا تقاضا تھا تاکہ ان چند باتوں پر گرفت کے ساتھ حضورؐ کے باقی تمام ارشادات، اعمال اور فیصلوں کی توثیق ہو جائے۔ چنانچہ قرآن کریم کے آخر وقت تک نازل ہوتے رہنے اور چند باتوں کے علاوہ باقی تمام امور پر خاموش رہنے سے ان سب کی توثیق ہو گئی ہے ۔

اس لیے محمد لطیف چودھری صاحب سے گزارش ہے کہ حدیث و سنت کو جو ’’وحی حکمی‘‘ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے ساتھ رسول اللہؐ کے وہ تمام ارشادات و افعال بھی وحی کا درجہ رکھتے ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم نے خاموشی اختیار کی ہے۔ اس لیے علم کا ماخذ قرآن کریم اور سنت رسولؐ دونوں ہیں۔ جبکہ عقل کو علم کا ماخذ قرار دینا ’’عقل‘‘ کی ماہیت و حقیقت سے ناواقفیت کا اظہار ہے۔ کیونکہ عقل صرف ایک استعداد کا نام ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص علم کے سرچشموں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ عقل علم کا ذریعہ ہے کہ اس کے بغیر کوئی شخص علم حاصل نہیں کر پاتا لیکن عقل خود علم نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست بات نہیں ہے کہ عقل علم کا ماخذ ہے، کیونکہ ماخذ اور ذریعہ میں فرق ہوتا ہے۔

ان گزارشات کے ساتھ ’’طلوع اسلام‘‘ کے دوستوں سے عرض ہے کہ جب وہ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ قرآن کریم کی تعبیر و تشریح میں ان کا اسلوب پوری امت سے جداگانہ ہے جس کی بنیاد سیرت و احادیث اور چودہ سو سال سے چلی آنے والی دین کی اجتماعی تعبیر و تشریح پر نہیں ہے۔ تو پھر انہیں اپنے بارے میں دینی حلقوں کے کسی متفقہ موقف پر شکوہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے حوالہ سے ایک طرف خود رسول اللہؐ کھڑے ہوں، ان کے ساتھ صحابہ کرامؓ ہوں، امت کے تمام فقہاء و محدثین ہوں، اور امت کا چودہ سو سالہ اجماعی تعامل ہو۔ جبکہ دوسری طرف چودھری غلام احمد پرویز صاحب ’’طلوع اسلام‘‘ کے چند دوستوں کے ہمراہ لغت اور محاوروں کی کتابیں ہاتھوں میں تھامے امت کو اپنی طرف بلا رہے ہوں، اور اس کے ساتھ ان کا یہ تقاضا بھی ہو کہ دوسری طرف کھڑی پوری امت کے علمی نمائندے ان کے بارے میں کسی رائے کا اظہار بھی نہ کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter