بغداد کی تاریخ پر ایک نظر

   
تاریخ اشاعت: 
۱۵ اپریل ۲۰۰۳ء

دجلہ کے کنارے بغداد نامی بستی کافی عرصہ سے آباد تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ’’بغ‘‘ نامی ایک بت سے منسوب تھی جبکہ ’’داد‘‘ فارسی کا لفظ ہے جس کا معنی ’’عطیہ‘‘ ہے۔ اس طرح اس کا معنٰی بنتا ہے ’’بغ کا عطیہ‘‘۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ’’بغ‘‘ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی بولا جانے لگا تھا اس لیے یہ ’’اللہ تعالیٰ کا عطیہ‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور بعض مؤرخین کی نکتہ رسی نے اسے ’’باغ داد‘‘ کی صورت میں پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ نوشیرواں عادل اس جگہ باغ میں بیٹھ کر داد انصاف دیا کرتا تھا اس لیے اس کے حوالہ سے یہ ’’بغداد‘‘ کہلانے لگا۔ لیکن جب عباسی خلفاء نے اپنی سلطنت و خلافت کے لیے ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر کا پروگرام بنایا تو ’’مدینۃ السلام‘‘ کے نام سے خلیفہ منصور عباسی نے ایک عظیم الشان شہر کی بنیاد رکھی جو سرکاری کاغذات میں ’’مدینۃ السلام‘‘ کہلاتا تھا لیکن اس کا روایتی اور تاریخی نام ’’بغداد‘‘ ہی رہا۔

بغداد ایک زمانہ میں ’’عروس البلاد‘‘ کہلاتا تھا۔ اسلامی سلطنت و خلافت کا پایۂ تخت ہونے کی وجہ سے اسے عالمی سطح پر وہی حیثیت حاصل تھی جو آج کل واشنگٹن ڈی سی کو حاصل ہے۔ یہاں بیٹھ کر ہارون الرشید اور مامون الرشید جیسے باسطوت حکمرانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی ہے۔ ہارون الرشید کی سلطنت کی وسعت کا اندازہ اس کہاوت سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک روز خلیفۃ المسلمین ہارون الرشید اپنے چند درباریوں کے ہمراہ کھلے میدان میں تھے، کافی عرصے سے بارش نہیں ہوئی تھی اور خشک سالی کا سامنا تھا۔ اچانک ایک طرف سے بادل نمودار ہوئے، بادشاہ نے آسمان کی طرف دیکھا اور خوشی کے ساتھ بادلوں کے چھا جانے اور برسنے کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں وہ بادل سر پر آئے مگر برسے بغیر آگے نکل گئے۔ ہارون الرشید نے حیرت سے آگے بڑھتے ہوئے بادلوں کو دیکھا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا:

’’اچھا! تمہاری مرضی۔ مگر جہاں بھی برسو گے خراج تو مجھے ہی آئے گا۔‘‘

بغداد علم کا مرکز تھا، فنون کا گہوارہ تھا اور دنیا بھر کے اہل علم و دانش کا مرجع تھا، مگر عباسی خلفاء اور ان کی سلطنت کے زوال کا اثر بغداد پر بھی پڑا۔ جب فروری ۱۲۸۵ء میں منگول سردار ہلاکو خان نے سلطنت عباسیہ کے آخری تاجدار معتصم باللہ کو شکست دے کر قتل کر ڈالا تو نا صرف عظیم الشان عباسی سلطنت و خلافت تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوگئی بلکہ ہلاکو خان نے بغداد کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس موقع پر اس قدر وحشیانہ قتل عام ہوا کہ بغداد کی بیس لاکھ آبادی میں سے پندرہ لاکھ کے لگ بھگ اس قتل عام کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کتب خانے جلا دیے گئے، علماء و دانشور تہہ و تیغ کر دیے گئے، ا ور علم و تہذیب کے نشانات تک مٹا دیے گئے۔

اس کے بعد بغداد پھر آباد ہوا اور اس کی رونقیں کسی حد تک بحال ہونے لگیں، اگرچہ وہ اب اسلامی خلافت کا پایۂ تخت نہیں رہا تھا مگر اپنے شاندار ماضی کے حوالے سے اس کی عظمت کی روایات موجود تھیں۔ مگر ۱۴۰۱ء میں اسے امیر تیمور لنگ کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے بھی بغداد پر قبضہ کے بعد قتل عام کا بازار گرم کر دیا جس میں بغداد کی ایک آبادی کا ایک بڑا حصہ نشانہ بنا۔ پھر بغداد نے تقریباً ایک صدی سکون سے گزاری اور وہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ ۱۵۰۸ء میں ایران کے صفوی حکمران شاہ اسماعیل نے اس پر چڑھائی کر دی۔ صفویوں نے بغداد پر قبضہ کر لیا، عام باشندوں اور سرکردہ سنی رہنماؤں کو قتل عام کیا، اور حضرت امام ابوحنیفہؒ اور حضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ سمیت بہت سے بزرگوں کے مزارات اجاڑ دیے۔ مگر ان کا قبضہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا کیونکہ اب ترکوں کی خلافت عثمانیہ اس طرف متوجہ ہوگئی تھی اور بغداد پر صفویوں کے قبضہ سے اسے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔ چنانچہ خلیفہ عثمانی سلطان سلیمانؒ نے ۱۵۳۴ء میں ایک بڑے معرکہ کے بعد بغداد پر قبضہ کر لیا اور اسے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا لیا۔ سلطان سلیمان نے حضرت امام ابوحنیفہؒ اور حضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ سمیت بہت سے بزرگوں کے مسمار شدہ مزارات دوبارہ تعمیر کرائے اور بغداد کے ’’سنی تشخص‘‘ کو بحال کیا۔

۱۶۲۲ء میں ایرانی حکمرانوں نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کی اور شاہ عباس اول نے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ لیکن ۱۶۳۸ء میں عثمانی خلیفہ سلطان مراد چہارم نے پھر بغداد پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد مسلسل تین صدیوں تک بغداد اور عراق خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ یہ علاقہ ’’میسور پوٹیما‘‘ کے نام سے عثمانی سلطنت کا ایک نیم خود مختار صوبہ تھا جہاں عثمانی خلیفہ کا نمائندہ انہی کا حکمران تصور ہوتا تھا۔ البتہ زیادہ تر اختیارات مقامی گروہوں اور مقتدر طبقات کے پاس ہی رہتے تھے۔

بیسیوں صدی عیسوی کے آغاز میں پہلی جنگ عظیم کے موقع پر قسطنطنیہ (استنبول) کی خلافت عثمانیہ نے یورپی اتحادیوں کے مقابلہ میں جرمنی کا ساتھ دیا جس میں جرمنی کے ساتھ خلافت عثمانیہ بھی شکست سے دوچار ہوئی۔ اس دوران یورپی اتحادیوں نے خلافت عثمانیہ کی حدود کے اندر ترک قومیت اور عرب قومیت کے درمیان منافرت کا طوفان کھڑا کر دیا تھا اور برطانوی جاسوس میجر لارنس نے ایک عرب دانشور کے روپ میں عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اس نے مکہ مکرمہ پر خلافت عثمانیہ کے نمائندہ گورنر شریف مکہ حسین بن علی کو اس لالچ پر خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا کہ اس کی خلافت قائم کر دی جائے گی اور اس کے ہاشمی اور عرب ہونے کی وجہ سے دنیائے اسلام اسے آسانی کے ساتھ ’’امیر المومنین‘‘ تسلیم کر لے گی۔ مگر میجر لارنس نے شریف مکہ حسین بن علی کے بیٹوں کے ساتھ الگ الگ ساز باز بھی کر رکھی تھی۔ چنانچہ جب شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے ترک فوج کو حجاز مقدس سے نکال دیا تو میجر لارنس نے ستمبر ۱۹۱۸ء میں انہی شریف مکہ کے بیٹے فیصل کے ساتھ مل کر شام پر یلغار کی اور دمشق پر قبضہ کر کے شام میں فیصل کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ مگر جولائی ۱۹۲۰ء میں فرانس نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور فیصل کو جلا وطن کر دیا۔

دوسری طرف نومبر ۱۹۱۴ء کے دوران برطانوی فوج نے بصرہ پر قبضہ کر لیا تھا اور تقریباً اڑھائی سال کی خونریز جنگ کے بعد جس میں مجموعی طور پر اٹھانوے ہزار کے لگ بھگ افراد قتل ہوئے، انگریز جنرل ماڈ نے ۱۱ مارچ ۱۹۱۷ء کو بغداد پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ بصرہ اور بغداد پر برطانوی حکومت جبکہ موصل پر فرانس کی عملداری تسلیم کر لی گئی۔ مگر اکتوبر ۱۹۱۸ء میں برطانیہ نے پورے عراق پر قبضہ کر لیا، یوں عراق برطانوی سلطنت میں شامل ہوگیا۔ اسی دوران انگریز فوجوں نے یروشلم پر قبضہ کر کے فلسطین کو بھی برطانوی دائرہ اقتدار میں شامل کر لیا تھا۔

جنگ عظیم اول میں جرمن حلیف کی حیثیت سے خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد اس کے حصے بخرے کرنے اور اپنا حصہ وصول کرنے میں برطانیہ اور فرانس کی اس کشمکش میں بالآخر برطانیہ کو بالادستی حاصل ہوگئی اور اس نے مشرق وسطیٰ میں اپنا اقتدار اور اثر و نفوذ مستحکم کر لیا۔ برطانوی حکمرانوں نے عثمانی خلافت کے صوبوں کے تسلسل میں ترکوں سے ناراض ہونے والے عرب گروپوں کو دام فریب میں پھنسایا اور ان کی علاقائی حکمرانیاں بحال کرنے کے لالچ میں ان سے الگ الگ معاہدے کیے۔ انہی میں سے ایک معاہدہ نجد کے حکمران آل سعود کے سربراہ شاہ عبد العزیز کے ساتھ ۱۹۱۴ء میں لارڈ چمفورڈ کی توثیق کے ساتھ طے پایا کہ ان کے دائرہ حکومت میں توسیع کر کے اس خطہ میں آل سعود اور ان کی اولاد در اولاد کی حکمرانی کا حق حکومت برطانیہ تسلیم کرتی ہے۔ بشرطیکہ کوئی سعودی حکمران برطانوی حکومت کا مخالف نہ ہو اور سعودی حکومت کوئی بین الاقوامی معاملہ حکومت برطانیہ کی منظوری کے بغیر طے نہ کرے۔

اس پس منظر میں مارچ ۱۹۲۱ء میں ’’قاہرہ کانفرنس‘‘ ہوئی جس کی صدارت برطانوی وزیراعظم نے کی اور اس میں یہ تقسیم طے پائی کہ شریف مکہ حسین بن علی کے بیٹے فیصل کو عراق کا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ دوسرے بیٹے عبد اللہ کو اردن کی ایک نئی ریاست کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اور حجاز مقدس سمیت جزیرہ عرب کے بڑے حصہ کی حکمرانی ’’سعودی عرب‘‘ کے نام سے آل سعود کو تفویض کر دی گئی۔ جبکہ فلسطین کو برطانیہ نے اپنے قبضہ میں رکھا۔ ۸ ستمبر ۱۹۳۳ء کو عراق کے نئے بادشاہ فیصل کے انتقال پر فیصل کا بیٹا شاہ غازی عراق کا حکمران بنا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اس خطہ میں برطانوی اقتدار کا مخالف تھا اور اس نے فلسطین پر برطانوی قبضہ کی مذمت کی تھی۔ چنانچہ وہ ایک حادثاتی موت کا شکار ہوگیا اور اس کی جگہ اس کا نو عمر لڑکا فیصل ثانی عراق کا بادشاہ قرار پایا۔

۱۹۵۸ء میں عراقی فوج کے بریگیڈیئر عبد الکریم قاسم نے فیصل ثانی کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد اسے اقتدار سے محروم کر کے عبد السلام عارف حکمران بنے اور پھر عبد الرحمن عارف عراق کے صدر ہوئے۔ ان کے بعد جنرل حسن البکر نے اقتدار سنبھالا اور پھر ۱۶ جولائی ۱۹۷۹ء کو بعث پارٹی کے لیڈر صدام حسین عراق کے حکمران بن گئے جنہیں گزشتہ روز امریکا اور برطانیہ کی مشترکہ فوجوں نے شکست دے کر اقتدار سے محروم کر دیا اور عراق کا اقتدار امریکی اتحاد کی فوجوں نے سنبھال لیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter