عراق پر امریکی حملہ!

   
تاریخ : 
۲۶ مارچ ۲۰۰۳ء

عراق پر امریکی اتحاد کے حملے کو آج چوتھا روز ہے مگر ابھی تک تمام تر دعوؤں کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی کسی اہم مقام پر قبضہ نہیں کر سکے بلکہ جنگ میں ان کے جانی نقصان کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس نے اتحادیوں کو حیران و ششدر کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک جنگ کی موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی آچکی ہو مگر تادم تحریر صورتحال یہ ہے کہ جن مقاصد کے لیے امریکی اتحاد کی افواج نے ساری دنیا کی مخالفت مول لیتے ہوئے اور اقوام متحدہ کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے عراق پر دھاوا بولا ہے ان کے حصول کی راہ میں اسے اپنی توقع سے زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اتحادیوں کا خیال تھا کہ وہ جس طمطراق سے میدان جنگ میں آئے ہیں اسے دیکھتے ہی عراقیوں کے اوسان خطا ہو جائیں گے اور وہ خوفناک ہتھیاروں کے نظارے کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی امان طلب کرنے لگیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور مقابلہ کا ظاہری منظر دیکھ کر ہمارے ذہن کی سکرین پر اس تاریخی مقابلے کی تصویر جھلملانے لگی جب جالوت بادشاہ کا مقابلہ بنی اسرائیل سے ہوا تھا اور اپنے وقت کا بہت بڑا باجبروت حکمران سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبا ہوا میدان میں یہ سوچ کر اترا تھا کہ اس کے جسم کو ہر طرف سے لوہے نے ڈھانپ رکھا ہے اور اس طرح کے بکتر بند لباس میں ملبوس ہے کہ وقت کا کوئی ہتھیار اس کے جسم تک نہیں پہنچ سکتا ۔ جبکہ میدان میں اس کا سامنا کرنے کے لیے وہ نوجوان آیا جس کے جسم پر سادہ سا لباس تھا اور ہاتھ میں کوئی خوفناک ہتھیار نہیں تھی بلکہ ایک معمولی سی غلیل تھی۔ یہ حضرت داؤدؑ تھے جو حضرت طالوت کے لشکر کے سپاہی تھے اور امیر کی اجازت سے جالوت کے مد مقابل آکھڑے ہوئے تھے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر جالوت نے خندہ استہزأ کے ساتھ پوچھا تھا کہ نوجوان کیا خودکشی کا ارادہ ہے؟ اس کے جواب میں حضرت داؤدؑ نے فرمایا تھا کہ یہ ابھی مقابلہ میں پتہ چل جائے گا کہ خود کشی کے لیے کون آیا ہے اور پھر چشم فلک نے جو منظر دیکھا اس نے ایک بار پھر اس حقیقت کو آشکار کر دیا تھا کہ جب قدرت حق مظلوم کی کے لیے آجاتی ہے تو جالوت جیسے آہن پوش جرنیل کو سادہ لباس میں ملبوس نوجوان کے ہاتھوں ذلت آمیز موت سے دو چار کر دیا کرتی ہے۔

عراق کے خلاف امریکی اتحاد کی یلغار کا حتمی نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے، اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس سے ایک بات ضرور واضح ہوگئی ہے کہ صرف طاقت اور اسلحہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ عزم و حوصلہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے صلاحیت رکھی ہے کہ اگر وہ صحیح مقام پر ڈٹ جائیں تو اسلحہ اور طاقت کا بڑے سے بڑا مظاہرہ بھی اپنے گھمنڈ سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ امریکہ نے عراق کو غیر مسلح کرنے میں دس سال صرف کیے اور گزشتہ بیس سال کے دوران صرف اس کام کے لیے ساری صلاحیتیں استعمال کی گئیں کہ عراق کوئی مؤثر ہتھیار نہ بنا سکے اور کوئی ایسا ہتھیار حاصل نہ کرسکے جو اس پر حملہ کی صورت میں امریکی فوجیوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہو۔ عراق کے خلاف ممنوعہ ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ کرنے کا مسلسل پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اسے اسلحہ کی تیاری سے روکنے کے لیے اقوام متحدہ میں گھسیٹا گیا۔ اس کی اقتصادی ناکہ بندی کر کے اس کی معیشت کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی تاکہ وہ کسی جنگ کا سامنا کرنے کے قابل نہ رہے۔ اور اسے پوری دنیا میں اس طرح بدنام کرنے کی پیہم کوشش کی گئی کہ اس پر حملہ کی صورت میں دنیا کے کسی کونے میں اس کے حق میں آواز نہ اٹھ سکے۔ یہ ساری کارروائیاں اس حملے کی تیاری کے لیے تھیں اور سب کچھ اس لیے تھا کہ جب امریکہ عراق پر عسکری یلغار کرے تو وہ معاشی اور عسکری دونوں حوالوں سے مقابلہ کی پوزیشن میں نہ ہو اور دنیا میں اسے کہیں سے حمایت نہ مل سکے لیکن خدا کی قدرت کہ امریکہ بہادر کو ان دونوں محاذوں پر کامیابی نہیں ملی۔

امریکہ کی توقع کے خلاف اقوام متحدہ نے اس کے حملے کو جائز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) نے اپنی تمام تر بے بسی اور کمزوری کے باوجود عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کر دی ہے اور عرب لیگ اس حملہ کو عربوں پر حملہ قرار دے رہی ہے۔ جبکہ عسکری میدان میں بڑے ہتھیاروں کی تیاری کے حق سے مسلسل محرومی اور اقتصادی ناکہ بندی کے نتیجہ میں تباہ حال معیشت کے باوجود عراق محاذ جنگ پر امریکی اتحاد کی فوجوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور ابھی تک خوب کر رہا ہے۔ حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن اس وقت تک عراق نے جتنا مقابلہ کیا ہے اس نے مغربی ملکوں کے اس فلسفہ جنگ کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ جنگ صرف مضبوط معیشت اور اسلحہ کی بالادستی کی بنیاد پر ہی لڑی جا سکتی ہے۔ مغربی ملکوں کا خیال یہ ہے کہ لڑائی صرف وہی لڑ سکتا ہے جس کی معیشت جنگ کا بوجھ اٹھا سکتی ہو اور جس کے پاس دشمن کے مقابلہ میں اس سے بہتر یا کم از کم اس کے برابر ہتھیار ہوں۔ جذبہ، عقیدہ اور عزم ان طاقتوں کے ہاں ثانونی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ بھی اکثر اوقات مصنوعی طور پر تراش کر فوجوں کے ذہنوں پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ مگر اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک لڑنے والی اصل قوت عقیدہ اور عزم و حوصلہ ہے۔ ہتھیار اس کا معاون اور اسباب کے درجہ میں ضروری ہے لیکن اصل ایمان اور حوصلہ و استقامت ہے۔ فتح و شکست مقدر کی بات ہے لیکن دنیا یہ منظر دیکھ رہی ہے کہ افغانستان میں خوفناک پسپائی کے باوجود افغان مجاہدین امریکی تسلط کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ عراق کے غیور عوام کا مقابلہ کا کوئی تناسب نہ ہونے کے باوجود امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادیوں کے آہن پوش لشکر کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور فلسطین و کشمیر کے مجاہدین جبر و تشدد کے تمام تر حربوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہیبت ناک طاقتوں سے ٹکراتے چلے جا رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ امریکہ افغانستان کی طرح عراق پر بھی طاقت کے بل پر (خدانخواستہ) قبضہ کر لے لیکن یہ اس جنگ کا حتمی نتیجہ نہیں ہوگا بلکہ ایک نئی اور جانگسل جنگ کا آغاز ہوگا جو زندہ قومیں حملہ آوروں اور تسلط جمانے والوں کے خلاف لڑتی چلی آرہی ہیں۔ تاریخ کا یہ تسلسل قیامت تک جاری رہے گا اور اس سے صرف وہی شخص انکار کر سکتا ہے جس کا تاریخ کے ساتھ دور تک کوئی تعلق نہیں ہے یا وہ سب کچھ جانتے ہوئے صرف طاقت اور دولت کے نشے میں تاریخی عمل کے تسلسل سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔

امریکہ بہادر کو عالمی رائے عامہ کے محاذ پر بھی مسلسل پسپائی کا سامنا ہے۔گزشتہ دس بارہ برس کے دوران صدر صدام حسین کو برائی کا محور قرار دے کر ان کی کردار کشی کی جو عالم مہم ابلاغ کے بین الاقوامی ذرائع و مراکز میں مسلسل چلائی گئی ہے اس سے امریکہ کو یہ توقع تھی کہ عالمی رائے عامہ خود اس سے درخواست کرے گی کہ وہ نسل انسانی پر رحم کرے اور عراق پر حملہ کر کے دنیا کو برائی کے محور سے نجات دلائے لیکن یہ تدبیر بھی الٹ ہو گئی اور دنیا کے کونے کونے میں امریکی حملہ کے خلاف مظاہروں سلسلہ جاری ہے۔ خود امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور سپین کے عوام سڑکوں پر اس جنگ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور اسے ظلم اور جارحیت قرار دے کر اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور کے زندہ دل شہریوں نے متحدہ مجلس عمل کی کال پر امریکہ کے خلاف اور عراقی بھائیوں کی حمایت میں جو شاندار مظاہرہ کیا اس نے زندہ دل لاہوریوں کی روایت کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے اور پورے ملک کے عوام کی طرف سے فرض کفایہ بھی ادا کیا ہے۔ مگر ایف پی کی ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ نے سعودی روزنامہ ’’عکاظ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ فرما کر بہت سے حساس دلوں کو دکھی کر دیا ہے کہ مسلمان پرسکون رہیں، صبر و حوصلہ کا مظاہرہ کریں، اور جہاد کی کال پر توجہ نہ دیں۔ اس بزرگوار سے کون عرض کرے کہ حضور! یہ پر سکون رہنے کا نہیں بلکہ شور مچانے، سڑکوں پر آنے، مسلم حکمرانوں کو غیرت دلانے اور دنیا کے ان کروڑوں انسانوں کی ہاں میں ہاں ملانے کا وقت ہے جو مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی محض انسانی رشتے کی وجہ سے مظلوم عراقیوں کی حمایت میں روزانہ سڑکوں پر آتے ہیں اور ظلم و دہشت کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتے ہیں۔ آپ اگر اتنا بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم خاموش تو رہیے کہ سیانے کہتے ہیں کہ ’’ بھیڑے رون کولوں چپ چنگی ‘‘۔

   
2016ء سے
Flag Counter