عراق پر امریکی حملہ ۔ جنگ کا تیسرا ہفتہ

   
تاریخ : 
۷ اپریل ۲۰۰۳ء

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی عراق کے خلاف جنگ جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے جنگ کے نتائج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور ایک بات جس سے ہمیں بھی اتفاق ہے، دانشور مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کے بعد کی دنیا پہلے کی دنیا سے اسی طرح مختلف ہو گی جیسے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کی دنیا پہلے سے قطعی مختلف تھی۔ اس جنگ میں عراق کی قیادت اور عوام نے امریکی اتحادیوں کے مقابلہ میں جس عزم و حوصلہ اور جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے وہ فی الواقع قابل داد ہے اور اس سے عراقی عوام کی حریت پسندی اور قومی حمیت و غیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن مختلف اطراف سے سیاسی اور اخلاقی حمایت کے باوجود عسکری میدان میں عراق اس معرکہ میں تن تنہا ہے اور اسے اپنے گردوپیش سے بھی کسی قسم کے تعاون کی بجائے در پردہ خطرات و خدشات کا زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عراقی عوام کو اس معرکہ میں کہاں تک قربانیاں دینا پڑیں گی اس کا جواب مستقبل ہی دے گا لیکن اس کا ایک ثمرہ تو نقد سامنے آ رہا ہے کہ مسلم دنیا کی سیاسی قیادتوں کے منہ پر لگی ٹیپیں آہستہ آہستہ اتر رہی ہیں اور وہ حلقے بھی امریکہ کے خلاف کھلم کھلا باتیں کرنے لگے ہیں اس سے قبل جن سے کسی بھی درجہ میں اس کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔ مصر کے صدر حسنی مبارک اور اردن کے شاہ عبد اللہ نے رسمی طور پر ہی سہی مگر عراق پر امریکی حملہ کے خلاف جس موقف کا اظہار کیا ہے، اور سعودی عرب کی طرف سے جس طرح جنگ فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اسے عراقی عوام کی جرأت رندانہ کے صدائے بازگشت ہی قرار دیا جا سکتاہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد نے امریکی پابندیوں کو جوتی کی نوک پر رکھنے کی جو بات کی ہے ہم اس کے کریڈٹ کا حق دار بھی عراق کے غیور عوام کو سمجھتے ہیں جنہوں نے وقت کے سب سے بڑے فرعون کے سامنے سینہ تان کر بے زبانوں کو زبان بخش دی ہے۔ اور اس حوالہ سے ہمارے لیے اس سے زیادہ خوشی کی خبر یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے امریکی سفیر سے دو بدو یہ بات کہہ دی ہے کہ امریکہ نے بنگلہ دیش سے عراق کے ساتھ سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کا جو مطالبہ کیا ہے وہ قابل قبول نہیں، ہم خود مختار اور آزاد ملک ہیں اور اپنی پالیسیاں خود طے کرتے ہیں اس لیے امریکی سفیر اس قسم کا کوئی مطالبہ اس کے بعد ان کے سامنے پیش نہ کریں۔

اس سب کچھ کے باوجود جنگ بتدریج آگے بڑھ رہی ہے اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تمام تر جرأت و استقامت اور صبر و حوصلہ کے باوجود عراق کے پاس امریکی اتحاد کے خوفناک اور تباہ کن فضائی حملوں کا کوئی جواب موجود نہیں ہے اور نہ ہی عسکری میدان میں اپنی تنہائی کے نتائج سے بچنا اس کے لیے ممکن ہے۔ اس لیے ہماری خواہش اور دعاء تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ عراقی عوام کو فتح عطا فرمائیں اور نئے عالمی استعمار کو اس کے ناپاک استعماری عزائم میں آگے بڑھنے کا موقع نہ دیں، آمین یا رب العالمین۔ لیکن تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر ہم خدانخواستہ بغداد کے ایک اور المناک سقوط کے امکانات کو نظر انداز کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ جنگ میں دونوں پہلو مد نظر رکھنے ہوتے ہیں اور فتح و شکست دونوں کا ہر وقت امکان موجود ہوتا ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام اور خاص طور پر ان مسلمانوں کو جو شب و روز اپنے عراقی بھائیوں کے لیے دعاء گو ہیں اور عراقی عوام کی جرأت و استقامت ان کے حوصلوں میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے، وہ بھی ذہنی طور پر اس دوسرے اور المناک پہلو کے لیے تیار رہیں۔

ہم اس سے قبل ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کے سقوط کے تاریخی سانحہ سے گزر چکے ہیں۔ وہ سانحہ بھی اس سے کم کربناک نہیں تھا اور اس نے بھی پوری دنیا کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اب ایک اور ہلاکو خان دجلہ کے پانیوں کو عراقی مسلمانوں کے خون سے سرخ کر رہا ہے تو ہمیں اس کا منظر ایک بار پھر تاریخ کے مطالعہ کے ذریعہ ذہنوں میں تازہ کر لینا چاہیے۔ تاریخی عمل کے اس ادراک کے ساتھ کہ قوموں کی زندگی میں یہ مراحل آیا ہی کرتے ہیں اور قوموں کو اپنے تاریخی سفر میں ایسی گھاٹیوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ جہاں تک ایمان و عقیدہ اور اسلام کا تعلق ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ بغداد، غرناطہ اور ڈھاکہ کے سقوط جیسے سانحوں اور زلزلوں میں بھی اپنا وجود قائم رکھتا ہے، بلکہ ہر المناک سانحہ کے بعد پہلے سے زیادہ تابناکی اور چمک دمک کے ساتھ عالمی افق پر جگمگا رہا ہوتا ہے اور اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے۔

جہاں تک عراق کے خلاف امریکی اتحاد کی جنگ کے فوری نتائج کا تعلق ہے اس کے بارے میں دو الگ الگ مناظر دھیرے دھیرے عالمی سکرین پر سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف عرب دنیا کا نقشہ ہے جس کی جغرافیائی سرحدوں کا رنگ مدہم پڑتا جا رہا ہے اور نئی لکیریں نمودار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اسے اگر عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل جناب عمرو موسی کے اس حالیہ بیان کی روشنی میں دیکھ لیں جوانہوں نے الشرق الاوسط کو انٹرویو کے دوران دیا ہے تو بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ انہوں نے ایک بات تو یہ فرمائی ہے کہ عرب ممالک اگر متحد ہو کر ایک موقف اختیار کرتے تو وہ عراق کے خلاف امریکہ کی جنگ کو روک سکتے تھے۔ ان کا یہ ارشاد ہمارے لیے انکشاف کا درجہ رکھتا ہے اس لیے کہ ہم اس سے قبل یہ سمجھتے رہے ہیں کہ عرب لیگ عراق کے خلاف امریکہ کی جنگ کے حوالہ سے متفقہ موقف رکھتی ہے لیکن زمینی حقائق اور جنگی حالات کے باعث عرب ممالک اس جنگ کو روکنے میں فی الواقع بے بس ہیں۔ لیکن عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے ان دونوں باتوں کی نفی کر دی ہے اور صاف طور پر بتا دیا ہے کہ اس جنگ کے بارے میں عرب ممالک کا موقف ایک نہیں۔ اور ان کا یہ دعوٰی بھی ہے کہ اگر عرب ممالک متفقہ موقف اختیار کر لیتے تو اس جنگ کو روکا جا سکتا تھا۔ ہمارے خیال میں اس کا یہ مطلب بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملہ کی مخالفت میں عرب ممالک کے سربراہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے صرف ظاہر داری سجھنا چاہیے ورنہ درون پردہ اس سے مختلف ماحول بھی موجود ہے۔ اور اگر یہ درست ہے تو پھر ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس حملہ پر حوصلہ دلانے میں اس صورتحال کا بھی یقیناًبہت بڑا دخل ہے۔

دوسری بات عمرو موسی محترم نے یہ کہی ہے کہ جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو مگر عرب لیگ اب اپنی موجودہ شکل میں قائم نہیں رہ سکتی اور اس جنگ کو روکنے میں ناکامی کے بعد عرب لیگ اپنی افادیت بلکہ وجود سے بھی محروم ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر بھی یہی ہے بلکہ صرف عرب لیگ کے بارے میں نہیں بلکہ او آئی سی اور اقوام متحدہ کے بارے میں بھی ہم یہ ہی رائے رکھتے ہیں کہ یہ ادارے اپنی افادیت اور ضرورت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے اس جنگ کے بعد ان کی جگہ نئے ادارے آئیں گے اور اقوام متحدہ، او آئی سی اور عرب لیگ کے لیے موجود شکل میں اپنا اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا اور اگر اس سے آگے کا منظر دیکھنا چاہیں تو ہم چشم تصور سے اس اکھاڑ پچھاڑ کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں جو اس جنگ کے بعد عرب ممالک کی جغرافیائی سرحدوں میں رونما ہونے والا ہے اور جس میں کئی ریاستیں گم ہوتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ کئی نئی ریاستیں وجود میں آتی نظر آنے لگی ہیں۔ ویسے بھی مشرق وسطیٰ کا موجودہ جغرافیائی نقشہ مصنوعی ہے اور یہ سرحدی لکیریں برطانوی استعمار نے اپنے نو آبادیاتی مفادات کے قلم سے کھینچی تھیں جنہیں اب اس کا جانشین تازہ دم امریکی استعمار اپنے بدلتے ہوئے استعماری مفادات کے قلم سے تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔ ایک استعمار نے یہ لکیریں کھینچی تھیں اور اسی کی سرپرستی میں دوسرا ستعمار ان لکیروں کو مٹا کر اپنی مرضی کی نئی لکیریں کھینچنا چاہ رہا ہے۔

چنانچہ اب اس منظر کو خاموشی اور بے بسی کے ساتھ دیکھتے چلے جانے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمران اور عرب ممالک کے سربراہوں کی حیثیت شطرنج کے مہروں کی سی ہے جن کے جگہ بدلنے سے یقیناًبازی پلٹ جایا کرتی ہے لیکن بد قسمتی سے جگہ بدلنا ان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، انہیں تو کھیلنے والے ہاتھ جہاں چاہیں اٹھا کر رکھ دیں انہیں اسی پر قناعت کرنا پڑتی کہ اس کھیل میں ان کا کردار صرف یہی ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی کہوٹہ لیبارٹریز پر امریکی پابندیاں، امریکہ کی طرف سے پاکستان پر یہ الزام کہ اس نے شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کی ہے، اور اس پس منظر میں بھارتی لیڈروں کی جنگی دھمکیاں اور تیزی سے بدلتا ہوا لہجہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ عراق کی جنگ کے بعد کے مراحل میں جنوبی ایشیا کی باری بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ ابھی چند روز قبل امریکی نائب وزیر خارجہ کرسٹیناروکا نے یہ کہہ کر امریکی ترجیحات کی نشاندہی کر دی ہے کہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت مکمل طور پر کنٹرول نہیں ہوئی اس لیے اگلے ماہ تک پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد اگر کسی کو پاکستان کی باری آنے میں کوئی شک ہے تو اسے کسی ماہر نفسیات سے ملاقات کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔

بہرحال جنگ اور اس کے بعد کی صورتحال کے بارے میں قیادت کا ایک نقشہ یہ بھی ہے جس کے امکانات بہرحال زیادہ نظر آرہے ہیں، خدا کرے کہ ایسا نہ ہو اور ہمارے عراقی بھائی اپنی جرأت و بہادری اور حوصلہ و استقامت کے شعلوں میں نئے عالمی استعماری کے ناپاک عزائم کو عراق کے صحراؤں میں ہی بھسم کر دیں لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہمیں نگاہوں سے اوجھل نہیں رکھنا چاہیے اس لیے کہ سیانے کہتے ہیں کہ اگر ذہن پہلے سے صدمہ کی بات سننے کے لیے تیار ہو تو اس میں صدمہ کو برداشت کرنے اور اس کے بعد سنبھلنے کی صلاحیت بہرحال بڑھ جاتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter