یومِ شہدائے بالاکوٹ

   
تاریخ : 
۶ مئی ۲۰۰۳ء

۶ مئی ۱۸۳۱ء کو ہزارہ ڈویژن کے پہاڑی مقام بالاکوٹ میں ایک قافلہ حریت اسلام کی سربلندی اور وطن کی آزادی کی خاطر قربان ہو گیا تھا جنہیں تاریخ میں شہدائے بالاکوٹ کے نام سے یاد کیا جا سکتا ہے۔ ان سرفروشان اسلام کا بالاکوٹ کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں کے لوگ تھے جنہیں اسلامی ریاست کے احیاء اور حریت وطن کے جذبہ نے اکٹھا کر دیا تھا۔ ان کے سرخیل سید احمد شہید تھے جو رائے بریلی کے ایک روحانی خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی کی مرکزی دینی درسگاہ میں اپنے وقت کے سب سے بڑے محدث اور فقیہہ حضرت شاہ عبدالعزیز دھلویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر اپنے گرد و پیش کفر کی دو طرفہ یلغار نے ان کے ذہن کو پریشان اور پراگندہ کر رکھا تھا۔

ایک طرف انگریز بنگال اور میسور پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد دہلی کی طرف بڑھ رہے تھے اور دوسری طرف سکھوں نے پشاور تک پنجاب پر قبضہ کر کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ بہت سے علاقوں میں اذان اور کھلے بندوں نماز ممنوع قرار پائی تھی اور لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد راجہ رنجیت سنگھ کی شاہی فوجوں کا اصطبل خانہ بن چکی تھی۔ سید احمد شہیدؒ کا دل اس ماحول میں تعلیم میں نہ لگا اور انہوں نے استاد محترم کو اپنے دل کی کیفیت سے آگاہ کر دیا۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے اپنے اس ہونہار شاگرد کے قلبی جذبات اور ذہنی رحجانات کو دیکھ کر اس کے اندر چھپے ہوئے جوہر قابل کا اندازہ لگا لیا اور ضروری تعلیم کے بعد سید احمد شہیدؒ کو ریاست ٹونک کی فوج میں بھیج دیا جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ فوجی تربیت حاصل کر کے جہاد کی تیاری کریں اور دوسرا مقصد ریاست ٹونک کے نواب کو سپورٹ کرنا بھی تھا جو انگریزی فوجوں کی یلغار کے سامنے اس وقت تک ڈٹے ہوئے تھے اور ملک کے مختلف حصوں سے جذبہ جہاد سے سرشار مسلم نوجوان آکر ان کی فوج میں بھرتی ہو رہے تھے۔ سید احمد شہیدؒ بھی اسی جذبہ سے گئے اور کئی برس تک فوجی خدمات سرانجام دیں لیکن جب ٹونک کے نواب بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس کے سامنے سپر انداز ہوگئے تو سید احمد شہیدؒ ان کی فوج کو خیرباد کہہ کر دہلی واپس آگئے جہاں ان کی رفاقت کے لیے خاندان ولی اللہٰی کے عظیم چشم و چراغ شاہ اسماعیل شہیدؒ پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔

شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ جو امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دھلویؒ کے پوتے، حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے بھتیجے اور حضرت شاہ عبدالغنیؒ کے فرزند تھے، اپنے وقت کے جید عالم دین ، فلسفی اور متکلم تھے۔ وہ جہاد کی عملی لائن اختیار نہ کرتے تو حضرت شاہ عبدالعزیزؒ محدث دھلویؒ کے جانشین وہی ہوتے۔ لیکن ان کے قلب و ذہن میں بھی جذبۂ جہاد کا غلبہ تھا اس لیے انہوں نے دہلی کی عیش و آرام اور صاحبزادگی کی مخدومانہ زندگی کو خیرباد کہہ کر سید احمد شہیدؒ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کے برائے نام مغل حکمران شاہ عالم ثانی کے ساتھ معاہدہ کر کے دہلی کے اقتدار کو اپنے کنٹرول میں لینے کا اعلان کر چکی تھی اور با ضابطہ اعلان ان الفاظ کے ساتھ صادر ہوا تھا کہ

’’زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔

یعنی ملک کی بادشاہت پر تو مغل حکمران کا نام چلتا رہے گا مگر اس کی آڑ میں حکومت اور قانون کی قوت ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس ہوگی۔ اس اعلان کے جواب میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دھلویؒ کا وہ تاریخی فتویٰ سامنے آچکا تھا کہ اب ہندوستان دار الحرب ہو چکا ہے اور اس کی آزادی کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں پر انگریز کے خلاف جہاد شرعاً واجب ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کی وفات کے بعد ان کی مسند پر ان کے نواسے حضرت شاہ محمد اسحاق دھلویؒ جلوہ افروز تھے چنانچہ ان کی راہ نمائی میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے جہاد کے عمل کو زندہ کرنے کی پلاننگ کی اور یہ طے پایا کہ تربیت و اصلاح کے عنوان پر دیندار نوجوانوں کو جمع کیا جائے، عقائد و اعمال کی اصلاح کر کے انہیں جہاد کے قابل بنایا جائے، اس کے بعد کوئی ایسا علاقہ منتخب کیا جائے جہاں آسانی سے قبضہ ممکن ہو، اور پڑوس میں کوئی مسلم ریاست ہو تاکہ اسے جہاد آزادی کے لیے ’’ بیس کیمپ‘‘ بنایا جا سکے۔

چنانچہ کئی سال کی محنت سے حکومت کی نظروں سے بچتے بچاتے اور اپنے حقیقی اہداف کو ظاہر کیے بغیر جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں کی ایک فوج جمع کی گئی اور بیس کیمپ کے لیے پشاور کے خطہ کو زیادہ موزوں سمجھتے ہوئے اس پر حملہ کا پروگرام بنایا گیا جو اس وقت پنجاب کی سکھ حکومت کا ایک صوبہ تھا۔ مجاہدین کا یہ قافلہ عقائد و اعمال کی اصلاح اور روحانی تربیت کے عنوان سے پورے ملک میں حرکت کرتا رہا اور اسی کیفیت میں حج کی سعادت بھی حاصل کی اور پھر بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا چکر کاٹتے ہوئے اس قافلۂ حریت نے ۱۸۳۰ء میں پشاور اور اردگرد کے اطراف پر حملہ آور ہو کر اس پر قبضہ کر لیا اور امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کی سربراہی میں پشاور میں اسلامی حکومت قائم کر دی گئی۔

دہلی کے انگریز حکمرانوں کے لیے یہ صورت حال قطعی طور پر قابل برداشت نہیں تھی اور وہ پشاور کی اس اسلامی ریاست کی صورت میں قافلہ ولی اللہی کے ان مجاہدین کے مستقبل کے عزائم کو بھانپ رہے تھے۔ اس لیے وہ حرکت میں آئے اور انہوں نے اس اسلامی ریاست کو ناکام بنانے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کر دیں جس کی تفصیل خود ایک انگریز مورخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں بیان کی ہے۔ یہ کتاب اس دور کے عمومی حالات اور برطانوی استعمار کی حکمت علمی کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ایک بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور ہمارے خیال میں نفاذ اسلام اور جہاد کے عمل سے تعلق رکھنے والے ہر عالم دین اور کارکن کے لیے اس کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔

ہنٹر نے لکھا ہے کہ ہم نے کس طرح ان مجاہدین کو ’’ وہابی‘‘ کہہ کر بدنام کرنے کی سازش کی اور مقامی آبادی کو ان سے متنفر کیا۔ چنانچہ انگریزوں کی حکمت عملی کامیاب رہی اور وہ صرف چھ ماہ کے عرصہ میں پشاور کے علاقہ میں مجاہدین اسلامی حکومت کے خلاف سادہ لوح عام مسلمانوں میں بغاوت کے جراثیم پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس پر مجاہدین نے پشاور کے متبادل کے طور پر مظفر آباد کا انتخاب کیا اور وہاں کے علماء کرام اور دیندار مسلمانوں سے رابطہ کر کے مظفر آباد میں منتقل ہونے کا پروگرام بنا لیا تاکہ خطۂ کشمیر کے اس حصہ کو تحریک آزادی کے بیس کیمپ کی حیثیت دی جائے اور وہاں آزادی اسلامی ریاست قائم کر دی جائے۔

اس پروگرام کے تحت مجاہدین کی قیادت چھپتے چھپاتے پہاڑی دروں سے گرزتے ہوئے مظفر آباد کی طرف بڑھ رہی تھی اور مہا راجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی فوجیں ان کا تعاقب کر رہی تھیں کہ حسب روایت علاقہ کے کچھ مفاد پرست لوگوں نے بالاکوٹ میں ان کی موجودگی کی مخبری کر دی جس پر دشمن کی فوج نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ اور ۶ مئی۱۸۳۱ء کو مجاہدین کی یہ منتخب قیادت حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ سمیت دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

یہ برطانوی استعمار کے تسلط سے برصغیر کی آزادی کا تیسرا بڑا مسلح معرکہ تھا۔ اس سے قبل ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ نے انگریزی اقتدار کے خلاف اپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑی تھی مگر اپنے ہی وزیر اعظم میر جعفر کی غداری کی وجہ سے شکست کھا کر جام شہادت نوش کر گئے تھے ۔ اس کے بعد اٹھارویں صدی کے اختتام پر سلطنت خدا داد میسور کے شیر دل حکمران سلطان ٹیپو شہیدؒ اپنی آزادی اور خود مختاری پر فرنگی اقتدار کا سایہ برداشت نہ کر سکے اور یہ کہتے ہوئے میدان جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ پھر یہ تیسرا مرحلہ تھا جس میں مجاہدین کا براہ راست اور ظاہری مقابلہ اگر چہ سکھوں سے تھا لیکن سکھوں کی پشت پر انگریزوں کی پوری طاقت تھی۔ مجاہدین نے اگرچہ وقتی طور پر بالاکوٹ میں شکست کھائی، ان کی اعلیٰ ترین قیادت میدان جنگ میں کام آگئی حتیٰ کہ دہلی کا علمی و فکری مرکز بھی اس کے بعد ویران ہو گیا کہ حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ ہجرت کر کے حجاز مقدس چلے گئے لیکن یہ شکست بھی عارضی تھی۔ کیونکہ اس کے صرف ۲۶ برس بعد ۱۸۵۷ء کا معرکہ حریت پورے جنوبی ایشیا کے طور و عرض میں گرم ہو چکا تھا اور مجاہدین اپنی شکست کے زخم مندمل ہوتے ہی ایک بار پھر فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف میدان جنگ میں آمنے سامنے کھڑے تھے۔

   
2016ء سے
Flag Counter