عدلیہ کی بحالی اور دستور و قانون کی بالادستی

سپریم کو رٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب اعتزاز احسن اور وکلاء تحریک کے دیگر قائدین جسٹس (ر) طارق محمود اور جناب علی احمد کرد دوبارہ نظر بند کر دیے گئے ہیں۔ اس سے یہ بات پھر واضح ہوگئی ہے کہ صدر پرویز مشرف اور ان کی حکومت دستور کی بالادستی اور پی سی او کے تحت معزول کیے جانے والے معزز جج صاحبان کی بحالی کے بارے میں ملک بھر کے قانون دانوں اور رائے عامہ کی بات پر توجہ دینے کے لیے ابھی تک تیار نہیں۔ لیکن کیا اس طرح وکلاء کی قیادت کو ان سے دور رکھ کر اس تحریک کو دبایا جا سکے گا؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ فروری ۲۰۰۸ء

وکلاء اور علماء کے مابین ایک ملاقات کا احوال

وکلاء کی تحریک کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جج صاحبان کی بحالی کے لیے نئی حکومت جن عزائم کا اظہار کر رہی ہے، پوری قوم کو ان میں پیشرفت کا بے چینی کے ساتھ انتظار ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی رہائش گاہ زبردستی خالی کرانے کی بھونڈی حرکت نے جہاں نومنتخب وزیر اعظم کو جسٹس خلیل الرحمن رمدے سے معذرت کرنے پر مجبور کیا ہے، وہاں وکلاء کی تحریک کے لیے بھی مہمیز کا کام دیا ہے اور ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس محترم جناب افتخار محمد چودھری کے اس بیان نے ان کی عزت و وقار میں مزید اضافہ کیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۸ء

عدلیہ کی بحالی اور اسلام کی بالادستی

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا عبد الحق خان بشیر نے، جو میرے چھوٹے بھائی اور گجرات کے محلہ حیات النبی میں جامع مسجد امام ابوحنیفہؒ کے خطیب ہیں، ۷ فروری جمعرات کو مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کی رہائش گاہ پر مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی ایک غیر رسمی مشاورت کا اہتمام کیا۔ ایجنڈا دو نکات پر مشتمل تھا: (۱) ایک یہ کہ عدلیہ کی بحالی اور دستور کی بالادستی کے لیے جو تحریک وکلاء کے فورم سے چل رہی ہے اس میں دینی حلقوں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ فروری ۲۰۰۸ء

جامعہ حفصہ کا معاملہ: مذاکرات کے مراحل

اب جبکہ لال مسجد اسلام آباد، جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا معاملہ مسلح حکومتی آپریشن کے بعد اس انجام کو پہنچ چکا ہے جو ملک کی مقتدر قوتوں کی خواہش تھی اور جس کے لیے گن گن کر دن گزارے جا رہے تھے، اس وقت جب میں اسلام آباد ہی میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، غازی عبد الرشید اپنی والدہ محترمہ اور دیگر بہت سے رفقاء سمیت جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف سرکاری فورسز کا آپریشن آخری مرحلہ میں ہے جس کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ چند گھنٹوں میں اپنے آخری نتیجے تک پہنچنے والا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲، ۱۶، ۱۷ جولائی ۲۰۰۷ء

سر جھکا کر اور سر اٹھا کر چلنے والوں کا فرق

چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی خبر سن کر مجھے یوں لگا جیسے کوئی ڈاکٹر ایمرجنسی آپریشن روم کے دروازے سے باہر جھانک کر مریض کے رشتہ داروں کو یہ خوشخبری دے رہا ہے کہ مریض کی حالت خطرے سے باہر ہو گئی ہے اور اس نے اب سانس لینا شروع کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے اعلان سے قبل پوری قوم سکتے کے عالم میں تھی اور کان اسلام آباد کی طرف لگے ہوئے تھے کہ وہاں سے کیا خبر آتی ہے؟ عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ نے قوم کا رخ مایوسی سے امید کی طرف پھیر دیا ہے جس پر فل کورٹ کے تمام ارکان پوری قوم کی طرف سے مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۲۰۰۷ء

سپریم کورٹ میں وفاق المدارس کی آئینی درخواست

میں اس وقت جدہ میں ہوں، پرسوں ۱۳ اگست کو عشاء کی نماز کے وقت یہاں پہنچا ہوں، یوم آزادی یہیں گزارا ہے اور آج ۱۵ اگست کو مدینہ منورہ روانہ ہونے سے قبل یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔ مولانا عبد العزیز کے بھانجے عامر صدیق اور ہمشیرگان محترمات کی پریس کانفرنس کی رپورٹ میں نے سفر کے دوران پڑھی ہے جس میں انہوں نے مولانا عبد العزیز کی طرف سے اپنے وکیل کی تبدیلی اور وفاق المدارس العربیہ کی جدوجہد پر اطمینان کے اظہار کا اعلان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان کے بعض نمائندے ان کے اور علمائے کرام کے درمیان اختلافات اور غلط فہمیوں کا باعث بنے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اگست ۲۰۰۷ء

اکابر علمائے کرام کا مشترکہ اعلامیہ

ملک کے تیس سرکردہ علمائے کرام نے، جن میں مختلف مکاتب فکر کے زعماء شامل ہیں، اپنے مشترکہ اعلامیہ میں ملک کی عمومی صورتحال کا جو تجزیہ پیش کیا ہے اور اس کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ پاکستان کے ہر محب وطن شہری کے دل کی آواز ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی ایسی جگہ پر چلے جائیں جہاں عام لوگ مل بیٹھ کر تبادلہ خیالات کیا کرتے ہیں، آپ کو اسی قسم کی باتیں سننے کو ملیں گی اور خیالات کی یکسانی اور ہم آہنگی کا یہ منظر آپ کو ہر جگہ اور ہر سطح پر نظر آئے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۸ء

وحدت امت اور تحفظ ختم نبوت کے ضروری تقاضے

لاہور میں ’’جامعۃ العروۃ الوثقٰی‘‘ کے نام سے اہل تشیع کا ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے جو آغا سید جواد نقوی کی سربراہی میں کام کر رہا ہے اور طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد وہاں مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ مشترکہ دینی و قومی معاملات میں ملی مجلس شرعی کے فورم پر ان کا ہمارے ساتھ رابطہ رہتا ہے اور نقوی صاحب کے نائب علامہ توقیر عباس اجلاسوں میں ان کی اکثر نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک عرصہ سے ان کا تقاضہ تھا کہ جامعہ کی سالانہ کانفرنس میں شریک ہوں مگر موقع نہیں بن رہا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ نومبر ۲۰۱۹ء

آزادکشمیر کی دینی و سیاسی قیادتوں سے درخواست

میں آج آزاد کشمیر کے ایک بڑے شہر میں آپ حضرات کے سامنے اپنے دل کے درد کا ایک بار پھر اظہار کر رہا ہوں۔ اب سے ایک ماہ قبل منگ اور راولاکوٹ کے اجتماعات میں یہ گزارشات پیش کر چکا ہوں مگر صورتحال جوں کی توں ہے اس لیے دوبارہ عرض کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی صورتحال پر ایک سو سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، لاکھوں لوگ آزاد نقل و حرکت کی سہولتوں سے محروم ہیں، ان کے شہری اور سیاسی حقوق معطل ہیں، جبر و تشدد کی فضا ہے، آزادیٔ رائے پر مسلسل پہرے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ نومبر ۲۰۱۹ء

کرتارپور راہداری اور قادیانی مذہب

ان دنوں کرتارپور راہداری کے بارے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر اخبارات اور سوشل میڈیا پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی سرحد پر نارووال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کرتارپور ایک جگہ کا نام ہے جہاں تقسیم ملک سے قبل دونوں طرف آنے جانے کا راستہ ہوتا تھا۔ یہ راستہ تقسیم ہند کے وقت بند ہوگیا تھا جسے گزشتہ دنوں کھول دیا گیا ہے اور ۹ نومبر کو پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے اس کا افتتاح کیا ہے۔ یہاں سکھوں کا ایک بڑا گوردوارہ ہے جو ان کے اہم اور مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۹ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter