قادیانیوں کے حمایتی اداروں اور حلقوں کے نام دو ٹوک پیغام

آج میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالہ سے قادیانی مسئلہ کے ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہمارا اور قادیانیوں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا مذہب ہمارے مذہب سے الگ ہے اور ہم دونوں ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں تو پھر قادیانیوں کو مسلمانوں کے مذہب کا نام، اصطلاحات، علامات اور ٹائٹل استعمال کرنے پر اس قدر اصرار اور ضد کیوں ہے؟ اور وہ ایک الگ اور نئے مذہب کا پیروکار ہونے کے باوجود اپنا نام، علامات اور اصطلاحات و شعائر الگ اختیارکرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ مارچ ۲۰۱۸ء

شام کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر

مارچ اتوار کو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے سالانہ جلسہ کی آخری نشست میں حاضری ہوئی، تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر حضرت مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر میر مجلس تھے جبکہ جمعیۃ علمائے برطانیہ کے قائد مولانا قاری تصور الحق مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہ ہمارے بزرگوں کی جگہ ہے جہاں حاضر ہو کر بہت سی نسبتیں اور یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ یہاں ایک دور میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ، حضرت مولانا عبدا للطیف جہلمیؒ، حضرت مولانا حکیم سید علی شاہؒ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ مارچ ۲۰۱۸ء

متحدہ مجلس عمل کی بحالی

متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے تحت مولانا فضل الرحمان کو صدر، جناب لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل اور مولانا شاہ اویس نورانی کو سیکرٹری اطلاعات منتخب کر کے مرکزی باڈی تشکیل دی گئی ہے۔ اور کم و بیش سبھی دینی مکاتب فکر کی اہم قیادتوں نے اگلا الیکشن متحدہ مجلس عمل کے فورم پر ایک پرچم، ایک منشور اور ایک نشان کے ساتھ لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے جس پر ملک بھر کے سنجیدہ دینی حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مارچ ۲۰۱۸ء

دینی مدارس کا مقصد قیام اور معاشرتی کردار

ان دنوں دینی مدارس میں تعلیمی سال کا اختتام ہے، اس مناسبت سے ملک کے مختلف حصوں میں سالانہ امتحانات کے علاوہ ختم بخاری شریف کی تقریبات اور سالانہ جلسے منعقد ہو رہے ہیں۔ اور چونکہ کچھ عرصہ سے یہ دینی مدارس عالمی میڈیا کی طرف سے کردار کشی کی مہم کا ایک بڑا ہدف ہیں اس لیے ان مجالس میں دینی مدارس کے قیام کے اسباب اور معاشرہ میں ان کے کردار کے حوالہ سے بھی گفتگو ہوتی ہے۔ راقم الحروف کو گزشتہ دنوں جامعہ علوم اسلامیہ میر پور آزاد کشمیر، جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ نومبر ۱۹۹۹ء

حضراتِ صحابہ کرامؓ اور ان کا اسوۂ حسنہ

یہ اجتماع حضرات صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کے فضائل و مناقب اور خدمات کے تذکرہ کے لیے منعقد ہوتا ہے اور آج بھی ہم اسی مقصد کے لیے جمع ہیں۔ صحابہ کرامؓ ہوں، اہل بیتؓ ہوں یا دیگر بزرگان دینؒ، ان کے تذکرہ اور یاد کے بہت سے فوائد و ثمرات ہیں۔ اس سے ہم اجر و ثواب حاصل کرتے ہیں، ان بزرگوں کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے نقشِ پا سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور میرے خیال میں سب سے بڑا مقصد اور فائدہ یہی ہے کہ ہم ان سے راہنمائی حاصل کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مئی ۱۹۹۹ء

تعلیمی اداروں میں قرآن کریم کی تعلیم اور پنجاب اسمبلی کی قرارداد

پنجاب اسمبلی نے ۸ مارچ ۲۰۱۲ء کو محترمہ عاصمہ ممدوٹ کی پیش کردہ ایک قرارداد متفقہ طور پر پاس کی ہے جس میں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ (۱) سرکاری تعلیمی اداروں کے نصابِ تعلیم میں قرآن کریم کو نصابی کتاب کے طور پر شامل کیا جائے۔ (۲) مکمل قرآن کریم ترجمہ سمیت پڑھایا جائے۔ (۳) اس کے لیے حکومت کی طرف سے تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ (۴) قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس کو تعلیمی اداروں میں یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ مارچ ۲۰۱۲ء

مواخذہ سے استثنا اور اسلامی تعلیمات

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سوئس عدالت کو خط لکھنا آئین کے آرٹیکل ۶ کی خلاف ورزی ہوگی جس کی سزا موت ہے، اس لیے وہ توہینِ عدالت میں سزا پانے کو ترجیح دیں گے جو چھ ماہ قید ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پی پی سے بے وفائی نہیں کریں گے اور اپنے ہی صدر کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے۔ سوئس عدالت کو خط لکھنے کا معاملہ عجیب سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود وزیراعظم پاکستان، صدر آصف علی زرداری کے مقدمات کے حوالے سے سوئس عدالت کو خط لکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ مارچ ۲۰۱۲ء

پاکستانی عوام کیسا نظام چاہتے ہیں؟

گیلپ انٹرنیشنل کے حالیہ سروے نے ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت آج بھی ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق یہ سروے اسامہ بن لادن کی وفات سے پہلے کیا گیا تھا، اس کے مطابق۶۷ فیصد عوام نے اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ۲۰ فیصد نے خاموشی اختیار کی ہے اور ۱۳ فیصد نے کہا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات بار بار دہرانے کی اب ضرورت نہیں رہی کہ پاکستان کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جولائی ۲۰۱۱ء

اسلامی نظام اور ہمارا اجتماعی عمل

آج دنیا بھر میں مسلمان عید کی خوشی کے ساتھ سیدنا ابراہیمؑ کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ صاحبِ استطاعت حضرات جانور ذبح کریں گے اور اس عزم کا اظہار کریں گے کہ مولائے کریم! آج ہم آپ کی رضا اور خوشی کے لیے جانوروں کی قربانی دے رہے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی اور آپ کا حکم ہوا تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ قربانی دراصل اسی عزم کو تازہ کرنے کا نام ہے اور حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی گردن پر چھری رکھ دی اور اپنی طرف سے انہیں قربان کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جنوری ۱۹۹۹ء

وحی کی ضرورت اور اس کی حقیقت و ماہیت

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علمائے کرام، محترم بزرگو، دوستو اور عزیز طلبہ! حضرت مولانا قاری سعید الرحمان صاحب نے مجھے اور آپ دونوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا حسن جان مدظلہ کے خطاب کے بعد اور شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ مدظلہ کے خطاب سے پہلے مجھے حکم دیا ہے کہ بخاری شریف کے سبق کے افتتاح کی اس تقریب میں آپ حضرات کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کروں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان دو بزرگوں کے درمیان مجھ جیسا طالب علم کیا بات کرے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مارچ ۱۹۹۹ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter