جمعیۃ علماء اسلام کی رکن سازی کا خصوصی عشرہ: چند گزارشات

رکن سازی کا کام شروع ہوئے چار ماہ کے قریب عرصہ ہو چکا ہے اور گزشتہ سالوں کی بہ نسبت اس دفعہ رکن سازی کی رفتار اور اس سلسلہ میں ہونے والا کام بہت بہتر ہے۔ البتہ قومی سیاست میں قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود کے روشن کردار، تحریک نظامِ مصطفٰیؐ میں جمعیۃ علماء اسلام کے راہنماؤں اور کارکنوں کی بے مثال قربانیوں اور سیاسی امور میں جمعیۃ علماء اسلام کے متوازن اور متحرک کردار کے باعث جمعیۃ کے سیاسی وقار اور مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے پیش نظر رکن سازی کے سلسلہ میں ہونے والا کام اور پیش رفت قطعاً غیر تسلی بخش ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مارچ ۱۹۷۹ء

آسیہ مسیح کیس: سیکولر لابی کی دیدہ دلیری اور دینی قوتوں کا امتحان

آسیہ مسیح کا کیس توہینِ رسالت کے سابقہ درجنوں کیسوں سے مختلف نہیں ہے اور نہ ہی اس پر سیکولر حلقوں کا ردعمل اور ان کی سرگرمیاں غیر متوقع ہیں۔ البتہ دینی حلقوں کی بیداری اور ان کے ردعمل کی کیفیت بہرحال پہلے جیسی نہیں ہے اور اہل دین کے لیے اصل لمحۂ فکریہ یہی ہے۔ ایک مسیحی خاتون نے مبینہ طور پر توہینِ رسالتؐ کا ارتکاب کیا، اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا، عدالت میں کیس چلا اور تمام ضروری عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد مجاز عدالت نے اسے موت کی سزا سنا دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ نومبر ۲۰۱۰ء

پارٹی سسٹم کی بنیاد پر الیکشن کی تجویز

صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک غیر ملکی جریدہ ’’امپیکٹ انٹرنیشنل‘‘ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں افراد کی بجائے جماعتوں کو ووٹ دینے کے سلسلہ میں اظہارِ خیال کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’وہ اس نظام کے حق میں ہیں لیکن جب انہوں نے یہ تجویز سیاستدانوں کو پیش کی تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی۔‘‘ ہمارے خیال میں اس تجویز پر سیاستدانوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ خود سیاستدان بارہا پارٹی سسٹم کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کر چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء

اسلامی نظام کو مؤثر بنانے کے لیے مل جل کر کام کرنا ہوگا

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی رکن سازی ملک بھر میں چار ماہ سے جاری ہے جو پروگرام کے مطابق آخر مارچ تک جاری رہے گی اور اس کے بعد عہدہ داروں کے مرحلہ وار انتخابات کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ گزشتہ ادوار کی بہ نسبت اس دفعہ جمعیۃ کی رکن سازی میں عوام کی دلچسپی بہت زیادہ اور حوصلہ افزا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ قومی سیاست میں قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود کا کردار، تحریک نظام مصطفٰیؐ میں جمعیۃ علماء اسلام کے راہنماؤں اور کارکنوں کی قربانیاں، اور جمعیۃ علماء اسلام کی متوازن اور متحرک سیاسی جدوجہد ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مارچ ۱۹۷۹ء

تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کا اجلاس

متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے زیراہتمام ۸ جون کو دفتر احرار لاہور میں پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی زیرصدارت مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور راہنماؤں کا مشترکہ اجلاس ہوا جو نمائندگی کے لحاظ سے بھرپور تھا اور اس میں لاہور میں قادیانی مراکز پر ہونے والے مسلح حملوں سے پیدا شدہ صورتحال کے ساتھ ساتھ میڈیا میں قادیانی مسئلہ کے بارے میں بحث و مباحثہ اور میاں نواز شریف کے حالیہ بیان سمیت مختلف امور کا جائزہ لیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ جون ۲۰۱۰ء

مولانا قاضی بشیر احمد کشمیریؒ، مولانا قاضی عبد الحلیم کلاچویؒ اور قاری سعید احمدؒ

حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی وفات کے بعد ایک محفل میں ذکر چل پڑا کہ اب ہمارے ملک میں اس کھیپ کے بزرگوں میں سے کون کون موجود ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میری معلومات کے مطابق مولانا محمد یوسف خان آف پلندری آزاد کشمیر اور حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچوی اس کھیپ کے آخری دو بزرگ ہیں جو ہمارے لیے برکات اور دعاؤں کا سہارا ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت مولانا سلیم اللہ خان، حضرت مولانا عبید اللہ اشرفی، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، حضرت مولانا صوفی محمد سرور اور حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف آف کلاچی کو بھی میں اسی کھیپ کا حصہ سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مئی ۲۰۱۰ء

مولانا عبد القیوم حقانی اور جامعہ ابوہریرہؓ

بعض کام اس قدر اچانک اور غیر متوقع طور پر ہو جاتے ہیں کہ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس میں ہمارے ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا اور کسی نے طے شدہ منصوبے کے تحت وہ کام کروا دیا ہے۔ ۲۱ اکتوبر کو حسن ابدال میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس تھا، میرا پروگرام تھا کہ ۲۰ اکتوبر کو رات راولپنڈی یا ٹیکسلا میں گزاروں گا اور ۲۱ اکتوبر کو صبح اجلاس کے لیے مرکز حافظ الحدیث حسن ابدال پہنچ جاؤں گا۔ دو روز قبل نوشہرہ سے مولانا عبد القیوم حقانی کا فون آیا کہ آپ حسن ابدال آرہے ہیں تو رات کو ان کے مدرسے جامعہ ابوہریرہ آجائیں، صبح اکٹھے حسن ابدال چلیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم نومبر ۲۰۱۰ء

نظامِ مصطفٰیؐ کا نفاذ اور ہماری ذمہ داریاں

کم و بیش دو صدیوں پر محیط مسلسل جدوجہد اور ملتِ اسلامیہ کی پشت ہا پشت کی طویل قربانیوں کے بعد جب امسال ۱۲ ربیع الاول کو صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک میں چند اسلامی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا تو ہر محبِ وطن شہری نے اطمینان کا سانس لیا کہ بدیر سہی لیکن بالآخر ہم نے اپنا رخ صحیح منزل کی طرف کر لیا ہے، اب اگر ہم سست روی سے چلے تب بھی کم از کم یہ اطمینان تو ہوگا کہ قوم کی اجتماعی گاڑی کا رخ اس کی اصل منزل کی طرف ہے اور اسے دوسری طرف پھیرا نہیں جا سکتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جولائی ۱۹۷۹ء

دورِ حاضر کی اہم دینی ضروریات: ایک بیٹی کا خط

میں آپ کا کالم روزنامہ اسلام میں بہت شوق سے پڑھتی ہوں، اللہ پاک نے آپ کو وسیع الظرفی، حقیقت پسندی، جدید حالات کا فہم، مغربی ذہنیت کا ادراک، قدیم مسائل کو جدید حالات پر منطبق کرنا، بے تکلف قوتِ تحریر، طبعیت میں اکابر والی سادگی، سلف صالحین کے اصل مزاج کو باقی رکھتے ہوئے جدید حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کی لگن، جدید طبقات سے قریبی روابط، مغربی دنیا کو بار بار قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کے مواقع، معاصر اہل علم کا اعتماد، تفسیرِ قرآن و علومِ حدیث سے طبعی مناسبت عطا فرمائی ہے۔ اللہم زد فزد ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مئی ۲۰۱۰ء

کچھ نسبتوں کے بارے میں

ان دنوں ملک کے بہت سے دیگر دینی مدارس کی طرح جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی ششماہی امتحان کی تعطیلات ہیں۔ میرا معمول سالہا سال سے یہ تعطیلات برطانیہ میں گزارنے کا رہا ہے لیکن اس بار ویزا کے حصول میں تاخیر کے باعث یہ سفر نہ ہو سکا اور میں اس وقت کراچی میں بیٹھا ہوں۔ اتوار کا دن اسلام آباد میں گزرا، اڈل ٹاؤن ہمک میں ہمارے ایک عزیز فاضل مولانا سید علی محی الدین اپنے بزرگوں کی دینی و روحانی میراث سنبھالے بیٹھے ہیں اور ذوق و حوصلہ کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اپریل ۲۰۱۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter