پرائیویٹ شریعت بل کو ترامیم کے بعد نئی شکل دےدی گئی

سینٹ میں زیر بحث پرائیویٹ شریعت بل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور مختلف مکاتب فکر کے اعتراضات کی روشنی میں ضروری ترامیم کے بعد اسے نئی شکل دے دی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ رہنماؤں کی ایک مشترکہ کمیٹی نے شریعت بل کے متن پر نظر ثانی کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ اکتوبر ۱۹۸۶ء

لندن کی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس ۔ تحریک ختم نبوت کے تقاضوں کی روشنی میں

تحریک ختم نبوت کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ آئینی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے اور اسلام کے نام پر قادیانیوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے صدارتی آرڈیننس کے اجراء کے بعد مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت اب ان آئینی اور قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کرانے اور باقی مطالبات کی منظوری کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس وقت تحریک ختم نبوت کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء

پرائیویٹ شریعت بل کی بجائے سرکاری مسودہ!

شریعت بل کے سرکاری مسودہ میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالتیں حسب سابق مروجہ قوانین کے مطابق ہی فیصلے کرتی رہیں گی البتہ اگر کسی قانون کے خلافِ شریعت ہونے کی شکایت ہوگی تو معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے حوالے کر دیا جائے گا۔ جبکہ غیر سرکاری مسودے میں یہ بات اس طرح ہے کہ عدالتوں کو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنایا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتیں موجودہ قوانین کی بجائے شرعی قوانین کی بنیاد پر مقدمات کی سماعت کریں گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اکتوبر ۱۹۸۶ء

علامہ محمد اقبالؒ کا اسلام

جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا زاہد الراشدی نے مساوات پارٹی کے سربراہ جناب محمد حنیف رامے کے اس بیان کو گمراہ کن قرار دیا ہے کہ ہمیں ملّا کا اسلام نہیں بلکہ اقبالؒ کا اسلام چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر رامے نے اس بیان کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ علامہ اقبالؒ چودہ سو سال سے چلے آنے والے مسلمہ اسلام کی بجائے کسی جدید اسلام کے داعی تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مارچ ۱۹۸۶ء

جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت کا فیصلہ

مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری اطلاعات مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ قادیانیوں کو مسلمان قرار دینے کے بارے میں جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت کے حالیہ فیصلہ کی کوئی دینی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے کیونکہ کسی شخص یا گروہ کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا خالصتاً مسلم علماء کا کام ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ دسمبر ۱۹۸۵ء

دیوبندی بریلوی اتحاد کے بارے میں مولانا عبد الستار خان نیازی کے فارمولا کا خیرمقدم

گکھڑ منڈی (نامہ نگار) کالعدم جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا زاہد الراشدی نے مولانا عبد الستار خان نیازی کی طرف سے بریلوی اور دیوبندی مکتبہ فکر کے مابین مفاہمت اور اتحاد کی تجاویز کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ان تجاویز پر عمل ہو جائے تو یہ دین اور ملک کی بہت بڑی خدمت ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ دسمبر ۱۹۸۵ء

’’شریعت بل‘‘ پر اعتراضات ایک نظر میں

سینٹ آف پاکستان میں مولانا قاضی عبد اللطیف اور مولانا سمیع الحق کا پیش کردہ پرائیویٹ شریعت بل اس وقت قومی حلقوں میں زیربحث ہے اور اخبارات و جرائد میں اس کی حمایت اور مخالفت میں مسلسل مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ زیربحث مضمون میں ان اہم اعتراضات پر ایک نظر ڈالنا مقصود ہے جو اس وقت تک شریعت بل سے اختلاف کے ضمن میں سامنے آئے ہیں۔ ان اعتراضات کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ ان اعتراضات پر مشتمل ہے جو سیاسی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں اور ان کے پس منظر میں سیاسی اختلافات کارفرما ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ ستمبر ۱۹۸۶ء

دستور کی اسلامی دفعات اور ’’سیاسی اسلام‘‘

ربع صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ گکھڑ میں حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی مسجد میں دینی جلسہ تھا، اس دور کے ایک معروف خطیب بیان فرما رہے تھے، موضوعِ گفتگو دارالعلوم دیوبند کی خدمات و امتیازات تھا۔ جوشِ خطابت میں انہوں نے یہ فرما دیا کہ دارالعلوم دیوبند نے شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسے سپوت پیدا کیے۔ جلسہ کے بعد دسترخوان پر ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! دارالعلوم دیوبند کا آغاز 1866ء میں ہوا تھا جبکہ شاہ اسماعیل شہیدؒ اس سے تقریباً پینتیس سال قبل بالاکوٹ میں شہید ہوگئے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ دسمبر ۲۰۱۷ء

گوجرانوالہ بچاؤ تحریک: چند گزارشات

چند ماہ قبل کچھ دوست گوجرانوالہ کے شہریوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے جناب ایس اے حمید کی رہائش گاہ پر جمع ہوئے تو اس بات پر مشورہ ہوا کہ شہریوں کی مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے ایک ایسا فورم تشکیل دیاجائے جو سیاسی گروہ بندی، برادری ازم اور انتخابی جھمیلوں سے الگ تھلک رہتے ہوئے خالصتاً شہری بنیادوں پر لوگوں کی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے کوشش کر سکے۔ اس کا ذکر اس کالم میں اس سے قبل بھی کرچکاہوں۔ اس موقع پر یہ طے ہو گیا کہ یہ فورم سیاسی گروہ بندیوں، فرقہ وارانہ ترجیحات، انتخابی کشمکش اور برادری ازم سے ہٹ کر ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۲۰۰۵ء

حضرت قاری محمد انور کے ساتھ ایک نشست

ان دنوں ہمارے استاذ محترم حضرت قاری محمد انور صاحب مدینہ منورہ سے پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں، وہ گزشتہ اٹھائیس برس سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور تحفیظ القرآن الکریم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔میں نے قرآن کریم ان سے حفظ کیا تھا جب وہ گکھڑ میں مدرسہ تحفیظ القرآن کے صدر مدرس تھے، یہ ۱۹۶۰ء کی بات ہے۔ گکھڑ کے اس مدرسہ میں، جو محترم الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم کے تعاون سے اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدر دامت برکاتہم کی زیر نگرانی قائم ہوا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نامعلوم

Pages


2016ء سے
Flag Counter