تحفظ ختم نبوت کا بحران اور قدرت کا سبق!

تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے دھرنے ختم ہوگئے ہیں لیکن اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے جو شاید خاصی دیر تک جاری رہے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس صورت حال کا نوٹس لیا ہے اور چیف جسٹس جناب شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس دوستوں کی نظر سے گزر چکے ہیں۔ ہائی کورٹ میں اٹھائے گئے نکات پر عدالت عظمٰی ہی کوئی فیصلہ کرے گی مگر اس سے ہٹ کر کچھ عمومی نوعیت کے سوالات پر چند گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ دسمبر ۲۰۱۷ء

برطانیہ میں چند روز

۲۴ مئی کو برطانیہ پہنچا ہوں اور ۷ جون کو واپسی کی فلائیٹ ہے۔ اس دوران ساؤتھال براڈوے کی ابوبکر مسجد میں جمعۃ المبارک کے بیان کے بعد شام کو نوٹنگھم پہنچ گیا جبکہ جمعرات کو ورلڈ اسلامک فورم کے چیئر مین مولانا محمد عیسیٰ منصوری سے ملاقات ہوئی جو اسی روز انڈیا اور بنگلہ دیش کے سفر سے واپس پہنچے تھے۔ دن کا بیشتر حصہ ابراہیم کمیونٹی کالج میں گزرا اور میرے لیے یہ بات نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی کہ اسی روز مدینہ منورہ سے تشریف لانے والے ایک محترم بزرگ حضرت قاری بشیر احمد صاحب نے کالج میں آنا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جون ۲۰۰۶ء

تھوڑی دیر امریکہ کی ایک جیل میں

محترم ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن صاحب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نورااللہ مرقدہ کے خلفاء میں سے ہیں اور ایک عرصہ سے کینیڈا اور پھر امریکہ میں دینی و تعلیمی خدمات میں مصروف ہیں۔ نیو یارک سٹیٹ میں کینیڈا کی سرحد پر نیا گرا آبشار کے قریب ایک شہر بفیلو میں ’’دارالعلوم المدینہ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ انہوں نے قائم کی ہے اور اپنے لائق فرزندوں اور مخلص رفقاء کی ایک ٹیم کے ہمراہ اس کی بہتری اور ترقی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ نیاگرا آبشار اس سے قبل بھی آچکا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جون ۲۰۰۳ء

آکسفورڈ میں ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر عبد اللہ احمد البداوی کا خطاب

آکسفورڈ آج کی دنیا کا بڑا تعلیمی و تہذیبی مرکز ہے، مجھے کبھی کبھی وہاں جانے کا موقع ملتا ہے اور اپنے تاثرات میں قارئین کو بھی ہر بار شریک کرتا ہوں۔ بھارت کے ممتاز مسلم دانش ور اور محقق و مصنف پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم کے فرزند ڈاکٹر فرحان احمد نظامی نے آکسفورڈ میں ایک علمی و فکری مرکز قائم کر رکھا ہے جس کے سرپرستوں میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس اور سلطان آف برونائی کے علاوہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ اور پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم و مغفور بھی شامل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۴ء

برطانیہ کے چند دینی اداروں میں حاضری

۳۱ مئی کی شام باٹلی سے برمنگھم پہنچا کیونکہ یکم جون کا دن جامعہ الہدٰی کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی کے ساتھ تعلیمی مشاورت کے لیے مخصوص تھا۔ میرے برطانیہ کے ہر سفر میں ایک دن اس کام کے لیے مقرر ہوتا ہے۔ مولانا موصوف اپنی تمام مصروفیات ترک کر دیتے ہیں اور میں بھی اس روز کوئی اور مصروفیت نہیں رکھتا، اس کام میں اکثر اوقات مولانا اکرم ندوی بھی ہمارے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں لیکن اس سال وہ نہ آسکے البتہ مولانا سعید یوسف خان اور مولانا قاری خبیب احمد عمر دن کا اکثر حصہ ہمارے ساتھ اس مشاورت میں شریک رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جون ۲۰۰۶ء

امریکہ، جہاں وسائل زندگی کی فراوانی ہے مگر ۔۔۔

۱۹ جون کو لاہور سے پی آئی اے کے ذریعے نیویارک آتے ہوئے راستہ میں جہاز دو گھنٹے کے لیے مانچسٹر میں رکا تو روزنامہ جنگ لندن دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی گزشتہ دنوں جب امریکہ کے صدر بش سے ملے تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ امریکہ میں رہنا چاہتے ہیں اور وہاں قیام کو پسند کرتے ہیں مگر صدر بش نے انہیں بے ساختہ جواب دیا کہ وہ افغانستان جا کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اس سوال جواب کے پیچھے ماضی کی ایک پوری دنیا آباد ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جون ۲۰۰۴ء

امریکہ میں رؤیت ہلال کا مسئلہ

رؤیت ہلال کا مسئلہ امریکہ میں بھی اسی طرح الجھن کا شکار ہے جیسے ہمارے ہاں پاکستان میں یا برطانیہ میں ہوتا ہے۔ میں ۱۱ کتوبر کو امریکہ پہنچا تھا اور اس وقت دارالہدٰی (سپرنگ فیلڈ، ورجینیا) میں ہوں۔ دارالہدٰی کے سربراہ مولانا عبد الحمید اصغر بہت محبت کرتے ہیں اور احترام سے نوازتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ اصرار بھی ہوتاہے کہ جتنے دن امریکہ میں رہوں دارالہدٰی ہی میں رہوں۔ اس سال ۱۱ اکتوبر سے ۲۲ اکتوبر تک امریکہ میں رہنے کا پروگرام تھا، میں نے لندن سے نیویارک کے لیے ٹکٹ کروا لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء

تاشقند اور سمرقند کے پانچ روزہ سفر کی سرگزشت

تاشقند وسطی ایشیا کی ایک اہم ریاست ازبکستان کا دارالحکومت ہے اور ہماری کئی تاریخی اور قومی یادیں اس سے وابستہ ہیں۔ وسطی ایشیا کا یہ خطہ، جسے علمی حلقوں میں ماوراء النہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، صدیوں تک علومِ اسلامیہ بالخصوص فقہ حنفی کا مرکز رہا ہے اور اسے امام بخاریؒ، امام ترمذیؒ، صاحب ہدایہ امام برہان الدین مرغینائیؒ اور فقیہ ابواللیث سمرقندیؒ جیسے اساطینِ علم وفضل کی علمی جولانگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ پھر پاکستان کی قومی تاریخ میں بھی تاشقند کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۱۹۹۳ء

مجھے قرآن میں روحانی سکون ملا، ایک نومسلم کنیڈین خاتون کے تاثرات

گزشتہ روز امریکہ سے ایک نومسلم خاتون ڈاکٹر مجاہدہ کے ہرمینسن گوجرانوالہ تشریف لائیں، ان کا سابقہ نام مارسیا ہے اور امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سن ڈیگوسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ مذہبی امور کی پروفیسر ہیں۔ان کے خاوند ملک محمد علوی ان کے ہمراہ تھے۔ علوی صاحب وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں اور پندرہ سال سے امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔ ڈاکٹر مجاہدہ پیدائشی طورپر کنیڈین ہیں اور ایک عرصہ سے امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ موصوفہ نے کم وبیش دس سال قبل اسلام قبول کیا، عربی زبان سیکھی، ار دو اور فارسی سے بھی آشنائی حاصل کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۱۹۹۰ء

مدینے کا ایک اور سفر

چھ سال کے وقفہ کے بعد آج پھر مدینہ منورہ میں ہوں اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری کی سعادت حاصل کر چکاہوں۔پہلی بار ۱۹۸۴ء میں یہاں حاضری ہوئی تھی اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس شرف باریابی سے بہرہ ور ہوتا رہا مگر گزشتہ چند سالوں میں سعودی حکومت کی نئی عمرہ پالیسی کی وجہ سے بریک لگ گئی۔ اور اصل بات تو بلاوے کی ہے، اﷲ تعالیٰ اور ان کے آخری رسولؐ کی بارگاہ میں یہ حاضری بلاوے پر ہی ہوتی ہے اور بحمد اﷲ یہ بلاوا آگیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ ستمبر ۲۰۰۴ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter