لیڈی ڈیانا

لیڈی ڈیانا اور ان کے ذاتی معالج کے ان تبصروں کی روشنی میں لیڈیا ڈیانا کی حادثاتی موت پر دنیا بھر میں رونما ہونے والے ردعمل کی تہہ تک پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے کہ لیڈی ڈیانا دراصل مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی سے جنم لینے والی ذہنی پریشانیوں اور نفسیاتی الجھنوں کی علامت بن گئی تھی اور اس نے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کی منزل حاصل کرنے کے لیے شاہی اقدار اور خاندان کی روایات سے بغاوت کا راستہ اختیار کر لیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۷ء

گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے

اخبار نویسی اور رپورٹنگ کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جائے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے نظریات و خیالات کو بلاکم و کاس عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن معلوم نہیں ہمارے ہاں اخبار نویسی کا معیار کیا سمجھ لیا گیا ہے کہ جو چیز مخصوص گروہی اغراض کے مطابق ہو اسے قومی پریس میں جگہ دے دی جاتی ہے اور جس چیز کو اخبار نویسوں کی گروہی اغراض گوارا نہ کرتی ہوں وہ خود کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو، ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء

غازی محمد انور پاشاؒ

روزنامہ جنگ لاہور ۵ اگست ۱۹۹۶ء کی خبر کے مطابق ترکی کے ایک سابق وزیر جنگ غازی محمد انور پاشاؒ کی میت کو ۷۴ سال کے بعد تاجکستان سے منتقل کر کے ۴ اگست ۱۹۹۶ء کو دوبارہ استنبول میں دفن کیا گیا ہے اور تدفین کی اس تقریب میں ترکی کے صدر جناب سلیمان ڈیمیریل اور وزیراعظم جناب نجم الدین اربکان نے بھی شرکت کی ہے۔ غازی انور پاشاؒ خلافت عثمانیہ کے دورِ زوال کے ایک نامور سپوت ہیں جنہوں نے خلافت کو سہارا دینے اور اس کے نظام کی اصلاح کے لیے اپنی بساط کی حد تک انتھک جدوجہد کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۶ء

الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ

عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت اور اخوان المسلمین شام کے سابق مرشد عام الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃؒ کا تعلق شام سے تھا اور وہ شام کے معروف حنفی محدث الاستاذ محمد زاہد الکوثریؒ کے تلمیذ خاص اور ان کے علمی جانشین تھے۔ عرب دنیا میں حنفی مسلک کے تعارف اور اس کی ترویج و اشاعت میں ان دونوں بزرگوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور یہ بزرگ گزشتہ پون صدی کے دوران عالم عرب میں حنفیت کے علمی ترجمان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۷ء

ظلم کے خلاف جنگ اور ہمارے اسلاف کا مثالی کردار

دوسرا بڑا مقصد جس کے لیے ہمارے اکابر و اسلاف نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، ظلم و کفر کے خلاف جنگ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے لے کر حضرت قطب الاقطاب مولانا احمد علی قدس سرہ العزیز تک اکابر کے پورے سلسلہ کی ایک کڑی بھی ایسی نہیں جو ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے اثرات سے خالی ہو۔ اور اسلامی تاریخ کے وسیع دور میں ایک لمحہ کا بھی ایسا وقت موجود نہیں ہے جب ہمارے اسلاف میں سے کسی نہ کسی نے ظلم و جبر کے خلاف کلمۂ حق نہ بلند کیا ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں زہر کا پیالہ پی کر جام شہادت نوش کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ مئی ۱۹۷۵ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان

سیاست زندگی بھر حضرت مفتی صاحبؒ کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے، انہوں نے سیاست کو مشغلہ، ہابی یا آج کے سیاسی پس منظر میں کاروبار کے طور پر نہیں بلکہ مشن اور فریضہ کے طور پر اختیار کیا اور اس کا حق ادا کر کے دکھایا۔ ان کا شمار ملک کے مقتدر اور کامیاب سیاستدانوں میں ہوتا تھا اور ان کی سیاسی قیادت کا لوہا ان کے معاصر بلکہ سینئر سیاستدانوں نے بھی مانا۔ لیکن آج سیاست اور سیاستدانوں کی اصطلاحات کے گرد مفہوم و تعارف کے جو نامانوس دائرے نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور جن لوازمات نے ایک سیاستدان کے لیے ناگزیر حیثیت اختیار کر لی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۹۷ء

اقوامِ متحدہ اور عالمِ اسلام

۲۴ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو اقوام متحدہ کا پچاسواں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ سے قبل بھی عالمی سطح پر اقوام کی ایک مشترکہ تنظیم ’’انجمنِ اقوام‘‘ کے نام سے موجود تھی جس کا مقصد مختلف ملکوں کے درمیان محاذ آرائی اور مسلح تصادم کے امکانات کو روکنا اور بین الاقوامی طور پر رواداری اور مفاہمت کی فضا کو فروغ دینا تھا۔ لیکن انجمن اقوام اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد ’’اقوام متحدہ‘‘ کے نام سے ایک نئی عالمی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اکتوبر ۱۹۹۵ء

’’بیانیہ بیانیہ‘‘ کا کھیل

ہمارے بہت سے دانشور کچھ عرصہ سے باقی سارے کام چھوڑ کر ’’بیانیہ بیانیہ‘‘ کھیلنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا کے مختلف شعبوں میں بیانیہ، جوابی بیانیہ، قومی بیانیہ، ریاستی بیانیہ، دینی بیانیہ، متبادل بیانیہ جیسے متنوع عنوانات کے ساتھ بحث و مباحثہ کی گرم بازاری ہے اور ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ ہم اس ’’فری اسٹائل کبڈی میچ‘‘ کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ اس ’’بیانیہ‘‘ کی غرض کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے اور اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اپریل ۲۰۱۷ء

جمعیۃ کے صد سالہ عالمی اجتماع کی کامیابی پر مبارکباد

شیخ الہندؒ کی راہنمائی میں ایک صدی قبل کے دینی راہنماؤں نے آزادی و خودمختاری اور نفاذِ اسلام کے دو بنیادی اہداف کے لیے تحریک کا جو نیا رخ طے کیا تھا، اس کی بنیاد میں (۱) عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد (۲) غیر مسلم باشندگان وطن کی اس تحریک میں شرکت (۳) جدید تعلیم یافتہ حضرات کو اس کی قیادت کے لیے آگے لانا (۴) اور تمام مذہبی مکاتب فکر کو اس تحریک کا عملی حصہ بنانا شامل تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے حالیہ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کو دیکھ کر یہ اطمینان بخش اندازہ ہوتا ہے کہ دینی جدوجہد کے یہ اہداف اور دائرے نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اپریل ۲۰۱۷ء

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ

جمعرات ۱۴ مارچ کی صبح کو ملک بھر میں یہ خبر انتہائی غم کے ساتھ سنی گئی کہ گزشتہ روز کوئٹہ فورٹ سنڈیمن روڈ پر پاکستان کے انتہائی قابل احترام عالم با عمل، عظیم سیاسی راہنما، بلوچستان جمعیۃ کے امیر، صوبائی متحدہ جمہوری محاذ کے نائب صدر اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر حضرت مولانا سید محمد شمس الدین شہید کر دیے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس اندوہناک سانحہ نے ملک کے دینی و سیاسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھا دی ہے۔ مولانا سید شمس الدین جمعیۃ علماء اسلام کے مقتدر راہنما تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مارچ ۱۹۷۴ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter