افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر پرویز مشرف کی خود فریبی

پاکستان کے ساتھ اس وقت امریکہ کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی نظریاتی وحدت کو توڑنا چاہتا ہے، ان کی باہمی دوستی کو دشمنی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے وسطی ایشیا کے ساتھ روابط کو ختم کرنا چاہتا ہے، اور چین کے خلاف اپنے مجوزہ حصار کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ حاصل ہوجانے کے بعد امریکہ کی ترجیحات بدستور وہی رہیں گی جو پہلے چلی آرہی ہیں اور جن ترجیحات میں پاکستان کو بھارت پر ترجیح دینا یا کم از کم اس کے برابر رکھنا بھی امریکی مفادات سے قطعاً کوئی مطابقت نہیں رکھتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء

افغانستان پر متوقع امریکی حملہ اور عالمی منظر نامہ

افغانستان پر امریکہ کے فوری حملہ کا خطرہ ٹل جانے کے بعد عالمی میڈیا کا رخ ان اسباب و عوامل کی نشاندہی اور ان پر بحث و تمحیص کی طرف بتدریج مڑ رہا ہے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے 11 ستمبر کے المناک واقعات کے باعث بنے۔ اور اس وقت بھارت اور اسرائیل دونوں کی وہ کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں جو انہوں نے 11 ستمبر کے حادثات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امارت اسلامی افغانستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو امریکی حملوں اور مداخلت کی زد میں لانے کے لیے شروع کی تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء

سانحہ نائن الیون ۔ لندن میں علماء کا مشترکہ اعلامیہ

لندن پہنچتے ہی مجھے احساس ہوگیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے سانحات کے بعد عالمی میڈیا کی ہمہ جہتی یلغار اور شدید امریکی ردعمل کے اظہار نے مسلمان حلقوں کو اس حد تک ششدر کر دیا ہے کہ انہیں کسی اجتماعی اور متوازن موقف اور طرز عمل پر لانے کے لیے خاصی محنت کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی نمائندگی میں نمایاں طور پر دو قسم کی آوازیں میڈیا میں سامنے آرہی ہیں۔ ایک طرف وہ آواز ہے جسے انتہا پسندانہ اور جذباتی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے نتائج سے یہاں کے مسلمان خطرات محسوس کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء

’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں

مولانا عبد الحلیم کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور وہ ایسٹ لندن میں ویسٹ ہیم کے مقام پر بننے والے تبلیغی جماعت کے نئے مرکز کے امام ہیں۔سفید رنگ کا لمبا عربی کرتہ پہنتے ہیں اور اس پر سفید عمامہ باندھتے ہیں، رنگ پختہ ہے اور داڑھی سیاہ ہے اس لیے دور سے ان پر اسامہ بن لادن یا ان کے بھائی ہونے کا اشتباہ ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو انہوں نے 11 ستمبر کے نیویارک اور واشنگٹن کے سانحات کے بعد ان کے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات بیان کیے جن کا تذکرہ قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء

کیا امریکہ عالمی قیادت کا اہل ہے؟

دہشت گردی کا کوئی بھی حامی نہیں ہے اور دنیا کے سب باشعور انسان اس کے خاتمہ کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے ساتھ اس کے اسباب و محرکات اور عوامل کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔ اس عالمی مہم کی قیادت کے لیے کسی ایسے ملک کو آگے آنا چاہیے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ ہیروشیما، ناگاساکی، ویت نام، فلسطین، افغانستان اور سوڈان کے نہتے شہریوں پر بم برسانے اور مشرق وسطیٰ کے عوام کی سیاسی آزادیوں اور شہری حقوق کا خون کرنے والے ملک کے ہاتھ میں دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کی قیادت کا پرچم آخر کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء

عالمی ابلاغیاتی گھٹن میں تازہ ہوا کا جھونکا

الجزیرہ ٹی وی خلیج عرب کی ریاست قطر کا ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل ہے جس کی نشریات عربی میں ہوتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ اس نے خبروں تک رسائی اور انہیں بروقت دنیا کے سامنے لانے کی تکنیک میں اس حد تک محنت اور تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے کہ مغرب کے اکثر ٹی وی چینل افغانستان کے بارے میں اس کے حوالہ سے خبریں دینے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ اس میں بنیادی طور پر اس بات کا بھی دخل ہے کہ طالبان حکومت نے صرف الجزیرہ ٹی وی کو ہی افغانستان میں رپورٹنگ کی اجازت دے رکھی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء

تبلیغی سہ روزہ اور حضرت سندھیؒ کی یاد میں ایک مجلس

ہمیں اپنے بزرگوں سے صحیح استفادہ کے لیے اس نفسیات اور مزاج کے ماحول سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اکابر کی زندگیوں کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا چاہیے جن کا تعلق امت کی اجتماعی راہنمائی سے ہے اور جن سے نئی نسل کو اس کی تربیت و اصلاح کے لیے آگاہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اس پس منظر میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی جدوجہد، افکار و تعلیمات اور حوصلہ و کردار کے بارے میں چند گزارشات اس موقع پر میں نے پیش کیں جس کی کچھ تفصیل ایک مستقل کالم کی صورت میں سامنے لانے کا ارادہ رکھتا ہوں، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۶ء

مذہبی منافرت کا سدباب ۔ قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس

اجلاس کے دوران دینی مدارس کے نصابات کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور ارکان نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں: (۱) نصاب تعلیم کا جائزہ صرف دینی مدارس کے حوالہ سے کافی نہیں بلکہ ملک میں سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر اس وقت رائج تمام نصابوں کا دو حوالوں سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ درجنوں قسم کے الگ الگ نصابات ملک میں جاری ہیں جن کے اہداف اور نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور معاشرہ میں ذہنی اور تہذیبی خلفشار کا باعث بن رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ نومبر ۲۰۱۶ء

کیا پاکستان میں نفاذِ اسلام کا کوئی ہوم ورک موجود ہے؟

میں نے عرض کیا کہ نفاذ شریعت کے حوالہ سے پاکستان کے علماء کرام اور دینی حلقوں کا ہوم ورک اور فائل ورک اس قدر مکمل اور جامع ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں نفاذ اسلام کے لیے پیش رفت ہو تو ہمارا یہ ہوم ورک اس کے لیے بنیادی اور اصولی راہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کے دور حکومت میں مجھے قندھار جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے ان کے ذمہ داران کے سامنے تجویز رکھی کہ وہ اس سلسلہ میں پاکستان میں اب تک ہونے والے ہوم ورک سے استفادہ کریں اور اسے سامنے رکھ کر افغانستان کے ماحول اور ضروریات کے دائرے میں اسلامائزیشن کی طرف پیش رفت کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ نومبر ۲۰۱۶ء

عالمی معاہدات اور طیب اردگان کی صدائے احتجاج

کم و بیش نصف صدی قبل انڈونیشیا کے صدر عبد الرحیم احمد سوئیکارنو نے بغاوت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی مگر کسی طرف سے بھی حمایت نہ پا کر ’’پہلی تنخواہ پر گزارہ‘‘ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی تھی۔ اس کے بعد ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد مغرب کے اس معاہداتی جبر اور اقوام متحدہ کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف اپنے دور حکومت میں آواز بلند کرتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ اب ترکی کے صدر محترم رجب طیب اردگان اس میدان میں آئے ہیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انہوں نے اس کھلی دھاندلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۲۰۱۶ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter