لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام

ان دنوں پاکستان کی وفاقی حکومت کے ایک مبینہ فیصلہ کے حوالہ سے لاؤڈ اسپیکر دینی حلقوں میں پھر سے موضوع بحث ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مساجد کی چار دیواری کے اندر محدود کر دینے کے فیصلہ یا تجویز کو مداخلت فی الدین قرار دے کر اس کی پرجوش مخالفت کی جا رہی ہے۔ ایک دور تھا جب لاؤڈ اسپیکر نیا نیا متعارف ہوا تو مساجد میں اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز اور نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچنے کی شرعی حیثیت کی بحث چھڑ گئی تھی۔ ایک مدت تک ہمارے فتاوٰی اور علمی مباحث میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۴ء

کیا مولانا عبید اللہ سندھیؒ اشتراکیت سے متاثر ہوگئے تھے؟

مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی نادان دوستوں اور بے رحم ناقدوں کے اس طرز عمل سے محفوظ نہیں رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس منفرد انقلابی مفکر کی وفات کو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم اس کی فکر کو لے کر آگے بڑھنے کی بجائے تاریخ کے صفحات میں اسے تلاش اور دریافت کرنے کے مرحلہ میں ہی رکے ہوئے ہیں- مولانا عبید اللہ سندھیؒ کون تھے؟ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تاریخ میں ان کی جدوجہد اور کردار کی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا وہ اپنے فکر و فلسفہ میں مغربی سرمایہ داری اور اشتراکیت کی عالمی کشمکش سے متاثر ہو کر فریق بن گئے تھے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۴ء

مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے صحافتی کردار کا تسلسل

مولانا محمد علی جوہرؒ کا ’’کامریڈ‘‘ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کا ’’الہلال‘‘ ایک دور میں ہماری ملی امنگوں اور جذبات کی علامت ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں ملی حمیت کا جذبہ بیدار رکھنے اور انہیں عالمی استعمار کی سازشوں سے خبردار کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کو داخلی محاذ پر درپیش فتنوں کی طرف رخ نہیں کیا اور اپنی تمام تر توجہ خارجی محاذ پر مرکوز رکھی۔ مگر مولانا ظفر علی خانؒ اور شورش کاشمیریؒ نے داخلی محاذ پر بھی بھرپور کردار ادا کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم اکتوبر ۱۹۹۹ء

مسئلہ کشمیر اور سردار محمد عبد القیوم خان

گزشتہ کالم میں آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار محمد عبد القیوم خان کے ساتھ ایک دو ملاقاتوں کے دوران ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں قارئین کو شریک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سردار صاحب کے ساتھ میری ملاقاتوں کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ مظفر آباد کے اقتدار کے لیے ان کی آنکھ مچولی کی سیاست بسا اوقات میری سمجھ سے بالاتر ہو جاتی ہے لیکن آج کے سیاستدانوں کی مجموعی کھیپ کو سامنے رکھتے ہوئے دو حوالوں سے ان کا وجود غنیمت محسوس ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ باخبر اور صاحب مطالعہ سیاست دان ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جون و یکم جولائی ۲۰۰۰ء

چرچ آف انگلینڈ اور دوسری شادی کا حق

مسیحی حلقوں میں طلاق اور اس کے بعد شادی کا تصور ابھی تک مذہبی تعلیمات کے منافی سمجھا جا رہا ہے جس کی اس دور میں سب سے بڑی مثال برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس ہیں۔ چونکہ ان کے اور لیڈی ڈیانا کے درمیان تفریق طلاق کی وجہ سے ہوئی تھی اس لیے دوبارہ شادی کا معاملہ شہزادہ موصوف کے لیے الجھن کا باعث بنا ہوا ہے اور صحافتی حلقوں کی طرف سے اس تاثر کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر شہزادہ چارلس نے دوسری شادی کی تو انہیں چرچ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ مخالفت ان کے تخت و تاج کے استحقاق کے لیے خطرہ بن سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ ستمبر ۱۹۹۹ء

مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خانؒ گورمانی، گوجرانوالہ۔ حضرت مولانا محمد یعقوبؒ ربانی، فاروق آباد، ضلع شیخوپورہ۔ مولانا محمد اسماعیل محمدیؒ، رانا ٹاؤن، شیخوپورہ۔ مولانا غلام رسول شوقؒ، کوٹلہ، ضلع گجرات۔ مولانا عبد الرؤفؒ، تھب، باغ، آزاد کشمیر۔ مکمل تحریر

۲۷ نومبر ۲۰۱۶ء

پرانا ریلوے اسٹیشن گوجرانوالہ کی مسجد کا معاملہ

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق صاحب کی خدمت میں یکم اگست 2016ء کو رجسٹرڈ ڈاک سے میں نے ایک عریضہ ارسال کیا تھا جس کا مضمون یہ ہے۔ ’’گوجرانوالہ شہر میں پرانے ریلوے اسٹیشن کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں آنجناب کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ ریلوے اسٹیشن میں گزشتہ تین عشروں سے ایک مسجد موجود ہے جس میں اردگرد بازار اور مارکیٹوں کے سینکڑوں لوگ پنج وقتہ نماز اور جمعۃ المبارک جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور یہ مسجد اب بھی بارونق و آباد ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ نومبر ۲۰۱۶ء

مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا پیغام

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے بارے میں گفتگو کے مختلف پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ مثلاً ان کا قبول اسلام کیسے ہوا؟ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں چیانوالی کے سکھ گھرانے کے ایک نوجوان نے اسلام قبول کیا تو اس کے اسباب کیا تھے اور وہ کن حالات و مراحل سے گزر کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بوٹا سنگھ نامی نوجوان جب مسلمان ہوا تو سیالکوٹ سے جام پور اور وہاں سے بھرچونڈی شریف سندھ تک کے سفر کی داستان بھی توجہ کی مستحق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۶ء

ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں

اب جب ملک کے عوام سڑکوں پر آئے ہیں تو حکمرانوں نے زبان بدل لی ہے کہ اگر پھانسی سے بڑی کوئی سزا ہو تو ہم گستاخ رسولؐ کو وہ سزا دینے کے لیے بھی تیار ہیں، جبکہ صدر محترم کا ارشاد ہے کہ اس قانون میں ترمیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کی یہ قلابازیاں کوئی نئی بات نہیں ہے، اس کا مظاہرہ اس سے قبل بھی کئی مواقع پر ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پالیسیوں کی بنیاد لوگوں کے خوف پر ہے، باہر کے لوگوں کا خوف بڑھ جائے تو رخ ادھر ہو جاتا ہے اور اندر کے لوگوں کا خوف پریشان کرنے لگے تو پالیسیوں کا توازن اس طرف جھکنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۱۹۹۴ء

مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت

حکومتی حلقوں اور اپوزیشن کی اس کشمکش سے قطع نظر بین الاقوامی پریس کا یہ تجزیہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرارداد کے لیے جو محنت ضروری تھی پاکستان کی وزارت خارجہ اس کا اہتمام نہیں کر سکی حتیٰ کہ قرارداد کی حمایت میں مسلم ممالک سے روابط اور انہیں قائل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد کی منظوری کے امکانات مخدوش تھے اور پاکستان نے شکست سے بچنے کے لیے قرارداد کو واپس لینے یا موخر کرنے میں عافیت سمجھی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۴ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter