متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط

اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی دستور کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے چند روز تک آئینی ترامیم کا ایک نیا بل سامنے آنے والا ہے۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث امور کے بارے میں دینی نقطۂ نظر سے چند ضروری گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں تاکہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے تحفظ کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس اہم بحث میں شریک ہو سکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۴ء

مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حج اور او آئی سی

سعودی عرب میں آل سعود اور آل شیخ کی اصطلاحات عام طور پر دیکھنے سننے میں آتی ہیں۔ یہ دو خاندانوں کے نام ہیں۔ ایک حکمران خاندان ہے جو آل سعود کہلاتا ہے جبکہ دوسرا الشیخ محمد بن عبد الوہاب کا خاندان ہے جو آل شیخ کہلاتا ہے۔ سعودی مملکت کے قیام کے وقت سے ان دو خاندانوں میں شراکت اقتدار اور تعاون کا یہ معاہدہ چلا آرہا ہے کہ مذہبی اور عدالتی امور میں آل شیخ کی بالادستی ہے اور ان کے فیصلوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے جبکہ سیاسی و معاشی اور دیگر اجتماعی معاملات آل سعود کے کنٹرول میں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مارچ ۲۰۰۲ء

سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل

جہاں تک نظام کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کا تعلق ہے ہم اس صلاحیت سے محروم نہیں ہیں، ہم تو ایک فون کال پر پورے سسٹم میں ’’یو ٹرن‘‘ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر اسے نباہنے اور بھگتنے کا حوصلہ بھی ہمارے اندر موجود ہے۔ اس لیے بات سسٹم کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور اس تبدیلی کے نقصانات برداشت کرنے کے حوصلہ کی نہیں ہے بلکہ اصل بات کچھ اور ہے۔ جب تک ہم اس بات کا پوری طرح ادراک کر کے اسے گرفت میں لانے کی کوشش نہیں کریں گے نو آبادیاتی استحصالی نظام کے ’’کولہو‘‘ کے گرد اسی طرح چکر کاٹتے رہیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جون ۲۰۰۲ء

سودی نظام اور سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ نے ہر قسم کے سود اور سودی کاروبار کو قرآن و سنت سے متصادم اور غیر اسلامی قرار دے کر فیصلہ دے دیا ہے کہ سود اور سودی کاروبار کے بارے میں تمام مروجہ قوانین 31 مارچ 2000ء کو خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ جسٹس خلیل الرحمان خان، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس وجیہہ الدین اور جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی پر مشتمل ایپلیٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف متعلقہ فریقوں کی اپیلوں کی طویل سماعت کے بعد یہ تاریخی فیصلہ صادر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جنوری ۲۰۰۰ء

اسلام میں شخصی اور تجارتی سود دونوں حرام ہیں

حکومتی حلقے موجودہ مالیاتی نظام کے تسلسل کو ہر حال میں باقی رکھنا چاہتے ہیں اور سودی قوانین کو اسلامی قوانین میں تبدیل کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہیں۔ اس کی غمازی اٹارنی جنرل آف پاکستان کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم ایسے علماء تلاش کر رہے ہیں جو سود کا شرعی طور پر جواز پیش کر سکیں۔ اس لیے اس سلسلہ میں اب تک ہونے والے اقدامات کی روشنی میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حکومت عدالت عظمیٰ سے اس فیصلہ پر عملدرآمد کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرانے یا کم از کم مزید مہلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جون ۲۰۰۲ء

مسئلہ کشمیر : عالمی سازشیں، متحرک گروہ اور قابل قبول حل

البتہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں سازش، مفادات اور خیر خواہی کے عوامل میں فرق معلوم کرنے کے لیے ہمیں کوئی نہ کوئی حد فاصل اور اصول ضرور قائم کر لینا چاہیے اور میرے خیال میں اس سلسلہ میں دو نکتے کسوٹی کا کام دے سکتے ہیں اور انہیں بہرحال پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پہلا یہ کہ جموں و کشمیر کی وحدت کا برقرار رہنا اس خطہ کے عوام کا تاریخی حق ہے، اس لیے جو فارمولا یا کوشش کشمیر کی وحدت کو ختم کرنے اور اس خطہ جنت نظیر کو تقسیم کرنے کے حوالہ سے ہو میرے نزدیک وہ کشمیری عوام کے خلاف سازش ہے اور ایسی ہر کوشش کو مسترد کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جون ۲۰۰۰ء

اختلافات کا دائرہ اور اہلِ علم و دانش کا اسلوب

راجہ صاحب کے ساتھ اس گفتگو میں بنیادی طور پر دو نکات زیر بحث ہیں۔ ایک ’’مذہبی کج بحثی‘‘ کے حوالہ سے کہ راجہ صاحب کو شکایت ہے کہ مذہبی لوگوں میں برداشت اور دوسرے فریق کی رائے کے احترام کا مادہ کم ہوتا ہے جس سے مذہبی جھگڑے جنم لیتے ہیں اور مذہبی بحث و مباحثہ افہام و تفہیم کے ماحول کا باعث بننے کی بجائے تنازعات کی شدت میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ مجھے راجہ صاحب کی رائے سے اتفاق ہے لیکن ایک استثناء کے ساتھ کہ سب اہل دین اور اصحاب علم کے بارے میں یہ تاثر قائم کر لینا درست نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مئی ۲۰۰۰ء

کیا شہدائے بالاکوٹ کا جہاد صرف سکھوں کے خلاف تھا؟

محترم راجہ انور صاحب نے تحریک آزادی، مجاہدین اور سید احمد شہیدؒ کے حوالہ سے پھر قلم اٹھایا ہے اور مختلف پہلوؤں پر اپنی معلومات اور تاثرات و خیالات کو قارئین کے سامنے رکھا ہے۔ راجہ صاحب کو ہم صاحب قلم، صاحب مطالعہ اور صاحب رائے دانشور سمجھتے ہیں اور انہیں تاریخی واقعات کا جائزہ لینے اور ان کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن کسی واقعہ یا تحریک کے بارے میں ایسا تاثر دینا کہ اس سے اس واقعہ یا تاریخ کا مجموعی تناظر ہی الٹ دیا جائے، تحقیق اور تجزیہ نگاری کے مسلمہ اسلوب اور معیار سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جولائی ۲۰۰۰ء

مغربی فلسفہ کی یلغار اور دینی صحافت کی ذمہ داریاں

برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر برطانوی تسلط کے خلاف جنگ آزادی میں مسلمانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور جنگ آزادی کے آخری مراحل میں اسلامی فلسفہ حیات کی حکمرانی کے لیے پاکستان کے نام سے الگ ملک کا مطالبہ کر کے تقسیم ہند کی راہ ہموار کی، اس طرح دنیا کے نقشہ پر پاکستان کا وجود نمودار ہوگیا۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد اس وطن عزیز میں اسلامی فلسفہ حیات کی حکمرانی قائم کرنے کے بجائے مغربی فلسفہ کو ہی منزل قرار دے لیا گیا اور ملک میں مغربی جمہوریت اور سولائزیشن کی حکمرانی یا قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے ایک طویل کشکش کا آغاز ہوگیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۴ء

قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے

قیام پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہوگا یا سیکولر؟ جن لوگوں نے پاکستان کی تحریک میں مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کے قیام، جداگانہ مسلم تہذیب، دو قومی نظریہ، اسلامی احکام و قوانین پر مبنی اسلامی سوسائٹی کی تشکیل، اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ کے وعدوں و نعروں کی فضا میں ایک نئے اور الگ ملک کے شہری کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا، ان کا تقاضہ و مطالبہ تھا کہ ملک کا دستور اسلامی ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ فروری ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter