حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی رخصت ہوئے

والد گرامیؒ عمر بھر دینی و قومی تحریکات میں حصہ لیتے رہے، تحریک آزادی میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا، 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں کم و بیش دس ماہ اور 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ایک ماہ تک جیل میں رہے۔ طویل عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے امیر رہے اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔ وہ اہل سنت کے دیوبندی مکتب فکر کے علمی ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے مسلکی اختلافات کے حوالہ سے مختلف موضوعات پر پچاس سے زیادہ ضخیم کتابیں لکھی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مئی ۲۰۰۹ء

دین اور دینی تعلق کی برکات

گزشتہ ماہ مجھے تقریباً تیرہ سال کے بعد امریکہ جانے کا موقع ملا۔ مئی کے دوران دو ہفتے امریکہ رہا اور واپسی پر تین چار دن برطانیہ میں گزار کر مئی کے آخر میں وطن واپس آگیا۔ اس سے قبل 1987ء سے 1990ء تک چار پانچ بار امریکہ جا چکا ہوں۔ اس دوران میں نے کم و بیش درجن بھر امریکی شہروں میں مختلف اجتماعات میں شرکت کی اور متعدد امریکی اداروں میں جانے کا موقع بھی ملا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر بھی دیکھا بلکہ اس کی ایک سو ساتویں منزل پر واقع سیر گاہ سے نیویارک کا نظارہ کرنے کے علاوہ عصر کی نماز بھی وہیں جماعت کے ساتھ ادا کی جسے دیکھنے کے لیے ایک ہجوم ہمارے گرد جمع ہوگیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ و ۱۵ جون ۲۰۰۳ء

خان عبد الولی خان مرحوم

مجھے خان عبد الولی خان مرحوم کے ساتھ زیادہ ملاقاتوں کا موقع نہیں ملا لیکن میں ان کے مداحوں میں سے ہوں۔ بہت سے معاملات میں ان سے اختلاف بھی رہا اور رائے و موقف کی حد تک آج بھی وہ اختلاف قائم ہے، لیکن ان کی وضعداری اور اپنی بات پر قائم رہنے کی روایت میرے نزدیک ہمیشہ قابل تعریف رہی ہے۔ انہوں نے اپنے بعض تحفظات کے باوجود ہمیشہ ملکی استحکام اور سالمیت کی بات کی اور ایک لبرل بلکہ سیکولر سیاستدان ہونے کے باوجود دستور میں اسلامی دفعات، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، اور دیگر بہت سے دینی معاملات میں دینی جماعتوں کا ساتھ دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جنوری ۲۰۰۶ء

پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار

گزشتہ دنوں ملک کے معروف قانون دان جناب عابد حسن منٹو نے ایک قومی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اجتہاد کے لیے مولوی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج کے دور میں اجتہاد کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ جبکہ اس سے کچھ دن بعد تنظیم اسلامی پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے ان کا یہ ارشاد سامنے آیا ہے کہ اجتہاد کا کام کلیتاً پارلیمنٹ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ یوں یہ بحث ایک بار پھر قومی اخبارات میں شروع ہوتی نظر آرہی ہے کہ آج کے دور میں اجتہاد کا حق کس کو حاصل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مئی ۲۰۰۲ء

جارج واشنگٹن اور جارج ڈبلیو بش کے مذہبی رجحانات

امریکی دستور کی پہلی ترمیم میں مذہب کے ریاستی کردار کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا تھا اور اسی حوالے سے کانگریس کے بعض ارکان صدر بش کی طرف سے مسیحی مشنریوں کے لیے دی جانے والی مالی مراعات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ تاریخی حقیقت امریکی کانگریس کا منہ چڑا رہی ہے کہ امریکہ کے صدر نے یہ کہہ کرشراب کو ترک نہیں کیا کہ امریکی کانگریس نے ایک موقع پر شراب پر پابندی عائد کر دی تھی بلکہ انہوں نے کہا کہ مذہبی رجحانات کی وجہ سے ان کے دل کی کیفیت بدلی ہے اور انہوں نے شراب نوشی ترک کر دی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جنوری ۲۰۰۴ء

پسپائی اور شکست ، مسلمانوں کا مقدر کیوں؟

حرم کعبہ کے امام محترم الشیخ عبد الرحمن السدیس نے ایک انٹرویو میں عراق کی صورتحال کے حوالے سے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شکست سے مایوس نہ ہوں بلکہ اس کے اسباب کا جائزہ لیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں امام محترم کے اس ارشاد سے مکمل اتفاق ہے کیونکہ شکست اور ناکامی سے مایوس ہو کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا زندہ قوموں کا شعار نہیں۔ زندگی کی حرارت رکھنے والی قومیں اپنی ناکامی اور شکست کے اسباب کا جائزہ لیتی ہیں اور ان کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کے لیے اپنی ترجیحات اور طرز عمل پر نظر ثانی کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء

دہشت گردی یا حریت پسندی؟

طالبان کو مغرب کے نظام و فلسفہ اور تہذیب کے لیے خطرہ سمجھ لیا گیا کیونکہ (١) خانہ جنگی سے نجات (٢) اسلامی قوانین کے ذریعے معاشرتی جرائم پر کنٹرول (٣) لاء اینڈ آرڈر کی مثالی صورت حال (٤) منشیات کا مکمل خاتمہ اور (٥) بیرونی قرضوں کے بغیر سادگی اور قناعت کے ساتھ نظام حکومت چلانے کی جو روش انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنا لی تھی اگر انہیں اس پر آٹھ دس سال تک چلنے کا موقع دیا جاتا تو دنیا کے سامنے فی الواقع ایک ایسی ریاست اور معاشرے کا نقشہ عملی طور پر آجاتا جس کے سامنے مغربی فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کا چراغ زیادہ دیر تک نہ جل سکتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ نومبر ۲۰۰۱ء

میاں اجمل قادری، سردار عبد القیوم اور اسرائیل

سردار محمد عبد القیوم خان صاحب سے ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ وہ لینے اور دینے کا پیمانہ ایک ہی رکھیں کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ اگر فلسطین میں طاقت کے زور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا گیا تو کشمیر میں اس اصول کو لاگو ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ سردار صاحب کا یہ کہنا کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے، یہ بات اگر کوئی سیکولر لیڈر یا دانشور کہتا تو ہمیں کوئی اشکال نہ ہوتا لیکن سردار محمد عبد القیوم خان کی زبان سے یہ جملہ سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون کا مسلسل ورد کرنے کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جولائی ۲۰۰۳ء

مغرب کی بالادستی اور حضرت عمرو بن العاصؓ

مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشیؓ بیٹھے ہوئے تھے جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت سے پہلے رومی لوگوں میں کثرت سے پھیل جائیں گے۔ روم اس دور میں عیسائی سلطنت کا پایۂ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے عیسائی حکمران مراد ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہؐ سے سنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جولائی ۱۹۹۷ء

’’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘‘

قائد اعظمؒ کے ان ارشادات اور ان کے دیگر درجنوں فرمودات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں قانونی نظام اور قوانین کے حوالے سے کس قسم کی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ اسلام کے معاشی اور معاشرتی قوانین کو بروئے کار لانے کے متمنی تھے اور مغرب کے نظام معیشت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق ملک میں ایک نئے معاشی نظام اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل چاہتے تھے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ’’انڈیا ایکٹ‘‘ سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter