دینی مدارس ۔ پس منظر اور موجودہ کردار

جب تک ریاستی نظام معاشرہ میں دینی تعلیمات کے فروغ، مساجد کے لیے ائمہ کی فراہمی، دینی رہنمائی کے لیے علماء کی تیاری، اور قرآن و سنت کی تعلیم کے لیے اساتذہ مہیا کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا اور اس کے لیے قابل قبول عملی نظام پیش نہیں کرتا اس وقت تک ان مدارس کے قیام و وجود کی ضرورت بہرحال باقی رہے گی۔ ورنہ وہی خلاء پیدا ہو جائے گا جس کو پر کرنے کے لیے مدارس قائم کیے گئے تھے۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لیے نہ صرف ان مدارس کا وجود ضروری ہے بلکہ ان کی اس مالیاتی خودمختاری، انتظامی آزادی، اور نصابی تحفظات کا برقرار رکھنا بھی ناگزیر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ جولائی ۲۰۰۲ء

شادی، سوشل کنٹریکٹ یا سنت نبویؐ

مغرب نے جب نکاح کو مذہبی تقدس اور تحفظ سے الگ کر کے محض ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ قرار دیا تو اس وقت اسے نتائج کا اندازہ نہ ہو سکا۔ آج جب یہ سوشل کنٹریکٹ یا برابری کا معاہدہ مغرب کو خاندانی زندگی کے تصور اور رشتوں کے تقدس سے کلی طور پر محروم کر چکا ہے تو وہی مغرب اب متبادل راہوں کی تلاش میں ہے۔ گزشتہ دنوں خبر رساں ایجنسی رائٹر نے میکسیکو کے بارے میں ایک خبر دی ہے کہ وہاں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نکاح کے بندھن کو مضبوط کرنے کے لیے اب کئی جوڑے ’’قانونی معاہدوں‘‘ کا سہارا لے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جولائی ۱۹۹۶ء

بیجینگ کی خواتین عالمی کانفرنس

ایک آدھ کی جزوی استثناء کے ساتھ عالم اسلام کے تمام ممالک پر ابھی تک دورِ غلامی کے اثرات کا غلبہ ہے اور عالمی استعمار کی مداخلت و سازش کی وجہ سے مسلم ممالک کا معاشرتی نظام اسلامی اصولوں پر استوار نہیں ہو سکا۔ چنانچہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی معاشرہ کا وہ مثالی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جسے بطور نمونہ پیش کیا جا سکے۔ اس لیے مغربی میڈیا کار اس بات میں آسانی محسوس کر رہے ہیں کہ مسلم ممالک کے موجودہ معاشرتی ڈھانچوں کو اسلام کا نمائندہ قرار دے کر ان تمام نا انصافیوں اور حق تلفیوں کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیں جو ان ممالک میں روا رکھی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ ستمبر ۱۹۹۵ء

دفاعی پالیسی ۔ قرآنی احکام کی روشنی میں

سی ٹی بی ٹی پر پاکستان اور بھارت دونوں اب تک دستخط کرنے سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں اور پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ جب تک بھارت اس پر دستخط نہ کردے پاکستان دستخط نہیں کرے گا کیونکہ یہ علاقہ میں فوجی قوت کے توازن کا مسئلہ ہے جس سے صرف نظر کرنا پاکستان کی سالمیت کے منافی ہوگا۔ مگر اب جبکہ بھارت دستخط سے انکار پر بدستور ڈٹا ہوا ہے، حکومت پاکستان نے اس سمجھوتے پر یکطرفہ طور پر دستخط کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جس پر قومی حلقوں میں بجا طور پر تشویش و اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۱۹۹۶ء

پاکستان کا نظامِ سیاست: ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘

جنرل پرویز مشرف کے سیاسی فارمولے، اصلاحات، قوم سے خطاب، اور اقدامات میں کوئی ایسی نئی بات نظر نہیں آرہی جو اس سے قبل غلام محمد، ایوب خان، اور ضیاء الحق کے فارمولوں میں شامل نہ رہی ہو۔ صرف نیشنل سکیورٹی کونسل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ نیا سیاسی اقدام ہے، لیکن جب بات طاقت اور صرف طاقت کی بالادستی کے حوالہ سے ہو رہی ہے اور ہر معاملہ میں طاقت ہی کو حرف آخر قرار دیا جا رہا ہے تو قومی سلامتی کونسل کے قیام سے بھی صورتحال میں کوئی فرق رونما نہیں ہوگا۔ یعنی جس کے ہاتھ میں طاقت ہوگی سلامتی کونسل بھی اسی کے ہاتھ میں ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جولائی ۲۰۰۲ء

قادیانی وزیر اور سپریم کورٹ آف پاکستان

پاکستان بننے کے بعد ملک کی دینی جماعتوں نے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کو اپنا مطالبہ بنا لیا کہ قادیانیوں کو دستوری طور پر مسلمانوں سے الگ اور غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس مطالبہ کے لیے 1953ء کی خون آشام تحریک چلی جس میں ہزاروں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، پھر ایوب خان مرحوم کے دور میں ایک بار پھر تحریک ابھری مگر کوئی عملی نتیجہ برآمد نہ ہوا، اور پھر 1974ء میں عوامی تحریک کے نتیجے میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ دسمبر ۱۹۹۶ء

حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ

خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ بھی ہم سے رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھے، شوگر کے ساتھ ساتھ دل اور دمہ کی تکلیف بھی تھی اور کم و بیش 70 برس عمر پا کر وہ دارِفانی سے رحلت کر گئے۔ ان کا تعلق ہزارہ کے علاقہ ہری پور سے تھا اور انہوں نے اس دور میں لاہور میں خطابت کا آغاز کیا جب شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ حیات تھے اور مولانا اجمل خان کو ان کی بھرپور شفقت اور رہنمائی میسر تھی۔ مولانا محمد اجمل خان کا شمار اپنے دور کے بڑے خطیبوں میں ہوتا تھا اور انہیں خطیب اسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جون ۲۰۰۲ء

نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بہت سے مسلم ممالک یورپی استعمار کے شکنجے سے آزاد ہوئے، ایشیا اور افریقہ کے ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کی گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی تو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ ہم واقعی آزادی سے ہمکنار ہو رہے ہیں، اور اب ہم استعماری قوتوں کے دائرہ اثر و نفوذ سے نجات حاصل کر کے اپنی مرضی کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں گے۔ لیکن ہماری یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہونا شروع ہوگئی اور کم و بیش نصف صدی کے عرصہ میں ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھ آزادی کے نام پر دھوکہ ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۲۰۰۳ء

برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات

اعلیٰ انسانی اقدار کو رائج کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی ضرورت و جواز پر اسلام اور مغرب کے درمیان کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جو اقدار و روایات انسانی سوسائٹی کے لیے مفید ہوں اور اسے فلاح و نجات کی طرف لے جاتی ہوں ان کے لیے طاقت کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ حسب موقع ضروری ہو جاتا ہے۔ البتہ اعلیٰ انسانی اقدار کے تعین میں اختلاف ہے ۔اسلام کے نزدیک اعلیٰ انسانی اقدار کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے، جبکہ مغربی فلسفہ و فکر کے نزدیک انسانی سوسائٹی کی اجتماعی عقل و خواہش کی بنیاد پر اعلیٰ انسانی اقدار تشکیل پاتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۲۰۰۶ء

وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے

ممکن ہے فاضل عدالت کو یا ان کے سامنے دلائل پیش کرنے والے فاضل وکیل کو حضرت امام مالکؒ کے اس قول سے دھوکہ ہوا ہو۔ لیکن انہوں نے گواہوں کے ضروری نہ ہونے کے بارے میں تو حضرت امام مالکؒ کا قول دیکھ لیا مگر نکاح کے حوالہ سے حضرت امام مالکؒ کے نزدیک جو شرط ضروری ہے اس کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوئی، حالانکہ وہ شرط دو گواہوں کی موجودگی سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ نکاح کے انعقاد کے لیے گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے مگر نکاح کی تشہیر اور اس کا اعلان شرط ہے جس کے بغیر ان کے نزدیک نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جنوری ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter