کابل میں ’’اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کا قیام

اپنے میزبان کے ساتھ کابل کے ایک روڈ پر گزرتے ہوئے ’’دعلومو اکادمی‘‘ کے بورڈ پر نظر پڑی تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ علوم کی تحقیق و ریسرچ کا ادارہ ہے جو طالبان کی حکومت کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی اور میں نے اپنے میزبان سے عرض کیا کہ یہ تو میرے اپنے ذوق اور شعبہ کا کام ہے جس کا کابل کے حوالہ سے ایک عرصہ سے خواب دیکھ رہا ہوں۔ اس لیے اس ادارہ کو ضرور دیکھنا ہے اور اس کے ذمہ دار حضرات سے بات کرنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اگست ۲۰۰۰ء

افغان نائب صدر ملا محمد حسن سے ملاقات

افغان نائب صدر نے کہا کہ ہمارا یہ عزم اور فیصلہ ہے کہ افغانستان کی حدود میں اسلام اور صرف اسلام کا نفاذ ہوگا لیکن ہم دوسرے کسی ملک کے معاملہ میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہماری خواہش ضرور ہے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک اپنے اپنے ممالک میں اسلام نافذ کریں اور اگر کوئی مسلم ملک اس مقصد کے لیے آگے بڑھتا ہے تو ہم اس سے بھی تعاون کریں گے۔ لیکن اپنی طرف سے کسی ملک پر انقلاب مسلط کرنے اور مسلم ملکوں کے معاملات میں مداخلت کا کوئی پروگرام ہم نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی کو ایسا خطرہ محسوس کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اگست ۲۰۰۰ء

دو دن کابل کی آزاد فضا میں

اب مجھے تیسری بار کابل جانے اور دو روز قیام کرنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اگرچہ مسائل و مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے مگر طالبان اہلکاروں نے جس ہمت اور محنت کے ساتھ اپنی ناتجربہ کاری پر قابو پایا ہے اور ایثار و استقامت کے ساتھ معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اس کے اثرات کابل میں نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ کابل کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں، بازاروں کی چہل پہل میں اضافہ ہوا ہے، چھ بجے سرشام کابل کے راستے بند ہو جانے کی بجائے اس کی مدت رات دس بجے تک بڑھا دی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ اگست ۲۰۰۰ء

ملائیت اور تھیاکریسی

یہ بزرگ اگر تھیاکریسی کی بنیاد رکھنے والے ہوتے تو آسانی کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ ہم خدا کے نمائندے ہیں اور ہماری بات حرف آخر ہے، اس لیے ہمارے کسی فیصلہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن انہوں نے قرآن و سنت کو اپنی رائے کے تابع کرنے کی بجائے خود کو اصولوں کے سامنے کھڑا کر کے یہ بتا دیا کہ اسلام میں تھیاکریسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ روایت اور طریق کار صرف حضرات خلفاء راشدینؓ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ آج بھی اسلام کے اصول یہی ہیں اور ان کی پابندی سے کوئی طبقہ یا شخصیت مستثنیٰ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جولائی ۲۰۰۰ء

جدید تعلیم یافتہ دانش وروں کا المیہ

ہمارے جدید تعلیم یافتہ دانشوروں کی ایک مجبوری یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات و احکام اور اسلامی تاریخ تک ان کی رسائی براہ راست نہیں بلکہ انگلش لٹریچر کے ذریعہ ہے۔ اور انگلش لٹریچر بھی وہ جو مسیحی اور یہودی مستشرقین کے گروہ نے اپنے مخصوص ذہنی ماحول اور تاریخی پس منظر میں پیش کیا ہے۔ مستشرقین کی تحقیقی کاوشوں اور جانگسل محنت سے انکار نہیں مگر اس کے اعتراف کے باوجود ان کے پیش کردہ لٹریچر کو ان کے ذہنی رجحانات اور فکری پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جولائی ۲۰۰۰ء

قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟

ڈاکٹر خٹک صاحب کے مراسلہ سے اندازہ ہوا کہ عام طور پر پائی جانے والی اس غلط فہمی کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ضروری ہے کہ قیام پاکستان کی پہلی اینٹ سر سید احمد خان مرحوم نے رکھی تھی۔ یہ بات اتنے تواتر کے ساتھ کہی جانے لگی ہے بلکہ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے کہ اس سے اختلاف کو ابتدا میں بہت عجیب سمجھا جائے گا مگر تاریخی تناظر پر منصفانہ نظر ڈالی جائے تو اس کی حقیقت ایک مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس حوالہ سے سب سے پہلے ہمیں اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جولائی ۲۰۰۰ء

معاشرتی حقوق اور اسلامی تعلیمات

اس واقعہ کے راوی حضرت سہل بن ساعدؓ کہتے ہیں کہ یہ جواب سن کر آنحضرتؐ نے وہ پیالہ اس بچے کے ہاتھ میں اس طرح تھمایا کہ اس میں ناگواری کے اثرات محسوس ہو رہے تھے۔اس سے اندازہ کر لیجیے کہ جناب نبی اکرمؐ کی نظر میں باہمی حقوق کی کیا اہمیت تھی کہ خود حضورؐ وہ پیالہ دوسری طرف دینا چاہتے تھے لیکن حق والا اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوا جس پر آپؐ کو ناگواری ہوئی مگر اس کے باوجود پیالہ اسی کے ہاتھ میں دیا جس کا حق تھا۔ ایسا کر کے جناب رسول اللہؐ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ باہمی حقوق کی ادائیگی کا کس درجہ اہتمام ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جولائی ۲۰۰۰ء

’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں‘‘

محترمہ سرفراز اقبال صاحبہ کو اس بات پر بہت کوفت ہوئی ہے کہ وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے اپنے حالیہ متنازعہ انٹرویو کے بارے میں مولویوں کی بیان بازی سے متاثر ہو کر صفائی دینے کی طرز اختیار کی ہے۔ محترمہ کا خیال ہے کہ مولوی کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے اور حکمرانوں کو جو بات ان کی سمجھ میں آئے کر گزرنی چاہیے۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے، بلکہ ارشادات کا عنوان ہے کہ ’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘ اس لیے کسی کو اسلام کے غم میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جون ۲۰۰۰ء

خلافتِ عثمانیہ اور مولانا احمد رضا خانؒ

مجھے عباسی صاحب موصوف کے اس ارشاد سے سو فیصد اتفاق ہے کہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ سلطنت اور خلافت میں فرق کرتے تھے اور ترکی کے عثمانی حکمرانوں کو مسلم سلاطین کے طور پر تسلیم کرتے تھے مگر انہیں خلیفہ اور امیر المومنین نہیں سمجھتے تھے۔ اور مولانا احمد رضا خانؒ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرنے والے شریف مکہ حسین بن علی کی حمایت کی تھی۔ مگر عباسی صاحب کی اس بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے کہ خود عثمانی حکمرانوں نے بھی خلافت کا دعویٰ نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جون ۲۰۰۰ء

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کا سب سے بڑا امتیاز و اختصاص یہ تھا کہ وہ قومی صحافت کے اتنے بڑے نقار خانے میں اہل حق کی نمائندگی کرنے والی ایک مضبوط اور توانا آواز کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا یہی امتیاز مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ جیسے عظیم محدث کے نزدیک انہیں ماموں کانجن سے اٹھا کر کراچی میں لا بٹھانے کا باعث بنا تھا۔ اور یہی امتیاز میرے جیسے کارکن کے لیے ان کے مرثیہ کا سب سے بڑا عنوان ہے۔ وہ آج کی صحافتی زبان کو سمجھتے تھے، اس کی کاٹ کو محسوس کرتے تھے، اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جون ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter