نبی اکرمؐ کا خطبہ حجۃ الوداع

خطبۂ حجۃ الوداع جسے کہتے ہیں، یہ حضورؐ کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے۔ ان میں دو تو بڑے خطبے ہیں۔ ایک خطبہ حضورؐ نے عرفات میں ارشاد فرمایا، یہی خطبہ سنتِ رسولؐ کے طور پر اب بھی ۹ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔ دوسرا خطبہ وہ ہے جو حضورؐ نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ جبکہ امام قسطلانیؒ نے ’’المواہب اللدنیۃ‘‘ میں حضرت امام شافعیؒ کے حوالہ سے چار خطبات کا ذکر کیا ہے۔ اس موقع پر صحابہ کرامؓ کثیر تعداد میں تھے، انہوں نے نبی کریمؐ سے خطبات سنے، جس کو جو بات یاد رہی اس نے وہ آگے نقل کر دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ ستمبر ۲۰۰۷ء

ملا اختر منصور کی شہادت کے بعد!

افغان طالبان افغانستان کی مکمل خودمختاری کے ساتھ جہاد افغانستان کے نظریاتی اہداف کی تکمیل کے عزم پر بدستور قائم ہیں۔ یہ دونوں باتیں نئے عالمی امریکی ایجنڈے سے مطابقت نہیں رکھتیں کیونکہ عالمی حلقوں میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار نظریاتی اسلامی ریاست نہ صرف دنیا میں استعماری عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں خودمختاری اور اسلامیت کے جذبات کے فروغ کا ذریعہ بھی ثابت ہوگی۔ اسی لیے عسکری کاروائی کے ذریعہ افغان طالبان کی حکومت کو ختم کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مئی ۲۰۱۶ء

دارالعلوم دیوبند اور جنوبی ایشیا کا مسلم معاشرہ

دارالعلوم دیوبند کے قیام کی بنیادی غرض اس تعلیمی خلاء کو پر کرنا تھا جو درس نظامی کے ہزاروں مدارس کی یکلخت بندش سے پیدا ہوگیا تھا۔ اور یہ شدید خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ عوام کی ضرورت کے مطابق حافظ، قاری، امام، خطیب، مفتی اور مدرس فراہم نہ ہونے کی صورت میں جنوبی ایشیا کی لاکھوں مساجد ویران ہو جائیں گی۔ اور اس کے نتیجے میں نئی نسل تک قرآن و سنت کی تعلیم پہنچانے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہے گا اور اسلامی تہذب و ثقافت کے آثار اس خطہ سے کچھ عرصہ میں ہی ختم ہو کر رہ جائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۲۰۰۱ء

غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ

ایک صاحب علم دوست نے سوال کیا کہ علمی تفردات میں مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے پیچھے نہیں ہیں۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے کہ ان کے تفردات علماء کے حلقہ میں اس شدت کے ساتھ موضوع بحث نہیں بنے جس شدت کے ساتھ مولانا مودودیؒ کے افکار کو نشانہ بنایا گیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا سندھیؒ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے علمی تفردات پر ان کے شاگردوں اور معتقدین نے دفاع اور ہر حال میں انہیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۲۰۰۱ء

چند لمحے احمد شاہ باباؒ کے مزار پر

احمد شاہ ابدالیؒ کو افغان عوام محبت و عقیدت سے احمد شاہ باباؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی عقیدت سے اس عظیم افغان فرمانروا کی قبر پر حاضری بھی دیتے ہیں جس نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں قندھار میں افغان سلطنت کی بنیاد رکھی اور صرف ربع صدی کے عرصہ میں اس کی سرحدیں دریائے آمو سے دریائے سندھ تک اور تبت سے خراسان تک وسیع کر کے 51 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔ احمد شاہ ابدالیؒ 1724ء میں ملتان میں پیدا ہوا۔ افغانستان کے ابدالی قبیلہ کے پوپلزئی خاندان کی سدوزئی شاخ سے اس کا تعلق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ مارچ ۲۰۰۱ء

افغانستان میں سرمایہ کاری کی اہمیت اور امکانات

ایک معاملہ میں میرے سوال پر افغان قونصل جنرل ملا رحمت اللہ کاکازادہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ مئی کے اوائل میں کراچی میں افغان مصنوعات کی نمائش کا اہتمام کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں مختلف حلقوں سے رابطے قائم کر رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں افغان مصنوعات کی نمائش ہو جبکہ پاکستانی مصنوعات کا افغانستان میں عمومی تعارف کرانے کے لیے کابل، قندھار اور دیگر شہروں میں ان کی نمائش کا اہتمام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے طالبان حکومت ہر ممکن سہولیات مہیا کرنے کے لیے تیار ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ مارچ ۲۰۰۱ء

افغانستان پر پابندیوں کے عملی اثرات

پاکستانی تاجروں کا کہنا ہے کہ ایرانی تاجر اپنی اشیاء کو افغان مارکیٹ میں جس پرچون نرخ پر فروخت کر رہا ہے وہ ہماری کاسٹ سے بھی کم ہے اور اس صورتحال میں ہم ایرانی مال کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت اپنی پالیسیوں میں خودمختار ہے اس لیے وہ اپنے صنعتکاروں اور تاجروں کو نئی منڈیاں بنانے کے لیے ہر قسم کی سہولت دے سکتی ہے، جبکہ ہماری معیشت پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا کنٹرول ہے اس لیے ہماری حکومت چاہے بھی تو ہمیں وہ سہولتیں اور ٹیکسوں میں چھوٹ نہیں دے سکتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مارچ ۲۰۰۱ء

امیر المؤمنین ملا محمد عمر سے ملاقات

دور سے دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ شاید گھر کے اندر باری باری حضرات کو ملاقات کے لیے بلایا جا رہا ہے اور یہ حضرات اپنی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ لیکن جب قریب ہوئے تو دیکھا کہ ملا محمد عمر بھی انہی لوگوں کے ساتھ خالی زمین پر آلتی مالتی مارے بیٹھے ہیں اور ان سے گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں پہلے بھی دیکھ رکھا تھا اس لیے پہچان لیا لیکن مجھے مولانا درخواستی کو یہ بتانا پڑا کہ یہ صاحب جنہوں نے درمیان سے اٹھ کر ہمارے ساتھ معانقہ کیا ہے یہی طالبان حکومت کے سربراہ امیر المومنین ملا محمد عمر ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مارچ ۲۰۰۱ء

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

غامدی صاحب اور ان کے حلقہ سے مباحثہ و مکالمہ کے لیے مسائل و احکام سے پہلے ان کے اصول و مسلمات کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ امت کے اجماعی تعامل اور جمہور اہل علم کے مسلمات کو کراس کر کے اصول و مسلمات کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ وقت کا ضیاع اور بے جا تکلف ہونے کے ساتھ استشراق کے عنوان سے مغرب کی اس علمی و فکری تحریک کی آبیاری کا باعث بھی بنتی ہے جو وہ تین صدیوں سے اسلام کے ساتھ امت مسلمہ کے اجتماعی اور معاشرتی تعلق کو کمزور کرنے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷، ۸، ۹ فروری ۲۰۱۵ء

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف

جاوید غامدی صاحب کے ایک اور شاگرد جناب معز امجد نے روزنامہ پاکستان میں انہی امور پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا اور اسے غامدی صاحب کی زیرادارت شائع ہونے والے ماہنامہ اشراق لاہور میں بھی میرے مذکورہ بالا مضمون کے ساتھ شائع کیا گیا۔ زیر نظر مضمون میں معز امجد کے اس مضمون کی بعض باتوں پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں لیکن چونکہ سابقہ مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے بیشتر قارئین کے سامنے پوری بحث نہیں ہوگی اس لیے اس کا مختصر خلاصہ ساتھ پیش کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵، ۱۶، ۱۷ مارچ ۲۰۰۱ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter