مقالات و مضامین

قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟

قائم مقام وفاقی محتسب اعلیٰ جناب جسٹس شفیع الرحمان نے اپنے ایک حالیہ مقالہ میں موجودہ قانونی صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ ’’قوانین اور طریق کار ایماندار اور بے ایمان دونوں طرح کے افراد پر برابر وزن ڈالتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے ایمان افراد کو مدد ملتی ہے جبکہ ایماندار افراد کو کنارہ کشی کرنی پڑتی ہے یا مفاہمت کرنی پڑتی ہے یا پھر اس سارے عمل میں ایماندار فرد اپنی ایمان داری سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‘‘۔ (بحوالہ جنگ لاہور ۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۸۷ء) ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۱۹۸۸ء

والدہ ماجدہ کا انتقال

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی اہلیہ محترمہ اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی (راقم الحروف) کی والدہ مکرمہ کا انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کی عمر ساٹھ برس سے زائد تھی اور وہ کچھ عرصہ سے ذیابیطس او رہائی بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں۔ دو ہفتہ سے ان کی طبعیت زیادہ خراب تھی چنانچہ انہیں شیخ زاید ہسپتال لاہور میں داخل کرا دیا گیا مگر وہ تین چار روز بیہوش رہنے کے بعد وفات پا گئیں۔ ان کی نماز جنازہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ نے پڑھائی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اگست ۱۹۸۸ء

علامہ محمد اقبالؒ اور سردار محمد عبد القیوم خان

روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ڈاکٹر جاوید اقبال اور سردار محمد عبد القیوم خان کی ناروے کی تقاریر کے حوالے سے جس افسوسناک بحث کا آغاز کیا تھا اس کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور نوئے وقت اس بحث کو بلاوجہ طول دے کر اس مطالبہ پر اصرار کر رہا ہے کہ سردار محمد عبد القیوم خان اپنی ناروے کی تقریر میں علامہ محمد اقبالؒ کی مبینہ توہین پر معافی مانگیں۔ جبکہ سردار صاحب کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے علامہ محمد اقبالؒ کی توہین نہیں کی بلکہ علامہ اقبالؒ کے نام سے غلط نظریات اور گمراہ کن خیالات پیش کرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا ہے اور اس پر وہ کسی معذرت کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء

افغانستان کی تقسیم کے عالمی منصوبہ کا آغاز

افغان مجاہدین کی خون میں ڈوبی ہوئی چودہ سالہ طویل جدوجہد بالآخر رنگ لائی جس کے نتیجہ میں افغانستان کے عوام آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور وہاں پر ایک آزاد اسلامی (عبوری) حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے خلاف امریکہ، روس اور دیگر مغربی ممالک کی سازشیں بھی اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر دنیا بھر کی غیر مسلم استعماری طاقتیں خصوصاً امریکہ بہادر وہاں ایک آزاد اور خالص اسلامی حکومت کے قیام کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۱ء (غالباً) - جلد ۳۴ شمارہ ۲۰

افغانستان کی صورتحال اور ’’ہفتہ نامہ امید‘‘

گزشتہ روز مغرب کی نماز کے بعد دارالہدٰی (اسپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) میں مختصر درسِ حدیث دینے کے بعد سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کے ہاں کھانا کھانے کے لیے جا رہا تھا کہ میزبان نے ایک افغان سٹور کے پاس گاڑی روک لی اور کہا کہ روٹیاں یہاں سے لیتے ہیں ان کی روٹی بہت اچھی ہوتی ہے۔ مجھے اپنے ہاں کے افغانی تندور یاد آگئے کہ ہمارے ہاں بھی افغانیوں کی روٹی زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ میں بھی ساتھ اتر گیا کہ افغان سٹور دیکھ لوں۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک طرف ریک پر اخبار پڑا نظر آگیا اور میری نظر وہیں رک گئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ اگست ۲۰۰۹ء

کمیونزم نہیں اسلام

کمیونزم ایک انتہا پسندانہ اور منتقمانہ نظام کا نام ہے جو سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے مظالم کے ردعمل کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ محنت کشوں اور چھوٹے طبقوں کی مظلومیت اور بے بسی کو ابھارتے ہوئے اس نظام نے منتقمانہ جذبات اور افکار کو منظم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور یہ کھیل اسلامی ممالک اور پاکستان میں بھی کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان سمیت مسلم ممالک میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام اپنی تمام تر خرابیوں اور مظالم کے ساتھ آج بھی نافذ ہے اور اس ظالمانہ نظام نے انسانی معاشرت کو طبقات میں تقسیم کر کے انسان پر انسان کی خدائی اور بالادستی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۸۸ء ۔ جلد ۳۱ شمارہ ۱۹ و ۲۰

ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان

روزنامہ جنگ لاہور ۹ جون ۱۹۸۸ء میں صفحۂ اول پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ایم آر ڈی (موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی) کے راہنما مولانا فضل الرحمان نے کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم آر ڈی کے کنوینر مسٹر معراج محمد خان نے ایم آر ڈی کے پروگرام پر مشتمل جن ۲۰ نکات کا اعلان کیا ہے ان کے ساتھ ایک ۲۱ واں نکتہ بھی طے پایا تھا جو ان نکات سے حذف کر دیا گیا ہے اور وہ نکتہ اسلامی نظام کے بارے میں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۸۸ء

جامعہ فتحیہ لاہور میں ’’احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ کا پروگرام

بتایا جاتا ہے کہ 1857ء کے ہنگاموں کے بعد جب دارالعلوم دیوبند اور دیگر دینی مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا تو لاہور میں سب سے پہلے نیلا گنبد میں رحیم بخش مرحوم نامی تاجر کی مساعی سے ’’مدرسہ رحیمیہ‘‘ قائم ہوا تھا اور پھرا نجمن حنفیہ اور انجمن حمایت اسلام کے تحت مختلف مدارس کا آغاز ہوا۔ اسی دوران اچھرہ میں وہاں کے ایک مخیر بزرگ میاں امام الدینؒ (وفات 1906ء) نے اپنے لائق فرزند حافظ فتح محمدؒ کے لیے 1875ء میں ’’مدرسہ فتحیہ‘‘ قائم کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ مئی ۲۰۱۷ء

مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال

سودی نظام کے خاتمہ کی بحث ابھی تک جاری ہے اور وفاقی شرعی عدالت حالات کے مختلف ہونے کے بہانے سودی نظام کے خاتمہ کے مقدمہ کو غیر متعینہ عرصہ کے لیے ملتوی کر چکی ہے۔ مگر اس حوالہ سے اب سے ربع صدی قبل کی صورتحال میں اس وقت کے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب غلام اسحاق خان مرحوم کے نام ایک مکتوب ملاحظہ فرمائیے جو راقم الحروف نے انہیں ’’کھلے خط‘‘ کی صورت میں ارسال کیا تھا۔ یہ خط ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور 20 مارچ 1992ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مئی ۲۰۱۷ء

مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم

گزشتہ روز ہمیں ایک بڑے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مدرس مولانا زرنبی خان سالانہ امتحان کے بعد تعطیلات گزارنے کے لیے بچوں کو اپنے وطن چترال چھوڑنے کے لیے جا رہے تھے کہ لواری ٹاپ کے قریب وہ کوسٹر جس میں وہ سوار تھے گہری کھائی میں جا گری جس سے دیگر بہت سے مسافروں سمیت مولانا زرنبی خان بھی اپنے چھوٹے بھائی اور تین بچوں سمیت شہید ہوگئے جبکہ ان کی اہلیہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱ مئی ۲۰۱۷ء

امریکہ کا سفر

میں ایک بار پھر واشنگٹن (ڈی سی) میں ہوں اور یہ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران میرا امریکہ کا تیسرا سفر ہے۔ اس دفعہ میرا امریکہ آنے کا ارادہ نہیں تھا بلکہ دو ہفتے کی یہ تعطیلات برطانیہ میں گزارنے کا پروگرام تھا مگر تقدیر کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے اس لیے پروگرام اچانک تبدیل ہوا اور میں لندن کی بجائے واشنگٹن میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔ بہت سے دوستوں کو حیرت ہوتی ہے اور بعض دوست یہ دریافت بھی کر لیتے ہیں کہ یہ بار بار امریکہ کا آنا جانا آخر کیا ہے، تمہیں ویزہ کیسے مل گیا ہے، امریکہ میں داخل کیسے ہو جاتے ہو اور تمہارا خرچہ کو ن برداشت کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ جون ۲۰۰۴ء

بین الاقوامی علماء کانفرنس قاھرہ ۱۹۶۵ء سے مولانا مفتی محمودؒ کا خطاب

گزشتہ روز ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کی پرانی فائیلوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر قائد جمعیۃ علماء اسلام مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا ایک اہم خطاب نظر سے گزرا جو انہوں نے مئی ۱۹۶۵ء کے دوران قاہرہ میں ’’مجمع البحوث الاسلامیہ‘‘ کی سالانہ کانفرنس میں ارشا د فرمایا تھا۔ حکومت مصر کے زیراہتمام منعقد ہونے والی علماء اسلام کی اس بین الاقوامی کانفرنس میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اپریل ۲۰۱۷ء

اسلام اور رہبانیت

حضرت ابو امامہ الباہلیؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم کچھ صحابہؓ جناب نبی کریمؐ کے ساتھ کسی غزوہ پر جا رہے تھے، ہم میں سے ایک شخص نے راستہ میں ایک غار دیکھا جس میں پانی کا چشمہ تھا، اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر نبی اکرمؐ اجازت مرحمت فرما دیں تو میں اپنی باقی عمر اسی غار میں اللہ اللہ کرتے ہوئے گزار دوں۔ یہ سوچ کر حضورؐ سے مشورہ و اجازت لینے کی غرض سے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرتؐ نے اس کی خواہش سن کر فرمایا ’’میں یہودیت یا عیسائیت (کی طرح رہبانیت) کی تعلیم دینے کے لیے نہیں مبعوث ہوا۔ میں تو یکسوئی کا سیدھا راستہ لے کر آیا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جون ۱۹۷۵ء

سردار عبد القیوم خان کی صدارت سے برطرفی

آزاد کشمیر میں بالآخر وہ سب کچھ ہوگیا جس کی مدت سے توقع کی جا رہی تھی۔ سردار عبد القیوم کی برطرفی آزاد کشمیر کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کسی شخص کے لیے غیر متوقع نہیں تھی۔ سردار صاحب نے اگرچہ موجودہ حکومت کے ساتھ مفاہمت و معاونت کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی جو کشمیر کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر ان کے لیے ناگزیر بھی تھی لیکن اس کے باوجود سردار صاحب کے ساتھ پی پی پی کا نباہ مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ اس لیے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا ’’انا ولا غیری‘‘ کا عملی منشور اور سردار صاحب کا دینی مزاج اور حریت پسندی ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مئی ۱۹۷۵ء

معجزہ شق القمر

جناب رسول اللہؐ کے پاس مشرکوں کا ایک گروہ آیا جس میں ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد المطلب اور نضر بن حارث بھی تھے، انہوں نے آنحضرتؐ سے کہا کہ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو اپنی سچائی کے ثبوت میں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں، اس طرح کہ اس کا ایک ٹکڑا قبیس کی پہاڑی پر اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر ہو۔ نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے؟ کہنے لگے ہاں! وہ رات چودھویں تھی اور چاند آسمان پر پورے آب تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نا معلوم

کیا قادیانی مسئلہ حل ہو چکا ہے؟

جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سرگودھا کے جلسہ عام میں ارشاد فرمایا ہے کہ قادیانی مسئلہ حل ہو چکا ہے اور اس سلسلہ میں اب کچھ کرنا بھی باقی نہیں رہا۔ قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ نے ایک اخباری بیان میں اس دعویٰ کی تردید فرماتے ہوئے کہا ہے کہ اصولی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے سوا ابھی تک کوئی عملی کاروائی نہیں کی گئی اور حکومت اس مسئلہ میں مسلسل ٹال مٹول کر رہی ہے۔ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کے بعد سے اب تک کی صورتحال پر غور کیا جائے تو بھٹو صاحب کے اس بے جان دعوے کو جھٹلائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹۷۵ء (غالباً)

اسلام پر رحم کیجئے

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’چچا سام‘‘ ایک بار پھر اسلام اور سوشلزم کے نام سے پاکستانی قوم کی باہمی کشتی دیکھنے کا خواہشمند ہے کیونکہ پچھلی بار جمعیۃ علماء اسلام کے ارباب بصیرت نے کباب میں ہڈی ڈال دی تھی اور ان کی بروقت مداخلت کی وجہ سے اسلام اور سوشلزم کا دنگل دیکھنے کی خواہش چچا سام پوری نہیں کر سکا تھا۔ وہ دن بھی عجیب تھے، ایک طرف سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مفاد پرستوں کا طبقہ ’’اسلام پسندی‘‘ کا لیبل لگا کر اپنے مفادات اور اغراض کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ ستمبر ۱۹۷۵

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دورۂ گوجرانوالہ

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو ’’رابطہ عوام‘‘ مہم کے اختتام پر لاہور ڈویژن کے دورہ پر تشریف لائے تو گوجرانوالہ کی سرزمین کو درود مسعود کے شرف سے نوازا۔ وزیراعظم کی تشریف آوری سے ہفتہ عشرہ قبل ہی انتظامیہ کی نقل و حرکت کسی آندھی اور طوفان کی آمد کا پتہ دے رہی تھی۔ ضلع کی اہم شاہراہوں پر پولیس آفیسر بسوں کے کاغذات وصول کر کے انہیں وزیراعظم کی آمد پر دیہات سے عوام کو ڈھونڈنے کا فریضہ سونپ رہے تھے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس آفیسر شب و روز جلسہ عام کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۱۹۷۵ء

تحریک پاکستان کے بارے میں نیشنلسٹ علماء کا موقف

تحریک پاکستان کے بارے میں جمعیۃ علماء ہند، مجلس احرار اسلام اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کا موقف آج کل پھر صحافتی حلقوں میں زیر بحث ہے جنہیں ’’نیشنلسٹ مسلمانوں‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اس لیے سرکردہ نیشنلسٹ مسلم لیڈروں کے خیالات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر نیشنلسٹ مسلمانوں کا اصل موقف سامنے آسکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ نومبر ۱۹۷۵ء

جنوبی پنجاب کا سفر

ٹیکسلا کے جناب صلاح الدین فاروقی ہمارے پرانے ساتھی ہیں جن کے ساتھ کم و بیش نصف صدی سے نظریاتی اور تحریکی رفاقت چلی آرہی ہے۔ شروع ہی سے تحریکی پروگراموں کے اجتماعات کا ریکارڈ (آڈیو و تحریر کی صورت میں) محفوظ رکھنے کا ذوق رکھتے ہیں اور بہت سا قیمتی ذخیرہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمارے ایک اور ساتھی مولانا صالح محمد حضروی بھی اب سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو کر ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں، جو ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہفت روزہ خدام الدین کی ادارت میں مولانا سعید الرحمان علویؒ کے ساتھ شریک کار رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اپریل ۲۰۱۷ء

سودی نظام اور وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ

وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ دنوں سودی نظام کے بارے میں مقدمہ کی سماعت یہ کہہ کر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے کہ جب سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت حالات آج سے مختلف تھے، جبکہ آج کے حالات میں سود، ربوٰا اور انٹرسٹ کی کوئی متعینہ تعریف اور ان کے درمیان فرق واضح نہیں ہے اس لیے ان حالات میں مقدمہ کی سماعت کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ اس حوالہ سے ملک بھر میں اہل دین اور اہل علم کی طرف سے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان شریعت کونسل نے بھی گزشتہ روز راولپنڈی میں ایک مشاورت کا اہتمام کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ اپریل ۲۰۱۷ء

مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ

حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے نواسے اور جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا انیس الرحمان درخواستیؒ کو گزشتہ جمعہ کے روز کراچی میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم انتہائی شریف الطبع انسان اور عمدہ تعلیمی ذوق رکھنے والے مدرس عالم دین تھے، حضرت درخواستیؒ کے علوم و روایات کے امین تھے اور چند سال قبل انہوں نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر بھی کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۷ء

مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ

سپاہ صحابہؓ پاکستان کے سربراہ مولانا ضیاء الرحمان فاروقی گزشتہ روز لاہور سیشن کورٹ کے احاطہ میں بم کے خوفناک دھماکہ میں جام شہادت نوش کر گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ اپنے نائب مولانا اعظم طارق کے ہمراہ ایک مقدمہ کی پیشی کے سلسلہ میں سیشن کورٹ میں موجود تھے کہ اچانک بم کا دھماکہ ہوا جس میں مولانا ضیاء الرحمان فاروقی سمیت دو درجن سے زائد افراد جاں بحق جبکہ مولانا اعظم طارق سمیت ایک سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوگئے۔ مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ کا تعلق سمندری ضلع فیصل آباد سے تھا اور وہ مجلس احرار اسلام کے راہنما مولانا محمد علی جانبازؒ کے فرزند تھے ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۱۹۹۷ء

لیڈی ڈیانا

لیڈی ڈیانا اور ان کے ذاتی معالج کے ان تبصروں کی روشنی میں لیڈیا ڈیانا کی حادثاتی موت پر دنیا بھر میں رونما ہونے والے ردعمل کی تہہ تک پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے کہ لیڈی ڈیانا دراصل مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی سے جنم لینے والی ذہنی پریشانیوں اور نفسیاتی الجھنوں کی علامت بن گئی تھی اور اس نے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کی منزل حاصل کرنے کے لیے شاہی اقدار اور خاندان کی روایات سے بغاوت کا راستہ اختیار کر لیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۷ء

گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے

اخبار نویسی اور رپورٹنگ کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جائے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے نظریات و خیالات کو بلاکم و کاس عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن معلوم نہیں ہمارے ہاں اخبار نویسی کا معیار کیا سمجھ لیا گیا ہے کہ جو چیز مخصوص گروہی اغراض کے مطابق ہو اسے قومی پریس میں جگہ دے دی جاتی ہے اور جس چیز کو اخبار نویسوں کی گروہی اغراض گوارا نہ کرتی ہوں وہ خود کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو، ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء

غازی محمد انور پاشاؒ

روزنامہ جنگ لاہور ۵ اگست ۱۹۹۶ء کی خبر کے مطابق ترکی کے ایک سابق وزیر جنگ غازی محمد انور پاشاؒ کی میت کو ۷۴ سال کے بعد تاجکستان سے منتقل کر کے ۴ اگست ۱۹۹۶ء کو دوبارہ استنبول میں دفن کیا گیا ہے اور تدفین کی اس تقریب میں ترکی کے صدر جناب سلیمان ڈیمیریل اور وزیراعظم جناب نجم الدین اربکان نے بھی شرکت کی ہے۔ غازی انور پاشاؒ خلافت عثمانیہ کے دورِ زوال کے ایک نامور سپوت ہیں جنہوں نے خلافت کو سہارا دینے اور اس کے نظام کی اصلاح کے لیے اپنی بساط کی حد تک انتھک جدوجہد کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۶ء

الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ

عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت اور اخوان المسلمین شام کے سابق مرشد عام الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃؒ کا تعلق شام سے تھا اور وہ شام کے معروف حنفی محدث الاستاذ محمد زاہد الکوثریؒ کے تلمیذ خاص اور ان کے علمی جانشین تھے۔ عرب دنیا میں حنفی مسلک کے تعارف اور اس کی ترویج و اشاعت میں ان دونوں بزرگوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور یہ بزرگ گزشتہ پون صدی کے دوران عالم عرب میں حنفیت کے علمی ترجمان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۷ء

ظلم کے خلاف جنگ اور ہمارے اسلاف کا مثالی کردار

دوسرا بڑا مقصد جس کے لیے ہمارے اکابر و اسلاف نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، ظلم و کفر کے خلاف جنگ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے لے کر حضرت قطب الاقطاب مولانا احمد علی قدس سرہ العزیز تک اکابر کے پورے سلسلہ کی ایک کڑی بھی ایسی نہیں جو ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے اثرات سے خالی ہو۔ اور اسلامی تاریخ کے وسیع دور میں ایک لمحہ کا بھی ایسا وقت موجود نہیں ہے جب ہمارے اسلاف میں سے کسی نہ کسی نے ظلم و جبر کے خلاف کلمۂ حق نہ بلند کیا ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں زہر کا پیالہ پی کر جام شہادت نوش کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ مئی ۱۹۷۵ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان

سیاست زندگی بھر حضرت مفتی صاحبؒ کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے، انہوں نے سیاست کو مشغلہ، ہابی یا آج کے سیاسی پس منظر میں کاروبار کے طور پر نہیں بلکہ مشن اور فریضہ کے طور پر اختیار کیا اور اس کا حق ادا کر کے دکھایا۔ ان کا شمار ملک کے مقتدر اور کامیاب سیاستدانوں میں ہوتا تھا اور ان کی سیاسی قیادت کا لوہا ان کے معاصر بلکہ سینئر سیاستدانوں نے بھی مانا۔ لیکن آج سیاست اور سیاستدانوں کی اصطلاحات کے گرد مفہوم و تعارف کے جو نامانوس دائرے نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور جن لوازمات نے ایک سیاستدان کے لیے ناگزیر حیثیت اختیار کر لی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۹۷ء

’’بیانیہ بیانیہ‘‘ کا کھیل

ہمارے بہت سے دانشور کچھ عرصہ سے باقی سارے کام چھوڑ کر ’’بیانیہ بیانیہ‘‘ کھیلنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا کے مختلف شعبوں میں بیانیہ، جوابی بیانیہ، قومی بیانیہ، ریاستی بیانیہ، دینی بیانیہ، متبادل بیانیہ جیسے متنوع عنوانات کے ساتھ بحث و مباحثہ کی گرم بازاری ہے اور ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ ہم اس ’’فری اسٹائل کبڈی میچ‘‘ کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ اس ’’بیانیہ‘‘ کی غرض کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے اور اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اپریل ۲۰۱۷ء

جمعیۃ کے صد سالہ عالمی اجتماع کی کامیابی پر مبارکباد

شیخ الہندؒ کی راہنمائی میں ایک صدی قبل کے دینی راہنماؤں نے آزادی و خودمختاری اور نفاذِ اسلام کے دو بنیادی اہداف کے لیے تحریک کا جو نیا رخ طے کیا تھا، اس کی بنیاد میں (۱) عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد (۲) غیر مسلم باشندگان وطن کی اس تحریک میں شرکت (۳) جدید تعلیم یافتہ حضرات کو اس کی قیادت کے لیے آگے لانا (۴) اور تمام مذہبی مکاتب فکر کو اس تحریک کا عملی حصہ بنانا شامل تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے حالیہ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کو دیکھ کر یہ اطمینان بخش اندازہ ہوتا ہے کہ دینی جدوجہد کے یہ اہداف اور دائرے نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اپریل ۲۰۱۷ء

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ

جمعرات ۱۴ مارچ کی صبح کو ملک بھر میں یہ خبر انتہائی غم کے ساتھ سنی گئی کہ گزشتہ روز کوئٹہ فورٹ سنڈیمن روڈ پر پاکستان کے انتہائی قابل احترام عالم با عمل، عظیم سیاسی راہنما، بلوچستان جمعیۃ کے امیر، صوبائی متحدہ جمہوری محاذ کے نائب صدر اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر حضرت مولانا سید محمد شمس الدین شہید کر دیے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس اندوہناک سانحہ نے ملک کے دینی و سیاسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھا دی ہے۔ مولانا سید شمس الدین جمعیۃ علماء اسلام کے مقتدر راہنما تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مارچ ۱۹۷۴ء

صوبہ خیبر پختون خوا ۹۰ سال پہلے کے تناظر میں

نومبر 1927ء کے دوران پشاور میں جمعیۃ علماء ہند کی کانفرنس میں خطبۂ صدارت ارشاد فرماتے ہوئے امام المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے صوبہ خیبر پختون خواہ کی اس وقت کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبصرہ فرمایا تھا۔ یہ صوبہ اس وقت ’’شمال مغربی سرحدی صوبہ‘‘ کہلاتا تھا اور اسے عام طور پر صوبہ سرحد یا سرحدی صوبہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ کم و بیش ایک صدی قبل کی سیاسی صورتحال پر یہ وقیع تبصرہ اگرچہ مجموعی طور پر اس دور کے تناظر میں ہے لیکن آج بھی بہت سے معاملات میں ہماری راہنمائی کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ و ۱۴ اپریل ۲۰۱۷ء

جمعیۃ العلماء کے مقاصد اور دائرہ کار

جمعیۃ علماء ہند کا قیام 1919ء میں عمل میں لایا گیا تھا جبکہ 1927ء کے دوران پشاور میں جمعیۃ علماء ہند کے زیراہتمام منعقدہ سہ روزہ اجلاس میں امام المحدثین علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے اپنے تاریخی خطبۂ صدارت میں جمعیۃ کی آٹھ سالہ کارکردگی، مقاصد اور عزائم کا ایک ہلکا سا خاکہ پیش فرمایا تھا۔ یہ خطبۂ صدارت ایک وقیع فکری و علمی دستاویز ہے جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں، علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اپریل ۲۰۱۷ء

جمعیۃ کے صد سالہ عالمی اجتماع کے موقع پر چند گزارشات

’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کے حوالہ سے ملک بھر میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی سرگرمیاں جاری ہیں اور ایک عرصہ کے بعد جمعیۃ کی قیادت اور کارکن ہر سطح پر متحرک نظر آرہے ہیں جو میرے جیسے پرانے کارکنوں کے لیے یقیناً خوشی اور حوصلہ کی بات ہے۔ اس موقع پر مختلف امور کو سامنے رکھتے ہوئے دو تین گزارشات پیش کرنے کو جی چاہتا ہے، ہو سکتا ہے کسی حد تک فائدہ دے جائیں۔ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر خلافت سنبھالی تھی، اس سے قبل حضرات صحابہ کرامؓ کے درمیان جمل اور صفین کی جنگیں ہو چکی تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۲۰۱۷ء

مولانا سید محمد ایوب جان بنوری سے ملاقات

جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد ایوب جان بنوری دامت برکاتہم ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ کو پشاور میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی مولانا سید فضل خانؒ ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور دورہ حدیث دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدؒ مدنی نے ۱۳۵۲ھ میں کیا۔ طالب علمی کے دور میں دارالعلوم میں طلبہ کی انجمن اصلاح الکلام کے ناظم رہے جبکہ شیخ الحدیث مولانا عبد الحق مدظلہ ایم این اے اکوڑہ خٹک اس انجمن کے صدر تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۱۹۷۳ء

حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ

محدث پنجاب مولانا عبد العزیز سہالویؒ ۱۸۸۴ء میں تھانہ چونترہ ضلع راولپنڈی کی بستی سہال میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم مولانا غلام رسول مرحوم بھی عالم دین تھے۔ مولانا عبد العزیزؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اور اردگرد نواح کے روایتی درسوں میں حاصل کی، اس کے بعد انّہی شریف کی معروف درسگاہ میں برصغیر کے نامور استاد حضرت مولانا غلام رسولؒ المعروف بابا انّہی والے سے کافی عرصہ تعلیم حاصل کی، پھر دارالعلوم دیوبند چلے گئے اور دورۂ حدیث شریف شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ سے پڑھ کر سندِ فراغت حاصل کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹۸۲ء

ایٹم بم اور چھوٹے ممالک

برطانوی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر نے گزشتہ دنوں اپنے دورۂ روس کے دوران ماسکو ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اصولی طور پر چھوٹے ملکوں کی طرف سے ایٹم بم بنانے کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ کوئی چھوٹا ملک ایٹم بم کے بغیر اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں ایٹم بم ہی قیامِ امن کا ضامن بنا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اپریل ۱۹۸۷ء

خان عبد الغفار خان مرحوم

خان عبد الغفار خان مرحوم کا شمار برصغیر کی ان ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ آزادی کی جرأت مندانہ قیادت کی اور عزم و استقلال کے ساتھ قربانیوں اور مصائب و آلام کے مراحل طے کر تے ہوئے قوم کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کیا۔ انہوں نے وطن عزیز کی آزادی کے لیے قید و بند کی مسلسل صعوبتیں برداشت کیں اور تخویف و تحریص کے ہر حربہ کو ناکام بناتے ہوئے برٹش استعمار کو بالآخر اس سرزمین سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جنوری ۱۹۸۸ء

تحفظ ناموس رسالتؐ اور مسلم ممالک کے سفراء کا عزم

سادہ سا سوال ہے کہ ایک عام شہری کی عزت کو تو دنیا کے ہر ملک میں قانونی تحفظ حاصل ہے اور ہتک عزت کے ساتھ ساتھ ازالۂ حیثیت عرفی کے معاملہ میں دنیا کے ہر ملک کا قانون اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور دادرسی کا حق دیتا ہے مگر مذہبی شخصیات اور دنیا کی مسلمہ دینی ہستیوں کے لیے یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ بلکہ جن ممالک میں مذہب اور مقدس شخصیات کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں انہیں آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر ان سے ایسے قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۷ء

جمعیۃ علماء اسلام کا صد سالہ اجتماع

پشاور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام علماء حق کی خدمات کے حوالہ سے صد سالہ عالمی اجتماع کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے ملک بھر میں تیاریاں جاری ہیں اور جمعیۃ علماء اسلام کی ہر سطح کی قیادت اور کارکن اس کیلئے متحرک نظر آرہے ہیں۔ تیاریوں کے حوالہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ بہت بڑا اجتماع ہوگا جو ملک کی دینی جدوجہد اور قومی سیاست میں ایک نئی ہلچل اور تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ’’صد سالہ‘‘ کے لفظ کے بارے میں بعض دوستوں کو الجھن ہو رہی ہے جسکے باعث جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء اسلام کی تاریخ اور ان کے باہمی تعلق کی بحث چل پڑی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم اپریل ۲۰۱۷ء

’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘

یہ بات اس حد تک درست ہے کہ اسلام کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور اس دین نے قیامت تک باقی اور محفوظ رہنا ہے۔ اور یہ بات بھی ہمارے عقیدے و ایمان کا حصہ ہے کہ قرآن کریم مکمل اور محفوظ حالت میں رہتی دنیا تک موجود رہے گا اور اس کی تعبیر و تشریح میں جناب نبی اکرمؐ کی حدیث و سنت کا تسلسل بھی قائم رہے گا۔ حتیٰ کہ اسلامی سوسائٹی کی عملی اور آئیڈیل شکل بھی صحابہ کرامؓ کی معاشرتی زندگی کی صورت میں تاریخ کے ریکارڈ کا بدستور حصہ رہے گی۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اور دین کو کسی حوالہ سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ مارچ ۲۰۱۷ء

چودھری ظہور الٰہی شہید

چودھری ظہور الٰہی مرحوم نے پاکستان کی قومی سیاست میں جو سرگرم کردار ادا کیا ہے اور قومی تحریکات میں جس جوش و جذبہ کے ساتھ شریک ہوتے رہے ہیں اس کے باعث قومی حلقوں میں ان کی المناک موت اور وحشیانہ فائرنگ کی اس مذموم کاروائی پر گہرے رنج و غم اور شدید غم و غصہ کے جذبات کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ چودھری ظہور الٰہی مرحوم کا شمار ان معدودے چند لیگی راہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی مخلصانہ روش، تحمل، رواداری اور اجتماعی سوچ کے باعث کم و بیش سبھی محب وطن حلقوں سے احترام اور اعتماد حاصل کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اکتوبر ۱۹۸۱ء

حضرت مولانا عبد الحقؒ

غالباً ۳۰ اگست کی صبح کا قصہ ہے راقم الحروف نیویارک کے علاقہ بروک لین میں ضلع گجرات کے ایک دوست جناب محمد دین کے ہاں قیام پذیر تھا۔ صبح نماز سے پہلے کا وقت تھا، میرے ساتھ کمرہ میں حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی محو خواب تھے۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ گوجرانوالہ میں اپنے کمرہ میں بیٹھا ہوں، تبلیغی جماعت کے ایک بزرگ جناب ظفر علی ڈار میرے کمرہ میں آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ شریعت بل کے محرک مولانا سمیع الحق انتقال کر گئے ہیں۔ میں نے چونک کر پوچھا کہ مولانا سمیع الحق یا مولانا عبد الحق؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں مولانا عبد الحق کا انتقال گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ ستمبر ۱۹۸۸ء

حضرت مولانا لال حسین اخترؒ

۱۱ جون کو صبح ابھی اسباق سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ لاہور دفتر سے فون پر یہ روح فرسا خبر ملی کہ شہنشاہِ اقلیمِ مناظرہ اور مجاہدِ جلیل حضرت مولانا لال حسین اختر صاحب امیر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان جہانِ فانی سے رخصت ہو کر رب حقیقی سے جا ملے ہیں۔ زبان سے بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا۔ جنازہ کے بارہ میں اطلاع ملی کہ صبح ۹ بجے دہلی دروازہ لاہور میں ادا ہوگا۔ اطلاع اور جنازہ کے درمیان بس اتنا ہی وقفہ تھا کہ بمشکل گوجرانوالہ سے لاہور پہنچا جا سکتا تھا، مگر احباب کو مطلع کرتے کرتے تاخیر ہوگئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جون ۱۹۷۳ء

مولانا عبد الشکور دین پوریؒ

دوبئی میں ۱۶ اگست کو روزنامہ جنگ کراچی میں یہ افسوسناک خبر پڑھی کہ پاکستان کے معروف دینی راہنما اور خطیب مولانا عبد الشکور دین پوریؒ ۱۴ اگست کو انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم کے برادرِ نسبتی تھے اور ملک کے نامور اور صاحب طرز خطباء میں شمار ہوتے تھے۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اچھا خاصا ذخیرہ انہیں یاد تھا اور اپنے خطابات میں موقع محل کی مناسبت سے ان کا بیان کرتے تھے۔ ان کی تقریر ہم قافیہ اور مترادف الفاظ سے بھرپور ہوتی تھی لیکن لفاظی کے ساتھ ساتھ تقریر میں مواد بھی خاصا ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ ستمبر ۱۹۸۷ء

حضرت مولانا محمد حیاتؒ

مولانا محمد حیاتؒ ایک اولوالعزم انسان تھے جنہوں نے علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ کی پیروی میں علمی محاذ پر قادیانیت کے تعاقب کو اپنا مشن بنایا اور پھر اپنا تمام تر علم و فضل، قوت و توانائی اور صلاحیتیں اس کے لیے وقف کر دیں۔ احرار کی قیادت نے انہیں قادیان میں اپنے مشن کے لیے بھیجا تو ان کی جرأت و استقامت نے ’’فاتح قادیان‘‘ کے خطاب کو ہمیشہ کے لیے ان کے سینے کا تمغہ بنا دیا۔ دیکھنے میں ایک بھولا سا جاٹ مگر عزم و ہمت کا پیکر یہ مرد درویش اپنے وقت کا عظیم مناظر تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اگست ۱۹۸۰ء

مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ

گزشتہ دنوں مولانا حکیم مفتی عبد الحئی آف بھوئی گاڑ انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم کا تعلق قافلہ حق و صداقت سے تھا اور وہ اپنے علاقہ میں حق پرست قافلہ کے باہمت اور جری سالار تھے۔ انہوں نے ہر دینی و قومی تحریک میں قائدانہ حصہ لیا اور صبر و استقلال کی روایات زندہ کیں۔ وہ کفر و الحاد کے ہر وار کے سامنے علاقہ کے عوام کے لیے ڈھال بنے۔ وہ (جسمانی طور پر) معذور تھے لیکن انتخابی و تحریکی مہموں میں جماعتی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے میدانی اور پہاڑی راستوں کو اپنے ناتواں قدموں تلے روند ڈالا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اگست ۱۹۸۰ء

مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ

گزشتہ دنوں ہمیں فرشتہ اجل نے ملک کی دو قیمتی علمی و دینی شخصیتوں سے محروم کر دیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ملتان کے معروف دینی ادارہ خیر المدارس کے مہتمم اور برصغیر کے نامور عالم دین حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے فرزند حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ حج بیت اللہ شریف کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تو وہاں سے اچانک خبر آئی کہ مولانا موصوف کا مکہ میں انتقال ہوگیا ہے اور انہیں جنت المعلاۃ میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مولانا سید امین الحقؒ اپنے گاؤں طورو ضلع مردان میں طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ ستمبر ۱۹۸۱ء

مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ

جماعتی حلقوں میں یہ خبر انتہائی رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ تحریک آزادی و تحریک ختم نبوت کے سرگرم کارکن اور جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سندھ کے نائب امیر مولانا تاج الدین بسمل کو عید الفطر کے روز پڈعیدن ضلع نواب شاہ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کا تعلق ضلع گجرات (پنجاب) سے تھا اور کم و بیش چالیس سال سے پڈعیدن میں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے تحریک آزادی، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفٰی میں سرگرم کردار ادا کیا تھا اور متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ مئی ۱۹۸۹ء

Pages