مقالات و مضامین

افغانستان پر جاری امریکی حملہ ۔ برطانوی رائے عامہ کا ردعمل

جلسہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر اور جماعت اسلامی کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی۔ بعض حاضرین کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کے سانحہ کے بعد پہلا موقع ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام مشترکہ فورم سے اس مسئلہ پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ گلاسگو کی مقامی آبادی افغانستان پر امریکی حملوں کے خلاف دو بار مظاہرہ کر چکی ہے۔ 27 اکتوبر کو ہونے والے مظاہروں میں راقم الحروف نے بھی جمعیۃ علماء برطانیہ کے رہنما مولانا امداد الحسن نعمانی، مجلس احرار اسلام کے رہنما عبد اللطیف خالد چیمہ، اور شیخ عبد الواحد کے ہمراہ شرکت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ نومبر ۲۰۰۱ء

افغانستان میں عالمِ اسلام کی آرزوؤں کا خون

جہاد افغانستان کی کامیابی اور کابل میں مجاہدین کی مشترک حکومت کے قیام کے بعد دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کو یہ امید تھی کہ اب افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہوگی اور مجاہدین کی جماعتیں اور قائدین مل جل کر افغانستان کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ اسلام کے عادلانہ نظام کا ایک مثالی عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے جو دیگر مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کے عزم و حوصلہ میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بعض افغان راہنماؤں کی ناعاقبت اندیشی اور ہوسِ اقتدار نے عالم اسلام کی آرزوؤں کا سربازار خون کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری مارچ ۱۹۹۴ء

طالبان کی اسلامی حکومت اور ڈاکٹر جاوید اقبال

معاصر قومی اخبار روزنامہ نوائے وقت نے یہ خوشگوار انکشاف کیا ہے کہ فرزند اقبالؒ ڈاکٹر جاوید اقبال نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا ہے اور واپسی پر اکوڑہ خٹک میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے اسلامی انقلاب کی تعریف کی ہے اور اسے ایک کامیاب انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں امن قائم کیا آج کے دور میں اور کوئی نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں طالبان اور ان کے طرزِ حکومت کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے آواز اٹھائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اپریل ۲۰۰۰ء

سانحہ نائن الیون اور امریکی قیادت کی آزمائش

گیارہ ستمبر کو امریکہ کے دو بڑے شہروں نیویارک اور واشنگٹن میں جو قیامت صغریٰ بپا ہوئی ہے اس نے ظاہری طور پر دکھائی دینے والے معروضی حقائق کا نقشہ ایک بار پھر پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی تاریخ نے کئی بار یہ منظر دیکھا ہے کہ حالات و واقعات کا ظاہری منظر کچھ اور نظر آرہا ہے مگر سمندر کی پرسکون سطح کی تہہ میں کسی طوفان نے جب انگڑائی لی ہے تو سطح سمندر اور اس پر نظر آنے والا پورا منظر ہی تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ ستمبر ۲۰۰۱ء

افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال

صدر صاحب نے افغانستان پر حملہ میں امریکہ کی معاونت کے جواز میں حضورؐ کے اسوۂ حسنہ سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ رسالت مآبؐ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں یہودی قبائل کے ساتھ معاہدہ کر کے بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں کفار مکہ کو شکست دی اور اس کے بعد حدیبیہ میں کفار مکہ سے معاہدہ کر کے غزوۂ خیبر میں یہودیوں کی شکست کی راہ ہموار کی، اس لیے حکمت اور دانش کے تحت کسی کافر قوم سے وقتی مصالحت کا جواز موجود ہے۔ صدر مشرف کا یہ استدلال درست نہیں ہے، اس لیے کہ جناب نبی اکرمؐ کے دونوں طرف کافر اقوام تھیں اور دونوں دشمن تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ ستمبر ۲۰۰۱ء

افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر پرویز مشرف کی خود فریبی

پاکستان کے ساتھ اس وقت امریکہ کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی نظریاتی وحدت کو توڑنا چاہتا ہے، ان کی باہمی دوستی کو دشمنی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے وسطی ایشیا کے ساتھ روابط کو ختم کرنا چاہتا ہے، اور چین کے خلاف اپنے مجوزہ حصار کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ حاصل ہوجانے کے بعد امریکہ کی ترجیحات بدستور وہی رہیں گی جو پہلے چلی آرہی ہیں اور جن ترجیحات میں پاکستان کو بھارت پر ترجیح دینا یا کم از کم اس کے برابر رکھنا بھی امریکی مفادات سے قطعاً کوئی مطابقت نہیں رکھتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء

افغانستان پر متوقع امریکی حملہ اور عالمی منظر نامہ

افغانستان پر امریکہ کے فوری حملہ کا خطرہ ٹل جانے کے بعد عالمی میڈیا کا رخ ان اسباب و عوامل کی نشاندہی اور ان پر بحث و تمحیص کی طرف بتدریج مڑ رہا ہے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے 11 ستمبر کے المناک واقعات کے باعث بنے۔ اور اس وقت بھارت اور اسرائیل دونوں کی وہ کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں جو انہوں نے 11 ستمبر کے حادثات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امارت اسلامی افغانستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو امریکی حملوں اور مداخلت کی زد میں لانے کے لیے شروع کی تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء

سانحہ نائن الیون ۔ لندن میں علماء کا مشترکہ اعلامیہ

لندن پہنچتے ہی مجھے احساس ہوگیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے سانحات کے بعد عالمی میڈیا کی ہمہ جہتی یلغار اور شدید امریکی ردعمل کے اظہار نے مسلمان حلقوں کو اس حد تک ششدر کر دیا ہے کہ انہیں کسی اجتماعی اور متوازن موقف اور طرز عمل پر لانے کے لیے خاصی محنت کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی نمائندگی میں نمایاں طور پر دو قسم کی آوازیں میڈیا میں سامنے آرہی ہیں۔ ایک طرف وہ آواز ہے جسے انتہا پسندانہ اور جذباتی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے نتائج سے یہاں کے مسلمان خطرات محسوس کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء

’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں

مولانا عبد الحلیم کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور وہ ایسٹ لندن میں ویسٹ ہیم کے مقام پر بننے والے تبلیغی جماعت کے نئے مرکز کے امام ہیں۔سفید رنگ کا لمبا عربی کرتہ پہنتے ہیں اور اس پر سفید عمامہ باندھتے ہیں، رنگ پختہ ہے اور داڑھی سیاہ ہے اس لیے دور سے ان پر اسامہ بن لادن یا ان کے بھائی ہونے کا اشتباہ ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو انہوں نے 11 ستمبر کے نیویارک اور واشنگٹن کے سانحات کے بعد ان کے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات بیان کیے جن کا تذکرہ قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء

کیا امریکہ عالمی قیادت کا اہل ہے؟

دہشت گردی کا کوئی بھی حامی نہیں ہے اور دنیا کے سب باشعور انسان اس کے خاتمہ کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے ساتھ اس کے اسباب و محرکات اور عوامل کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔ اس عالمی مہم کی قیادت کے لیے کسی ایسے ملک کو آگے آنا چاہیے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ ہیروشیما، ناگاساکی، ویت نام، فلسطین، افغانستان اور سوڈان کے نہتے شہریوں پر بم برسانے اور مشرق وسطیٰ کے عوام کی سیاسی آزادیوں اور شہری حقوق کا خون کرنے والے ملک کے ہاتھ میں دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کی قیادت کا پرچم آخر کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء

عالمی ابلاغیاتی گھٹن میں تازہ ہوا کا جھونکا

الجزیرہ ٹی وی خلیج عرب کی ریاست قطر کا ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل ہے جس کی نشریات عربی میں ہوتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ اس نے خبروں تک رسائی اور انہیں بروقت دنیا کے سامنے لانے کی تکنیک میں اس حد تک محنت اور تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے کہ مغرب کے اکثر ٹی وی چینل افغانستان کے بارے میں اس کے حوالہ سے خبریں دینے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ اس میں بنیادی طور پر اس بات کا بھی دخل ہے کہ طالبان حکومت نے صرف الجزیرہ ٹی وی کو ہی افغانستان میں رپورٹنگ کی اجازت دے رکھی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء

تبلیغی سہ روزہ اور حضرت سندھیؒ کی یاد میں ایک مجلس

ہمیں اپنے بزرگوں سے صحیح استفادہ کے لیے اس نفسیات اور مزاج کے ماحول سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اکابر کی زندگیوں کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا چاہیے جن کا تعلق امت کی اجتماعی راہنمائی سے ہے اور جن سے نئی نسل کو اس کی تربیت و اصلاح کے لیے آگاہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اس پس منظر میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی جدوجہد، افکار و تعلیمات اور حوصلہ و کردار کے بارے میں چند گزارشات اس موقع پر میں نے پیش کیں جس کی کچھ تفصیل ایک مستقل کالم کی صورت میں سامنے لانے کا ارادہ رکھتا ہوں، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۶ء

مذہبی منافرت کا سدباب ۔ قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس

اجلاس کے دوران دینی مدارس کے نصابات کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور ارکان نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں: (۱) نصاب تعلیم کا جائزہ صرف دینی مدارس کے حوالہ سے کافی نہیں بلکہ ملک میں سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر اس وقت رائج تمام نصابوں کا دو حوالوں سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ درجنوں قسم کے الگ الگ نصابات ملک میں جاری ہیں جن کے اہداف اور نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور معاشرہ میں ذہنی اور تہذیبی خلفشار کا باعث بن رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ نومبر ۲۰۱۶ء

کیا پاکستان میں نفاذِ اسلام کا کوئی ہوم ورک موجود ہے؟

میں نے عرض کیا کہ نفاذ شریعت کے حوالہ سے پاکستان کے علماء کرام اور دینی حلقوں کا ہوم ورک اور فائل ورک اس قدر مکمل اور جامع ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں نفاذ اسلام کے لیے پیش رفت ہو تو ہمارا یہ ہوم ورک اس کے لیے بنیادی اور اصولی راہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کے دور حکومت میں مجھے قندھار جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے ان کے ذمہ داران کے سامنے تجویز رکھی کہ وہ اس سلسلہ میں پاکستان میں اب تک ہونے والے ہوم ورک سے استفادہ کریں اور اسے سامنے رکھ کر افغانستان کے ماحول اور ضروریات کے دائرے میں اسلامائزیشن کی طرف پیش رفت کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ نومبر ۲۰۱۶ء

عالمی معاہدات اور طیب اردگان کی صدائے احتجاج

کم و بیش نصف صدی قبل انڈونیشیا کے صدر عبد الرحیم احمد سوئیکارنو نے بغاوت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی مگر کسی طرف سے بھی حمایت نہ پا کر ’’پہلی تنخواہ پر گزارہ‘‘ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی تھی۔ اس کے بعد ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد مغرب کے اس معاہداتی جبر اور اقوام متحدہ کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف اپنے دور حکومت میں آواز بلند کرتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ اب ترکی کے صدر محترم رجب طیب اردگان اس میدان میں آئے ہیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انہوں نے اس کھلی دھاندلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۲۰۱۶ء

ہزارہ کا سفر اور صفہ اکیڈمی مانسہرہ کا منصوبہ

صفہ اکیڈمی کا یہ طریق کار مجھے بہت پسند آیا بلکہ حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ کی ایک پرانی تجویز یاد آگئی کہ بڑے دینی مدارس کو اپنی اقامت گاہوں میں ایسے بچوں کے لیے بھی کمرے تعمیر کرنے چاہئیں جن کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی توفیق نہ رکھتے ہوں۔ وہ تعلیم تو سکولوں اور کالجوں میں حاصل کریں مگر دینی ماحول اور اخراجات کی کفالت ساتھ ساتھ ضروری دینی تعلیم کا ان کے لیے انتظام کر دیا جائے۔ یوں وہ قومی زندگی کے جس شعبے میں جائیں گے ایک فرض شناس مسلمان کے طور پر جائیں گے اور اپنے مدرسہ و مسلک کے نمائندہ بھی ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم نومبر ۲۰۱۶ء

ختم نبوت کانفرنس چناب نگر

چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ کانفرنس 27و 28 اکتوبر کو منعقد ہو رہی ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے دینی جماعتوں اور مکاتب فکر کے سرکردہ راہنما اس سے خطاب کر رہے ہیں۔ راقم الحروف کو ایک عرصہ تک اس کانفرنس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے بلکہ یہ سعادت اس دور میں بھی حاصل رہی ہے جب یہ کانفرنس چنیوٹ کے میونسپل ہال میں منعقد ہوا کرتی تھی۔ مگر اب چند سالوں سے اس سے محروم ہوں جس کی وجہ چنیوٹ کی ضلعی انتظامیہ کا وہ حکم نامہ ہے جو چند دیگر علماء کرام سمیت مجھ پر ہر ایسے اجتماع سے قبل لاگو ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اکتوبر ۲۰۱۶ء

حالات کی مجبوری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انتخاب

مجھے یہ اطلاع تو دوبئی روانہ ہونے سے قبل مل گئی تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی انہی دنوں متحدہ عرب امارات کے دورے پر جا رہے ہیں مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی فلائٹ بھی وہی ہے جس پر میں نے سیٹ بک کرا رکھی ہے۔ یہ پی آئی اے کی فلائٹ تھی جو دوبئی کے لیے پشاور سے براستہ لاہور تھی۔ مولانا پشاور سے سوار ہوگئے جبکہ میں لاہور سے جہاز پر بیٹھا مگر دوبئی پہنچنے تک ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں پتہ نہ چل سکا اور وہاں ایئرپورٹ پر امیگریشن لاؤنج میں ہماری ملاقات ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جنوری ۲۰۰۱ء

جداگانہ طرز انتخاب اور مسیحی اقلیت

تعجب کی بات ہے کہ مسلمانوں کے دینی حلقے اس سیاسی مفاد کو قربان کرتے ہوئے جداگانہ طرز انتخاب کے اصولی موقف پر زور دے رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس بہت سے مسیحی قائدین اپنی کمیونٹی کے سیاسی مفاد اور اصولی موقف دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مخلوط طرز انتخاب کا مطالبہ کر کے بین الاقوامی سیکولر لابیوں اور قادیانیوں کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ اس پس منظر میں مسیحی اقلیت کے بعض سنجیدہ رہنماؤں کی طرف سے یہ آواز اٹھنا شروع ہوگئی ہےکہ مسیحی کمیونٹی اپنے مذہبی و سیاسی مفادات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ ستمبر ۲۰۰۰ء

جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن

راجہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’’جہاں مسلم ریاست اپنا وجود یا اپنا اقتدار اعلیٰ کھو دے وہاں عوامی حمایت (اجتہاد) کے ذریعے مسلح تحریک آزادی (یعنی جہاد) کا آغاز تو کسی حد تک قابل فہم معاملہ ہے لیکن جہاں مسلم ریاست مکمل طور پر اپنا وجود رکھتی ہو اور اس کا اقتدار اعلیٰ بھی کلیتاً اس کے پاس ہو وہاں جہاد کا اعلان کون کرے گا؟‘‘ گویا اس طرح راجہ صاحب محترم نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف مسلمانوں کے جہاد آزادی اور روسی استعمار کے خلاف افغان عوام کے جہاد میں فرق ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مئی ۲۰۰۰ء

جمعہ کی چھٹی اور راجہ صاحب کا فلسفہ

راجہ انور صاحب نے اپنے مضمون میں جمعہ کی چھٹی کا ذکر کیا ہے، میثاق مدینہ کا حوالہ دیا ہے، کسی مسلم مملکت کو ’’اسلامی‘‘ قرار دینے پر اعتراض کیا ہے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست کو ’’دولۃ العربیۃ‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اس لیے ان امور کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جمعہ کی چھٹی کے بارے میں راجہ صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ اس پر بلاوجہ زور دیا جا رہا ہے حالانکہ اسلامی تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ و ۲۸ جولائی ۲۰۰۰ء

دینی مدارس کی مشکلات اور اساتذہ و طلبہ کا عزم

اب سے ڈیڑھ سو برس قبل جب دینی مدارس کے قافلہ کا سفر شروع ہوا تو تاریخ کے سامنے یہ منظر تھا کہ متحدہ ہندوستان 1857ء کی جنگ آزادی میں اہل وطن کی ناکامی بلکہ خانماں بربادی کے زخموں سے چور ہے ، خاص طور پر مسلمانوں کا ملی وجود اپنی تہذیبی روایات و اقدار اور دینی تشخص کے تحفظ و بقا کے لیے کسی اجتماعی جدوجہد کی سکت کھو چکا ہے۔ بیرونی استعمار کے ہاتھوں اپنے تعلیمی، سیاسی، معاشی، انتظامی، معاشرتی و ثقافتی تشخص اور ملی اداروں سے محروم ہو کر اس خطہ کے مسلمان پھر سے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶ء

مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال اور درکار لائحہ عمل

اس زمینی حقیقت سے کسی صاحب شعور کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ جو سنی شیعہ اختلافات موجود ہیں وہ اصولی اور بنیادی ہیں اور صدیوں سے چلے آرہے ہیں، نہ ان سے انکار کیا جا سکتا ہے، نہ دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے کو مغلوب کر سکتا ہے، اور نہ ہی ان اختلافات کو ختم کرنا ممکن ہے۔ ان اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کرتے ہوئے باہمی معاملات کو ازسرنو طے کرنے کی ضرورت بہرحال موجود ہے جس کے لیے آبادی کے تناسب اور دیگر مسلمہ معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی توازن کا صحیح راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۲۰۱۶ء

دستور کی اسلامی دفعات اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کی وضاحت

وزارت قانون کے ترجمان کی مذکورہ وضاحت کے اس جملہ کو دوبارہ دیکھ لیں کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعات معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو ہر ممکن طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہی چلایا جائے گا۔‘‘ اس جملہ میں ہمیں دو باتیں کھٹک رہی ہیں: ایک بات دستور معطل ہونے یا دستور کی دفعات معطل ہونے میں اٹکی ہوئی ہے۔ اگر دستور معطل ہوا ہے تو اس کی اسلامی دفعات کیسے باقی ہیں اور اگر دستور کی دفعات معطل ہوئی ہیں تو معطل ہونے والی اور بحال رہنے والی دستوری دفعات کی تفصیل کہاں ہے؟ دوسری بات ’’ہر ممکن طور پر’’ کا جملہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۲۰۰۰ء

عورت کا طلاق کا اختیار

اسلام نے طلاق کا غیر مشروط حق صرف مرد کو دیا ہے کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دے۔ اگرچہ بلاوجہ طلاق کو شریعت میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے طلاق کو مباح امور میں مبغوض ترین چیز قرار دیا ہے لیکن گناہ اور ناپسندیدہ ہونے کے باوجود مرد کو یہ حق بہرحال حاصل ہے کہ وہ اگر طلاق دے تو اس سے دونوں میں نکاح کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ عورت کو براہ راست اور غیر مشروط طلاق کا حق اسلام نے نہیں دیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے اس حوالہ سے کوئی حق ہی سرے سے حاصل نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۲۰۰۰ء

حضرت عیسٰیؑ کی شان میں گستاخی اور عالمی کلیسا

گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ ماہنامہ کلام حق نے نومبر ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں عالمی مسیحی کلیسا کے اس طرز عمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں ایک بدبخت مسیحی کی طرف سے کی جانے والی بدترین گستاخی پر بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ماہنامہ کلام حق کے مدیر محترم میجر ٹی ناصر نے لکھا ہے کہ ’’گزشتہ دنوں انگلستان کا ایک بدبخت ملحد نام نہاد مسیحی خداوند یسوع مسیح کی شان میں بدترین گستاخی کا مرتکب ہوا، عالمگیر کلیسا نے اس بے ادبی پر اپنے منافق لب سی لیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء

امیر امان اللہ خان اور افغانستان میں مغربی ثقافت کی ترویج

امیر امان اللہ خان افغانستان میں سیاسی اور ثقافتی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے جدید کلچر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ یورپی ثقافت کو افغانستان میں طاقت کے زور پر رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عزیز ہندی کے بقول امان اللہ خان نے سردار محمود خان یاور کے ذمہ لگا رکھا تھا کہ وہ ان کے واپس آنے تک افغانستان میں رائے عامہ کو ثقافتی انقلاب کے لیے ہموار کرنے کی کوشش کریں اور خاص طور پر آزاد خیالی اور برہنہ روئی کا پرچار کریں۔ برہنہ روئی کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کے لیے پردہ کو ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ دسمبر ۱۹۹۹ء

مصطفیٰ کمال اتاترک اور جدید ترکی

مصطفیٰ کمال اتاترک جدید ترکیہ کے بانی اور معمار ہیں جنہوں نے اب سے پون صدی قبل جمہوریہ ترکیہ کی بنیاد رکھی اور ترکی اس کے بعد سے انہی کے متعین کردہ خطوط پر پوری سختی کے ساتھ گامزن ہے۔ انہوں نے ایک طرف یورپی ملکوں بالخصوص یونان کا مقابلہ کرتے ہوئے ترکی کی داخلی خودمختاری کی حفاظت کی اور بیرونی حملہ آوروں کو نکال کر ترکی کی وحدت کا تحفظ کیا جبکہ دوسری طرف خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے ترکی کو عالم اسلام سے بھی الگ کر لیا۔ وہ ترک قوم پرستی کے علمبردار تھے اور انہوں نے اس بنیاد پر ترک قوم کو بیدار کرنے اور ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ نومبر ۱۹۹۹ء

خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ۔ عربوں کا برطانیہ کے ساتھ تعاون

برطانوی استعمار نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور عربوں کو خلافت سے بے زار کرنے کے لیے مختلف عرب گروپوں سے سازباز کی تھی اور نہ صرف لارنس آف عریبیہ بلکہ اس قسم کے بہت سے دیگر افراد و اشخاص کے ذریعہ عرب قومیت اور خود عربوں کے داخلی دائرہ میں مختلف علاقائی و طبقاتی عصبیتوں کو ابھارنے کے لیے ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔ یہ اسی تگ و دو کا نتیجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کا صدیوں تک حصہ رہنے والی عرب دنیا آج چھوٹے چھوٹے بے حیثیت ممالک میں بٹ کر رہ گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ جنوری ۲۰۰۰ء

آج کے دور میں خلافت کے قیام کی عملی صورت

خلافت اسلامیہ کے احیاء اور قیام کے لیے محنت و جدوجہد الگ چیز ہے جبکہ خلافت کے نام پر شخصی ادعا کے ساتھ اپنے گرد لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش اس سے بالکل مختلف عمل ہے۔ اول الذکر عمل دینی فریضہ اور اس کی ادائیگی کا خوبصورت احساس و جذبہ ہے جس کے ساتھ تعاون اور اس میں شرکت ہر مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے۔ جبکہ ثانی الذکر محنت پر ’’طالع آزمائی‘‘ کے سوا اور کوئی عنوان فٹ نہیں بیٹھتا۔ چنانچہ اسلام کے لیے کام کرنے والے رہنماؤں، کارکنوں اور حلقوں کو ان دونوں میں فرق کرنا ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اگست ۱۹۹۹ء

شیخ الہندؒ، طالبان اور اسامہ بن لادن

بعض دوستوں کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن کا قصہ محض ایک بہانہ ہے اور امریکہ کے نزدیک اصل مسئلہ طالبان کا ہے جنہیں وہ اسامہ کی آڑ میں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ برمنگھم کی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیۃ کے ایک ذمہ دار عہدے دار نے یہ کہہ بھی دیا کہ اسامہ بن لادن کی بات تو صرف ڈرامہ ہے اصل قصہ طالبان کا ہے۔ مگر ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ یہ موقف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جس کے سامنے تاریخ کا پس منظر نہیں ہے اور جو خلیج میں یہودیوں اور مغربی ممالک کے مفادات کی گہرائی اور گیرائی سے بے خبر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اگست ۱۹۹۹ء

مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ

مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ کے بارے میں یہ معلوم کر کے بھی ان کے ساتھ طبعی مناسبت محسوس ہوئی کہ وہ اپنے شیخ مکرم حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی طرح درس نظامی کے مروجہ نصاب کو مزید بہتر بنانے کے خواہاں تھے اور نصابی کتابوں کے انتخاب میں ’’خوب سے خوب تر کی تلاش‘‘ کا ذوق رکھتے تھے۔ حضرت بنوریؒ نے اس حوالہ سے جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھ کر میرا ذوق بھی یہی چلا آرہا ہے کہ نصابی کتب کے انتخاب میں کسی ایک فہرست پر جمے رہنے کی بجائے ’’خوب سے خوب تر کی تلاش‘‘ کا عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶ء

سنی شیعہ کشیدگی اور جناب ظفر حسین نقوی

نقوی صاحب نے اپنے مضمون میں فرمایا ہے کہ اہل تشیع قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں، صحابہ کرامؓ کا احترام کرتے ہیں، سب اہل سنت کو مسلمان سمجھتے ہیں، اور اہل سنت کی مساجد کے تقدس کے قائل ہیں اس لیے انہیں اس بات کا ملزم گرداننا درست نہیں ہے کہ ان کے طرز عمل کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ نقوی صاحب محترم سے گزارش ہے کہ راقم الحروف نے اپنے مضمون میں ان میں سے کسی بات پر بھی بحث نہیں کی اور نہ ہی کسی پر دلائل دیے ہیں جس پر نقوی صاحب کو اپنی پوزیشن کی وضاحت اور اس کے لیے دلائل پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ مئی ۱۹۹۹ء

مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی

دستور پاکستان میں 1974ء کے دوران زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں ایک ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار دونوں گروہوں (قادیانی اور لاہوری) کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے کر انہیں ملک کی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کیا گیا تھا۔ کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبی ہونے کا دعویٰ کر کے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی تھی جس کی بنیاد پر دنیا بھر کے تمام مسلم اداروں اور مکاتب فکر نے انہیں متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ نومبر ۱۹۹۹ء

عوامی جمہوریہ چین کے حکمرانوں سے ایک گزارش

عوامی جمہوریہ چین ہمارا عظیم پڑوسی ملک ہے اور پاکستان کے ان دوستوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ مگر گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران دو تین خبریں ایسی آئی ہیں جنہوں نے پاک چین تعلقات کے حوالہ سے محب وطن پاکستانیوں کو بے چینی سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک خبر تو رائٹر کی جاری کردہ ہے جو لاہور سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبار نے 12 اکتوبر کو شائع کی ہے کہ چین کے شورش زدہ صوبے ژنجیانگ (سنکیانگ) میں عدالت نے بم دھماکوں اور ڈکیتیوں کی منصوبہ بندی کرنے پر تین مسلمان علیحدگی پسندوں کو سزائے موت سنا دی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء

انٹرنیٹ کے نقارخانے میں ’’الشریعہ‘‘ کی آواز

الشریعہ کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’اسلامائزیشن‘‘۔ کیونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انسانی معاشرہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی پابندی قبول کیے بغیر امن و سکون اور فلاح و کامیابی کی منزل حاصل نہیں کر سکتا۔ جبکہ آسمانی تعلیمات کا مکمل اور محفوظ ایڈیشن صرف اسلام ہے ، اس لیے جلد یا بدیر انسانی سوسائٹی کو اسلامی تعلیمات و احکام کے نفاذ کی طرف آنا ہوگا کہ اس کے علاوہ نسل انسانی کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ چنانچہ الشریعہ اسی حقیقت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی جدوجہد میں مصروف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جنوری ۱۹۹۹ء

’’غیرت‘‘ کے خلاف مہم

لاہور ایم اے او کالج کے ایک سابق پروفیسر نے راقم الحروف کو بتایا کہ ان سے ایک شاگرد نے ’’غیرت‘‘ کا انگریزی ترجمہ دریافت کیا تو تلاش بسیار کے باوجود وہ انگریزی میں غیرت کا مفہوم ادا کرنے والا کوئی لفظ معلوم نہ کر سکے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے شاگرد کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ مغرب کی سوسائٹی میں غیرت کا جذبہ سرے سے پایا ہی نہیں جاتا اس لیے ان کے ہاں کوئی لفظ بھی استعمال میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ جب کسی مسلمان کو غیرت کے حوالہ سے کوئی کام کرتا دیکھتے ہیں تو انہیں تعجب ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اگست ۱۹۹۹ء

مولانا مفتی محمودؒ کا طرز استدلال

اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو استدلال کی جو قوت و صلاحیت عطا فرمائی تھی اس کا اعتراف سب حلقوں میں کیا جاتا تھا۔ ہمارے ایک مرحوم و مخدوم بزرگ کہا کرتے تھے کہ مفتی صاحبؒ سامنے نظر آنے والے لکڑی کے ستون کو دلائل کے ساتھ سونے کا ستون ثابت کرنا چاہیں تو دیکھنے والا شخص ان کی بات ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ سیاسی، علمی، اور فکری سب قسم کے معاملات میں مفتی صاحبؒ کی اس خداداد صلاحیت کا ہم نے یکساں اظہار ہوتے دیکھا ہے۔ چنانچہ اس موقع پر خود ان کی زبان سے براہ راست سنی ہوئی بعض باتیں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ اکتوبر ۲۰۱۶ء

’’صائمہ کیس‘‘ ۔ ہائیکورٹ کے جج صاحبان کی خدمت میں گزارشات

بگرامی خدمت جناب عزت ماب جسٹس احسان الحق چودھری صاحب و عزت ماب جسٹس ملک محمد قیوم صاحب۔ لاہور ہائی کورٹ لاہور۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ آپ کی عدالت میں زیر سماعت ’’صائمہ کیس‘‘ کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر سے کچھ ضروری معروضات پیش کر رہا ہوں، قانوناً گنجائش ہو تو انہیں باضابطہ ریکارڈ میں شامل کر لیا جائے اور ضرورت پڑنے پر وضاحت کے لیے عدالت میں حاضری کے لیے بھی تیار ہوں، ورنہ ذاتی معاونت و مشاورت سمجھتے ہوئے ان گزارشات کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ ضرور فرمایا جائے، بے حد شکریہ۔ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۷ء

شریعت بل کی دفعہ ۳ کے بارے میں علماء کرام کے ارشادات

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ’’شریعت بل‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کی دفعہ ۳ میں شریعت اسلامیہ کی بالادستی کو ان الفاظ کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’شریعت یعنی اسلام کے احکام جو قرآن و سنت میں بیان کیے گئے ہیں، پاکستان کا بالادست قانون (سپریم لاء) ہوں گے بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو۔‘‘ وضاحت طلب امر یہ ہے کہ کیا کسی مسلم شخص یا ادارہ کے لیے شرعی احکام کی بالادستی کو مشروط طور پر قبول کرنے کی گنجائش ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۶ء

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں معاون یا رکاوٹ؟

ایرانی انقلاب کے بعد ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی اور مطالبہ یہ ہوا کہ پرسنل لاء میں نہیں بلکہ پورے قانونی نظام میں فقہ جعفریہ کو متوازی قانون کے طور پر نافذ کیا جائے۔ اس مطالبہ کے لیے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے دو گروپ کام کر رہے ہیں اور دونوں خود کو انقلاب ایران کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ دونوں گروپوں نے اس بنیاد پر سینٹ میں زیر بحث ’’شریعت بل‘‘ کی مخالفت کی۔ اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے میدان عمل میں آنے کا منطقی اور نظریاتی نتیجہ یہ سامنے آیا کہ شریعت اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کا مطالبہ فرقہ وارانہ مطالبہ قرار دے دیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۱۹۹۰ء

ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا سالانہ اجلاس

ملی یکجہتی کونسل کا قیام اب سے دو عشرے قبل عمل میں لایا گیا تھا۔ مولانا شاہ احمدؒ نورانیؒ، مولانا سمیع الحق، قاضی حسین احمدؒ ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ ، اور دیگر زعماء اس میں سرگرم عمل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں سپاہ صحابہؓ اور تحریک جعفریہ آمنے سامنے تھیں، سنی شیعہ کشیدگی قتل و غارت کے عروج کے دور سے گزر رہی تھی اور دونوں طرف کی بہت سی قیمتی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔ اس پس منظر میں ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ اس کشیدگی کو کنٹرول کیا جائے اور فرقہ وارانہ تصادم کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اکتوبر ۲۰۱۶ء

سالانہ ختم نبوت کانفرنس برطانیہ ۱۹۹۹ء

ہمارے نزدیک لارڈ نذیر احمد کے خطاب کا وہ حصہ سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے جس میں انہوں نے برطانیہ میں مسلمانوں کے جداگانہ پرسنل لاء کی بحالی کی تجویز پیش کی ہے اور کہا ہے کہ جس طرح برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر تسلط کے دوران تمام شعبوں میں اپنے قوانین نافذ کرنے کے باوجود پرسنل لاز میں مسلمانوں کا جداگانہ حق تسلیم کیا تھا اور نکاح و طلاق و وراثت میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی احکام اور قوانین پر عمل کا اس دور میں حق حاصل تھا، اسی طرح برطانیہ میں مسلمانوں کا پرسنل لاز میں جداگانہ تشخص بحال کرنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اگست ۱۹۹۹ء

پاکستانی مہدی اور برطانوی ہوم آفس

برطانوی اخبار ’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘ نے گزشتہ دنوں ایک پاکستانی شخص کے بارے میں رپورٹ شائع کی ہے جس نے مسیح ہونے کا دعوٰی کر کے لندن میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے اور دوسرے پناہ گزینوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ اخبار نے اس شخص کا نام نہیں لکھا البتہ یہ بتایا ہے کہ وہ پاکستان کے شہر گجرات سے تعلق رکھتا ہے اور ان دنوں ایسٹ لندن کےعلاقہ لیٹن سٹون میں رہائش پذیر ہے۔ اخبار نے اپنے ایک رپورٹر کے ذریعہ اس شخص کے بارے میں معلومات جمع کی ہیں جو عقیدت مند کے روپ میں اس کے پاس گیا اور اس سے بہت سی معلومات حاصل کیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۱۹۹۸ء

سعودی عرب میں امریکہ کی موجودگی ۔ خدشات و تاثرات

بعض احباب کا خیال ہے کہ سعودی عرب کا شاہی خاندان آل سعود اگر اقتدار سے محروم ہو جاتا ہے تو کوئی اور سیاسی قوت اس درجہ کی نہیں جو موجودہ سعودی عرب کو متحد رکھ سکے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ ملک تقسیم ہو جائے گا اور تیل سے مالا مال علاقوں پر مغربی اقوام کے مستقل تسلط کے علاوہ حجاز مقدس ایک الگ ریاست کی شکل میں سامنے آسکتا ہے جس کے پاس اپنے وسائل نہیں ہوں گے اور وہ ویٹی کن سٹی طرز کی ایک مذہبی اسٹیٹ بن کر رہ جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اکتوبر ۱۹۹۸ء

حضور اکرمؐ کی زندگی احادیث کے آئینے میں

محدثین کرامؒ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اوصاف و کمالات اور معمولات کو علم حدیث کے ایک مستقل شعبے کی صورت میں مرتب کیا ہے جسے ’’شمائل نبویؐ‘‘ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے۔ بعض محدثین نے اس پر الگ کتابیں لکھی ہیں اور باذوق اہل علم نے بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ کے حسن ذوق کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرتؐ کی اجتماعی، معاشرتی، اور علمی و عملی زندگی کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی کی جزئیات تک روایت کی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ فروری ۲۰۱۱ء

نبی اکرمؐ کے معمولاتِ زندگی

حضورؐ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ لوگ خیر کے معاملات سے غافل نہ ہو جائیں اور اس بات کا بھی اہتمام کرتے تھے کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ ہر قسم کے معاملے کا آپ کے پاس حل تیار ہوتا تھا اور ہر صورتحال کے لیے مستعد ہوتے تھے۔ آپؐ حق بات کہنے سے نہیں کتراتے تھے اور ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ لوگوں میں سے آپؐ سے زیادہ قریب وہی حضرات ہوتے تھے جو اچھے لوگ ہوتے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ کے ہاں سب سے زیادہ قابل احترام وہی شخص ہوتا تھا جو لوگوں کے ساتھ نصیحت اور خیر خواہی کا جذبہ رکھتا ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۲۰۱۲ء

سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں

سود کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں بحث جاری ہے اس مناسبت سے جناب نبی اکرمؐ کے چند ارشادات پیش کیے جا رہے ہیں۔ (۱) بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے کبیرہ گناہوں میں سات بڑے گناہوں کا ذکر فرمایا اور ان میں سود کا بھی ذکر کیا کہ سات بڑے گناہوں میں سود کا لین دین بھی شامل ہے۔ (۲) بخاری شریف میں حضرت عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا کہ سود کھانے والوں، دینے والوں، سودی کاروبار کے گواہوں، اور سود کا معاملہ لکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جون ۲۰۰۲ء

سنت نبویؐ اور رائے عامہ کا احترام

جناب رسول اللہؐ کو اس بات کا خیال رہتا تھا کہ ان کے کسی کام سے لوگوں میں بلاوجہ غلط فہمیاں نہ پھیلیں او رپبلک تاثر درست رہے۔ عوامی زندگی میں اپنے بارے میں لوگوں کے تاثرات کو درست رکھنا اور مختلف کاموں کے بارے میں لوگوں کے احساسات و جذبات کا جائزہ لیتے رہنا اور انہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور یہ سنت نبویؐ بھی ہے۔ اس بارے میں دو واقعات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ایک واقعہ بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلہ میں ہے جسے امام بخاریؒ نے ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ نومبر ۱۹۹۸ء

غازی ظہیر الدین بابر ، پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر

آج بھی اسباب و وسائل کا توازن ہمارے حق میں نہیں اور افرادی قوت میں بھی ہمارا پلڑا بھاری نہیں ہے، لیکن یہ توازن کبھی بھی ہمارے حق میں نہیں رہا، اس وقت بھی ہم اسی طرح تھے جب یہاں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ مگر فطرت کے تقاضوں کو سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کا حوصلہ رکھنے والی قیادت موجود تھی اس لیے افرادی قوت اور اسباب و وسائل کی کمی ہماری راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ آئیے مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب ’’قصص الہند‘‘ سے مغل سلطنت کے بانی غازی ظہیر الدین بابرؒ کے اس معرکہ کا مختصر حال پڑھ لیں جو مغل سلطنت کا نقطۂ آغاز بنا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ اگست ۱۹۹۸ء

Pages