مقالات و مضامین

مشرقِ وسطیٰ کی تشویشناک صورتحال ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

اجلاس میں ان اقدامات کو دینی مدارس کے خلاف امتیازی اور جانبدارانہ پالیسی کا مظہر قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جب ملک بھر میں پرائیویٹ سیکٹر کے ہر شعبہ میں ہزاروں پرائیویٹ تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں اور انہیں تسلیم کیا جا رہا ہے تو صرف دینی مدارس کو پرائیویٹ سیکٹر سے نکال کر وزارت تعلیم کے انتظام میں دینے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ اسی طرح ملک بھر کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے حسابات کی چیکنگ کا جو نظام موجود ہے اس سے ہٹ کر دینی مدارس کے معاملات کو خفیہ اداروں کے سپرد کردینے کا کیا جواز ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ ستمبر ۲۰۱۶ء

حضرت خواجہ خان محمدؒ

پہلی اور آخری ملاقات کے دوران نصف صدی کے لگ بھگ کا عرصہ ہے اور اس عرصہ میں حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ملاقاتوں کے وسیع سلسلہ کو اگر تین ہندسوں میں بھی بیان کروں تو شاید مبالغہ نہ ہو۔ پاکستان میں اور بیرون ملک ان کی خدمت میں حاضریوں اور ان کی دعاؤں و شفقتوں سے فیض یاب ہونے کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ وہ جمعیۃ علمائے اسلام کی مرکزی قیادت میں شامل تھے اور ایک عرصہ تک نائب امیر رہے۔ میں نے بھی کم و بیش ربع صدی کا عرصہ جمعیۃ علمائے اسلام میں ایک متحرک کارکن کے طور پر گزارا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ مئی ۲۰۱۰ء

قاری عبد الحلیمؒ

جامعہ بنوریہ کے مہتمم مولانا مفتی محمد نعیم صاحب ہمارے پرانے دوست اور ساتھی ہیں اور ان کی تعلیمی سرگرمیاں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کے والد محترم قاری عبد الحلیم صاحب کا انتقال ہوگیا تھا اور میں کراچی حاضری کے موقع پر ان کے پاس تعزیت کے لیے جانا چاہتا تھا۔ مولانا فداء الرحمان درخواستی سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھی گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے سفر پر تھا اور ابھی تک جامعہ بنوریہ نہیں جا سکا اس لیے اکٹھے چلتے ہیں۔ چنانچہ مولانا فداء الرحمان درخواستی اور راقم الحروف اکٹھے جامعہ بنوریہ گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جنوری ۲۰۱۰ء

مولانا محمد عمر لدھیانویؒ

مولانا محمد عمر لدھیانویؒ رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کے بھتیجے اور حضرت مولانا محمد یحییٰ لدھیانویؒ کے فرزند تھے۔ پاکستان بننے کے بعد حضرت مولانا محمد یحییٰ لدھیانویؒ پاکستان تشریف لائے اور فیصل آباد میں آباد ہوگئے۔ گورونانک پورہ فیصل آباد میں مدرسہ اشرف المدارس جو ایک دور میں ملک کے بڑے مدارس میں شمار ہوتا تھا، مولانا محمد یحییٰ لدھیانویؒ کا قائم کردہ ہے۔ مولانا محمد عمر لدھیانویؒ جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہ نماؤں میں سے تھے اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے معتمد رفقاء میں سے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء

مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ

آج کا کالم چند تعزیتوں کے حوالے سے ہے۔ حضرت مولانا عبد المجید انور ہمارے محترم بزرگ دوستوں میں سے تھے جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک زمانے میں جامعہ رشیدیہ ساہیوال کو پاکستان میں دیوبندی مسلک کے رشیدی ذوق کے ترجمان ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ اور ان کے بعد حضرت مولانا محمد عبد اللہ اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی نے اس ذوق کی آبیاری کی اور ملک میں دیوبند مسلک کے تعارف اور ترجمانی کے لیے زندگی بھر محنت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ جولائی ۲۰۰۸ء

حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ

میں گزشتہ روز امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے قاری محمد ہاشم صاحب کے گھر میں قیام پذیر تھا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کرایا۔ خبروں میں ایک تعزیتی بیان نے چونکا دیا جس میں مولانا قاضی عبد اللطیف آف کلاچیؒ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا تھا۔ میرے لیے یہ خبر اچانک تھی، بہت صدمہ ہوا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی چند روز قبل ان کے بھتیجے مولانا قاضی عبد الحلیم کا انتقال ہوا تھا تو میں بیرون ملک سفر کی تیاری میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ واپسی پر رمضان المبارک کے بعد کلاچی حاضری دوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اگست ۲۰۱۰ء

مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ

آج کا کالم دو محترم دوستوں اور بزرگ علمائے کرام کے حوالے سے ہے جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے اور ہمارے دینی و علمی حلقوں میں ان کی جدائی کا صدمہ مسلسل محسوس کیا جا رہا ہے۔ مولانا میاں عبد الرحمٰن کا تعلق بالاکوٹ کے علاقے سے تھا۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا محمد ابراہیم نے لاہور کے معروف بازار انارکلی میں ڈیرہ لگایا اور عمر بھر وہاں حق کی آواز بلند کرتے رہے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ سے خصوصی تعلق رکھتے تھے اور جمعیۃ علمائے اسلام کے سرکردہ راہنماؤں میں سے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اکتوبر ۲۰۱۱ء

حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی

حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی کا وجود اس لحاظ سے بھی آج کے دور میں بسا غنیمت تھا کہ مختلف مسالک اور طبقات کے لوگ ان کے پاس بے تکلف آجایا کرتے تھے اور ان سے فیض یاب ہوتے تھے۔ وہ بھی بلا لحاظ مسلک و مشرب سب کو اپنی محبت و شفقت سے نوازتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ جوں جوں ہماری ’’قوت ہاضمہ‘‘ کمزور ہوتی جا رہی ہے، اس سطح کے بزرگوں کا دائرہ بھی سمٹ رہا ہے اور ہمارے حلقے میں اب ایسا کوئی بزرگ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا جس کے پاس بلا لحاظ مسلک و مشرب او ربلا لحاظ طبقہ سب لوگ کسی حجاب کے بغیر آسکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء

دینی مدارس کے خلاف ایک نئے راؤنڈ کی تیاریاں

اگر حکومت خود بھی دینی تعلیم نہ دے اور جو ادارے یہ تعلیم دے رہے ہیں ان کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہے یا مداخلت کر کے ان میں اپنا مشکوک ایجنڈا شامل کرتی رہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں بنتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بتدریج دینی تعلیم کو ہی ختم کردینا چاہتی ہے۔ اور ماضی میں جامعہ عباسیہ بہاولپور اور جامعہ عثمانیہ طرز کے بیسیوں مدارس کے حوالے سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چنانچہ دینی مدارس کے بارے میں اس قسم کی کوئی پالیسی جب بھی سامنے آتی ہے تو پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ یہ اقدامات دینی مدارس کے خلاف نہیں بلکہ دینی تعلیم کے خلاف ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ ستمبر ۲۰۱۶ء

میسج ٹی وی عکاظ کے میلے میں

میسج ٹی وی کے دفتر میں حاضری ہوئی تو کامران رعد صاحب اپنی رفقاء بھائی فاروق صاحب، عبد المتین صاحب، ڈاکٹر محمد الیاس صاحب (اسلام آباد)، حافظ محمد بلال فاروقی، اور دیگر ٹیم کے ہمراہ موجود تھے۔ حج بیت اللہ کی میدان عرفات سے براہ راست نشریات کا سلسلہ جاری تھا اور امیر حج کا خطبہ شروع ہونے والا تھا جو گزشتہ تین عشروں سے سعودی عرب کے مفتی اعظم ارشاد فرما رہے ہیں۔ مگر اس دفعہ ان کی علالت کی وجہ سے امام حرمین فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۲۰۱۶ء

قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب

قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی سرحدی تقسیم کے موقع پر ضلع گورداس پور میں قادیانی حضرات نے اپنی آبادی کو خود ہی مسلمانوں سے الگ شمار کروایا تھا اس لیے انہیں اس بات پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی آبادی کو الگ طور پر شمار کیا جائے۔ جبکہ یہ بات دستور پاکستان کے مطابق ان کے حقوق اور معاشرتی حیثیت کے صحیح طے ہونے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمیں قادیانیوں کے سیاسی، شہری، انسانی، اور معاشرتی حقوق سے کوئی انکار نہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کو تسلیم کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ ستمبر ۲۰۱۶ء

امامِ اہلِ سنتؒ کی تحریکی و جماعتی زندگی

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی تحریکی زندگی کا آغاز طالب علمی کے دور میں ہی ہوگیا تھا کہ وہ دور طالب علمی میں سالہا سال تک مجلس احرار اسلام کے رضاکار رہے اور تحریک آزادی میں اس پلیٹ فارم سے حصہ لیتے رہے۔ ان کی اس دور کی دو یادگاریں ہمارے گھر میں ایک عرصہ تک موجود رہی ہیں، ایک لوہے کا سرخ ٹوپ جو وہ پریڈ کے وقت پہنا کرتے تھے اور دوسری کلہاڑی۔ لوہے کا سرخ ٹوپ تو اب موجود نہیں ہے لیکن ان کی کلہاڑی اب بھی موجود ہے اور ان کے احراری ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ اسی دوران وہ جمعیۃ علماء ہند کے کارکن بھی رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جون ۲۰۰۹ء

مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ

مولانا قاری سعید الرحمٰن کو بھی اللہ تعالیٰ نے علمی، مسلکی اور تحریکی ذوق سے بہرہ ور فرمایا تھا اور راولپنڈی صدر میں کشمیر روڈ پر ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارہ جامعہ اسلامیہ کو ان حوالوں سے مرکزیت کا مقام حاصل تھا۔ ایک دور میں شیخ الحدیثؒ حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک راولپنڈی تشریف لانے پر ان کے ہاں قیام کیا کرتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ کو مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی فرودگاہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا بلکہ حضرت بنوریؒ کی وفات راولپنڈی میں ہوئی تو ان کی پہلی نماز جنازہ جامعہ اسلامیہ میں ہی ادا کی گئی جس میں شرکت کی مجھے بھی سعادت حاصل ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء

مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی

مولانا سید امیر حسینؒ گیلانی اس وقت پاکستان میں موجود چند گنے چنے فضلائے دیوبند میں سے تھے اور ان کے ساتھ جماعتی زندگی میں میرا طویل رفاقت کا دور گزرا ہے۔ ان کا تعلق مہاجرین کشمیر سے تھا اور ان کے خاندان کے بہت سے افراد گوجرانوالہ میں رہتے تھے اس لیے ان کا گوجرانوالہ اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ انہوں نے جماعتی اور تحریکی زندگی کا آغاز 1953ء کی تحریک ختم نبوت سے کیا اور وہ ملاقاتوں میں اس دور کے حالات اور اپنی سرگرمیاں بتایا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اپریل ۲۰۰۹ء

علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ

17 اگست کو صبح ڈیٹرائٹ کی مسجد بلال میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد واشنگٹن واپسی کے لیے ایئرپورٹ جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ مولانا قاری محمد الیاس نے اطلاع دی کہ علامہ علی شیر حیدریؒ کو شہید کر دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مسجد میں آنے سے پہلے انٹرنیٹ پر جنگ اخبار دیکھ کر آئے تھے جس کی اس دن پہلی خبر یہی تھی۔ واشنگٹن پہنچ کر انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی تفصیلات معلوم کیں، بے حد صدمہ ہوا۔ وہ تحفظ ناموس صحابہؓ اور اہل سنت کے عقائد و حقوق کے دفاع کے محاذ کے ایک اہم راہنما تھے جن کی پوری زندگی اسی مشن میں گزری ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اگست ۲۰۰۹ء

مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ

ہمیں خاندانی طور پر گزشتہ ہفتے کے دوران ایک بڑے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا کہ میرے بہنوئی مولانا قاری خبیب احمد عمر کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ہمارے بزرگ اور مخدوم حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے فرزند تھے اور حضرت کی وفات کے بعد گزشتہ گیارہ برس سے جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم اور جامع مسجد گنبد والی کے خطیب کی حیثیت سے ان کی جانشینی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ میری چھوٹی بہن ان کی اہلیہ ہیں جو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام للبنات جہلم میں گزشتہ ربع صدی سے تدریس کی خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مارچ ۲۰۰۹ء

مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت

میں ابھی تک اس گومگو کی کیفیت میں ہوں کہ مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ کے حوالے سے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کس کا ذکر پہلے کروں۔ اول الذکر پاک فوج کے جیٹ طیاروں کی بمباری سے شہید ہوئے ہیں اور ثانی الذکر کو ایک خودکش بمبار نے ان کی قیمتی جان سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کا تعلق دینی مدارس سے تھا اور دونوں دینی تعلیم کے ذریعہ ملک و ملت کی خدمت کر رہے تھے۔ مولانا محمد امین اورکزئی ہنگو میں جامعہ یوسفیہ کے استاذ تھے جبکہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی لاہور میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جون ۲۰۰۹ء

مولانا طارق جمیل کے مدرسے کا دورہ

مولانا طارق جمیل کو گزشتہ روز ایک نئے روپ میں دیکھا تو دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس مشن اور پروگرام میں کامیابی اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین۔ مولانا موصوف کا تعلق تلمبہ خانیوال کے ایک کھاتے پیتے زمیندار گھرانے سے ہے۔ تبلیغی جماعت سے تعلق قائم ہوا تو اس میں اس رفتار سے آگے بڑھے کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ مولانا دعوت و تبلیغ کے عمل سے وابستہ ہوئے تو تنہا تھے کہ خاندان میں کوئی اس کار خیر پر شاباش دینے والا نہیں تھا لیکن یہ ان کی استقامت اور جہد مسلسل کا ثمر ہے کہ اب پورا خاندان بلکہ پورا علاقہ اس نیک عمل میں ان کا دست و بازو ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جون ۲۰۰۳ء

حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ

27 اپریل کو ہم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی کی یاد میں تعزیتی جلسہ کی تیاریوں میں تھے کہ مجلس احرار اسلام پاکستان کے نومنتخب سیکرٹری جنرل عبد اللطیف خالد چیمہ نے فون پر اطلاع دی کہ خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے فرزند اور دارالعلوم (وقف) دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ صاحبؒ کا دہلی میں انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر ان سے تفصیلات معلوم کرنا چاہیں تو انہوں نے بتایا کہ سردست یہی خبر آئی ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ رحلت فرما گئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ مئی ۲۰۰۸ء

قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم

قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گزشتہ روز ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان کے تازہ شمارے میں ان کی وفات کی خبر پڑھی تو دل سے رنج و صدمہ کی ایک لہر اٹھی اور ماضی کے بہت سے اوراق ایک ایک کر کے نگاہوں کے سامنے الٹتے چلے گئے۔ قاری صاحب مرحوم خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان اللہ شجاع آبادیؒ کے داماد تھے اور انہی کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ ملتان کی سرگرم دینی اور سیاسی شخصیات میں شمار ہوتے تھے، وکالت کرتے تھے اور ملتان بار کے فعال ارکان میں سے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جنوری ۲۰۰۶ء

حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی

مولانا ثناء اللہ چنیوٹی نے بتایا کہ جنازہ اور اس کے بعد چنیوٹ کے تعزیتی جلسہ میں میری غیر حاضری کو دوستوں نے بہت زیادہ محسوس کیا اور لوگ بار بار میرے بارے میں پوچھتے رہے۔ آج گوجرانوالہ کی ایک محفل میں بھی دوستوں نے اس بات کا بطور خاص تذکرہ کیا، جن حضرات کو مولانا چنیوٹیؒ کے ساتھ میرے ربط و تعلق کا علم تھا، ان کے لیے یہ بات مزید غم کا باعث بنی کہ ان کی وفات اور جنازہ کے موقع پر میں ہزاروں میل دور امریکہ میں تھا اور بے بسی کے عالم میں ان کی یادیں ذہن میں تازہ کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جون ۲۰۰۴ء

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ

والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا بھر سے فون آرہے ہیں۔ جن کو موقع ملتا ہے وہ زحمت فرما کر تشریف لاتے ہیں اور ہمارے ساتھ غم و صدمہ کا اظہار کرتے ہیں۔ میں اپنے سب بھائیوں اور بہنوں اور دیگر اہل خاندان کی طرف سے ان تمام دوستوں، احباب، بزرگوں، اور ہمدردوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کسی بھی ذریعہ سے ہمارے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا اور حضرت والد محترمؒ کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ سب کو دنیا و آخرت میں اس کا اجر جزیل دیں، آمین ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مئی ۲۰۰۹ء

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

بھارت سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوریؒ کے فرزند مولانا محمد طلحہ اور لکھنؤ سے مولانا سید سلمان ندوی اور مولانا یحییٰ نعمانی مدیر الفرقان کی طرف سے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ جبکہ برطانیہ سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا محمد یعقوب القاسمی، مولانا اکرام الحق خیری، مولانا محمد قاسم، شیخ عبد الواحد، مولانا محمد اشرف قریشی، حافظ ضیاء المحسن طیب اور دیگر علماء نے فون پر تعزیت کی اور بتایا کہ مختلف شہروں میں مساجد و مدارس میں حضرت شیخ کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی اور دعائے مغفرت کا سلسلہ جاری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مئی ۲۰۰۹ء

والدِ محترم کے سفر آخرت کا احوال

حضرت والد صاحبؒ کی وفات کے روز ہم سب گکھڑ میں جمع ہوئے تو جنازے کے لیے موزوں وقت اور تدفین کے مقام کے بارے میں باہمی مشورہ ہوا۔ گکھڑ میں سب سے بڑا گراؤنڈ ڈی سی ہائی اسکول کا ہے، ہم نے صبح اسے ایک بار دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد نماز جنازہ ادا کر سکیں گے۔ ہمارا خیال اسی کے لگ بھگ تھا مگر شام کو جنازے کے وقت دیکھا تو ہمارا اندازہ درست نہیں تھا کیونکہ گراؤنڈ اس قدر بھر گیا تھا کہ اندر مزید لوگوں کے آنے کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ جبکہ باہر جی ٹی روڈ اور اس کے ساتھ ملحقہ دو سڑکوں پر عوام کا بے پناہ ہجوم تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۲۰۰۹ء

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ گزشتہ آٹھ نو برس سے صاحب فراش تھے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کی یادداشت آخر وقت تک قائم رہی اور علمی دلچسپی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نظر کمزور ہوگئی تھی اور کسی کو دیکھ کر نہیں پہچانتے تھے لیکن تعارف کرانے پر ساری باتیں ان کو یاد آجاتیں اور پھر وہ جزئیات تک دریافت کرتے تھے۔ مجھے جمعہ کے دن شام کو تھوڑی دیر کے لیے حاضری کا موقع ملتا، جب طبیعت کچھ بحال ہوتی تو کسی نہ کسی کتاب سے کچھ سنانے کی فرمائش کرتے اور احادیث کی کسی کتاب سے میں انہیں چند احادیث سنا دیتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ مئی ۲۰۰۹ء

مولانا عبد الرحیم اشعرؒ

مولانا عبد الرحیم اشعرؒ کا تعلق عقیدۂ ختم نبوت کے محاذ پر قادیانیت کا مقابلہ کرنے والے سرفروش قافلے سے تھا جنہوں نے اس دور میں قادیانیت کو سرعام للکارا جب ملک میں فوج اور سول کے بہت سے کلیدی مناصب پر قادیانیوں کا تسلط تھا، قادیانیوں کے عقائد و کردار پر کسی جلسہ یا رسالے میں تنقید جرم تصور ہوتی تھی، قادیانیت کے ساتھ تعلق کے اظہار کو مختلف محکموں میں ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اور برسرعام ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگانے والوں کے سینے گولیوں سے چھلنی ہو جایا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جون ۲۰۰۳ء

محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم

محمد ظہیر میر جمعیۃ طلباء اسلام میں درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری جنرل کے منصب تک جا پہنچے۔ یہ وہ دور تھا جب جے ٹی آئی پورے ملک میں متحرک تھی اور دینی مدارس کے ساتھ ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اس کے سینکڑوں یونٹ قائم تھے جو فعال بھی تھے اور ملک بھر میں اس کا نیٹ ورک ہر سطح پر کام کر رہا تھا۔ میں خود جے ٹی آئی کے ابتدائی ارکان میں سے ہوں اور ایک عرصہ تک اس کا متحرک رکن رہا ہوں مگر اب یہ نام زبان پر آتے ہی حسرت کی کیفیت دل و دماغ پر طاری ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مارچ ۲۰۱۲ء

آصف علی زرداری ۔ منتخب آ ئینی صدر

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کے لیے جناب آصف علی زرداری کی نامزدگی اور انتخاب ان حلقوں اور دوستوں کے لیے بہرحال آسانی سے قبول کی جانے والی بات نہیں تھی جن سے میری ملاقاتیں ہوتی رہیں، اس لیے اکثر تاثرات منفی ہی سننے میں آئے۔ ایک مجلس میں دوستوں نے کہا کہ ایجنڈا وہی ہے صرف ٹیم تبدیل ہوئی ہے، امریکہ نے تھکے ہوئے گھوڑے کی بجائے تازہ دم گھوڑے کا اہتمام کر لیا ہے، اس لیے اب وہ ایجنڈا زیادہ قوت کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ ایک محفل میں بحث چل پڑی کہ جنرل پرویز مشرف میں اور آصف زرداری میں کیا فرق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ ستمبر ۲۰۰۸ء

ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ

ہمارے ہاں دہشت گردی کا کھیل ایک عرصے سے جاری ہے۔ یہ دہشت گردی زبان کے مسئلے پر بھی ہوئی ہے، قومیت کے مسئلے پر بھی ہوئی ہے، شیعہ سنی تنازع میں بھی اس دہشت گردی کی تاریخ بہت تلخ ہے، اور اب یہ نفاذ شریعت کے نام پر ہو رہی ہے۔ ہمیں دراصل وہ ہاتھ تلاش کر کے اسے بے نقاب کرنا ہوگا جو ہمیں مختلف ناموں سے آپس میں لڑاتا رہتا ہے اور خود ہمارے ہاتھوں ہماری گردنیں کٹوا کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ جب تک ہم اس خفیہ ہاتھ کو بے نقاب نہیں کرتے، دہشت گردی کا یہ گھناؤنا کھیل کسی نہ کسی بہانے جاری رہے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جون ۲۰۰۹ء

بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے

محترمہ بیگم نسیم ولی خان نے ایک خصوصی انٹرویو میں یہ بات فرمائی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر بنا تھا اور خفیہ اداروں نے مذہبی جنونیت کو تقویت دی ہے۔ محترمہ بیگم نسیم ولی خان ملکی سیاست میں اہم مقام اور کردار رکھتی ہیں اور میرے لیے اس وجہ سے بھی قابل احترام ہیں کہ میں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ان کی قیادت میں ایک کارکن کے طور پر کام کیا ہے۔ چونکہ محترمہ اور ان کا خاندان تحریک پاکستان کا حصہ نہیں تھے اس لیے اس حوالے سے ان سے کچھ گزارش کرنا شاید مناسب نہ ہو مگر دو حوالے انہیں ضرور یاد دلانا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۲۰۱۲ء

توہینِ رسالت کی سزا اور بائبل

بشپ چرچ آف پاکستان جناب ڈاکٹر اعجاز عنایت کے متوازن اور حقیقت پسندانہ خیالات اس حوالے سے حوصلہ افزا ہیں کہ انہوں نے معروضی صورتحال کا بہتر تجزیہ کیا ہے اور اس سازش کو بروقت بھانپ لیا ہے جو پاکستان میں مسلم اکثریت اور مسیحی اقلیت کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے اور اس کے ذریعے لادینیت کے سیکولر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مفاد پرست عناصر کی طرف سے مسلسل جاری ہے۔ لیکن کیا پاپائے روم عالمی استعمار کی بولی بولنے کی بجائے بائبل اور پاکستانی مسیحی رہنماؤں کی پکار پر توجہ دینے کے لیے تیار ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جنوری ۲۰۱۱ء

حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ

23 مارچ 1947ء کو دارالعلوم دیوبند میں مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’۔۔۔امریکہ کو خطرہ ہے کہ اگر ہندوستان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا تو ہندوستان کی سوشلسٹ حکومت روس کے ساتھ مل کر ایک زبردست بلاک بنا لے گی جس کی وجہ سے ایشیا میں امریکہ کا ناطقہ بند ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ ہندوستان اور روس کے درمیان ایک ایسی ریاست قائم کر دی جائے جس کی وجہ سے یہ دونوں ملک آپس میں مل کر کوئی مضبوط محاذ نہ بنا سکیں۔ پاکستان کی ضرورت صرف اتنی سی ہے۔ جب تک پاکستان امریکہ کی یہ ضرورت پوری کرتا رہے گا قائم رہے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ ستمبر ۲۰۱۲ء

حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ

حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی جدوجہد کا بنیادی میدان دعوت و تبلیغ تھا اور وہ خود پر اس کے علاوہ کسی اور کام کی چھاپ نہیں لگنے دیتے تھے۔ البتہ دینی جدوجہد کے دیگر شعبوں سے لاتعلق بھی نہیں رہتے تھے بلکہ مشورے اور رہنمائی کی حد تک اس میں ضرور شرکت کرتے تھے۔ فیصل آباد میں دینی تحریکات کو ہمیشہ ان کی سرپرستی اور راہنمائی حاصل رہی ہے۔ خود مجھے جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے متعدد بار ان کی شفقتوں اور مشوروں سے حصہ ملا ہے بلکہ بعض اوقات ان کی سرزنش کے مراحل سے بھی گزرا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ مئی ۲۰۰۴ء

دفاع وطن اور اسوۂ حسنہ

نامور مؤرخ و محدث امام ابن سعدؒ کی تحقیق کے مطابق جناب رسول اللہؐ نے مدینہ منورہ کی دس سالہ زندگی میں ستائیس کے لگ بھگ غزوات میں خود شرکت فرمائی۔ ان میں اقدامی جنگیں بھی تھیں اور دفاعی جنگیں بھی شامل تھیں۔ مثلاً (۱) بدر (۲) خیبر (۳) بنو مصطلق اور (۴) فتح مکہ کی جنگیں اقدامی تھیں کہ آنحضرتؐ ان جنگوں میں دشمن پر خود حملہ آور ہوئے تھے۔ جبکہ (۱) احد (۲) احزاب اور (۳) تبوک کی جنگیں دفاعی تھیں کہ حملہ آور دشمنوں سے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے حضورؐ میدان جنگ میں آئے تھے اور دشمنوں کو اپنے ارادوں میں ناکامی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ ستمبر ۲۰۱۶ء

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ۔ مولانا سید سلمان ندوی کے خیالات

سلمان ندوی نام کے تین بزرگ اس وقت ہمارے معاصر اہل علم و دانش میں معروف ہیں۔ ایک ڈاکٹر سید سلمان ندوی ہیں جو معروف کتاب ’’سیرت النبیؐ‘‘ کے مصنف علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزند ہیں اور ڈربن یونیورسٹی جنوبی افریقہ میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ رہے ہیں۔ دوسرے مولانا سید سلمان الحسینی ندوی ہیں جو رشتہ میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے نواسے لگتے ہیں اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ الحدیث ہیں۔ جبکہ تیسرے مولانا سلمان ندوی میرپور ڈھاکہ میں دارالارشاد کے نام سے ایک علمی ادارے کے ذریعے دینی و علمی خدمات میں مصروف ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ء

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ

میو ہسپتال پہنچا تو بہت زیادہ رش تھا اور بظاہر ان تک رسائی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کمرے کے دروازے پر گوجرانوالہ کے ایک اہل حدیث نوجوان کی ڈیوٹی تھی جو علامہ شہیدؒ کے ذاتی دوستوں میں سے تھے اور مجھے پہچانتے تھے۔ انہوں نے ہمت کر کے اس قدر رش کے باوجود مجھے ان کے بیڈ تک پہنچایا۔ میں نے علامہ شہیدؒ کے چہرے کی طرف دیکھا، آنکھیں چار ہوئیں، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس حالت میں وہ مجھے پہچان پائیں گے۔ ان کے لبوں کو حرکت ہوئی تو میں نے کان قریب کر لیے، وہ کہہ رہے تھے کہ ’’حضرت صاحب سے میرے لیے دعا کی درخواست کرنا‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اپریل ۲۰۱۲ء

حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ

حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ کی وفات صرف اہل حدیث حضرات کے لیے باعث رنج و صدمہ نہیں بلکہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد سے تعلق رکھنے والا ہر مسلمان اور ہر پاکستانی ان کی جدائی سے غمزدہ ہے۔ جن بزرگ اہل حدیث علمائے کرام کے ساتھ میرا عقیدت اور نیاز مندی کا تعلق رہا ہے ان میں حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ بھی شامل ہیں۔ میں نے جب اردو لکھنا پڑھنا شروع کی تو بالکل ابتداء میں جو چند کتابیں میرے مطالعہ میں آئیں ان میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کی ’’خطبات احرار‘‘ بھی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ دسمبر ۲۰۱۱ء

فاروق ستار کے مغالطے

ایم کیو ایم کے رہنماجناب فاروق ستار نے اس کنونشن میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے بارے میں ہم اپنے تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق (۱) ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے تعلق رکھتا ہے، بیت اللہ محسود جیسے دہشت گردوں سے نہیں۔ یہ ملک سب کا ہے اور یہاں کوئی اکثریت اقلیت نہیں۔ (۲) اس کے ساتھ ہی انہوں نے صدر اور وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ صدر اور وزیراعظم کا انتخاب اقلیتوں میں سے بھی ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۲۰۱۲ء

نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم

نواب محمد اکبر خان بگٹی کے افسوسناک قتل نے جہاں ماضی کی بہت سی تلخ یادوں کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے وہاں مستقبل کے حوالہ سے بھی انجانے خدشات و خطرات کی دھند ذہنوں پر مسلط کر دی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو کچھ ہوا ہے درست نہیں ہوا اور اس کے نتائج ملک و قوم کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں، اس پر حکومتی پارٹی اور اپوزیشن میں اختلاف نہیں ہے اور متحدہ مجلس عمل اور اے آر ڈی کے ساتھ ساتھ چودھری شجاعت حسین اور میر ظفر اللہ خان جمالی بھی اس پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم ستمبر ۲۰۰۶ء

محکمہ ڈاک اور پی آئی اے کی ’’حسن کارکردگی‘‘

محکمہ ڈاک اور پی آئی اے کے بارے میں اپنی ان تازہ شکایتوں کا قارئین سے تذکرہ تو کر دیا ہے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ باضابطہ شکایت کس سے کروں؟ جی چاہتا ہے کہ یہ شکایت امریکی سفیر محترمہ کرسٹینا روکا سے کروں کہ وہ ان دنوں ہماری ’’وزیر امور ہند‘‘ ہیں۔ ان سے یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ہم پر انگریزوں نے بھی ڈیڑھ دو سو برس حکومت کی ہے اور آزادی اور خودمختاری کے لیے ان سے ہماری کشمکش جاری رہتی تھی مگر محکمانہ نظام اور سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا معیار انہوں نے قائم رکھا ہوا تھا جسے اب تک یہاں کے لوگ یاد کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۲۰۰۵ء

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی رخصت ہوئے

والد گرامیؒ عمر بھر دینی و قومی تحریکات میں حصہ لیتے رہے، تحریک آزادی میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا، 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں کم و بیش دس ماہ اور 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ایک ماہ تک جیل میں رہے۔ طویل عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے امیر رہے اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔ وہ اہل سنت کے دیوبندی مکتب فکر کے علمی ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے مسلکی اختلافات کے حوالہ سے مختلف موضوعات پر پچاس سے زیادہ ضخیم کتابیں لکھی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مئی ۲۰۰۹ء

دین اور دینی تعلق کی برکات

گزشتہ ماہ مجھے تقریباً تیرہ سال کے بعد امریکہ جانے کا موقع ملا۔ مئی کے دوران دو ہفتے امریکہ رہا اور واپسی پر تین چار دن برطانیہ میں گزار کر مئی کے آخر میں وطن واپس آگیا۔ اس سے قبل 1987ء سے 1990ء تک چار پانچ بار امریکہ جا چکا ہوں۔ اس دوران میں نے کم و بیش درجن بھر امریکی شہروں میں مختلف اجتماعات میں شرکت کی اور متعدد امریکی اداروں میں جانے کا موقع بھی ملا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر بھی دیکھا بلکہ اس کی ایک سو ساتویں منزل پر واقع سیر گاہ سے نیویارک کا نظارہ کرنے کے علاوہ عصر کی نماز بھی وہیں جماعت کے ساتھ ادا کی جسے دیکھنے کے لیے ایک ہجوم ہمارے گرد جمع ہوگیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ و ۱۵ جون ۲۰۰۳ء

خان عبد الولی خان مرحوم

مجھے خان عبد الولی خان مرحوم کے ساتھ زیادہ ملاقاتوں کا موقع نہیں ملا لیکن میں ان کے مداحوں میں سے ہوں۔ بہت سے معاملات میں ان سے اختلاف بھی رہا اور رائے و موقف کی حد تک آج بھی وہ اختلاف قائم ہے، لیکن ان کی وضعداری اور اپنی بات پر قائم رہنے کی روایت میرے نزدیک ہمیشہ قابل تعریف رہی ہے۔ انہوں نے اپنے بعض تحفظات کے باوجود ہمیشہ ملکی استحکام اور سالمیت کی بات کی اور ایک لبرل بلکہ سیکولر سیاستدان ہونے کے باوجود دستور میں اسلامی دفعات، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، اور دیگر بہت سے دینی معاملات میں دینی جماعتوں کا ساتھ دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جنوری ۲۰۰۶ء

پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار

گزشتہ دنوں ملک کے معروف قانون دان جناب عابد حسن منٹو نے ایک قومی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اجتہاد کے لیے مولوی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج کے دور میں اجتہاد کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ جبکہ اس سے کچھ دن بعد تنظیم اسلامی پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے ان کا یہ ارشاد سامنے آیا ہے کہ اجتہاد کا کام کلیتاً پارلیمنٹ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ یوں یہ بحث ایک بار پھر قومی اخبارات میں شروع ہوتی نظر آرہی ہے کہ آج کے دور میں اجتہاد کا حق کس کو حاصل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مئی ۲۰۰۲ء

جارج واشنگٹن اور جارج ڈبلیو بش کے مذہبی رجحانات

امریکی دستور کی پہلی ترمیم میں مذہب کے ریاستی کردار کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا تھا اور اسی حوالے سے کانگریس کے بعض ارکان صدر بش کی طرف سے مسیحی مشنریوں کے لیے دی جانے والی مالی مراعات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ تاریخی حقیقت امریکی کانگریس کا منہ چڑا رہی ہے کہ امریکہ کے صدر نے یہ کہہ کرشراب کو ترک نہیں کیا کہ امریکی کانگریس نے ایک موقع پر شراب پر پابندی عائد کر دی تھی بلکہ انہوں نے کہا کہ مذہبی رجحانات کی وجہ سے ان کے دل کی کیفیت بدلی ہے اور انہوں نے شراب نوشی ترک کر دی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جنوری ۲۰۰۴ء

پسپائی اور شکست ، مسلمانوں کا مقدر کیوں؟

حرم کعبہ کے امام محترم الشیخ عبد الرحمن السدیس نے ایک انٹرویو میں عراق کی صورتحال کے حوالے سے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شکست سے مایوس نہ ہوں بلکہ اس کے اسباب کا جائزہ لیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں امام محترم کے اس ارشاد سے مکمل اتفاق ہے کیونکہ شکست اور ناکامی سے مایوس ہو کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا زندہ قوموں کا شعار نہیں۔ زندگی کی حرارت رکھنے والی قومیں اپنی ناکامی اور شکست کے اسباب کا جائزہ لیتی ہیں اور ان کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کے لیے اپنی ترجیحات اور طرز عمل پر نظر ثانی کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء

دہشت گردی یا حریت پسندی؟

طالبان کو مغرب کے نظام و فلسفہ اور تہذیب کے لیے خطرہ سمجھ لیا گیا کیونکہ (١) خانہ جنگی سے نجات (٢) اسلامی قوانین کے ذریعے معاشرتی جرائم پر کنٹرول (٣) لاء اینڈ آرڈر کی مثالی صورت حال (٤) منشیات کا مکمل خاتمہ اور (٥) بیرونی قرضوں کے بغیر سادگی اور قناعت کے ساتھ نظام حکومت چلانے کی جو روش انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنا لی تھی اگر انہیں اس پر آٹھ دس سال تک چلنے کا موقع دیا جاتا تو دنیا کے سامنے فی الواقع ایک ایسی ریاست اور معاشرے کا نقشہ عملی طور پر آجاتا جس کے سامنے مغربی فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کا چراغ زیادہ دیر تک نہ جل سکتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ نومبر ۲۰۰۱ء

میاں اجمل قادری، سردار عبد القیوم اور اسرائیل

سردار محمد عبد القیوم خان صاحب سے ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ وہ لینے اور دینے کا پیمانہ ایک ہی رکھیں کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ اگر فلسطین میں طاقت کے زور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا گیا تو کشمیر میں اس اصول کو لاگو ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ سردار صاحب کا یہ کہنا کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے، یہ بات اگر کوئی سیکولر لیڈر یا دانشور کہتا تو ہمیں کوئی اشکال نہ ہوتا لیکن سردار محمد عبد القیوم خان کی زبان سے یہ جملہ سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون کا مسلسل ورد کرنے کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جولائی ۲۰۰۳ء

مغرب کی بالادستی اور حضرت عمرو بن العاصؓ

مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشیؓ بیٹھے ہوئے تھے جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت سے پہلے رومی لوگوں میں کثرت سے پھیل جائیں گے۔ روم اس دور میں عیسائی سلطنت کا پایۂ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے عیسائی حکمران مراد ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہؐ سے سنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جولائی ۱۹۹۷ء

’’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘‘

قائد اعظمؒ کے ان ارشادات اور ان کے دیگر درجنوں فرمودات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں قانونی نظام اور قوانین کے حوالے سے کس قسم کی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ اسلام کے معاشی اور معاشرتی قوانین کو بروئے کار لانے کے متمنی تھے اور مغرب کے نظام معیشت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق ملک میں ایک نئے معاشی نظام اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل چاہتے تھے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ’’انڈیا ایکٹ‘‘ سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

Pages