مقالات و مضامین

ہمارا علمی و ثقافتی ورثہ ۔ انڈیا آفس لائبریری لندن

انڈیا آفس لائبریری لندن کو دیکھنے کے بعد سب سے پہلا تاثر یہ ابھرتا ہے کہ یہ علمی ڈکیتی کی ایک افسوسناک شکل ہے کہ پورے برصغیر کو علمی وراثت سے محروم کر کے فرنگی حکمرانوں نے اس علمی ذخیرے کو اپنی جھولی میں ڈال لیا اور برصغیر کے باشندوں کے مال و دولت اور صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ ان کے علمی اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ لیکن معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر اپنے انگریز حکمرانوں کا بہرحال شکرگزار ہونا پڑے گا کہ انہوں نے ہمارے کتب خانوں کے ساتھ تاتاریوں والا سلوک نہیں کیا، ورنہ ہندوستان میں بھی بہت سے دریاؤں کا پانی سیاہ ہو سکتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۱۹۹۷ء

ہمارے عدالتی نظام کا ماحول

سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے یہ ریمارکس دیے ہیں کہ ’’پنجاب دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں مرتے ہوئے بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ڈکیتی کے کے مبینہ ملزم کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے فاضل جج نے کہا کہ یہ میں نہیں کہتا بلکہ 1925ء میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک انگریز جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ پنجاب کے لوگوں کے نزعی بیان پر یقین نہ کیا کریں یہ مرتے ہوئے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسا خطہ ہے جہاں نزعی بیان میں دشمنی کا حساب برابر کیا جاتا ہے اور خاندان کے خاندان کو نامزد کر دیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۱۶ء

دور نبویؐ میں اسلامی ریاست کا نقشہ

جناب نبی اکرمؐ کی ہجرت سے قبل یثرب کے علاقہ میں ریاست کا ماحول بن چکا تھا اور اس خطہ میں قبائلی معاشرہ کو ایک باقاعدہ ریاست و حکومت کی شکل دینے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انصار مدینہ کے قبیلہ بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے آنحضرتؐ کو بتایا کہ آپؐ کی تشریف آوری سے پہلے اس بحیرہ کے لوگوں نے باقاعدہ حکومت کے قیام کا فیصلہ کر کے عبد اللہ بن أبی کو اس کا سربراہ منتخب کر لیا تھا اور صرف تاج پوشی کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا کہ آپ یعنی جناب نبی اکرمؐ تشریف لے آئے جس سے عبد اللہ بن أبی کی بادشاہی کا خواب بکھر گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ ستمبر ۲۰۱۶ء

قرآنِ کریم اور سماج باہم لازم و ملزوم ہیں

حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدؐ تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے ہزاروں انبیاء کرامؑ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لی جائے کہ سماجی ارتقاء اور معاشرتی ترقی کے بارے میں ان کا طرز عمل کیا تھا اور انہوں نے سوسائٹی کے اجتماعی فیصلوں اور طرز عمل کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ اسے ہم قرآن کریم کے حوالہ سے دیکھیں تو کچھ اس طرح کا نقشہ سامنے آتا ہے کہ حضرت آدمؑ کے بعد انسانی سوسائٹی نے جو ترقی کی تھی اور اس دوران جو سماجی ارتقاء عمل میں آیا تھا، حضرت نوحؑ نے اسے من و عن قبول نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اگست ۲۰۱۶ء

وہی قاتل، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے

امریکہ نے جب اقوام متحدہ کے سامنے اپنا کیس رکھا اور اس سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے این او سی مانگا تو دلیل اور دانش نے ڈرتے ڈرتے وہاں بھی عرض کیا تھا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف طے کر لی جائے اور اس کی حدود متعین کرلی جائیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی زد میں وہ مظلوم اور مجبور اقوام نہ آجائیں جو اپنی آزادی اور تشخص کے لیے قابض اور مسلط قوتوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ مگر دلیل اور دانش کی آنکھوں پر یہ کہہ کر پٹی باندھ دی گئی کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا، ابھی امریکہ کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ دسمبر ۲۰۰۱ء

دانشوروں کی سوچ تاریخ کے آئینے میں

سلطان ٹیپوؒ سمجھ رہا تھا کہ انگریزوں نے اس کی سلطنت پر حملہ تو ویسے بھی کرنا ہے مگر وہ اس کے لیے فرانسیسیوں کی موجودگی کا بہانہ کر رہے ہیں، اس لیے اس نے انگریزوں کی کوئی بھی شرط ماننے سے انکار کر دیا۔ سلطان ٹیپوؒ کی فوج کے فرانسیسی افسر خود سلطان ٹیپوؒ کے پاس آئے اور کہا کہ اگر اس سے انگریزوں کا غصہ وقتی طور پر ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، آپ ہمیں ان کے حوالے کر دیں۔ اس وقت بھی کسی نہ کسی دانشور، ڈپلومیٹ، یا فقیہ عصر نے سلطان ٹیپوؒ کو یہ مشورہ ضرور دیا ہوگا کہ کوئی حرج کی بات نہیں، وقت نکالو اور سر پر آئی ہوئی جنگ کو سردست ٹالنے کی کوشش کرو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ نومبر ۲۰۰۱ء

ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کا انٹرویو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی طویل عرصے تک خارزار سیاست میں آبلہ پائی کرنے کے بعد اب کئی سالوں سے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ دنیا کی دوسری تہذیبوں سے مکالمہ کرتے اور ان پر اسلام کی حقانیت واضح کرتے ہیں۔ وہ قدیم اسلامی علوم میں بھی دستگاہ رکھتے ہیں اور دور جدید کے سیاسی، معاشی، اور عمرانی مسائل کی مبادیات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ہم نے ان کے سیاسی تجربات اور قومی حوادث کے بارے میں بھی استفسار کیا اور اسلامی دنیا کی بحرانی کیفیت پر بھی کئی سوالات اٹھائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

خلافت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان عبد المجید مرحوم بہت متاثر ہوئے اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے فرمائش کی کہ وہ اسلام اور مسیحیت کے حوالے سے متعلقہ مسائل پر مبسوط کتاب لکھیں جو سرکاری خرچے پر چھپوا کر دنیا میں تقسیم کی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر سلطان ترکی نے اسے تقسیم کرایا۔ یہ معرکۃ الاراء کتاب عربی میں ہے اور جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے اردو میں اس کا ترجمہ کر کے ایک وقیع مقدمہ بھی اس پر تحریر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۲۰۰۵ء

پاک امریکہ تعلقات ۔ سابق صدرجنرل محمد ایوب خان کے خیالات

اس گفتگو میں ایک پاکستانی سیاستدان نے مسٹر ہالبروک سے کہا کہ امریکہ ہمارا آقا نہ بنے بلکہ دوست بنے اور دوستوں کی طرح ہمارے ساتھ معاملات کرے۔ یہ بات بھی صدائے بازگشت ہے پاکستان کے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم کے اس رد عمل کی جو انہوں نے پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دوستی کی پرخلوص کوششوں اور امریکہ کی طرف سے اس کے کم از کم الفاظ میں غیر مثبت جواب پر ظاہر کیا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل جو کتاب شائع کی اس کا نام ہی ’’آقا نہیں دوست‘‘ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۹ء

کیا قرآن کریم اور سماج کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے؟

ایک فاضل دوست نے شکوہ کیا ہے کہ جب ہم سماجی مطالعہ اور معاشرتی ارتقاء کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ قرآن کریم کی آیات پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ محترم دانشور کے ایک حالیہ کالم میں یہ بات پڑھ کر بے حد تعجب ہوا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا قرآن کریم اور سماجی مطالعہ ایک دوسرے سے ایسے لاتعلق ہیں کہ سماج کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) لپیٹ کر ایک طرف رکھ دینا چاہیے؟ اور کیا ہماری دانش خدانخواستہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ سوسائٹی اور سماج کے معاملات کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم کا حوالہ بھی اسے اجنبیت کی فضا میں لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اگست ۲۰۱۶ء

دینی اداروں میں یوم آزادی کی تقریبات

قیام پاکستان کے فورًا بعد اس کی مخالفت کرنے والے سرکردہ علماء کرام بالخصوص ان کے دو بڑے راہ نماؤں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ یہ اختلاف پاکستان کے قیام سے پہلے تھا جبکہ پاکستان بن جانے کے بعد یہ اختلاف باقی نہیں رہا۔ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے نقشہ اور سائز کے بارے میں اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو وہ جیسے بھی بنے مسجد ہی ہوتی ہے اور اس کا احترام سب کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اگست ۲۰۱۶ء

کویت ایئرویز کا تجربہ اور اردو کی بے چارگی

کویت ایئرویز کے ذریعے زندگی میں پہلی بار سفر کا موقع ملا۔ عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران مجھے دارالعلوم نیویارک میں اساتذہ و طلبہ کے لیے ’’دینی تعلیم کے معروضی تقاضے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی سات روزہ ورکشاپ میں شرکت کے لیے امریکہ آنا تھا۔ میں ہمیشہ قومی ایئرلائن سے سفر کو ترجیح دیتا ہوں مگر اس بار کویت ایئرویز کے ٹکٹ میں 20 ہزار روپے سے زائد رقم کی بچت دیکھ کر یہ ترجیح بدلنا پڑی۔ اس لیے کہ مجھ جیسے فقیر آدمی اور بلانے والے دینی اداروں کے لیے یہ فرق خاصا نمایاں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۱۱ء

حج کے موقع پر امریکہ کے خلاف تنقید پر پابندی

10 فروری 2002ء کو لاہور کے ایک روزنامہ نے ریاض سے ’’آن لائن‘‘ کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے عازمین حج کو انتباہ کیا ہے کہ ادائیگی حج کے موقع پر امریکہ کے خلاف تنقید کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ مکہ کے گورنر شہزادہ عبدالمجید بن عبد العزیز نے عربی اخبار ’’عکاظ‘‘ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ حج امریکہ کے خلاف تنقید کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ فروری ۲۰۰۲ء

تحریک نفاذِ شریعتِ محمدیؐ ۔ مقاصد اور جدوجہد کے پس منظر میں

1975ء میں دیر میں جنگلات کی رائلٹی کے حوالہ سے ایک عوامی تحریک ابھری تو اس کے مطالبات میں عدالتی نظام کی تبدیلی کا پرجوش مطالبہ بھی شامل ہوگیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے والا عدالتی نظام واپس کیا جائے جس میں مقدمات کے فیصلے جلدی اور شریعت کے مطابق ہوتے تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس مطالبے کو اس حد تک تو منظور کر لیا کہ پاکستان کا مروجہ عدالتی نظام مالاکنڈ ڈویژن میں معطل کر دیا مگر سابقہ عدالتی نظام بحال کرنے کی بجائے ایک نیا عدالتی نظام فاٹا ریگولیشن کے نام سے رائج کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اگست ۱۹۹۵ء

اسامہ بن لادن اور امریکی تحریک آزادی کے جنگجو

ایک معاصر اخبار نے این این آئی کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن مارکی کیپٹر (Marcy Kaptur) نے اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دینے کے موقف سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ اسامہ بن لادن مذہبی طور پر آزادی کی جنگ لڑنے والے انقلابی رہنماؤں کی طرح ہیں جیسا کہ امریکہ میں 1770ء میں ورماؤنٹ ملیشیا نے برطانوی سامراج کے خلاف اسی طرح کی جدوجہد کی تھی۔ مارکی کیپٹر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اوہایو ڈسٹرکٹ سے گیارہویں بار کانگریس کی رکن منتخب ہوئی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا آغاز

یہ جنگ سیکولرازم کے نام پر انسانی اجتماعیت کو مذہب سے لاتعلق قرار دینے، اور اجتہاد مطلق کے نام پر نئی اور من مانی تعبیر و تشریح کے ذریعہ دین کو اپنے نظریات و مقاصد کے سانچے میں ڈھالنے کے دو محاذوں پر جاری ہے۔ اور اسی نظریاتی اور فکری معرکہ میں اہل حق کی خدمت اور ترجمانی کے لیے ’’الشریعہ‘‘ اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فکری و نظریاتی جہاد میں الشریعہ کو اہل فکر و نظر کی سرپرستی حاصل رہے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور احباب کے تعاون سے الشریعہ دین و قوم کی بہتر خدمت کر سکے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۸۹ء

قاری ملک عبد الواحدؒ

قرآن کریم کی تلاوت کا خاص ذوق رکھتے تھے اور عالم اسلام کے معروف قاری الشیخ عبد الباسط عبد الصمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے لہجے میں قرآن کریم پڑھتے تو عجیب سماں باندھ دیتے تھے۔ اپنے بزرگوں کی گفتگو کی نقل اتارنے میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ حضرت درخواستیؒ ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ ، اور مولانا عبد الرحمن جامیؒ کی تقریروں کے حافظ تھے اور دوستوں کی فرمائش پر انہی کے لہجے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ اگر سامنے موجود نہ ہوتے تو اچھے خاصے سمجھدار حضرات بھی مغالطہ میں پڑ جاتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اگست ۲۰۱۶ء

دینی مدارس ۔ پس منظر اور موجودہ کردار

جب تک ریاستی نظام معاشرہ میں دینی تعلیمات کے فروغ، مساجد کے لیے ائمہ کی فراہمی، دینی رہنمائی کے لیے علماء کی تیاری، اور قرآن و سنت کی تعلیم کے لیے اساتذہ مہیا کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا اور اس کے لیے قابل قبول عملی نظام پیش نہیں کرتا اس وقت تک ان مدارس کے قیام و وجود کی ضرورت بہرحال باقی رہے گی۔ ورنہ وہی خلاء پیدا ہو جائے گا جس کو پر کرنے کے لیے مدارس قائم کیے گئے تھے۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لیے نہ صرف ان مدارس کا وجود ضروری ہے بلکہ ان کی اس مالیاتی خودمختاری، انتظامی آزادی، اور نصابی تحفظات کا برقرار رکھنا بھی ناگزیر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ جولائی ۲۰۰۲ء

شادی، سوشل کنٹریکٹ یا سنت نبویؐ

مغرب نے جب نکاح کو مذہبی تقدس اور تحفظ سے الگ کر کے محض ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ قرار دیا تو اس وقت اسے نتائج کا اندازہ نہ ہو سکا۔ آج جب یہ سوشل کنٹریکٹ یا برابری کا معاہدہ مغرب کو خاندانی زندگی کے تصور اور رشتوں کے تقدس سے کلی طور پر محروم کر چکا ہے تو وہی مغرب اب متبادل راہوں کی تلاش میں ہے۔ گزشتہ دنوں خبر رساں ایجنسی رائٹر نے میکسیکو کے بارے میں ایک خبر دی ہے کہ وہاں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نکاح کے بندھن کو مضبوط کرنے کے لیے اب کئی جوڑے ’’قانونی معاہدوں‘‘ کا سہارا لے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جولائی ۱۹۹۶ء

بیجینگ کی خواتین عالمی کانفرنس

ایک آدھ کی جزوی استثناء کے ساتھ عالم اسلام کے تمام ممالک پر ابھی تک دورِ غلامی کے اثرات کا غلبہ ہے اور عالمی استعمار کی مداخلت و سازش کی وجہ سے مسلم ممالک کا معاشرتی نظام اسلامی اصولوں پر استوار نہیں ہو سکا۔ چنانچہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی معاشرہ کا وہ مثالی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جسے بطور نمونہ پیش کیا جا سکے۔ اس لیے مغربی میڈیا کار اس بات میں آسانی محسوس کر رہے ہیں کہ مسلم ممالک کے موجودہ معاشرتی ڈھانچوں کو اسلام کا نمائندہ قرار دے کر ان تمام نا انصافیوں اور حق تلفیوں کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیں جو ان ممالک میں روا رکھی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ ستمبر ۱۹۹۵ء

دفاعی پالیسی ۔ قرآنی احکام کی روشنی میں

سی ٹی بی ٹی پر پاکستان اور بھارت دونوں اب تک دستخط کرنے سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں اور پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ جب تک بھارت اس پر دستخط نہ کردے پاکستان دستخط نہیں کرے گا کیونکہ یہ علاقہ میں فوجی قوت کے توازن کا مسئلہ ہے جس سے صرف نظر کرنا پاکستان کی سالمیت کے منافی ہوگا۔ مگر اب جبکہ بھارت دستخط سے انکار پر بدستور ڈٹا ہوا ہے، حکومت پاکستان نے اس سمجھوتے پر یکطرفہ طور پر دستخط کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جس پر قومی حلقوں میں بجا طور پر تشویش و اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۱۹۹۶ء

پاکستان کا نظامِ سیاست: ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘

جنرل پرویز مشرف کے سیاسی فارمولے، اصلاحات، قوم سے خطاب، اور اقدامات میں کوئی ایسی نئی بات نظر نہیں آرہی جو اس سے قبل غلام محمد، ایوب خان، اور ضیاء الحق کے فارمولوں میں شامل نہ رہی ہو۔ صرف نیشنل سکیورٹی کونسل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ نیا سیاسی اقدام ہے، لیکن جب بات طاقت اور صرف طاقت کی بالادستی کے حوالہ سے ہو رہی ہے اور ہر معاملہ میں طاقت ہی کو حرف آخر قرار دیا جا رہا ہے تو قومی سلامتی کونسل کے قیام سے بھی صورتحال میں کوئی فرق رونما نہیں ہوگا۔ یعنی جس کے ہاتھ میں طاقت ہوگی سلامتی کونسل بھی اسی کے ہاتھ میں ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جولائی ۲۰۰۲ء

قادیانی وزیر اور سپریم کورٹ آف پاکستان

پاکستان بننے کے بعد ملک کی دینی جماعتوں نے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کو اپنا مطالبہ بنا لیا کہ قادیانیوں کو دستوری طور پر مسلمانوں سے الگ اور غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس مطالبہ کے لیے 1953ء کی خون آشام تحریک چلی جس میں ہزاروں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، پھر ایوب خان مرحوم کے دور میں ایک بار پھر تحریک ابھری مگر کوئی عملی نتیجہ برآمد نہ ہوا، اور پھر 1974ء میں عوامی تحریک کے نتیجے میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ دسمبر ۱۹۹۶ء

حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ

خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ بھی ہم سے رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھے، شوگر کے ساتھ ساتھ دل اور دمہ کی تکلیف بھی تھی اور کم و بیش 70 برس عمر پا کر وہ دارِفانی سے رحلت کر گئے۔ ان کا تعلق ہزارہ کے علاقہ ہری پور سے تھا اور انہوں نے اس دور میں لاہور میں خطابت کا آغاز کیا جب شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ حیات تھے اور مولانا اجمل خان کو ان کی بھرپور شفقت اور رہنمائی میسر تھی۔ مولانا محمد اجمل خان کا شمار اپنے دور کے بڑے خطیبوں میں ہوتا تھا اور انہیں خطیب اسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جون ۲۰۰۲ء

نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بہت سے مسلم ممالک یورپی استعمار کے شکنجے سے آزاد ہوئے، ایشیا اور افریقہ کے ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کی گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی تو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ ہم واقعی آزادی سے ہمکنار ہو رہے ہیں، اور اب ہم استعماری قوتوں کے دائرہ اثر و نفوذ سے نجات حاصل کر کے اپنی مرضی کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں گے۔ لیکن ہماری یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہونا شروع ہوگئی اور کم و بیش نصف صدی کے عرصہ میں ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھ آزادی کے نام پر دھوکہ ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۲۰۰۳ء

برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات

اعلیٰ انسانی اقدار کو رائج کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی ضرورت و جواز پر اسلام اور مغرب کے درمیان کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جو اقدار و روایات انسانی سوسائٹی کے لیے مفید ہوں اور اسے فلاح و نجات کی طرف لے جاتی ہوں ان کے لیے طاقت کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ حسب موقع ضروری ہو جاتا ہے۔ البتہ اعلیٰ انسانی اقدار کے تعین میں اختلاف ہے ۔اسلام کے نزدیک اعلیٰ انسانی اقدار کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے، جبکہ مغربی فلسفہ و فکر کے نزدیک انسانی سوسائٹی کی اجتماعی عقل و خواہش کی بنیاد پر اعلیٰ انسانی اقدار تشکیل پاتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۲۰۰۶ء

وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے

ممکن ہے فاضل عدالت کو یا ان کے سامنے دلائل پیش کرنے والے فاضل وکیل کو حضرت امام مالکؒ کے اس قول سے دھوکہ ہوا ہو۔ لیکن انہوں نے گواہوں کے ضروری نہ ہونے کے بارے میں تو حضرت امام مالکؒ کا قول دیکھ لیا مگر نکاح کے حوالہ سے حضرت امام مالکؒ کے نزدیک جو شرط ضروری ہے اس کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوئی، حالانکہ وہ شرط دو گواہوں کی موجودگی سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ نکاح کے انعقاد کے لیے گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے مگر نکاح کی تشہیر اور اس کا اعلان شرط ہے جس کے بغیر ان کے نزدیک نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جنوری ۲۰۰۰ء

افغانستان میں طالبان کی حکومت اور برطانیہ کے مسلم دانشور

مقررین نے اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ طالبان کے تمام تر خلوص، جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود کسی نظام کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد کے بارے میں تجربہ نہ ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر ایسے اقدامات نہ کر بیٹھیں جو آج کی دنیا میں اسلامی نظام کے بہتر تعارف کی بجائے اس کی بدنامی کا باعث بن جائیں۔ ان اہل دانش کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں اسلامی نظام کے حوالہ سے بہت سے امور کا طے ہونا باقی ہے جو ظاہر ہے کہ اجتہاد کے ذریعے اہل اجتہاد کے ہاتھوں طے ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ نومبر ۱۹۹۶ء

تجرد کی زندگی اور اسلام

نکاح کے بارے میں فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ ایک جوان مسلمان اگر نکاح کی اہلیت رکھتا ہے اور خاندانی اخراجات برداشت کر سکتا ہے تو نکاح کرنا اس کے لیے شرعاً ضروری ہے۔ اور ملت کے کسی بھی طبقہ کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ عبادت اور نیکی سمجھ کر نکاح سے گریز کرے، اس لیے کہ یہ فطرت کا تقاضہ ہے اور اسلام نے زندگی کے ہر معاملہ میں فطرت کی تعلیم دی ہے۔ مغرب کی اصل مشکل یہ ہے کہ اس کی مذہبی تعلیمات اور زندگی کے تقاضوں میں اس قدر بعد ہے کہ دونوں کو بیک وقت نباہنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اکتوبر ۱۹۹۶ء

برطانوی سامراج کی غلامی سے عالمی معاہدات کی غلامی تک

آزادی کے حوالہ سے ہمیں سب سے پہلے اس بات کو دیکھنا ہے کہ جس آزادی کا اعلان 14 اگست 1947ء کو کیا گیا تھا وہ آج کے دور میں کس کیفیت سے دوچار ہے۔ اس لیے کہ بظاہر آزاد ہو جانے کے بعد بھی ہم غلامی کے ان آثار سے نجات حاصل نہیں کر سکے جو ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاج برطانیہ نے اپنے دو سو سالہ تسلط کے دوران ہمارے معاشرے پر قائم کیے تھے۔ استعماری قوتوں نے جو نظام، طرز زندگی اور پالیسیاں نوآبادیاتی دور میں رائج کی تھیں وہی سب کچھ بین الاقوامی معاہدات کے نام سے آج بھی ہمارے گلے کا ہار بنی ہوئی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ اگست ۲۰۱۶ء

جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد کا نظریاتی اور تاریخی پس منظر

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان علماء کرام، دینی کارکنوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کی ملک گیر تنظیم ہے جو وطن عزیز میں قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کی روشنی و راہنمائی میں مکمل اسلامی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ جمعیۃ کا تعلق علماء حق کے اس عظیم گروہ سے ہے جس نے برصغیر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش پر برٹش استعمار کے تسلط کے بعد آزادی کی دو سو سالہ جنگ کی قیادت کی اور قربانی و ایثار کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کرتے ہوئے بالآخر برطانوی سامراج کو اس خطہ سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ مارچ ۱۹۸۸ء

حلال و حرام کی بنیاد ۔ سوسائٹی یا وحیٔ الٰہی

آج فیصلوں کا معیار یہ ہے کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے وہ اس کا حق ہے۔ مختلف انسانوں کی خواہشات میں ٹکراؤ کی صورت میں سوسائٹی کی اکثریت جس خواہش کی توثیق کر دے وہ حق ہے، اور جس خواہش کو سوسائٹی کی اکثریت کی تائید حاصل نہ ہو پائے وہ ناجائز اور غلط ہے۔ اس خود ساختہ اصول نے اخلاقی قدروں، مذہبی روایات، اور انسانی فطرت کو جس بری طرح پامال کیا ہے اس کی ایک جھلک یورپ کے ایک بڑے مذہبی ادارے ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کی ان ہدایات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے جو بغیر شادی کے اکٹھے رہنے والے جوڑوں کے بارے میں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جولائی ۱۹۹۶ء

اسلام اور عورت کا اختیار

عربی ادب کی کہاوت ہے کہ ایک مصور دیوار پر تصویر بنا رہا تھا جس کا منظر یہ تھا کہ ایک انسان کے ہاتھوں میں شیر کی گردن ہے اور وہ اس کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک شیر کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ رک کر تصویر کو غور سے دیکھنے لگا۔ مصور نے شیر سے پوچھا کہ میاں تصویر کیسی لگی؟ شیر نے جواب دیا کہ بھئی برش تمہارے ہاتھ میں ہے جیسے چاہے منظر کشی کرلو، ہاں اگر برش میرے ہاتھ میں ہوتا تو تصویر کا منظر اس سے یقیناً مختلف ہوتا۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال آج عالم اسلام کو مغربی میڈیا کے ہاتھوں درپیش ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ جولائی ۱۹۹۶ء

ملکی سیاست اور مذہبی جماعتوں کا مخمصہ

صورت حال یہ ہے کہ قومی سیاست کی ریت دینی رہنماؤں کی مٹھی سے مسلسل پھسلتی جا رہی ہے اور قومی سیاست میں بے وقعت ہونے کے اثرات معاشرہ میں ان کے دینی وقار و مقام کو بھی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورت حال کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سنجیدہ تجزیہ کیا جائے اور ان اسباب و عوامل کا سراغ لگایا جائے جو ملکی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کا باعث بنے ہیں۔ تاکہ ان کی روشنی میں دینی سیاسی جماعتیں اپنے مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر سکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جنوری ۱۹۹۲ء

قادیانیت کے سو سال

قادیانی مذہب کے پیروکاروں کے لیے 26 مئی کا دن بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ اس روز قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے لاہور میں وفات پائی تھی۔ جبکہ 2008ء کا یہ سال اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ مرزا صاحب کی وفات کو پوری ایک صدی مکمل ہو رہی ہے کیونکہ ان کی وفات اب سے ایک سو برس قبل 26 مئی 1908ء کو ہوئی تھی۔ قادیانی مذہب کے پیروکار اس مناسبت سے دنیا کے مختلف حصوں میں صد سالہ تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ 2008ء کے پورے سال کو محیط ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مئی ۲۰۰۸ء

پاکستان میں نفاذ شریعت کی متفقہ دستاویزات

نفاذ اسلام کی دستوری جدوجہد کے سلسلے میں 1947ء میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی۔ 1951ء میں تمام مسالک کے علماء نے کراچی میں جمع ہو کر متفقہ طور پر 22 دستوری نکات مرتب کیے۔ اور 24 ستمبر 2011ء کو ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم پر تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے لاہور میں اکٹھے ہو کر نفاذ شریعت کے حوالہ سے دینی حلقوں کا متفقہ موقف دہرایا اور اس موقع پر 22 نکاتی دستوری خاکے کی آج کے حالات کے تقاضوں کے مطابق تشریح و توضیح کی جسے ملی مجلس شرعی پاکستان کے نائب صدر مولانا زاہد الراشدی نے قومی پریس کے لیے جاری کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اکتوبر ۲۰۱۱ء

نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے حوالہ سے ہمارے جدید پڑھے لکھے اور دانشور کہلانے والے حضرات نے خود یہ کہہ کر ملا کو پیچھے دھکیل دیا تھا کہ معاشرے کی اجتماعی قیادت اس کا کام نہیں ہے، بس وہ آرام سے گھر بیٹھے جبکہ یہ کام اب ہم کریں گے۔ چنانچہ ملا نے اپنے بھائیوں کی یہ بات مانتے ہوئے ان کے لیے میدان کھلا چھوڑ کر اپنے ذمہ یہ کام لے لیا تھا کہ امت کے اجتماعی کام آپ سنبھالیں، ہم قرآن و سنت کی تعلیمات اور علوم کو باقی رکھنے اور امت کی اگلی نسلوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اگست ۲۰۰۰ء

وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں

ہم وکلاء کرام کے اس حق کے مخالف نہیں ہیں کہ وہ شریعت بل کے متن پر ناقدانہ نظر ڈالیں اور انہیں فکری یا عملی طور پر اس میں کوئی خامی نظر آئے تو اس کی نشاندہی کریں۔ لیکن خدا شاہد ہے کہ ہمیں ہائی کورٹ کے وکلاء سے اس غیر سنجیدہ رویہ کی توقع ہرگز نہیں تھی کہ وہ شریعت بل کا مطالعہ کیے بغیر اس کے خلاف لنگر لنگوٹ کس لیں گے۔ ملک میں قانون دان طبقہ کا اپنا ایک مقام ہے اور بالخصوص ہائی کورٹ کے وکلاء سے قوم ایک سنجیدہ طرز عمل کی توقع رکھتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جون ۱۹۹۰ء

اسلام اور مغرب کی تہذیبی و ثقافتی کشمکش ۔ نیوٹ گنگرچ کے خیالات

نیوٹ گنگرچ کے اس بیان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ڈپلومیسی کا لحاظ کیے بغیر اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دو تین چار باتیں واضح طور پر کہہ دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ مغربی تہذیب کو اس وقت حالت جنگ کا سامنا ہے، دوسری یہ کہ اسلامی شریعت مغربی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی، تیسری یہ کہ شریعت کے قوانین پر یقین رکھنے والے مسلمان مغرب کے لیے قابل قبول نہیں ہیں، اور چوتھی بات یہ کہ مغرب جس روشن خیالی کی بات کرتا ہے اس کا مطلب شریعت کے احکام و قوانین سے دستبرداری ہے اور جس سے کم پر مغرب راضی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ اگست ۲۰۱۶ء

مولانا حافظ عبد الرحمنؒ

حافظ عبد الرحمنؒ کے اخلاص اور قائم کردہ مرکزی مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعلیمی شہرت اطراف میں تھوڑے ہی عرصہ میں اتنی زیادہ ہوگئی کہ مختلف علاقوں کے دیندار حضرات نے مسجد و مدرسہ کے لیے اپنی جائیدادیں دینا شروع کر دیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرب و جوار اکبر آباد، پکی کوٹلی، فتح گڑھ اور غوثپورہ میں تعلیم الاسلام جامع مسجد نور کے نام سے مرکزی مدرسہ کی برانچیں قائم ہوگئیں اور تدریس قرآن کی برکات دور دور تک پھیلیں۔ سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ وغیرہ کے مختلف علاقہ جات سے ہزاروں طلباء نے حافظ صاحبؒ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۲۰۱۶ء

مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں مساجد کا کردار

نبی اکرمؐ اور خلفاء راشدینؓ کے خطبات جمعہ و عیدین میں یہ تفریق نہیں ہوتی تھی کہ فلاں بات عبادت اور تعلیم سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اسے مسجد میں ہونا چاہیے اور فلاں بات سیاست اور حکومت سے متعلقہ ہے اس لیے اسے مسجد سے باہر کیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں سے متعلقہ معاملات کا تعلق عبادت سے ہو یا تعلیم سے، سیاست سے ہو یا عدالت سے، معاشرے سے ہو یا تمدن سے، صلح سے ہو یا جنگ سے، تجارت سے ہو یا زراعت سے، مقامی امور سے ہو یا بین الاقوامی معاملات سے، ان سب کا تذکرہ مسجد میں ہوتا تھا اور ان کے بارے میں ہر اہم فیصلہ مسجد میں کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جون ۲۰۰۳ء

دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ

مسلمانوں کے دینی نصاب تعلیم کا مسئلہ آج سے نہیں صدیوں سے مغربی اقوام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ ایک تاریخی روایت ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم گلیڈ اسٹون نے آج سے کوئی سو برس قبل برطانوی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر قرآن کریم کا نسخہ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک یہ کتاب مسلمانوں میں پڑھی جاتی رہے گی اس وقت تک مسلمانوں میں مذہبی جنون باقی رہے گا، اور جب تک مسلمانوں میں مذہبی جنون موجود رہے گا تب تک انہیں غلام رکھنا ممکن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ مئی ۲۰۰۱ء

حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ

مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دینی اور مسلکی معاملات میں انتہائی غیور تھے اور صرف خطابت میں ہی غیرت و حمیت کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ عملاً بھی وہ مسائل و مشکلات کے حل کے لیے سرگرداں رہتے تھے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں جرأت و دلیری کا وافر حصہ بھی عطا کیا تھا، وہ مشکل اوقات میں عافیت کا گوشہ تلاش کرنے کی بجائے مصیبت کے مقام پر ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتے تھے اور کسی بات کی پروا نہیں کرتے تھے۔ مولانا ضیاء القاسمیؒ کی بیعت کا تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جنوری ۲۰۰۱ء

افغانستان کی تعمیر نو ۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کے تاثرات

ڈاکٹر سلطان بشیر محمود نے کہا کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران طالبان کی حکومت افغانستان کی پہلی حکومت ہے جو پاکستان کے حق میں ہے اور دہلی کی بجائے اسلام آباد سے وابستگی رکھتی ہے۔ طالبان حکومت کے بیشتر افراد پاکستان کے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان سے محبت رکھتے ہیں، اس لیے پاکستان کو اس حکومت کے بچانے کے لیے خود اپنے مفاد کے خاطر بھی سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور روس گزشتہ دو عشروں میں صرف ایک بات پر متفق ہوئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کو ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے اور ختم کر دیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ دسمبر ۲۰۰۰ء

القدس کا تاریخی پس منظر

بیت اللہ کی طرح بیت المقدس بھی سیدنا حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کیا اور اس کی تعمیر بیت اللہ کے چالیس سال بعد ہوئی۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ تعمیر کر کے وہاں اپنے ایک بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو بسایا جبکہ فلسطین میں بیت المقدس تعمیر کر کے وہاں دوسرے بیٹے حضرت اسحاقؑ کو بسا دیا۔ حضرت اسحاقؑ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا عظیم الشان سلسلہ قائم فرمایا۔ ’’اسرائیل‘‘ حضرت یعقوبؑ کا لقب تھا اور انہی کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ اس خاندان کو اپنے دور میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی عظمتوں سے نوازا اور دین و دنیا کی شوکتیں عطا فرمائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ نومبر ۲۰۰۰ء

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے وزیر داخلہ کی سفارشات اور حقیقت حال

اگر کفریہ باتوں کے اظہار پر پابندی نہ ہو اور صرف کافر کہنے پر پابندی لگا دی جائے تو یہ یکطرفہ بات ہوگی جو سراسر ناانصافی ہے اور کوئی بھی معقولیت پسند شخص اس کو قبول نہیں کر پائے گا۔ جبکہ منطقی اور بدیہی بات یہ ہے کہ جہاں کفر کی باتوں کا اعلانیہ اظہار ہوگا تو اسے کفر قرار دینے پر پابندی کا کوئی عقلی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جائے گا۔ اس لیے اس ضمن میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کے آئینی اداروں کے ذریعہ ان امور کا تعین کیا جائے جو کفر کا موجب بنتے ہیں اور جن کے اظہار کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۲۰۰۰ء

اٹلی کی عدالت کا شرمناک فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات

اٹلی کی عدالت عظمیٰ نے اپنی ایک ماتحت عدالت کے اس فیصلہ کی توثیق کر دی ہے کہ کسی عورت کا اپنے خاوند کے علاوہ دوسرے کسی مرد سے تعلق رکھنا جرم نہیں ہے البتہ اسے رات کو بہرحال اپنے خاوند کے پاس ہونا چاہیے۔ تعلق کی نوعیت کی وضاحت نہ ہوتی تو بات کسی حد تک گول ہو سکتی تھی لیکن خبر میں ’’جنسی تعلق‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے، اس لیے یہ سمجھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ مغربی ممالک نے جائز و ناجائز کے ہر قسم کے فرق کو ختم کرتے ہوئے اباحیت مطلقہ (فری سوسائٹی) کو آخری انتہاء تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ ستمبر ۲۰۰۰ء

۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت ۔ چند یادیں

1984ء کی تحریک ختم نبوت کا بنیادی محرک سیالکوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ محمد اسلم قریشی کی اچانک گمشدگی تھا۔ اسلم قریشی اس سے قبل اسلام آباد میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ کے حوالے سے گرفتار رہے تھے۔ جبکہ ایم ایم احمد منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین تھے اور اس وقت کے سربراہ حکومت جنرل محمد یحیٰی خان کے کسی بیرون ملک دورہ کے موقع پر مبینہ طور پر چند روز کے لیے ملک کے قائم مقام صدر بننے والے تھے۔ اسلم قریشی نے چھری سے ان پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا اور وہ قائم مقام صدر بننے کی بجائے ہسپتال چلے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ دسمبر ۲۰۰۲ء

افغان طالبان کے خلاف پابندیاں ۔ عالمی استعمار کی نئی صف بندی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امارت اسلامی افغانستان کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے اور ان پابندیوں سے براہ راست متاثر ہونے والے پاکستان کے سوا کسی مسلمان ملک کو اس پر رسمی احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ سلامتی کونسل میں موجود ملائیشیا نے بھی ایک برادر مسلم ملک کے حق میں کلمہ خیر کہنے کی بجائے اس اجلاس سے غیر حاضری کو ترجیح دی ہے جس میں اقتصادی پابندیوں کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس سے افغانستان کی عالمی نقشہ پر نمودار ہونے والی واحد اسلامی نظریاتی ریاست کے خلاف عالمی صف بندی کی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جنوری ۲۰۰۰ء

’’نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے‘‘

قانونی طور پر تو امریکہ اور یورپ میں مرد و عورت کی باہمی رضا سے ہونے والے زنا اور اسی طرح ہم جنس پرستی کو ایک عرصہ سے جواز کی سند حاصل ہے اور اکثر ممالک میں اس سلسلہ میں باقاعدہ قانون سازی کر کے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال ایک برطانوی عدالت نے باہمی جنسی تعلق رکھنے والے دو مردوں کو آپس میں میاں بیوی تسلیم کرتے ہوئے ایک کی موت کی صورت میں دوسرے کو اس کا وارث بھی ٹھہرا دیا ہے۔ لیکن اب اس بے حیائی اور بدکاری کو مذہبی جواز کا درجہ دینے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اپریل ۲۰۰۰ء

Pages