مقالات و مضامین

دینی مدارس: علمی وفکری دائرے میں وسعت کی ضرورت

معلومات کی وسعت، تنوع اور ثقاہت کا مسئلہ بھی غور طلب ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ہم میں سے اکثر کی معلومات محدود، یک طرفہ اور سطحی ہوتی ہیں۔ الاّ یہ کہ کسی کا ذوق ذاتی محنت اورتوجہ سے ترقی پاجائے اور وہ ا س سطح سے بالا ہو کر کوئی کام کر دکھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق، مطالعہ اور استدلال واستنباط کے فن کو ایک فن اور علم کے طور پر دینی مدارس میں پڑھایا جائے اور طلبہ کو اس کام کے لیے باقاعدہ طور پر تیار کیاجائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۶ء

مغرب، توہین رسالت اور امتِ مسلمہ

جہاں تک مغرب کا تعلق ہے تو وہ اپنے ذہن سے وحی اور پیغمبر دونوں کو اتار چکاہے ۔اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب کے پاس نہ وحی اصل حالت میں موجود ہے اور نہ ہی پیغمبروں کے حالات وتعلیمات کاکوئی مستند ذخیرہ اسے میسر ہے، اس لیے اس نے سرے سے ان دونوں سے پیچھا ہی چھڑا لیا ہے۔ اور اب وہ مسلمانوں سے یہ توقع اور پر زور مطالبہ کررہا ہے کہ وہ بھی وحی اور پیغمبر کو اپنے ذہن سے اتار دیں اور اپنے جذبات اور احساسات کے دائرے میں انہیں کوئی جگہ نہ دیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۶ء

ڈاکٹر یوگندر سکند کے خیالات

بھارت کے معروف دانشور ڈاکٹر یوگندرسکند گزشتہ دنوں پاکستان آئے، چند روز لاہور میں قیام کیا، حیدر آباد اور دیگر مقامات پر بھی گئے، دو دن ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں قیام کیا، الشریعہ اکادمی کی ایک نشست میں سرکردہ علماء کرام اور اساتذہ و طلبہ سے بھارت کی مجموعی صورتحال خاص طور پر مسلمانوں کے حالات پر گفتگو کی اور مختلف حضرات سے ملاقاتوں کے بعد بھارت واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر یوگندرسکند کے والد سکھ تھے، والدہ کا تعلق ہندو خاندان سے تھا اور خود اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جنوری ۲۰۰۶ء

ماہنامہ الشریعہ کی سترہویں جلد کا آغاز

ہماری بھرپور کوشش رہی ہے کہ پیش آمدہ مسائل پر دینی حلقوں میں بحث ومباحثہ کاماحول پیدا ہو اور کسی بھی مسئلہ پر اپنا موقف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کا موقف اور دلائل بھی حوصلہ اور اطمینان کے ساتھ سننے اور پڑھنے کا مزاج بنے ۔ ۔ ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۶ء

برطانیہ اور امریکہ کے حالیہ سفر کے چند تاثرات

۱۱ ستمبر کو میں نے ان دوستوں سے عرض کیا کہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے علاقے میں جانا چاہتا ہوں اور وہاں کے مناظر کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے تاثرات بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ شام کو وہاں یادگاری تقریب ہوگی، ا س موقع پر یا اس سے قبل وہاں جانا مناسب نہیں ہوگا۔ رات نو بجے کے بعد وہاں چلیں گے اور جو دیکھنا ہوگا، دیکھ لیں گے۔ چنانچہ رات کو نو بجے کے بعد وہاں پہنچے تو ہزاروں افراد مختلف ٹولیوں کی صورت میں اس علاقے میں گھوم رہے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم دسمبر ۲۰۰۵ء

متاثرین زلزلہ اور ہماری مذہبی واخلاقی ذمہ داری

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ ایسے مواقع پر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پریشانی کا اظہار فرماتے اور کثرت سے استغفار کرتے تھے، اس لیے ہمارے لیے بھی اسوۂ نبوی یہی ہے کہ توبہ واستغفار کا اہتمام کریں اور اپنے اعمال وکردار پر نگاہ کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار کو اجتماعی طور پر اپنا معمول بنائیں۔ زلزلہ سے متاثر ہونے والے بھائیوں کی مدد ہماری دینی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہمیں تمام ممکن ذرائع اختیار کرنے چاہئیں اور ان کی بحالی و آبادی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۵ء

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشن

جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا خطاب ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے دینی مدارس کے مقصد قیام کی وضاحت کی اور بتایا کہ ان دینی مدارس کا قیام معاشرے میں دینی راہ نمائی فراہم کرنے اور مسجد ومدرسہ کا نظام باقی رکھنے کے لیے رجال کار کی فراہمی کی غرض سے عمل میں آیا تھا اور دینی مدارس اپنا یہ کام خیر وخوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس سے کوئی اور تقاضا کرنا، نا انصافی کی بات ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۵ء

خدمت حدیث: موجودہ کام اور مستقبل کی ضروریات

پہلے سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم مستقبل کی طرف بڑھنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم نے زمانے کے سفر میں اسی مقام پر ہمیشہ کے لیے رکنے کا تہیہ کر لیا ہے جہاں ہم اب کھڑے ہیں؟ اور اگر ہم واقعی مستقبل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لینے کے دعوے میں بھی سنجیدہ ہیں تو اس کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور آگے بڑھنے کے وہ تمام منطقی تقاضے پورے کرنا ہوں گے جو ہمارے بزرگ اور اسلاف ہر دور میں پورے کرتے آ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۰۵ء

دینی مدارس کی اسناد اور رجسٹریشن کا مسئلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سے قبل عبوری فیصلے میں دینی مدارس کی اسناد رکھنے والوں کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی مگر الیکشن کے پہلے مرحلے سے صرف دو روز قبل حتمی فیصلہ صادر کر کے یہ قرار دے دیا کہ دینی مدارس کے وفاقوں سے شہادۃ ثانیہ رکھنے والے افراد نے چونکہ مطالعہ پاکستان، انگلش اور اردو کے لازمی مضامین کا میٹرک کے درجے میں امتحان نہیں دیا، اس لیے اس سند کو میٹرک کے مساوی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اس سند کے حاملین بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۵ء

ڈاکٹر مہاتیر محمد کے فکر انگیز خیالات

ہم اکیسویں صدی عیسوی میں رہ رہے ہیں، ساتویں صدی میں جو چیزیں تھیں وہ قطعی طور پر تبدیل ہو گئی ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آج روز مرہ کا معمول ہیں لیکن چودہ سو سال پہلے ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہم میں سے بعض لوگ اسلام کی پہلی صدی کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اسی ماحول میں سچے مسلمان بن سکتے ہیں۔ ایسا کرکے وہ اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا قانون اور تعلیمات صرف چودہ سو سال پہلے کے معاشرے کی مناسبت سے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۵ء

عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت

آج مغرب اور عالم اسلام میں مکالمہ کی جو ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور جس ڈائیلاگ کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کی ہے۔ مغرب ہمیں سمجھنے میں مغالطوں کا شکار ہوا ہے اور ہم نے مغرب کو سمجھنے میں فریب کھائے ہیں۔ اگر یہ مکالمہ اور ڈائیلاگ ان غلطیوں کی نشان دہی اور فریب کے دائروں سے نکلنے کے لیے ہوں تو اس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۵ء

’’آب حیات‘‘ کا انٹرویو

مختلف طبقات اور گروہ اپنے اپنے مفادات کی سیاست کر رہے ہیں اور اجتماعی وقومی سیاست کا کوئی ماحول آج تک قائم نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے قومی معاملات پر سیاست دانوں کی گرفت نہیں ہے اور وہ دیگر طاقت ور قوتوں کے آلہ کار سے زیادہ کوئی کردار اپنے لیے حاصل نہیں کر سکے۔ سیاست دانوں کی اپنی نااہلی کے ہاتھوں ہم قومی خود مختاری سے محروم ہو چکے ہیں اور ہمارے معاملات کا کنٹرول ہمارے پاس نہیں رہا۔ دینی سیاست کی علم بردار جماعتیں بھی اصولی اور نظریاتی سیاست کے بجائے معروضی سیاست پر آگئی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۵ء

بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کوششوں میں یہ بات بھی شامل رہتی ہے کہ مسلمان اپنے نکاح وطلاق کے تنازعات اور دیگر باہمی معاملات شرعی عدالتوں کے ذریعے سے حل کرائیں۔ اسی مقصد کے لیے پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا تجربہ کیا جا رہا ہے جہاں تحکیم کی صورت میں دونوں فریق مقدمہ لاتے ہیں اور شرعی عدالتیں ’حکم‘ کی حیثیت سے ان کا فیصلہ صادر کرتی ہیں۔ صوبہ بہار میں امارت شرعیہ کے نام سے یہ پرائیویٹ نظام بہت پہلے سے قائم ہے جس میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۵ء

سنی شیعہ کشیدگی۔ چند اہم معروضات

ہم جمہور علماء اہل سنت کے اس موقف سے متفق ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کریم کا قائل ہے، اکابر صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر قذف کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے ۔نیز ہم امت کی چودہ سو سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں شیعہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھی ذہنی تحفظات رکھتے ہیں، لیکن اس کی بنیاد پر ان کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے کہ عقائد اور تاریخی کردار کے حوالہ سے باہمی فرق اور فاصلہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۴ء

سنی شیعہ کشیدگی: فریقین ہوش کے ناخن لیں

سنی شیعہ مسلح کشمکش میں بیرونی عوامل کی کارفرمائی سے انکار نہیں اور ہم اس کی کئی بار اپنی معروضات میں نشان دہی کر چکے ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ مسئلہ اہل سنت اور اہل تشیع کی محاذ آرائی کا ہے اور خارجی عوامل کے لیے بھی آلہ کار اور ایندھن کا کام ہر دو طرف کے جذباتی نوجوان سرانجام دیتے ہیں۔ اس لیے دیگر عوامل ومحرکات سے سردست صرف نظر کرتے ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع کے رہنماؤں، بالخصوص جذباتی نوجوانوں سے دو گزارشات کرنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۴ء

عالمی استعمار اور مسلم حکومتوں کا موقف

اگر مسلم حکومتیں ان جہادی تحریکات کے بارے میں امریکی بولی بولنے اور انھیں ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کے بجائے صرف یہ اعتماد دلا دیں کہ عالم اسلام کی آزادی، مسلم ممالک کی خود مختاری، اور اسلامی اقدار کی سربلندی کے بارے میں وہ ان کے موقف کو اصولی طور پر درست سمجھتے ہوئے ان کے ہتھیار بکف ہونے کے طریق کار کو غلط قرار دیتی ہیں، اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو وہ ان کے اصولی موقف کی حمایت اور ترجمانی کرنے کے لیے تیار ہیں تو بہت سی جہادی تحریکوں کو ہتھیار ڈالنے اور اپنی جدوجہد کو پرامن طریقہ سے آگے بڑھانے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۴ء

جہاد، مستشرقین اور مغربی دنیا

جہاد کا مقصد کافروں کو زبردستی اسلام قبول کرانا نہیں بلکہ انہیں اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ بے شک اپنے مذہب پر قائم رہیں، اس پر آزادی کے ساتھ عمل کریں، اور اپنے دائرے میں اس کی تعلیم بھی دیں، لیکن انسانی سوسائٹی پر ’’آسمانی تعلیمات‘‘ کی بالادستی اور فروغ میں رکاوٹ نہ بنیں اور ان کے مقابل نہ ہوں۔ کیونکہ آسمانی تعلیمات کا یہ حق ہے کہ ان کا انسانی آبادی میں کسی روک ٹوک کے بغیر فروغ ہو اور ان کی دعوت وتعلیم کی راہ میں کوئی مزاحم نہ ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۴ء

جدید معاشرے میں مذہبی طبقات کا کردار

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے دینی مدارس کا ماحول، اہداف، طریق کار اور اسلوب کم وبیش یکساں ہے اور تمام خوبیوں اور خامیوں میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ البتہ بھارت میں ندوۃ العلماء کی طرز پر جو کام ہو رہا ہے، پاکستان میں وہ کام اس سطح پر نہیں ہو رہا۔ اس کی اپنی افادیت اور ضرورت ہے اور پاکستان میں بھی اس طرز کے ادارے قائم ہونے چاہئیں۔ خود ہم نے چند برس قبل گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے جو پروجیکٹ شروع کیا تھا، اس میں ہمارے پیش نظر ندوۃ العلماء ہی تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۴ء

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری

اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق کا کمیشن اور دیگر بہت سے بین الاقوامی ادارے اس چارٹر کے حوالے سے دنیا بھر کی صورت حال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور ہر سال مختلف رپورٹیں منظر عام پر آتی ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کون کون سے ممالک میں ان حقوق کی کس حد تک خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ان رپورٹوں کی بنیاد پر بیشتر ممالک اور عالمی ادارے متعلقہ ملکوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں کی ترجیحات قائم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۴ء

علمی وفکری مباحث اور جذباتی رویہ

کم وبیش پینتیس برس پہلے کی بات ہے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ لکھنے پڑھنے کا ذوق پیدا ہو چکا تھا۔ جناب ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگا کر ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ قومی اخبارات اور دینی جرائد میں اسلام، جمہوریت اور سوشلزم کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری تھی اور اسی ضمن میں جاگیرداری نظام، زمینداری سسٹم، مزارعت اور اجارہ پر زمین دینے کے جواز اور عدم جواز پر بہت کچھ لکھا جا رہا تھا۔ اسلامی سوشلزم کے نعرے کی بنیاد پر مسٹر بھٹو مرحوم کے خلاف ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۴ء

ڈھاکہ میں ’’سید ابوالحسن علی ندوی ایجوکیشن سنٹر‘‘کی افتتاحی تقریب

جنوری ۲۰۰۴ کا پہلا عشرہ مجھے بنگلہ دیش میں گزارنے کا موقع ملا۔ میرپور ڈھاکہ میں مدرسہ دار الرشاد کے مہتمم مولانا محمد سلمان ندوی کا تقاضا تھا کہ وہ ’’سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر‘ کے نام سے ایک نئے تعلیمی شعبے کا آغاز کر رہے ہیں جس کی افتتاحی تقریب یکم جنوری کو رکھی گئی ہے اور اس موقع پر ’’عصر حاضر میں دینی مدارس کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے مسجد بیت المکرم ڈھاکہ میں سیمینار کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، اس لیے مجھے اس میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ مولانا سلمان ندوی سے ا س سے قبل میرا تعارف نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۴ء

دینی مدارس کے اساتذہ کیا سوچتے ہیں؟

وفاق المدارس کے نصاب میں جو ترامیم اور تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ خوش آئند ہیں اور ان کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن یہ ناکافی اور وقتی ہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ کم از کم نصف صدی تک کی ممکنہ صورت حال اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع پالیسی طے کی جائے اور بجائے اس کے کہ ہر تین چار سال کے بعد جزوی تبدیلیاں کی جاتی رہیں، پچاس سال کے لیے ایک اصولی لائحہ عمل کا تعین کیا جائے۔ مثلاً ہم نے کچھ عرصہ قبل مڈل کی سطح کی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۴ء

امریکی مسلمانوں کی صورت حال اور مستقبل کی توقعات

امریکہ میں عام مسلمانوں کی سطح پر جو بات میں نے محسوس کی، وہ یہ ہے کہ دینی بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے، مساجد ومدارس کی تعداد اور ان میں حاضری کا تناسب بڑھ رہا ہے، بچوں کو دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود زیادہ سے زیادہ دینی معلومات حاصل کرنے کا شوق بھی ترقی پذیر ہے۔ ایک بات سے اس صورت حال کا اندازہ کر لیں کہ بارہ تیرہ برس قبل جب میں واشنگٹن آتا تھا تو دار الہدیٰ ایک کرائے کے اپارٹمنٹ میں تھا اور نمازوں میں اکا دکا مسلمان دور دراز سے آیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۳ء

بھارت میں خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام

’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے ۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں حیدرآباد دکن کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہاں کے ایک دینی ادارے ’’جامعۃ المومنات‘‘ نے تین عالمہ خواتین کو افتا کا کورس کرانے کے بعد فتویٰ نویسی کی تربیت دی ہے اور ان پر مشتمل خواتین مفتیوں کا ایک پینل بنا دیا ہے جو خواتین سے متعلقہ مسائل کو براہ راست سنتی اور ان کے بارے میں شرعی اصولوں کی روشنی میں فتویٰ جاری کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۳ء

عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں

پہلی بات جسے میں ’’بے خبری کا بحران‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں، یہ ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی غالب اکثریت آج کے عالمی حالات اور ماحول دونوں سے بے خبر ہے۔ ہمیں نہ دنیا کے جغرافیے کا علم ہے اور نہ تاریخ کا۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ آج کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے، کیسے کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ افراد کی بات نہیں کرتا۔ دوچار فی صد حضرات ضرور اس سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن مجموعی صورت حال یہی ہے جو میں نے عرض کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۳ء

امریکہ کا حالیہ سفر اور چند تاثرات

۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۰ء تک چار پانچ دفعہ امریکہ جا چکا ہوں اور امریکہ کے بہت سے شہروں میں مہینوں گھوما پھرا ہوں۔ اس کے بعد ویزے کی کوشش کرتا رہا مگر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا حتیٰ کہ مئی ۲۰۰۱ء میں مجھے پانچ سال کے لیے ملٹی پل ویزا مل گیا مگر ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے باعث حالات میں ایسی تبدیلی آئی کہ خواہش کے باوجود امریکہ کا سفر نہ کر سکا اور اب تقریباً تیرہ سال کے بعد امریکہ کے مختصر سے مطالعاتی دورے کا موقع مل گیا۔ واشنگٹن میٹرو پولیٹن کے علاقے میں میرے ہم زلف محمد یونس صاحب سالہا سال سے بچوں سمیت قیام پذیر ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۳ء

قرب قیامت کی پیش گوئیاں

قرآن کریم یا جناب نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئیوں کا اپنے دور کے واقعات پر اطلاق یا انہیں مستقبل کے حوالہ کر کے ان کے وقوع کا انتظار خود حضرات صحابہ کرام کے دور میں بھی مختلف فیہ رہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ’’دخان‘‘ اور ’’البطشۃ الکبریٰ‘‘ کی پیش گوئیوں کا حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اپنے دور کے حالات پر اطلاق کرتے ہیں، جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ انہیں قیامت کی نشانیوں میں شمار کر کے اپنے دور میں ان کے وقوع کی بات قبول نہیں کرتے۔ اس سے اصولاً یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیش گوئیوں کے بارے میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۳ء

امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد

عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے حوالے سے اسلامی احکام وقوانین کی مخالفت اور ان کے خلاف مکروہ اور معاندانہ پراپیگنڈا بھی امریکی مہم کا حصہ ہے جس کے بارے میں امریکی قیادت کے ذمہ دار حضرات کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں۔ اس لیے ہم پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے خلاف امریکی عزائم اور یلغار صرف اور صرف معاشی مفادات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں مذاہب کے درمیان کشمکش اور مغربی تہذیب کو زبردستی مسلط کرنے کی مہم بھی بنیادی اسباب کے طور پر پوری طرح کار فرما ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۳ء

ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ

ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے طویل عرصہ تک اسلام کی دعوت واشاعت کے حوالہ سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور بے شمار لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ بہت سے فرانسیسی باشندوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ وہ بنیادی طور پر تعلیم وتحقیق کی دنیا کے آدمی تھے اور انہوں نے ساری زندگی لکھنے پڑھنے کے ماحول میں گزار دی۔ فقیر منش اور قناعت پسند بزرگ تھے، کتاب زندگی بھر ان کی ساتھی رہی اور کتاب ہی کی خدمت میں وہ آخر دم تک مصروف رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ دسمبر ۲۰۰۲ء

دور جدید کے فکری تقاضے اور علماء کرام

نوجوان علماء کو اس بات سے بھی باخبر ہونا چاہیے کہ جب یونان،ایران اور ہندوستان کے فلسفوں نے مسلمانوں کے عقائد واعمال میں دراندازی شروع کی، ان کے اثرات ہمارے ہاں پھیلنے لگے اور ان فلسفوں نے ہمارے عقائد کو متاثر کرنا چاہا تو اس وقت کے باشعور علماء اسلام نے ان فلسفوں سے آگاہی حاصل کی، ان پر عبور حاصل کیا اور ان فلسفوں کی زبان اور اصطلاحات استعمال کر کے انہی کے دلائل سے اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۲ء

’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے چند معروضات

خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خاتمہ (۱۹۲۴ء) تک چونکہ اسلامی احکام وقوانین کا نفاذ کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی سطح پر تسلسل کے ساتھ موجود رہا ہے اس لیے ہر دور میں نئے پیش آمدہ مسائل ومشکلات کا حل بھی ساتھ ساتھ سامنے آتا رہا ہے، جس میں قضاۃ کے اجتہادی فیصلوں کے علاوہ ارباب علم اور اصحاب استنباط کی آزادانہ اجتہادی کاوشیں بھی شامل ہیں اور انسانی سوسائٹی کے حالات میں تغیر کے ساتھ ساتھ اجتہادی دائرہ میں ضرورت کے مطابق شرعی احکام وقوانین میں تغیر و تبدل کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۲ء

حضرت سرفراز خان صفدرؒ کے دروس قرآن کی اشاعت کا آغاز

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کے درس قرآن کریم کے چار الگ الگ حلقے رہے ہیں۔ ایک درس بالکل عوامی سطح کا تھا جو صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ہوتا تھا۔ دوسرا حلقہ گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے تھا جو سالہا سال جاری رہا۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں متوسط اور منتہی درجہ کے طلبہ کے لیے ہوتا تھا اور دوسال میں مکمل ہوتا تھا۔ جبکہ چوتھا مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۷۶ء کے بعد شعبان اور رمضان کی تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر کی طرز پر تھا جو پچیس برس تک پابندی سے ہوتا رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۲ء

سود کے بارے میں چند گزارشات

شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قابل صد احترام سربراہ اور معزز ارکان سے گزارش ہے کہ سودی نظام کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے پر نظر ثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات، جناب نبی اکرمؐ اور خلفاء راشدین کے تعامل، امت کے ہر دور کے جمہور علما وفقہا کے فیصلوں‘ قیام پاکستان کے نظریاتی مقاصد اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ارشادات وتصریحات کو سامنے رکھیں اور نوآبادیاتی استحصالی نظام کے منحوس شکنجے سے مظلوم پاکستانی قوم کو نجات دلانے والے تاریخی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۲ء

تحریک ختم نبوت کے مطالبات

امریکی کانگریس کی طرف سے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کے مطالبہ کے فوراً بعد مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کے الگ الگ اندراج اور ووٹر فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو عملاً قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل کرنے اور سرکاری ریکارڈ میں مسلمانوں اور قادیانیوں کا فرق ختم کر دینے کے مترادف ہے جو اسلامیان پاکستان کے لیے قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے جبکہ یہ حلف نامہ اور مذہب کا خانہ نیز مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کا الگ الگ اندراج بھٹو حکومت کے دور سے چلا آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۰۲ء

امریکی مطالبات اور پاکستان کی پوزیشن

مغربی ممالک اور اداروں کا موقف یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کی یہ شقیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ رکھتی ہیں اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے اس منشور پر دستخط کر کے اس کی پابندی کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔ اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین ان شقوں میں بیان کردہ آزادیوں اور حقوق کے منافی ہیں، اس لیے پاکستان کو اپنے حلف اور دستخط کے مطابق ان قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انہیں بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۲ء

جمہوریت، مسلم ممالک اور امریکہ

امریکہ مسلم ممالک میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار ہے، بلکہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں امریکہ خود سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اور اس کی حتی الوسع یہ کوشش ہے کہ دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں جہاں کے عام مسلمان اسلام کے ساتھ کمٹ منٹ رکھتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری کے واضح رجحان سے بہرہ ور ہیں، وہاں جمہوریت کا راستہ روکا جائے، عوام کو حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کی تشکیل سے دور رکھا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ فروری ۲۰۰۲ء

آغا خان تعلیمی بورڈ اور حکومتی وضاحتیں

آغا خان تعلیمی بورڈ کے بارے میں حکومتی وضاحتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان وضاحتوں سے مسئلہ صاف ہونے کی بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے ۔کچھ عرصہ قبل حکومت نے آغا خان یونیورسٹی کے بورڈ کو ایک پرائیویٹ تعلیمی بورڈ کے طور پر منظور کیا اور یہ خبریں منظر عام پر آنے لگیں کہ ملک کے تمام تعلیمی بورڈز کو آغا خان بورڈ کے ساتھ ملحق کرنے کی اسکیم زیرغور ہے۔ اور ایک مرحلہ پر یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی کہ اسلام آباد کے وفاقی ثانوی تعلیمی بورڈ کو آغا خان بورڈ کے ساتھ منسلک کرنے کے سوال پر وفاقی بورڈ کے ارکان میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۵ء

ابوبکرؓ اسلامک سنٹر ساؤتھال لندن کے قیام کی منظوری

ساؤتھال لندن کے مسلمان دس سال کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد بالآخر ابوبکرؓ مسجد کے قیام کی باقاعدہ اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ایلنگ کونسل کی ویسٹ پلاننگ کمیٹی نے گزشتہ روز ابوبکرؓ مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے دی گئی ’’اسلامک ایجوکیشنل اینڈ ریکریشنل انسٹیٹیوٹ‘‘ کی پلاننگ پرمیشن کی درخواست کی منظوری دے دی ہے۔ اس مرحلہ پر کمیٹی کے ہندو اور سکھ ارکان نے بھی مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جون ۱۹۹۹ء

حسن محمود عودہ سے ایک ملاقات

گزشتہ روز برطانیہ کے شہر سلاؤ میں مولانا منظور احمد چنیوٹی کے ہمراہ فلسطینی دانشور الاستاذ حسن محمود عودہ سے ملاقات کی اور مختلف مسائل پر ان سے گفتگو ہوئی۔ حسن عودہ کا تعلق اس فلسطینی خاندان سے ہے جس نے پون صدی قبل قادیانیت قبول کی تھی اور عرب ممالک میں قادیانیت کے فروغ میں اس خاندان نے مسلسل کردار ادا کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اگست ۱۹۹۹ء

رمضان اور اجتہاد

رمضان المبارک ایک بار پھر ہماری زندگی میں آیا ہے اور خاموشی کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کریم کا مہینہ فرمایا ہے کہ اس میں لوح محفوظ سے قرآن کریم اتارا گیا اور جس رات یہ لوح محفوظ سے منتقل ہوا اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ’’شبِ قدر‘‘ قرار دے کر ایک ہزار مہینوں پر بھاری کر دیا۔ قرآن کریم نے اس ماہ میں مسلمانوں پر روزوں کا حکم صادر فرمایا اور کہا کہ روزے رکھنے سے تقوٰی پیدا ہوتا ہے اور روزہ رکھنے والوں میں پرہیزگاری کا ذوق بیدار ہوتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صبر و ضبط کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ نومبر ۲۰۰۳ء

جہادی تربیتی کیمپ ۔ وزیر داخلہ کے نام کھلا خط

بعد از سلام مسنون! گزارش ہے کہ گزشتہ روز ایک قومی اخبار نے آنجناب کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ ’’امریکہ کی طرف سے پاکستان سے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے مطالبہ پر لندن میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے طالبان کی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود تمام تربیتی کیمپ بند کر دے جہاں پر پاکستان کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلح تربیت حاصل کرتے ہیں‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۲۰۰۰ء

مدارس آرڈیننس نافذ کرنے کا نیا سرکاری پروگرام

دینی مدارس کے بارے میں صدر پرویز مشرف اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے اعلانات کے باوجود تذبذب اور گومگو کی فضا ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور مختلف حوالوں سے یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ حکومت ریگولیشن اور رجسٹریشن کے نام پر اس آرڈیننس کو ایک بار پھر جھاڑ پھونک کر نفاذ کے مرحلہ تک لانے کی تیاریاں کر رہی ہے جسے دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق صوبہ سرحد کی حکومت نے پچھلے دنوں وفاقی حکومت سے استفسار کیا کہ جو مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء

سنی شیعہ کشیدگی ۔ ظفر حسین نقوی صاحب کے خیالات

جناب ظفر حسین نقوی نے عنوان بالا پر میری گزارشات کے حوالہ سے ایک بار پھر قلم اٹھایا ہے اور میری درخواست کے برعکس پھر انہی مسائل کو زیربحث لانے کی کوشش کی ہے جن سے میں صرف اس لیے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ان مسائل پر ازسرنو بحث و مباحثہ کا دروازہ کھلنے سے کشیدگی بڑھے گی اور اس کا نقصان ہوگا۔ قارئین گواہ ہیں کہ میں نے اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مذہبی اختلافات اور پاکستان میں سنی شیعہ کشیدگی کا باعث بننے والے عوامل کو الگ الگ موضوعات قرار دیتے ہوئے ابتدا میں گزارش کی تھی کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مئی ۱۹۹۹ء

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے قیام کا پس منظر

ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جو درس نظامی کے فضلاء کے لیے فکری و ذہنی تربیت گاہ کے ساتھ ساتھ مطالعہ و تحقیق اور تحریر و تقریر کا تربیتی مرکز بنے۔ دینی مدارس کا موجودہ نظام جس بین الاقوامی دباؤ اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کی مداخلت کے خطرہ سے دوچار ہے اس کے پیش نظر دینی مدارس کے منتظمین کے ذہنی تحفظات کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اس لیے ان کے داخلی نظام میں کسی بڑی تبدیلی کی سردست کوئی توقع ہے اور نہ ہی میں خود موجودہ فضا میں اس کے حق میں ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ دسمبر ۱۹۹۹ء

پاکستان شریعت کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ، اسلامی نظام کے نفاذ، قومی خودمختاری کے تحفظ اور مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے مقابلہ کے لیے رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی غرض سے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے قیام کا اعلان سامنے آیا تو مختلف حلقوں کی طرف سے اس سوال کا اٹھایا جانا ایک فطری امر تھا کہ آخر ان مقاصد کے لیے ایک نئی جماعت کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ پہلے سے موجود بیسیوں جماعتوں میں ایک نئی جماعت کا اضافہ کوئی ضروری امر نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۶ء

خدماتِ علماء دیوبند کانفرنس: قائدین اور شرکاء سے چند گزارشات

گزشتہ کم و بیش ڈیڑھ سو برس کے دوران اس خطۂ زمین میں اسلامی تعلیم و ثقافت کو زندہ رکھنے اور عام مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے علمائے دیوبند نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا مختصر اور سرسری تذکرہ ہم گزشتہ کالم میں کر چکے ہیں۔ اور آج اس حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں کہ مستقبل کے امکانات و خدشات اور ضرورتوں کا دائرہ کیا ہے اور علمائے دیوبند کے ماضی کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے اس قافلۂ حق و صداقت پر اس حوالہ سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مئی ۲۰۰۴ء

طالبان، امریکہ اور اقوام متحدہ

امریکی صدر بل کلنٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر طالبان کو سزا دینا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا مقصد طالبان تحریک کو عالمی برادری سے دہشت گردی سمیت اہم معاملات پر عدم تعاون کی راہ اپنانے کی سزا دینا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان جنرل اسمبلی میں سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ افغانستان دنیا بھر کے مذہبی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۱۹۹۹ء

فہم قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے تقاضے

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمارے لیے ہے۔ جب یہ بات بطور عقیدہ ہمارے ذہن میں آجاتی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کسی بھی پیغام کا پہلا حق یہی ہوتا ہے کہ اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے اور پیغام بھیجنے والے کے مقصد سے آگاہی حاصل کی جائے۔ پیغام کسی دوست کا ہو، دفتری خط ہو، عدالتی سمن ہو، کاروباری لیٹر ہو حتیٰ کہ کسی دشمن کا پیغام بھی ہو تو منطقی طور پر اسے وصول کرنے والے کی پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے پڑھے اور سمجھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۰۴ء

اسلام دشمنی ۔ یہود و نصارٰی میں قدرِ مشترک

امریکی سینٹ نے ملائیشیا کے لیے بارہ لاکھ ڈالر کی فوجی امداد کو مبینہ مذہبی آزادی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اور یہودیوں پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی تنقید کو ہدف اعتراض بناتے ہوئے امریکی قیادت نے کہا ہے کہ فوجی امداد کے حصول کے لیے مہاتیر محمد کو اس تنقید پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ دوسری طرف ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران یہودیوں کے بارے میں جو یہ بات کہی تھی کہ دنیا پر دراصل چند مٹھی بھر یہودی حکومت کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ نومبر ۲۰۰۳ء

Pages