الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ

مولانا قاری عبد الحلیمؒ اور مولانا ظفر احمد قاسمؒ

ماضی کو یاد رکھنا اور بزرگوں کو یاد کرنا یہ تو قرآن کریم کا حکم بھی ہے اور اسلوب بھی۔ قرآن کریم نے حکم دیا ’’ذکرھم بایام اللہ‘‘ کہ گزرے ہوئے دنوں کو یاد کر کے لوگوں کو نصیحت کریں۔ یعنی پچھلے دنوں میں اچھے لوگوں نے کیا کیا تھا، برے لوگوں نے کیا کیا تھا، اچھے کاموں کا انجام کیا ہوا تھا، برے کاموں کا نتیجہ کیا ہوا تھا۔ پچھلے زمانوں اور لوگوں کو یاد کریں اور اس کے ساتھ نصیحت کریں، سبق حاصل کریں۔ مکمل تحریر

۲۳ ستمبر ۲۰۲۲ء

چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― دورِ حاضر کے مدعیانِ نبوت

میری گفتگو کا ایک دائرہ یہ ہوتا ہے کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس میں نئی نبوت اور وحی کے دعوے کے ساتھ کون کون سے گروہ دنیا میں موجود ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان سے بھی ہمیں ضرور متعارف ہونا چاہیے، یہ تقریباً چار یا پانچ ہیں، ان کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک تو ذکری مذہب ہے کہ بلوچستان میں مکران اور تربت کی پٹی ان سے بھری پڑی ہے، یہ تقریباً چار سو سال سے چلے آرہے ہیں، ان کی مختصر تاریخ ذکر کر دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۸ء

چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― دورِ اول کے مدعیانِ نبوت

حضرات علماء کرام! آج منحرف مذاہب کے حوالے سے بات کریں گے۔ منحرف مذاہب سے مراد وہ مذاہب ہیں جو نام اسلام کا لیتے ہیں لیکن نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ میں نے ان کو منحرف مذاہب کا ٹائٹل صرف فرق بتانے کے لیے دے رکھا ہے ورنہ تو یہ غیر مسلموں میں ہی ہیں۔ یہ اس وقت کون کون سے ہیں؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپؐ کے بعد اب تک بہت سے لوگوں نے مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں نبوت اور نئی وحی کا دعوٰی کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۸ء

چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― بدھ مت

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ حضرات علماء کرام! آج بدھ مذہب کے بارے میں تعارفی معلومات مہیا کی جائیں گی۔ بدھ ازم، بدھ مت، یہ مہاتما بدھ کے نام سے متعارف ہے۔ مہاتما بدھ کا اصل نام ’’سدارتھا بوتم‘‘ ہے۔ ’’مہاتما‘‘ خدا کی صفات کے مظہر کو کہتے ہیں۔ مہاتما بدھ پانچ سو سال قبل مسیح ہندوستان کے علاقے میں راجہ شدودھن کے ہاں پیدا ہوئے جو کہ ہندو کھشتری ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ مہاتما بدھ کی پیدائش نیپال کی سرحد کے قریب بھارت میں اور بعض مؤرخین کے مطابق بنارس کے شمال میں ایک سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بستی میں ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۸ء

چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― ہندومت

حضرات علماء کرام! آج ہندو مذہب کے حوالے سے کچھ بات ہو گی کہ ہندو مذہب کیا ہے، اس کے ساتھ ہمارے معاملات کیا چلے آرہے ہیں، اور اس وقت ہم کس پوزیشن میں ہیں۔ ہندو مذہب کا آغاز کب ہوا، اس کی بنیادیں کیا ہیں، اور ان کے بنیادی عقائد کیا ہیں، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ہندو مذہب کی بنیاد اور بنیادی عقائد کے بارے میں کوئی متفقہ بات نہیں ملتی۔ عام طور پر اسے وطنی مذہب سمجھا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں متحدہ ہندوستان میں رہنے والے لوگ ہندی اور ان کا مذہب ہندو مذہب کہلاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۸ء

چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― سکھ مت

ان ادیان میں سے جن مذاہب کے ساتھ ہمارا عملی واسطہ ہے آج آغاز کرنے لگا ہوں، اپنے قریبی اور پڑوسی مذہب یعنی سکھ مذہب کے بارے میں۔ سکھ مذہب پنجاب کا مذہب ہے، ان کی تاریخ زیادہ سے زیادہ پانچ سو سال کی ہے، اکبر بادشاہ کے زمانے میں ان کا آغاز ہوا۔ ان کو سمجھنے سے پہلے ایک اور بات سمجھنی ضروری ہے کہ بابا گرو نانک سکھ مذہب کے بانی پہلے ہندو تھے۔ شیخوپورہ کے ساتھ ننکانہ صاحب ضلع ہے، اس کا پرانا نام تلونڈی تھا۔ بابا نانک کے نام سے اس کا نام ننکانہ صاحب رکھا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۸ء

چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― عیسائیت

حضرات علماء کرام! آج آپ سے بات کرنا چاہوں گا عیسائیت، مسیحیت، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیروکاری کا دعوٰی رکھنے اور انجیل کی بات کرنے والوں کے بارے میں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ساڑھے پانچ، چھ صدیاں پہلے مبعوث ہوئے اور خاتم انبیائے بنی اسرائیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجیل عطا فرمائی، ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور بغیر موت کے زندہ اٹھا لیا۔ یہ ان کے اعزازات و امتیازات میں سے ہے۔ حضرت عیسٰیؑ نے فلسطین میں اپنی دعوت پیش کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۸ء

چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― یہودیت

تعارف ادیان و مذاہب کے حوالے سے ہم نے گزشتہ نشست میں بات شروع کی تھی۔ موجودہ تناظر میں عالمی طور پر ہمارا سب سے بڑا ٹکراؤ یہود سے ہے، تو آج ان کے حوالے سے بات ہوگی۔ یہودیت اس وقت تعداد کے لحاظ سے کوئی بڑا مذہب نہیں ہے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہیں۔لیکن اثر و رسوخ کے اعتبار سے، عالمی نظام میں مداخلت کے اعتبار سے، میڈیا اور معیشت پر کنٹرول کے حوالے سے یہودی اس وقت طاقتور ترین قوم ہیں۔ یہودیت کو سمجھنا اور پہچاننا ہمارے لیے بہت سے حوالوں سے ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۸ء

سیرۃالنبیؐ اور مزدوروں کے حقوق

ہماری آج کی نشست کا عنوان ہے ’’سیرۃ النبیؐ اور مزدوروں کے حقوق‘‘ اس حوالے سے دو تین اصولی باتیں عرض کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ مزدور کسے کہتے ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ کہتے ہیں کہ ہم آپس میں اشیا اور صلاحیتوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو ہمارا نظام چلتا ہے۔ ہر آدمی اپنی ساری ضروریات خود پوری نہیں کر سکتا، کوئی ضرورت کوئی بندہ پوری کرتا ہے، دوسری ضرورت کوئی اور پوری کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۱۸ء

سیرۃ النبیؐ اور افسروں کے حقوق

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس سال کی ہماری نشستوں کا موضوع یہ چلا آ رہا ہے کہ مختلف طبقات کے ساتھ (مسافروں، قیدیوں، غلاموں، مہمانوں، مزدوروں کے ساتھ) حضورؐ کی سنت مبارکہ کیا تھی؟ آج کی نشست کا عنوان ہے کہ افسروں کے ساتھ حضورؐ کا طرزعمل کیا تھا۔ جناب نبی کریمؐ جن لوگوں کو ڈیوٹی پر مقرر فرماتے، وقتی طور پر یا مستقل طور پر، اس زمانے میں عامل اور والی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۱۸ء

تعارف ادیان و مذاہب: چند ضروری تقاضے

ہمارے ہاں ”تقابل ادیان“ کے عنوان سے مختلف مدارس اور مراکز میں کورسز ہوتے ہیں جن میں ادیان و مذاہب کے درمیان چند اعتقادی اختلافات پر مباحثہ و مناظرہ کی تربیت دی جاتی ہے، جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے انتہائی ضروری ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔ مگر میری طالب علمانہ رائے میں یہ اس وسیع تر موضوع کے لحاظ سے انتہائی محدود اور جزوی سا دائرہ ہے جبکہ اس عنوان پر اس سے کہیں زیادہ وسیع تناظر میں گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۷ء

حضرت مولانا محمد حیاتؒ

حضرت مولانا محمد حیاتؒ شکرگڑھ کے قریب ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اور درویش صفت عالمِ دین تھے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کو علم و تکلم، تقویٰ و عمل کی بڑی خصوصیات سے نوازا تھا۔ مولانا کی ڈاڑھی قدرتی طور پر نہیں تھی اور ان کا طرزِ زندگی بہت سادہ تھا،کوئی آدمی بظاہر انہیں دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ عالم دین اور دینی بزرگ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۲۰۱۶ء

حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ

مولانا عبید اللہ انورؒ میرے شیخ تھے اور امیر بھی۔ میں نے ایک طویل عرصہ ان کے ساتھ ایک خادم، مرید اور ساتھی کے طور پر گزارا ہے۔ حضرت لاہوریؒ کے بڑے بیٹے حضرت مولانا حافظ حبیب اللہؒ فاضل دیوبند تھے، ان کی زیارت میں نہیں کر سکا کہ وہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ’’مہاجر مکی‘‘ کہلاتے تھے، وہیں زندگی گزاری اور ان کا انتقال بھی وہیں ہوا۔ حضرت لاہوریؒ کے دوسرے بیٹے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ تھے۔ جبکہ حضرت لاہوریؒ کے تیسرے بیٹے حضرت مولانا حافظ حمید اللہ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اگست ۲۰۱۶ء

ماہِ شعبان اور ترجمہ و تفسیر قرآن کے حلقے

شعبان المعظم کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں دورۂ تفسیر قرآن کریم کے حلقوں کا آغاز ہو گیا ہے اور اپنے اپنے ذوق اور دائرہ فکر کے مطابق بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر علمائے کرام اپنے شاگردوں کا حلقہ سنبھالے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی خدمت سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں بھی گزشتہ سال سے دورۂ تفسیر کی کلاس ان دنوں چل رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جون ۲۰۱۲ء

ائمہ وخطبا کی مشکلات ۔ مسائل اور ذمہ داریاں

آج کل خطباء کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے، جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ لوگ جمعۃ المبارک کے دن بالکل خطبہ کے وقت آتے ہیں خطبہ سنتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔حاضرین کو گفتگو سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی، اکثر مساجد میں یہی ہوتاہے۔ اس کی ایک وجہ میں عرض کرتاہوں۔آج سے دس پندرہ سال پہلے جنگ اخبار لندن میں ایک نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، اس نے لکھا کہ اب ہم نے یہاں مساجد میں جانا کم کردیاہے جس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطیب صاحب جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری دلچسپی کا موضوع نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۲ء

تدریس حدیث کے چند اہم تقاضے

جب ہم حدیث پڑھا رہے ہوں تو جس طرح ایک عام اجتماع میں حدیث بیان کرتے ہوئے پبلک کی ذہنی نفسیات، ذہنی سطح اور اس کے معروفات ومسلمات کو سامنے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ہمارے سامنے جو کلاس بیٹھی ہے اس کی ذہنی سطح کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ کون سی بات ان کے ذہن میں جائے گی اور کون سی نہیں جائے گی۔ کیونکہ آج ہمارے سامنے جو طلبہ حدیث پڑھنے بیٹھتے ہیں ان کا لیول آج سے پچاس سال پہلے والا نہیں ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ کی اکثر یت مطالعہ کرکے آتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ فروری ۲۰۰۹ء

اسلام کا تصور علم اور دینی مدارس کا کردار

اسلام نے علم کو نافع اور ضار کے درجوں میں تقسیم کیاہے۔ یہ نفع وضرر دنیا و آخرت دونوں حوالوں سے ہے۔ آج کے عالمی تعلیمی نظام اور اسلا م کے فلسفہ تعلیم میں یہی جوہری فرق ہے کہ آج کی دنیا کے نزدیک نفع وضرر صرف اس دنیا کے حوالے سے ہے۔ جو بات دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے اور شخصی، طبقاتی یا اجتماعی زندگی کی کامیابی کے لیے مفید ہے، وہ تعلیمی نظام کا حصہ ہے۔ لیکن اسلام اس دنیا کے ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ آخرت کی فوز و فلاح اور اس ابدی زندگی میں نجات کو اپنے تعلیمی و تربیتی نظام کا اساسی ہدف قرار دیتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ نومبر ۲۰۰۶ء
2016ء سے
Flag Counter