ملٹی نیشنل کمپنیاں اور پاکستان کی خودمختاری

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۰۱ء

ملٹی نیشنل کمپنیاں جس طرح پاکستان میں تجارت، صنعت اور زراعت کے شعبہ میں آگے بڑھ رہی ہیں اور ملکی معیشت بتدریج ان کے قبضے میں جا رہی ہے، اس سے ہر باشعور شہری پریشان ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر قسم کی پریشانی اور اضطراب کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کا گرین سگنل دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت اور محصولات کے نظام میں شرکت کے ذریعہ کنٹرول حاصل کیا تھا اور فلسطین میں یہودیوں نے زمینوں کی وسیع پیمانے پر خریداری کے ذریعے سے قبضے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس پس منظر میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک طرف پاکستان کی صنعت و تجارت پر کنٹرول حاصل کر کے قومی معیشت کو بین القوامیت کے جال میں مکمل طور پر جکڑنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور دوسری طرف ’’کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ‘‘ کے نام پر پاکستان کی زمینوں کی وسیع پیمانے پر خریداری کر کے اس ملک کے باشندوں کو اپنی زمینوں کی ملکیت کے حق سے بھی محروم کر دینا چاہتی ہیں۔

ہم ایک عرصہ سے بین الاقوامی رپورٹوں میں پاکستان کے اندر ’’مسیحی ریاست‘‘ کے قیام کے پروگرام کا تذکرہ دیکھ رہے ہیں لیکن اس کی عملی شکل سمجھ میں نہیں آ رہی تھی البتہ اب فلسطین کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے پاکستانی زمینوں کی وسیع پیمانے پر خریداری کا منصوبہ پڑھ کر ’’مسیحی ریاست‘‘ کے قیام کا طریق واردات کچھ نہ کچھ سمجھ میں آنے لگا ہے۔ اس سلسلے میں روزنامہ اوصاف اسلام آباد کی ۲۸ اگست ۲۰۰۱ء کو شائع کردہ ایک خبر ملاحظہ فرمائیے اور اگر آپ اس خوفناک سازش کی روک تھام کے لیے کسی درجے میں کچھ کر سکتے ہوں تو خدا کے لیے اس میں کوتاہی سے کام نہ لیجئے۔

فیڈرل لینڈ کمیشن نے کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لامحدود سرکاری زمین فروخت کرنے کی حکومتی پالیسی کو آئین کے متصادم اور اسلامی احکامات اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کے ایک فیصلے کے منافی قرار دیا ہے جبکہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو (سی بی آر) نے کارپوریٹ فارمنگ کرنے والی سرمایہ کار کمپنیوں کو ٹیکس میں رعایت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لامحدود زمین فراہم کرنے کے حوالے سے پالیسی کو حتمی شکل نہ دینے کے باوجود سرمایہ کاری بورڈ نے کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے تحت کثیر القومی کمپنیوں کو آئین اور اسلامی احکامات کے منافی لا محدود سرکاری زمین خریدنے کی ایک کتابچے کے ذریعے پیش کش کی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس ضمن میں وفاقی وزارت زراعت نے آئین میں ترمیم کی سفارش کی ہے جس کے لیے زراعت کی وزارت کی جانب سے کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے تیار کردہ سفارشات کی منظوری چیف ایگزیکٹو ۱۳ مارچ ۲۰۰۱ء کو دے چکے ہیں تاہم لا محدود زمین فراہم کرنے کی پیش کش کا معاملہ آئین اور اسلامی احکامات کے منافی ہونے کے باعث حل نہیں ہو سکا ہے۔ آئین کے ایم ایل آر ۱۱۵ کے سیکشن ۷ اور ایم ایل آر ۶۴ کے سیکشن ۸ میں ترمیم کے متعلق سمری چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ کو بھجوا دی گئی ہے جبکہ وفاقی وزارت قانون و انصاف کو معاملے پر رائے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ سنٹرل بورڈ آف ریونیو کا اس ضمن میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ٹیکس رعایت دینے کے معاملے پر رائے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ سنٹرل بورڈ آف ریونیو کا اس ضمن میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ٹیکس رعایت دینے کے معاملے پر موقف ہے کہ کارپوریٹ کمپنیوں سے ۴۵ فیصد تک انکم ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے لہذا کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ کے تحت سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیاں بھی اتنی ہی شرح سے انکم ٹیکس ادا کریں گی۔سی بی آر کا مزید موقف ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے پرانی مشینری کی درآمد پر ٹیکسوں میں رعایت نہیں دی جا سکتی البتہ نئی مشینری کی درآمد پر رعایت دی جا سکتی ہے۔

وزارت زراعت نے سفارش کی تھی کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پرانی مشینری پر ٹیکس میں رعایت دی جائے اور بارانی علاقوں میں کارپورییٹ فارمنگ کی ابتدا کرنے والی کمپنیوں کو ۷ سال، نہری علاقوں میں فارمنگ کرنے والی کمپنیوں کو ۵ سال اور قابل کاشت ضائع شدہ زمین پر فارمنگ کرنے والی کمپنیوں کو ۱۰ سال کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے۔ ان تمام سفارشات پر وفاقی سیکرٹری خزانہ معین افضل کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ کمیٹی نے اس ضمن میں اپنی سفارشات کو حتمی شکل نہیں دی ہے لیکن سرمایہ کاری بورڈ نے جاری کردہ کتابچے میں ٹیکسوں میں چھوٹ کے لیے ترغیبات کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ کتابچے دنیا بھر میں موجودہ پاکستانی سفارت خانوں کو ارسال کر دیے گئے ہیں جس کی بنا پر پاکستانی سفارت خانوں میں کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ میں سرمایہ کرنے کے لیے درخواستیں آنا شروع ہو گئی ہیں لیکن پالیسی کی حتمی منظوری ابھی تک زیر غور ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter