اسلامی شریعت کی تعبیرو تشریح: علمی وفکری سوالات

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۰۸ء

(محمد عمار خان ناصر کی تصنیف ’’حدود و تعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کے دیباچہ کے طور پر لکھا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

مسلم ممالک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی احکام و قوانین کی عمل داری کا مسئلہ جہاں اپنی نوعیت و اہمیت کے حوالے سے ہمارے ملی فرائض اور دینی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے، وہاں اس کی راہ میں حائل متنوع مشکلات اور رکاوٹوں کے باعث وہ ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور مسلم معاشروں میں اس سے نمٹنے کے لیے مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں۔

ان مشکلات اور رکاوٹوں میں سیاسی، تہذیبی، اقتصادی اور عسکری امور کے ساتھ ساتھ یہ علمی رکاوٹ بھی نفاذ اسلام کی راہ روکے کھڑی ہے کہ آج کے بین الاقوامی حالات اور جدید عالمی تہذیبی ماحول میں اسلامی احکام و قوانین کی مقامی و بین الاقوامی سطح پر تطبیق کی عملی صورتیں کیا ہوں گی، اور گلوبلائزیشن کی اس فضا میں جبکہ دنیا کی کوئی قوم دوسری اقوام کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی اور اقوام عالم میں ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے اور ایک دوسرے کا اثر قبول کرنے کا دائرہ دن بدن وسیع اور ناگزیر ہوتا جا رہا ہے، اسلامی احکام و قوانین کی اس کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی قابل قبول اور قابل عمل شکل کیا ہو سکتی ہے؟

مسلم ممالک میں اس حوالے سے تین رجحانات عام طور پر پائے جاتے ہیں اور ان کے درمیان امتیاز بلکہ کشاکش دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے:

  • آج کے عالمی ماحول، جدید ثقافتی فضا اور بین الاقوامی مطالبات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی احکام و قوانین کو اس علمی ورثے اور فقہی ذخیرے کی بنیاد پر بالکل اسی طرح نافذ کر دیا جائے جس طرح وہ ترکی کی خلافت عثمانیہ اور جنوبی ایشیا کی مغل سلطنت میں نافذ تھے اور جن کی اس وقت تک کی ارتقائی شکل ہمارے پاس ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ اور ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔
  • اس علمی ورثے اور فقہی ذخیرے کو ایک طرف رکھتے ہوئے جدید عالمی تقاضوں اور بین الاقوامی مطالبات کو سامنے رکھ کر قرآن و سنت بلکہ بعض حلقوں کے نزدیک صرف قرآن کریم کی بنیاد پر نئی فقہ تشکیل دی جائے اور اسے مسلم ممالک میں قانون سازی کی اساس قرار دیا جائے۔
  • گزشتہ چودہ سو سال کے علمی ورثے اور فقہی ذخیرے سے ترک تعلق اور اس سے براءت کا اظہار کرنے کی بجائے اسی کی بنیاد پر اور اس کے مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے نئے مسائل کا حل تلاش کیا جائے، جدید قانون سازی کے تقاضوں کی تکمیل کی جائے اور جن بین الاقوامی مطالبات اور تقاضوں کو پورا کرنے کی عملی صورتیں اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالی جا سکتی ہیں، ان سے گریز نہ کیا جائے۔

پورے عالم اسلام میں ان تین حوالوں سے علمی کام جاری ہے اور ہر حلقہ اپنی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے تگ و تاز میں مصروف ہے۔ راقم الحروف خود کو اس تیسرے حلقے میں شمار کرتا ہے اور پورے شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتا ہے کہ پہلی دونوں صورتیں غیر متوازن اور غیر عملی ہیں، اس لیے کہ نہ تو یہ ممکن ہے کہ ہم آج کے عالمی ماحول کو کلیتاً نظر انداز کر دیں اور جدید بین الاقوامی تمدنی تقاضوں سے آنکھیں بند کرتے ہوئے دو سو سال قبل کے اجتہادی فیصلوں اور عمل کو آج کے لیے بھی مکمل طور پر واجب العمل قرار دے دیں، ا ور نہ ہی یہ ہو سکتا ہے کہ ہم امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل، فقہائے امت کی علمی کاوشوں اور دنیا بھر کے مسلم معاشروں میں اسلامی احکام و قوانین کی حکمرانی کے کم و بیش ایک ہزار سالہ تسلسل کو بین الاقوامیت کے جدید ماحول کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے قرآن کریم یا قرآن و سنت کی نئی تعبیر و تشریح کرنے بیٹھ جائیں، کیونکہ ایسا کوئی بھی عمل مسلمہ اسلامی اصولوں کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی غالب ترین اکثریت کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں ہوگا اور اس کا عملی نتیجہ مسیحیت میں مارٹن لوتھر کی پراٹسٹنٹ تحریک کی طرح سوسائٹی کو دین سے کلیتاً لاتعلق کر دینے کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ اس لیے راقم الحروف کے نزدیک اسلامی قوانین و احکام کی تعبیر و تشریح کے لیے صحیح، قابل عمل اور متوازن راستہ یہ ہے کہ:

  • امت مسلمہ کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات کے دائرہ کی بہرحال پابندی کی جائے۔
  • امت مسلمہ کی غالب اکثریت کی فقہی وابستگیوں کا احترام کرتے ہوئے ہر ملک میں وہاں کی اکثریت کے فقہی رجحانات کو قانون سازی کی بنیاد بنایا جائے، البتہ قانون سازی کو صرف اسی دائرے میں محدود رکھنے کی بجائے دوسری فقہوں سے استفادہ یا بوقت ضرورت قرآن و سنت سے براہ راست استنباط کا دروازہ بھی کھلا رکھا جائے۔ مثلاً انڈونیشیا میں شوافع کی اکثریت ہے تو اس اکثریت کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ ان کے ملک میں قانون سازی کی بنیاد فقہ شافعی پر ہو، کیونکہ یہ ایک اصولی اور معقول بات ہونے کے علاوہ وہاں کی اکثریتی آبادی کا جمہوری حق بھی ہے۔
  • جدید عالمی ثقافتی ماحول اور گلوبلائزیشن سے پیدا ہونے والے مسائل اور بین الاقوامی مطالبات اور تقاضوں کو نہ تو حق اور انصاف کا معیار تصور کیا جائے کہ ہم ہر تقاضے کے سامنے سپرانداز ہوتے چلے جائیں اور اس کے لیے اسلامی اصولوں اور احکام سے دست برداری یا ان کی مغرب کے لیے قابل قبول توجیہ و تعبیر ہی ہماری علمی کاوشوں کا ہدف بن کر رہ جائے، اور نہ ہی ہم انہیں یکسر نظر انداز کرتے ہوئے نفاذ اسلام کے لیے اپنی پیشرفت کا راستہ خود ہی روکے کھڑے رہیں۔ بلکہ جن مطالبات اور تقاضوں کو ہم قرآن و سنت کی تعلیمات، اہل سنت کے علمی مسلمات اور اجتہاد شرعی کے دائرے میں قبول کر سکتے ہیں انہیں کھلے دل سے قبول کریں، اور جو امور قرآن و سنت کی نصوص صریحہ اور اجتہاد شرعی کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہوں ان کے بارے میں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے بغیر پوری دلجمعی کے ساتھ ان پر قائم رہیں۔

اس پس منظر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت اور اسلامی قوانین و احکام کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے مختلف اطراف میں جو کام ہو رہا ہے، اس کے بارے میں بھی کچھ اصولی گزارشات ضروری سمجھتا ہوں:

  1. صرف قرآن کریم کو قانون سازی کی بنیاد بنانا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنا قطعی طور پر ناقابل قبول اور خود قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔
  2. سنت رسول سے مراد وہی ہے جو امت مسلمہ چودہ سو سال سے اس کا مفہوم سمجھتی آ رہی ہے اور اس سے ہٹ کر سنت کا کوئی نیا مفہوم طے کرنا اور جمہور امت میں اب تک سنت کے متوارث طور پر چلے آنے والے مفہوم کو مسترد کر دینا بھی عملاً سنت کو اسلامی قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔
  3. ایک رجحان آج کل عام طور پر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سنت مستقل ماخذ قانون نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ثانوی ہے، اور قرآن کریم کے ساتھ اس کی مطابقت کی صورت میں ہی اسے احکام و قوانین کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بظاہر بہت خوبصورت بات ہے لیکن اس صورت میں اصل اتھارٹی سنت نہیں بلکہ مطابقت تسلیم کرنے یا نہ کرنے والے کا ذہن قرار پاتا ہے کہ وہ جس سنت کو قرآن کریم کے مطابق سمجھ لے وہ قانون کی بنیاد بن سکتی ہے، اور جس سنت کو اس کا ذہن قرآن کریم کے مطابق قرار نہ دے وہ احکام و قوانین کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

    یہاں ایک بات یہ بھی مغالطہ کا باعث بنتی ہے کہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں مطابقت کے لیے عقل عام کو معیار تسلیم کر لیا جائے تو معاملہ قرین قیاس ہو جاتا ہے، مگر یہ سراسر مغالطہ ہے، اس لیے کہ عقل عام کی بنیاد میسر معلومات، مشاہدات اور تجربات پر ہوتی ہے جن کے دائرے زمان و مکان دونوں حوالوں سے تغیر پذیر رہتے ہیں، اس لیے عقل عام کو قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح یا ان کے درمیان تطبیق و توفیق کا حتمی معیار قرار دینے کا مطلب قرآن و سنت کو کسی ایک دور یا علاقہ کی عقل عام کا پابند بنا دینے یا ہر زمانہ اور علاقہ کے لیے الگ الگ تعبیر و تشریح کا دروازہ کھول دینے کے مترادف ہوگا، اس لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ سنت کو ثانوی درجہ کا ماخذ قانون قرار دینے کی بجائے اسلامی قانون سازی کا مستقل ماخذ اور قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کا حتمی معیار تسلیم کیا جائے، جیسا کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں ہوتا تھا اور اسی پر امت مسلمہ کا اجماعی تعامل چلا آ رہا ہے۔

البتہ ان حدود کی پابندی کی یہ بات فیصلہ کے مراحل کی ہے اور میرے نزدیک علامہ محمد اقبالؒ کی طرف سے قانون سازی کے لیے منتخب پارلیمنٹ کو حتمی اتھارٹی قرار دینے کی تجویز کا ایک افادی پہلو یہ بھی ہے کہ رائے عامہ کو مسترد کر کے کسی ایک گروہ کی رائے کو مسلط کر دینے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں جس کا تجربہ ہم پاکستان میں اس طرح کر چکے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک عرصہ تک سنت نبوی کو نظر انداز کر کے صرف قرآن کریم کو قانون سازی کا ماخذ قرار دینے کی تحریک چلتی رہی اور اس کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بہت محنت کی گئی، لیکن جب عوام کی منتخب دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء میں قانون سازی کی دستوری بنیادیں طے کیں تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں تھا کہ وہ رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے قرآن و سنت، دونوں کو قانون سازی کی بنیاد کے طور پر تسلیم کرے، بلکہ اگر کسی معاملے میں پارلیمنٹ نے بھی عوام کی جمہوری رائے اور رجحانات کو نظر انداز کیا ہے تو رائے عامہ نے اسے قبول نہیں کیا، جیسا کہ مروجہ عائلی قوانین کو اگرچہ پارلیمنٹ نے قبول کر رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی قرآن و سنت سے متصادم شقوں کے بارے میں آج بھی عوام کی غالب اکثریت اپنے سابقہ رجحانات پر قائم ہے اور ذہنی طور پر انہیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس لیے مجھے اس بارے میں کوئی شبہہ یا پریشانی نہیں ہے کہ جب بھی حتمی فیصلہ کا مرحلہ آئے گا، عوام کے جمہوری اور اکثریتی رجحانات کو نظر انداز کر دینا کسی کے بس میں نہیں ہوگا اور نہ ہی ان سے ہٹ کر کیا جانے والا کوئی فیصلہ امت مسلمہ کو باور کرایا جا سکے گا، البتہ کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے علمی بحث و مباحثہ کا میدان محدود نہیں رہنا چاہیے اور نہ ہی ماضی میں اہل علم کے ہاں اس کا دائرہ کبھی تنگ رہا ہے۔ ہماری علمی روایت یہ چلی آ رہی ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر بحث و مباحثہ ہمیشہ کھلے دل و دماغ سے کیا گیا ہے، مسئلہ کے ہر پہلو پر بات ہوئی ہے، تجزیہ و تنقیح کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا اور استدلال و استنباط کی کوئی گنجائش ادھوری نہیں رہنے دی گئی، کیونکہ جس طرح کسی مقدمے میں صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے تفتیش کے کسی امکانی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح کسی علمی مسئلے میں صحیح نتیجے تک رسائی کے لیے اس کے تمام امکانی پہلوؤں کو کھنگالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور اسی وجہ سے میں اہل علم میں بحث و مباحثہ کے لیے کھلے ماحول کو پسند کرتا ہوں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہوں۔

عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے جب حدود و تعزیرات کے حوالے سے اپنی کاوش اس کتابچہ کی صورت میں پیش کی جو اسلامی نظریاتی کونسل نے شائع کیا ہے تو مجھے اس کے تمام مندرجات سے اتفاق نہیں تھا، لیکن اس نوعیت کے مسائل میں علمی بحث و مباحثہ کے کھلے ماحول کو میں نے ہمیشہ نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہوں، جیسا کہ مجھ سے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے ’’خطبہ اجتہاد‘‘ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ بطور موقف اور فیصلے کے میں اسے قبول نہیں کرتا، لیکن بحث و مباحثہ کی بنیاد اور ایجنڈے کے طور پر اس کا احترام کرتا ہوں اور اس میں اٹھائے گئے نکات پر سنجیدہ علمی بحث و مباحثہ کی حمایت کرتا ہوں۔

آج کے نوجوان اہل علم جو اسلام کے چودہ سو سالہ ماضی اور جدید گلوبلائزیشن کے ثقافتی ماحول کے سنگم پر کھڑے ہیں، وہ نہ ماضی سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں اور نہ مستقبل کے ناگزیر تقاضوں سے آنکھیں بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ماضی کے علمی ورثہ کے ساتھ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے قدیم و جدید میں تطبیق کی کوئی قابل قبول صورت نکل آئے۔ مگر انہیں دونوں جانب سے حوصلہ شکنی کا سامنا ہے اور وہ بیک وقت ’قدامت پرستی‘ اور ’تجدد پسندی‘ کے طعنوں کا ہدف ہیں۔ مجھے ان نوجوان اہل علم سے ہمدردی ہے، میں ان کے دکھ اور مشکلات کو سمجھتا ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتا ہوں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ امت کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس نہ ہو، کیونکہ اس دائرے سے آگے بہرحال گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے۔

عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے اسی علمی کاوش کا سلسلہ آگے بڑھایا ہے اور زیادہ وسیع تناظر میں حدود و تعزیرات اور ان سے متعلقہ امور و مسائل پر بحث کی ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے ہر پہلو سے اتفاق کیا جائے، البتہ اس علمی کاوش کا یہ حق ضرور بنتا ہے کہ اہل علم اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، بحث و مباحثہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے مثبت و منفی پہلوؤں پر اظہار خیال کریں اور جہاں کوئی غلطی محسوس کریں، اسے انسانی فطرت کا تقاضا تصور کرتے ہوئے علمی مواخذہ کا حق استعمال کریں تاکہ صحیح نتیجے تک پہنچنے میں ان کی معاونت بھی شامل ہو جائے۔

میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت عزیزم عمار سلمہ کی اس کاوش کو حق تک رسائی کا ذریعہ بنائیں اور آج کے دور میں نفاذ اسلام کے حوالے سے درپیش علمی و فکری چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter