حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟

   
تاریخ: 
جولائی ۲۰۰۸ء

اللہ تبارک وتعالیٰ کی عنایت اور اس کی مہربانی و فضل ہے کہ سال میں ایک مرتبہ آپ حضرات سے ملاقات ہو جاتی ہے اور یوں دین کی کچھ باتیں کہنے اور سننے کا موقع مل جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ میری اِس حاضری قبول فرمائیں اور دین کے حوالے سے جو بھی گفتگو ہو، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق بھی عطا فرمائیں۔ میرا چند سالوں سے معمول ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے کسی ایک پہلو پر گفتگو ہوتی ہے۔ ایک سال بخاری شریف کی ’’ثلاثیات‘‘ پر بات ہوئی، ایک سال مسلم شریف کے ’’باب الفتن‘‘ کے بارے میں گفتگو ہوئی، اور ایک سال ابن ماجہ کی’’ کتاب السنن‘‘ پر خطاب کا موقع ملا۔ اس سال بھی احادیث مبارکہ ہی کے ایک پہلو ’’احادیث قُدسیہ‘‘ کا انتخاب کیا ہے جو کہ احادیث کریمہ میں ایک مستقل شعبہ ہے۔

حدیث و سنت کسے کہتے ہیں؟

اہل علم کے ہاں حدیث اور سنت میں تھوڑا سا تکنیکی فرق ہے لیکن عام لوگوں کے ہاں یہ دونوں لفظ ایک ہی معنٰی میں سمجھے جاتے ہیں۔ محدثین کی اصطلاح میں ایک قولی حدیث ہے، ایک فعلی حدیث ہے اور ایک تقریری حدیث ہے۔

  1. ’’قولی حدیث‘‘ یہ ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے کوئی بات ارشاد فرمائی اور کسی صحابیؓ نے وہ بات سن کر آگے روایت کر دی کہ میں نے حضورؐ سے یہ بات یوں سنی ہے۔
  2. ’’فعلی حدیث‘‘ کا معنٰی یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تو کچھ نہیں لیکن کسی صحابیؓ نے جناب نبی کریمؐ کو کوئی کام کرتے دیکھا اور آگے روایت کر دیا کہ میں نے حضورؐ کو فلاں کام یوں کرتے دیکھا۔
  3. ’’تقریری حدیث‘‘ یہ ہے کہ حضورؐ نے خود نہ کچھ فرمایا اور نہ کوئی عمل کیا، لیکن کسی صحابیؓ نے کوئی بات کہی یا کوئی عمل کیا جو رسول اللہؐ کے علم میں آیا، اس پر حضورؐ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ خاموشی کا معنٰی یہ ہے کہ حضورؐ نے منع نہ فرما کر صحابیؓ کے اس قول یا عمل کی تصدیق کر دی۔
  4. ایک اور بات بھی محدثین کے ہاں حدیث میں شمار کی جاتی ہے کہ کسی صحابیؓ نے حضورؐ کا حوالہ دیے بغیر کوئی ایسی بات کہی جو عقل، قیاس اور رائے سے معلوم نہیں کی جا سکتی۔ تو ایسی بات بھی حدیث میں شمار کی جاتی ہے کہ اس صحابیؓ نے لازماً یہ بات حضورؐ سے ہی سنی ہے۔ مثلاً کوئی صحابی قیامت کے بارے میں کوئی بات کہتا ہے کہ قیامت کے روز ایسا ہوگا۔ اب قیامت کے بارے میں کوئی بات آدمی اپنی عقل یا رائے سے تو نہیں بتا سکتا۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ حضورؐ کا صحابی عمداً کوئی غلط بات نہیں کہتا۔ لہٰذا یہاں یہ کہا جائے گا کہ صحابیؓ نے ضرور یہ بات حضورؐ سے سنی ہوگی۔ یا مثال کے طور پر کوئی صحابی انسانی تخلیق سے پہلے کی کوئی بات بیان کرتا ہے کہ فلاں کام یوں ہوا تھا۔ اب یہ بات بھی عقل، قیاس یا رائے سے معلوم نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ ظاہر بات ہے کہ صحابیؓ نے یہ بات حضورؐ سے سنی ہوگی۔ اسی طرح قبر، جنت اور دوزخ وغیرہ کے متعلق باتیں جن کا علم حضورؐ کے بتائے بغیر معلوم نہ ہو سکے، ایسی تمام باتیں حدیث ہی شمار ہوں گی۔

حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟

احادیث مبارکہ میں ایک شعبہ ہے احادیث قدسیہ کا۔ ’’حدیث قدسی‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ اللہ تعالیٰ سے روایت فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔ یعنی ان احادیث میں حضورؐ راوی ہیں۔ ایسی باتیں ماضی کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا، حال کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یوں ارشاد فرما رہے ہیں، اور مستقبل کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ ارشاد فرمائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو بات جناب نبی کریمؐ نقل فرماتے ہیں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ ایسی باتیں حضورؐ کے ارشادات میں نہیں شمار ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں شمار ہوتی ہیں۔

قرآن کریم بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور حدیثِ قُدسی بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے۔ قرآن کریم کا ایک ایک جملہ، ایک ایک آیت، اور ایک ایک سورت اللہ کا کلام ہے۔ قرآن کریم کو ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ اسی طرح حدیثِ قُدسی بھی اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی بات ہے۔ حدیث قدسی کو بھی ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اور حدیث قدسی میں کیا فرق ہے؟ قرآن کریم اور حدیثِ قُدسی میں دو بنیادی فرق ہیں۔

  1. پہلا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں بات بھی اللہ تعالیٰ کی ہے اور الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ جبکہ حدیث قدسی میں بات تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن الفاظ اللہ تعالیٰ کے ضروری نہیں ہیں بلکہ جناب نبی کریمؐ نے اپنے الفاظ میں اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ جس طرح ہم روز مرہ زندگی میں کسی شخص سے یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی تک میرا یہ پیغام پہنچا دو۔ اب اس شخص کے لیے بعینہ میرے الفاظ میں پیغام پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ میرا پیغام اپنے الفاظ میں مطلوبہ شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یوں ہوتا ہے کہ اکثر احادیث کے الفاظ صحابہ کرامؓ کے اپنے ہوتے ہیں لیکن ان میں پیغام حضورؐ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورؐ کے اپنے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں لیکن اصل بات حضورؐ کے پیغام کا نقل ہونا ہے، آپؐ کے اپنے الفاظ کا نقل ہونا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم میں الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور پیغام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ لیکن حدیثِ قُدسی میں یہ ضروری نہیں ہے کہ الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہوں۔ جناب نبی کریمؐ اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بات کا مفہوم بیان فرماتے ہیں۔
  2. دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ، آیات اور سورتیں قطعی ہیں۔ ان میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فلاں آیت قرآن کی ہے یا نہیں، یا فلاں سورت قرآن کی ہے یا نہیں۔ لیکن حدیث قدسی میں باقی احادیث کی طرح سند کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے، صحیح ہے یا ضعیف۔ جس طرح باقی احادیث میں یہ امکان موجود ہے کہ کوئی کمزور راوی حضورؐ کی بات بیان کرتا ہے کہ حضورؐ نے یوں فرمایا، اسی طرح احادیث قدسیہ میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ محدثین یہ بات کہہ دیں کہ فلاں حدیث کی سند کمزور ہے۔ باقی احادیث کی طرح یہ سارے امکانات احادیث قدسیہ میں بھی موجود ہیں کہ حدیث صحیح بھی ہو سکتی ہے، ضعیف بھی ہو سکتی ہے، متواتر بھی ہو سکتی ہے اور موضوع بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ امکان نہیں ہے کہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے لے کر من الجنۃ والناس تک ہر حرف قطعی ہے اور کسی بھی حرف پر شک جائز نہیں ہے۔ جبکہ احادیث قدسیہ میں سند پر بات ہوگی۔ جتنی مضبوط سند ہوگی حدیث بھی اتنی صحیح شمار ہوگی۔ سند صحیح ہے تو روایت صحیح ہے، سند کمزور ہے تو روایت بھی کمزور ہے، اور سند اگر جعلی ہے تو روایت بھی جعلی ہے۔

احادیث قدسیہ سینکڑوں ہیں اور ہر درجہ کی ہیں۔ یہ مجموعہ جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے یہ چالیس احادیث قدسیہ کا منتخب مجموعہ ہے۔ مصر کے ایک عالم الشیخ علی الدین محمد ابراہیم نے اس مجموعہ کا انتخاب اس اہتمام کے ساتھ کیا ہے کہ ان تمام احادیث کی سندیں صحیح ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو بخاری و مسلم کی ہیں، چند ایک دوسری احادیث کی کتب سے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ایسی احادیث لیں جن کی روایت کے صحیح ہونے میں انہوں نے پوری تسلی کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

اللہ تعالیٰ کے غضب پر رحمت غالب رہے گی

عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صل اللّٰہ علیہ وسلم لما قضی اللّٰہ الخلق کتب فی کتابہ علیٰ نفسہ فھو موضوع عندہ ان رحمتی تغلب غضبی او کما صلی اللّٰہ علیہ وسلم او کما قال اللّٰہ عز و جل۔ (رواہ مسلم)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں لکھ دیا جو اس کے پاس موجود ہے کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔

یہ حدیث صحاح ستہ کی چار کتابوں میں روایت ہوئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کردہ اس حدیث میں حضورؐ مخلوقات کے آغاز کی بات فرما رہے ہیں کہ اللہ رب العزت نے جب کائنات اور اس کی مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو اس سے پہلے ایک اور فیصلہ کر کے لکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں صفات ہیں جن میں اثباتی بھی ہیں اور سلبی بھی۔ اثباتی یہ کہ اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے ہیں اور رزق دینے والے ہیں۔ سلبی یہ کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ جھوٹ نہیں بولتے اور اللہ تعالیٰ کوئی برا کام نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ’اللہ‘ ہے جبکہ باقی جتنے نام بھی ہم پڑھتے ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے معروف ۹۹ نام ہم پڑھتے ہیں جو کہ احادیث میں بھی ہیں، ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بہت سے صفاتی نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں سے دو بڑے نام ہیں القہار اور الرحیم۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْد اسی طرح اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرُ الرَّحِیْم۔

اللہ کی صفات میں قہر بھی ہے اور جبر بھی، رحم بھی ہے اور مغفرت بھی۔ جب اللہ تعالیٰ کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو ان کی پکڑ بھی بہت سخت ہے لیکن اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم بھی ہیں۔ اسی لیے ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا الایمان بین الرجاء والخوف کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان کی کیفیت کا نام ہے۔ انسان ایک ہی پہلو پر اعتقاد رکھ لے کہ اللہ تعالیٰ بہت قہار اور جبار ہے، اللہ تعالیٰ تو سزا دے کر ہی رہیں گے۔ یا پھر انسان بالکل یہی بات دل میں بٹھا لے کہ اللہ تعالیٰ کسی بات پر پکڑے گا ہی نہیں، جو مرضی کرتے رہیں اللہ تو غفور و رحیم اور مہربان و رحمان ہے۔ یہ دونوں باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ بلکہ ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بھی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی امید بھی رکھنی چاہیے۔ نبی کریمؐ کی اس حدیث مبارکہ کی رو سے آدمی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے رحم کی امید بھی۔

چنانچہ اس حدیث قدسی میں یہ فرمایا کہ لما قضی اللّٰہ الخلق اللہ تعالیٰ نے جب مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس سے پہلے کتب فی نفسہ علیٰ نفسہ وھو موضوع عندہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں ایک فیصلہ کیا اور اسے لکھ لیا۔ وہ فیصلہ یہ تھا ان رحمتی تغلب غصبی کہ میرے غصے پر میری رحمت ہمیشہ غالب رہے گی۔ یعنی جب بھی غصے اور رحمت کا مقابلہ ہوگا، رحمت کو غلبہ حاصل ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا اور گالی دینا

عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال قال اللّٰہ تعالیٰ کذبنی ابن ادم ولم یکن لہ ذلک وشتمنی ولم یکن لہ ذلک أما تکذیبہ ایای فقولہ لن یعیدنی کما بدأنی ولیس اول الخلق بأھوی علی من اعادتہ واما شتمہ ایای فقولہ اتخذ اللّٰہ ولداً وانا الاحد الصمد لم الد ولم اولد ولم یکن لی کفواً احد او کما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (رواہ البخاری)

ترجمہ: حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آدم کے بیٹے نے مجھے جھٹلا دیا جو اس کے لیے مناسب نہیں ہے اور آدم کے بیٹےنے مجھے گالی دی ہے جو اس کے لیے مناسب نہیں ہے، اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھاؤں گا اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں نہ میں کسی سے پیدا ہوا اور نہ مجھ سے کوئی پیدا ہوا۔

لن یعیدنی کما بداء نی کہ جب انسان موت کے بعد اپنے دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرتا ہے کہ جب میں ختم ہو جاؤں گا کہ تو اللہ تعالیٰ مجھے کیسے دوبارہ اٹھائیں گے، تو یہ در اصل میری قدرت کو جھٹلاتا ہے۔ حضرات انبیاءؑ نے بنیادی طور پر تین عقیدوں کی تعلیم دی۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اللہ تعالیٰ کا رسولوں کے ذریعے بندوں کو ہدایات دینا، اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی، جس میں حساب کتاب ہوگا۔ انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو بعث بعد الموت یعنی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ کم و بیش ہر پیغمبر کے مخاطبین نے موت کے بعد کی زندگی کو جھٹلایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر مختلف انبیاء کی قوموں کی طرف سے اس عقیدے کو جھٹلانے کا ذکر کیا ہے ءَ اِذَا کُنَّا تُرَاباً وَّعِظَاماً ءَ اِنَّا لَمُخْرَجُوْن اور ءَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَاباً وَّعِظَاماً ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْن۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ بعث بعد الموت کا انکار در اصل میری قدرت کا انکار ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کَمَا بَدَءْ نَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعَدًا عَلَیْناً۔ اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْن کہ جیسے ہم نے پہلے پیدا کیا ایسے ہی ہم دوبارہ پیدا کریں گے اور یہ ہمارا وعدہ ہےہم یہ ضرور کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلے بھی ہم نے بنایا اب بھی ہم ہی بنائیں گے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّل کیا ہم ایک بار بنا کر تھک گئے ہیں؟ بلکہ ایک مقام پر تو عجیب بات فرمائی کہ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَ لَّن نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَن نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکتے؟ بلکہ ہم تو یہ بھی قدرت رکھتے ہیں کہ تمہاری انگلیوں کے پوروے دوبارہ بنا دیں۔انسان کی ہڈیاں جب خاک میں مل جائیں گی ریزہ ریزہ ہو جائیں گی تو کیا ہم اکٹھی نہیں کر سکتے؟ اس بھول میں نہ رہنا، ہم تو یہ قدرت بھی رکھتے ہیں کہ تمہاری انگلیوں کے فنگر پرنٹس بھی دوبارہ وہی بنا دیں۔ یعنی ہم اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ تمہیں بعینہ ایسے ہی بنا دیں جیسے کہ تم مرنے سے پہلے تھے۔ پوروے برابر کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ فنگر پرنٹس بھی وہی ہوں گے جو مرنے سے پہلے تھے۔ جب انسان یہ اعتراض کرتا ہے کہ کون ہڈیاں جمع کرے گا اور کون دوبارہ زندہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ در اصل میری قدرت کو جھٹلاتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا ولیس اول الخلق بأھون علیَّ من اعادتہٖ کہ ان بے وقوفوں سے پوچھو کہ پہلی دفعہ بنانا مشکل ہوتا ہے یا دوبارہ بنانا؟ جب اللہ تعالیٰ نے پہلی دفعہ انسان کو بنا لیا تو اس کا اعادہ کرنا کیا مشکل ہے؟

پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے گالی دینے کا مطلب بیان فرمایا کہ جب انسان یہ کہتا ہے کہ فلاں اللہ کا بیٹا ہے یا فلاں اللہ کی بیٹی ہے تو وہ در اصل اللہ تعالیٰ کو گالی دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس بات کو اتنی بڑی گالی قرار دیا ہے کہ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا ، اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ اس لیے کہ اولاد انسان کی حاجت و ضرورت ہے جبکہ اللہ ہر قسم کی ضرورت سے پاک ہے۔ اب یہ بات کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں چیز کی ضرورت ہے یا اللہ تعالیٰ فلاں چیز کا محتاج ہے، یہ در اصل اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تو احد ہوں، نہ میں کسی سے پیدا ہوا اور نہ مجھ سے کوئی پیدا ہوا۔

چنانچہ اِس حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ پہلی یہ کہ جو آدمی مرنے کے بعد کی زندگی سے انکار کرتا ہے وہ در اصل میری قدرت کا انکار کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو آدمی میرے لیے بیٹا یا بیٹی کا عقیدہ رکھتا ہے وہ در اصل مجھے محتاج قرار دیتا ہے جو کہ میرے لیے ایک گالی ہے۔

2016ء سے
Flag Counter