میاں نواز شریف کی جلا وطنی اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے لیے امریکی دباؤ

   
تاریخ اشاعت: 
یکم جنوری ۲۰۰۱ء

آج ہم دو امریکی عہدے داروں کی پریس بریفنگ کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ایک وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جیک سیورٹ ہیں جنہوں نے اپنی پریس بریفنگ میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی جلاوطنی کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اور دوسرے جنوبی ایشیا کے امور کے امریکی ماہر اسٹیفن پی کوہن ہیں جنہوں نے اسلام آباد کے امریکی مرکز اطلاعات میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدارت ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن سے ری پبلکن صدار جارج ڈبلیو بش کو منتقل ہونے کے بعد امریکی پالیسوں میں متوقع تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے۔

مسٹر جیک سیورٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے معزول وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات کی سماعت کے طریق کار پر اعتراض تھا اس لیے اس نے فوجی حکومت پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کی رہائی کے عمل میں تعاون کیا اور اب جبکہ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے تو امریکہ کو اس پر اطمینان ہے۔

ہمارے خیال میں وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اصل حقیقت کو واضح کر کے پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ہفتہ عشرہ سے پائی جانے والی بہت سی الجھنوں کو صاف کر دیا ہے۔ ورنہ ہمارے حکمران اس صورتحال کو فیس کرنے اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لیے جو طرح طرح کے عذر تراش رہے تھے انہوں نے پاکستان کے عوام کو مزید الجھا کر رکھ دیا تھا۔ اور بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ایک ہی روز کے اخبار کے ایک ہی صفحہ پر ایک طرف جنرل پرویز مشرف کی نشری تقریر کا یہ حصہ خبر کی سرخی میں شامل تھا کہ نواز شریف، شہباز شریف او رحسین نواز کی دستخط شدہ اپیل پر میاں نواز شریف کی سزا کو عمر قید سے دس سالہ جلا وطنی میں تبدیل کیا گیا ہے، اور اسی صفحہ پر وزیرداخلہ کا یہ بیان بڑی سرخی کے ساتھ موجود تھا کہ حکومت کے پاس نوازشریف کا کوئی معافی نامہ نہیں۔

ویسے بھی سعودی عرب میں شریف خاندان کو جو پروٹوکول دیا گیا ہے اور شاہ فہد اور شہزادہ عبد اللہ سمیت سعودی حکمران جس طرح میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کی ’’بطور سزا جلاوطنی‘‘ کی بات مذاق سی لگتی ہے، اس لیے وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری کی باقاعدہ وضاحت کے بعد اب اس سلسلہ میں مزید کسی گفتگو یا قیاس آرائی کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، اس لیے کہ

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

دوسری طرف مسٹر اسٹیفن پی کوہن نے جارج ڈبلیو بش کے دور صدارت میں متوقع امریکی پالیسیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسٹر بش کی حکومت پاکستان کی حکومت پر سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گی کیونکہ ری پبلکن پارٹی خود سی ٹی بی ٹی کی مخالفت کرتی رہی ہے، اس لیے اس حوالہ سے پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ خاصا کم ہو جائے گا۔ انہوں نے دینی مدارس کے مسئلہ کو بھی اظہار خیال کا موضوع بنایا ہے اور کہا ہے کہ بعض امریکی پالیسی ساز ادارے ان دنوں جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے تعلیمی شعبے میں امداد میں اضافہ کیا جائے۔ یہ امداد ایسے دینی مدارس کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے جہاں اندیشہ ہے کہ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے اور بعض میں مسلح تربیت بھی دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ادارے اگر جدید تعلیم سے بہرہ ور ہوں تو اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ملے گا۔

جہاں تک پاکستان پر دباؤ کم ہونے کی بات ہے اگر ایسا ہوا تو ہمیں خوشی ہوگی۔ اور یہ بات اس سے پہلے بھی ایک عوامی تاثر کے طور پر موجود ہے کہ پاکستان کے حوالہ سے ری پبلکن پارٹی کے رویہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی بہ نسبت کچھ نہ کچھ فرق ضرور موجود ہوتا ہے اور بعض دوست اس سلسلہ میں ماضی کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس قسم کے کسی فرق کے مؤثر ہونے کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں اس لیے کہ اگر ایک طرف سے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے سلسلہ میں دباؤ میں کچھ کمی ہوگی تو دوسری طرف افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو اس سے کہیں زیادہ دباؤ کا شکار رکھنے کا انتظام کر لیا گیا ہے، جس کا عملی اظہار سلامتی کونسل کی اس حالیہ قرارداد کی صورت میں ہو چکا ہے جس میں طالبان حکومت کو دہشت گردی اور اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں تعاون نہ کرنے کے الزامات کا نشانہ بنا کر تمام ممالک سے ان کے اقتصادی، سفارتی اور مواصلاتی بائیکاٹ کے لیے کہا گیا ہے۔ اور پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے طالبان حکومت پر سلامتی کونسل کی طرف سے لگائی جانے والی ان نئی پابندیوں کے پاکستان پر اثر انداز ہونے کے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے قرارداد پر نظرثانی کے لیے سلامتی کونسل سے دوبارہ رجوع کے عندیہ کا اظہار کیا ہے۔

طالبان حکومت کی طرف سے ان پابندیوں کو مسترد کرنے اور اسامہ بن لادن کو کسی قیمت پر امریکہ کے حوالہ نہ کرنے کے دوٹوک اعلان کے بعد ان پابندیوں کے عملاً لاگو ہونے اور پاکستان پر ان کے شدت کے ساتھ اثر انداز ہونے کے بارے میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ گیا۔ اس لیے امریکی ماہر کی طرف سے پاکستان پر دباؤ کم ہونے کے امکان کا اظہار ہمارے لیے کسی خوش فہمی کا باعث نہیں بن سکتا اور بات صرف پینترا بدلنے اور ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لینے کی باقی رہ جاتی ہے۔ ہمارے لیے طالبان حکومت پر لگائی جانے والی یہ پابندی قطعی طور پر غیر متوقع نہیں ہے بلکہ ہمیں اس میں اتنی دیر ہونے پر تعجب ہو رہا تھا اس لیے کہ طالبان حکومت نے قرآن و سنت کے قوانین کے عملی نفاذ اور ٹیکس فری معیشت کے قیام کی صورت میں ایک نئے نظام کا جو تجربہ کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے وہ امریکہ اور روس سمیت کسی بڑے ملک اور موجودہ عالمی نظام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اور طالبان کو دراصل اسی کی سزا دینا مقصود ہے لیکن ہمارا ایمان ہے کہ اگر طالبان حکومت اپنے عزم پر قائم رہتی ہے تو اس کے خلاف عالم کفر کا یہ اتحاد بھی اسی طرح ناکام ہوگا جس طرح غزوۂ احزاب کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صرف ڈیڑھ ہزار ساتھیوں کے خلاف پورے عرب قبائل کے متحدہ محاذ کو منہ کی کھانا پڑی تھی۔ بات صرف استقامت، صبر اور حوصلہ کی ہے او رہمیں یقین ہے کہ طالبان حکومت کے اہل کار اور غیور افغان عوام روسی استعمار کی یلغار کی طرح امریکی استعمار کے اس نئے حملہ اور یلغار سے بھی سرخرو نکلیں گے کیونکہ وہ صبر، حوصلہ، استقامت اور قناعت و جفاکشی کی اسلامی تعلیمات سے صرف آگاہ ہی نہیں بلکہ اپنے مزاج، عادات اور کلچر کے لحاظ سے ان کے خوگر بھی ہیں۔

باقی رہی بات دینی مدارس کے لیے امریکہ کی نئی امداد کی تو یہ بھی ’’نیا جال لائے پرانے شکاری‘‘ کے مصداق پالیسی میں کسی تبدیلی کی بجائے پینترا بدلنے ہی کا ایک انداز ہے۔ کیونکہ دینی مدارس پر پابندی لگوانے یا کم از کم انہیں ریاستی اداروں کے کنٹرول میں دینے کے تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں اور اب تخویف کی بجائے تحریص اور لالچ ہی کا ایک راستہ باقی رہ گیا ہے جسے آزمانے کے لیے امریکی پالیسی ساز ادارے ضرور سوچ بچار کر رہے ہوں گے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ امریکی پالیسی ساز ابھی عقل سے اتنے عاری نہیں ہوئے ہوں گے کہ وہ دینی مدارس کے طلبہ اور علماء کو اس امید پر فنڈز فراہم کر دیں کہ جدید تعلیم سے آراستہ ہو کر ان کی ’’بنیاد پرستی‘‘ میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ بنیاد پرستی تو اس نظام تعلیم کے تربیت یافتہ افراد کے ذہنوں سے بھی نہیں نکالی جا سکی جو دینی مدارس کے مقابلہ پر قائم کیا گیا تھا اور مسٹر اور ملا کی تفریق قائم کر کے ملا کو غیر مؤثر بنانے کے لیے تمام ریاستی وسائل وقف کر دیے گئے تھے۔ لیکن آج ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد انہی پالیسی سازوں کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ مسٹر اور ملا میں سے زیادہ ’’بنیاد پرست‘‘ کون ہے؟

امریکی امداد کا زہر قبول کرنے کی حمایت تو ہم کسی حالت میں نہیں کر سکتے لیکن دینی مدارس میں ضروری جدید تعلیم کو شامل کرنے اور علماء و طلباء کو جدید علوم اور تکنیک سے آراستہ کرنے کے ہم خود بھی داعی ہیں۔ البتہ ایک فرق ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو جدید تعلیم کے ذریعے علماء کی بنیاد پرستی میں کمی کا کوئی امکان نظر آرہا ہوگا جبکہ ہمیں جدید علوم، عالمی زبانوں اور ابلاغ عامہ کے ترقی یافتہ وسائل سے بہرہ ور ہونے کی صورت میں دینی مدارس کی بنیاد پرستی دو آتشہ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر ایک امریکی دانشور کی اس پیشکش پر ہم یہ ضرور عرض کرنا چاہیں گے:

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت رامی شناسم
   
2016ء سے
Flag Counter