حضرت قاری محمد انورؒ

   
تاریخ: 
۱۴ فروری ۲۰۱۷ء

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۱۴ فروری ۲۰۱۷ء کو منعقد ہونے والی پندرہ روزہ فکری نشست میں مولانا زاہدالراشدی نے استاذ القراء حضرت قاری محمد انور صاحبؒ کے بارے میں گفتگو کی جو مولانا زاہد الراشدی کے حفظ کے استاذ تھے اور ابھی پچھلے دنوں ان کا مدینہ منورہ میں انتقا ل ہوا ہے۔ اس نشست میں ان کے حوالے سے کچھ یادداشتیں بیان کی گئیں اور آخر میں ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کریم کی تلاوت اور دعا کی گئی۔ ادارہ)

بعدالحمدوالصلوٰۃ۔ استاذ الحفاظ و القراء حضرت قاری محمدانور صاحبؒ کاچند روز پہلے مدینہ منورہ میں انتقال ہو گیا ہے، آپؒ میرے حفظ کے استاذتھے اور صرف میرے ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے خاندان کے استاذ تھے، ہم سب بھائی بہنیں ان کے شاگرد ہیں۔الحمدللہ نو بھائیوں نے اور تین بہنوں نے حفظ کیا ہے اور ایک بڑی بہن کے سوا باقی سب کے استاذ وہی تھے۔ جبکہ وہ گکھڑ اور اس کے ارد گرد سینکڑون حفاظ کے استاذ تھے۔ گکھڑ سے وہ افریقہ کے ایک ملک میں تشریف لے گئے، وہاں بھی بیسیوں حفاظ کے استاذ ہیں۔ پھر مدینہ منورہ میں تقریباً پینتیس سال انہوں نے قرآن کریم پڑھایا ، وہاں بھی سینکڑوں حفاظ نے ان سے قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ آج کی تقریب میں حضرت قاری صاحبؒ کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔

حضرت قاری محمد انور صاحبؒ کے تعارف کے لیے دو تین باتوں کا تذکرہ ضروری ہے۔گکھڑ میں حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۱۹۴۳ء میں آئے تھے۔ ۱۹۴۱ء / ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبندمیں دورۂ حدیث کیا تھا اور ۱۹۴۳ءمیں گکھڑ بوہڑ والی مسجد میں بطور امام و خطیب تشریف لائے تھے اور ۲۰۰۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ سارا عرصہ انہوں نے گکھڑ میں گزارا ۔جب تک صحت نے اجازت دی، وفات سے سات آٹھ سال پہلے تک تو پانچوں نمازیں خود پڑھاتے تھے،صبح درس بھی دیتے تھے ،جمعہ بھی پڑھاتے تھے ۔وہاں درس نظامی کا مدرسہ تھا جس میں حضرت والدصاحبؒ جب سے آئے تھے، پڑھارہے تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے علماءآتے تھے وہاں رہتے تھے پڑھتے تھے لیکن حفظ کا کوئی باضابطہ مدرسہ نہیں تھا۔ حفظ کا باضابطہ مدرسہ تقریباً ۱۹۵۷ء میں بنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ راہوالی سے گکھڑ جاتے ہوئے راستہ میں ایک گتہ فیکٹری ہوتی تھی، اب وہ ختم ہوچکی ہے لیکن بلڈنگ وغیرہ موجود ہے، اس کے ساتھ سیٹھی کالونی ہے۔ یہ گتہ فیکٹری کسی زمانے میں پاکستان کی دوسری بڑی گتہ فیکٹری ہوتی تھی۔ ایک مردان میں تھی، دوسری یہ تھی۔ اس کے مالک سیٹھی محمدیوسف صاحبؒ نومسلم باپ کے بیٹے تھے، سیالکوٹ روڈ پر ایک قصبہ ہے ترگڑی، وہاں کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا احمدعلی لاہورؒ کے والد بستی جلال کے تھے۔ ہمارے ایک اور بزرگ گزرے ہیں باوا جی عبدالحقؒ، وہ تلونڈی کھجور والی کے تھے۔ تلونڈی کھجور والی، جلال اور ترگڑی، یہ تینوں قریب قریب علاقے ہیں، دو دو تین تین میل کا فاصلہ ہے۔ یہ تینوں حضرات ایک ہی دورمیں مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت لاہوریؒ کے والد سکھ سے مسلمان ہوئے تھے، باواجی عبد الحقؒ ہندو پنڈت سے مسلمان ہوئے تھے اور سیٹھی صاحب کے والد بھی ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ سیٹھی محمدیوسف صاحبؒ کے والد صاحب کو قرآن کریم سے بڑا لگاؤ تھا، اپنے بیٹے کو بھی انہوں نے قرآن کریم کی طرف توجہ دلائی۔ سیٹھی محمدیوسف صاحب گتہ فیکٹری کے مالک تھے اور اپنے زمانے میں ضلع گوجرانوالہ کے چند امیر ترین لوگوں میں سے تھے۔ قرآن کریم کی خدمت کا ذوق تھا اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ مدرسے بنائے جائیں۔ اس زمانے میں حفظ اور تجوید کے مدارس اکا دکا کہیں ہوتے تھے، ملتان ، کراچی، چنیوٹ کے علاقوں میں جہاں حضرت قاری رحیم بخش صاحبؒ اورحضرت قاری فتح محمدصاحبؒ کے کچھ شاگرد تھے۔ ہمارے اس علاقے میں حفظ کا کوئی باقاعدہ مدرسہ نہیں تھا ۔سیٹھی محمدیوسف صاحب مرحوم کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ ان کے ساتھ ایک قاری صاحبؒ ہوتے تھے، مولانا قاری عبدالحفیظ صاحبؒ، اکوڑہ خٹک کے قریب شیدو شریف ایک جگہ ہے، یہ و ہاں کے تھے ۔سیٹھی صاحب قاری صاحب کو مختلف علاقوں میں لے کرجاتے ، مجمع کے سامنے قاری صاحبؒ کو قرآن سنانے کا کہتے۔ قاری صاحب تلاوت کرتے ،وہ قرآن کریم اچھا پڑھتے تھے۔ پھر سیٹھی صاحب لوگوں سے کہتے کہ ایسے ہی تم بھی پڑھا کرو۔ لوگ کہتے، ہم ایسے کس طرح پڑھیں؟ سیٹھی صاحب کہتے کہ اس کا بندوبست کرو، میں بھی حصہ ڈالتا ہوں۔یہاں کوئی مدرسہ بناؤ اور قاری صاحب رکھو، میں بھی حصہ ڈالتا ہوں۔ یہ ان کا طریقہ تھا۔

اب بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ غالباً ۱۹۵۶ء / ۱۹۵۷ء کی بات ہے، میں اس وقت آٹھ نو سال کا تھا، سیٹھی صاحبؒ جمعہ کے دن ہماری مسجد میں تشریف لائے، حضرت والد صاحبؒ سے کہا کہ خطبہ سے پہلے مجھے پانچ سات منٹ دیں گے؟انہوں نے کہا، ٹھیک ہے ۔سیٹھی صاحب نے قاری صاحب سے کہا، تلاوت کریں،انہوں نے مختصر تلاوت فرمائی۔ پھر سیٹھی صاحب نے کھڑے ہوکر دو تین منٹ بات فرمائی کہ قرآن کریم اچھے طریقے سے پڑھانا چاہیے، صحیح پڑھنا چاہیے اور یاد کرنا چاہیے۔ جیسے قاری صاحب نے پڑھا ہے آپ لوگ بھی شوق پیدا کریں۔ اور کہا کہ جیسا قاری صاحب نے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پڑھا ہے، مولوی صاحب (مراد والد گرامیؒ)کے علاوہ یہاں کے مقامی لوگوں میں سے اگر کوئی اسی طرح ایک رکوع پڑھ کر سنا دے تو پچاس روپے انعام دوں گا۔ اس زمانے کے پچاس روپے آج کے پانچ ہزار تھے۔ ایک بزرگ مہاجر تھے حافظ احمد حسن صاحبؒ (خوشنویس زاہد اقبال صاحب کے والد)۔ انہوں نے کہا میں سناتا ہوں۔ کہا،سنائیں۔جب سنا چکے تو سیٹھی صاحب نے کہا، آپ مقامی نہیں ہیں ۔کہا، جی میں مقامی تو نہیں ہوں، مہاجر ہوں۔ سیٹھی صاحب نے کہا، میں نے مقامی حضرات سے کہا تھا۔

چنانچہ اس طرح سیٹھی صاحب نے ایک شوق پیدا کیا۔ پھر کہا کہ ایسا کرو کہ کسی قاری صاحب کا بندوبست کرو، انہیں جو تنخواہ دو گے، آدھی تنخواہ میں دیا کروں گا۔ اسی پرفیصلہ ہوگیا کہ قاری صاحب رکھیں گے۔ اور پھر قرآن کریم حفظ و ناظرہ کی کلاس شروع ہوگئی۔اس فیصلے کے تحت ہمارے پہلے استاذِ محترم قاری اعزازالحق صاحبؒ تھے جو امروہہ کے مہاجر تھے، انہیں مقرر کیا گیا۔ میں پہلی کلاس کا طالب علم تھا،مجھے اسکول سے اٹھا کر مدرسہ میں ڈال دیا گیا۔ تب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ چوتھی جماعت پڑھی تھی لیکن امتحان نہیں دیا تھا ۔ گیارہ بارہ لڑکوں کی کلاس تھی، ہمیں قرآن کریم حفظ شروع کروا دیا گیا۔ ناظرہ میں نے پہلے والدہ مرحومہ سے اور والد صاحبؒ سے پڑھا ہوا تھا۔

سیٹھی صاحب مرحوم سارے ملک میں ایسا ہی کرتے تھے۔ ان کی فیکٹری کماتی تھی اور وہ خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح ترغیب دلا کر مدرسہ بنواتے تھے، کہیں تجوید کا،کہیں حفظ کا ۔کہیں آدھی تنخواہ دیتے، کہیں تیسرا حصہ اور کہیں تو پوری تنخواہ خود دیتے تھے کہ قاری صاحب رکھو تنخواہ میں دوں گا۔ ان کی گتہ فیکٹری کا ایک مستقل شعبہ تھا، شعبہ تعلیم القرآن، اس انچارج محمدحسین صاحب مرحوم تھے۔ایک مرتبہ شاید ۱۹۶۵ء کی بات ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ ملک کے کتنے مدرسے ہیں جن کی سیٹھی صاحب اس طرح مدد کرتے ہیں؟ انہوں نے سینکڑوں میں تعداد بتائی جن کی سیٹھی صاحبؒ اس طرح معاونت اور نگرانی کرتے ہیں۔ پھرآہستہ آہستہ مدرسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے گئے اور سیٹھی صاحب کا مقصد بھی یہی ہوتا تھا کہ میں ان کو سہارا دوں، یہ خودکفیل ہو جائیں۔ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاتے تو سیٹھی صاحب پیچھے ہٹ جاتے کہ میرا کام یہی تھا۔سیٹھی صاحب مرحوم نے افریقہ میں اور سعودی عرب میں بھی بہت سے مدرسے بنوائے۔ہمارے استاذِ محترم قاری محمد انور صاحبؒ کو یہ گکھڑ سے افریقہ لے گئے تھے، قاری صاحبؒ چند سال وہاں پڑھاتے رہے۔

اللہ تعالیٰ سیٹھی صاحب کے درجات بلند فرمائیں۔ یہ بات شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ سعودی عرب میں حفظ کا کوئی باقاعدہ مدرسہ نہیں تھا اور تراویح میں قرآن مجید سننے سنانے کا سوائے حرمین کے کہیں رواج نہیں تھا۔ سعودی عرب میں حفظ کا پہلا مدرسہ حرم مکہ میں سیٹھی صاحب نے قائم کیا تھا جس کے پہلے طالب علم شیخ عبد اللہ بن السبیلؒ تھے جو بعد میں امام الحرمین بنے۔ حرمین شریفین کے حفظ کے پہلے استاذ ابھی زندہ ہیں، قاری خلیل احمدصاحب۔اب معذورہیں، آزادکشمیر سے تعلق ہے۔ قاری خلیل احمدصاحب کا ایک بیٹا حرمین کے ائمہ میں شامل ہے جن کانام غالباً محمد ہے۔

سیٹھی صاحبؒ نے سعودی عرب میں حفظ قرآن کے مدرسے بنوانے شروع کیے،جب تعداد خاصی بڑھ گئی تو سعودیہ والوں کو خیال آیا کہ باہر کے آدمی خرچہ کر کے مدرسے بنوا رہے ہیں۔ پیسے تو ہمارے پاس بہت ہیں ہم خود یہ کام کیوں نہ کریں۔ اس طرح ان کو خیال آیا اور انہوں نے یہ نظام خود سنبھال لیا۔ لیکن آغاز سیٹھی صاحب مرحوم نے کیا اور کئی سال تک کئی مدارس کاخرچہ یہاں سے بھجواتے رہے۔ ائمہ حرمین میں الشیخ حذیفی اورالشیخ السدیس بھی پاکستانی قاری صاحبان کے شاگرد ہیں اور قاری انور صاحبؒ کے تو وہاں سینکڑوں شاگرد ہیں۔ وہاں کے ائمہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستانی قاریوں سے پڑھا ہے۔اس وقت بھی وہاں حضرت قاری بشیر احمد صاحب ملتانی ہیں، مسجد نبویؐ میں عشاءکے بعد بیٹھتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ ان کے پاس آکر اپنا تلفظ صحیح کرتے ہیں۔

یہ ہمارے گکھڑ کے مدرسے کا پس منظر تھا۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ مزاج نہیں ملتے، ہم نے قرآن کریم پڑھنا شروع تو کر دیا لیکن کوئی قاری صاحب یہاں ٹکتے نہیں تھے یا محلے والے ٹکنے دیتے نہیں تھے۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں، یا تو قاری صاحب کا اپنا موڈ ٹکنے کانہیں ہوتا، یا وہ ٹکنا چاہتے ہیں لیکن محلے والے ٹکنے نہیں دیتے۔ یہی سلسلہ چلتا رہا ۔ایک قاری صاحب آئے وہ چلے گئے، دوسرے آئے وہ چلے گئے۔ اسی طرح کئی قاری صاحبان ہمارے تبدیل ہوئے اور مسئلہ یہ تھا کہ جو قاری صاحب آتے وہ نئے سرے سے شروع کرواتے کہ تم نے صحیح نہیں پڑھاہوا ،تمہارا تلفظ صحیح نہیں ،تمہارا لہجہ درست نہیں ہے۔ ہم اسی الجھن میں تھے کہ کریں کیا ؟ہر پانچ چھ مہینے کے بعد نئے قاری صاحب آجاتے ہیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت قاری محمد انور صاحبؒ عطا فرمائے۔ لاہور میں حفظ اور تجویدکا مدرسہ تجوید القرآن سب سے قدیمی مدرسہ ہے۔ حضرت قاری فضل کریم صاحبؒ، قاری محمدحسن شاہ صاحبؒ، اور قاری محمد ظریف صاحبؒ کا مدرسہ تھا۔ ان سے حضرت والد صاحبؒ نے کہا کہ کوئی اچھا سا قاری دو ،ہم نے مدرسہ چلانا ہے۔ حضرت قاری محمد انور صاحبؒ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے تھے، ابتدائی تعلیم انہوں نے دارالعلوم ربانیہ میں حاصل کی تھی۔ تجوید القرآن لاہور میں حفظ مکمل کیا، تجوید قاری محمدحسن شاہ صاحبؒ سے پڑھی اور اس تعلق سے ہمارے پاس گکھڑ تشریف لائے۔ وہ پھر ایسے ٹک کر بیٹھے کہ الحمدللہ ہر طرف حافظ ہی حافظ ہوگئے۔

حضرت قاری محمد انورؒ بڑے اچھے استاذ تھے۔ میں نے ان سے حفظ کرنا شروع کیا، آپؒ بڑی شفقت فرماتے تھے اور ڈنڈا بھی خوب چلاتے تھے۔ یہ تو ہوتا ہی ہے۔ ویسے آج کا ماحو ل بدل گیا ہے ورنہ ڈنڈا ہی انسان کو سیدھا رکھتاہے۔ لیکن زیادہ بھی نہ مارا جائے، ہلکی پھلکی مار میں کوئی حرج نہیں۔ ہم نے تو خیر والد صاحبؒ سے بھی بہت ڈنڈے کھائے ہیں اور قاری صاحبؒ سے بھی بہت ڈنڈے کھائے ہیں۔ میں اس پر طلبہ کو اپنا قصہ سنایا کرتا ہوں کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے سبق یاد نہیں تھا، قاری صاحبؒ نے میرے دائیں ہاتھ پر پانچ چھڑیاں ٹکا کر ماریں۔ میں آخر صاحبزادہ تھا، منہ بسورا اور اٹھ کر گھر چلا گیا ۔والدہ مرحومہ، اللہ تعالیٰ غریق رحمت کریں، وہ بھی گھر میں بچیوں کو ناظرہ اور حفظ پڑھاتی تھیں، اگرچہ خود حافظہ نہیں تھیں۔ میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ اماں جی آپ سے کتنی بچیوں نے حفظ کیا ہے؟کہنے لگیں تیئس بچیوں نے۔ گھر میں روزانہ ان کامدرسہ ہوتا تھا ، انہوں نے بھی ڈنڈا رکھاہواتھا۔ میں قاری صاحبؒ سے مار کھا کر گھر آگیا، والدہ مرحومہ نے دیکھا کہ سبق کے وقت یہ گھر پھر رہا ہے۔ مجھے بلا کر پوچھا، میں نے منہ بسور کر جواب دیا ، قاری صاحب نے مارا ہے۔میرے ذہن میں تھا کہ ماں مجھے سینے سے لگائے گی ، دلاسہ دے گی اور قاری صاحب کو دو چار سنائے گی کہ قاری کون ہوتاہے میرے بچے کو مارنے والا ۔مجھ سے پوچھا،بیٹے! کیوں مارا تھا؟ میں نے کہا سبق یاد نہیں تھا۔ کس چیز سے مارا تھا؟میں نے کہا ڈنڈے سے۔کتنے ؟ پانچ۔ کہاں مارا؟ دائیں ہاتھ پر۔ والدہ مرحومہ نے اپنا ڈنڈا پکڑا اور میرے بائیں ہاتھ پر چھ ڈنڈے مارے اور کہا، چلو پہنچو مدرسے۔

اس وقت مجھے بہت غصہ آیا اور آنا بھی تھا لیکن آج اماں جان کو دعائیں دیتا ہوں کہ اگر اس وقت میری ماں مجھے سینے سے لگا کر سہارا دے دیتی اور گھر میں بٹھا لیتی تو ہم آج یہ کچھ نہ ہوتے جو ہیں۔ پتہ نہیں کدھر کدھر پھرتے، کیا ہوتا اور کہاں ہوتا۔میں کہتا ہوں کہ سارا کمال ان چھ ڈنڈوں کاہے۔ ایمانداری کی بات ہے، بزرگوں کی دعائیں اور ماں کے ہاتھ سے کھائے ہوئے ڈنڈے یہی دو چیزیں کام آگئیں ورنہ میرا کانٹا بدل چکا ہوتا۔ اور ریل گاڑی کا کانٹا ہی بدلنا ہوتا ہے کہ وہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ قاری صاحبؒ مارتے بھی تھے لیکن اگر کبھی سمجھتے کہ زیادہ مار لیا ہے تو بلا کر چائے بھی پلاتے تھے۔ ایک دن مجھے ڈنڈے زیادہ لگ گئے تو میں پریشان بیٹھا تھا کہ قاری صاحب نے مارا بہت ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد چائے منگوائی ،مجھے بلایا اوئے مولوی! ادھر آ چائے پی لے۔مجھے مولوی کہتے تھے۔ میں حیران ہوا کہ ابھی مار رہے تھے اور اب چائے پلا رہے ہیں۔مجھ سے فرمایا، بیٹا ہم مارتے ہیں تو کسی وجہ سے مارتے ہیں۔یہ ان کا انداز تھا۔ میں قاری صاحب سے حفظ کرتا رہا۔ میراحفظ ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو مکمل ہوا۔ قاری صاحبؒ مجھ پر بہت مہربان تھے اور بڑی شفقت فرماتے تھے۔ قاری صاحبؒ نے دو تین سال تک اپنے ساتھ مجھے قرآن کریم کا دور کروایا۔ آپؒ گکھڑ کی مسجد میں قرآن مجید سنایا کرتے تھے،میں ان کا سامع ہوتا تھا۔ پھر اپنی نگرانی میں پہلا مصلیٰ سنانے کے لیے مجھے بھیجا ۔میں نے پہلا مصلیٰ بدوکے گوسائیاں گوجرانوالہ کینٹ میں سنایا تھا۔

گکھڑ ہی کی دو باتیں اور ذکر کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ استاذ تو استاذ ہوتا ہے اور جس طالب علم پر استاد کی نظر ہو، اسے کیمیا بنا دیتا ہے۔ مجھے تقریر کرنا بھی حضرت قاری صاحبؒ نے سکھایا ہے، ورنہ قاری صاحبؒ کا تقریر سے کیا تعلق ؟قاری صاحبؒ نے ہمیں حفظ کے دوران تجویدکا رسالہ زینۃ القرآن سبقاً سبقاً پڑھایا اور مجھے کھڑا کر کے کہتے، اوئے مولوی! کیا سبق پڑھا ہے؟ بیان کرو ۔مجھ سے تقریر کرواتے تھے۔ گکھڑ میں کبھی کبھی مولانا قاری سید حسن شاہ صاحبؒ تشریف لایا کرتے تھے۔ وہ قاری بھی بہت اچھے تھے اورخطیب بھی بہت اچھے تھے۔ قاری محمدانور صاحبؒ کبھی جلسہ کرواتے تو شاہ صاحبؒ کو بلاتے تھے۔مجھے کچھ جملے رٹا کر،کچھ چیزیں یاد کرا کر کھڑا کردیتے کہ تقریر کرو۔ کبھی لکھ کر دیتے جسے میں یاد کرتا اور پھر مجمع کے سامنے تقریرکے اندازمیں بیان کرتا۔

ایک واقعہ میں عموماً سنایا کرتا ہوں کہ روڈ پر جلسہ تھا، شاہ صاحبؒ کی تقریر تھی، ان سے پہلے قاری صاحبؒ نے مجھے تقریر کرنے کے لیے کھڑا کر دیا۔میں مائیک پر کھڑا ہوا اور بازو چڑھا کر قادیانیوں کے خلاف تقریر کرنا شروع کردی اور مرزا قادیانی کو پنجابی میں دو چار گالیاں دیں کہ مرزابے ایمان ،مرزایہ، مرزا وہ۔ دو چار جو سنائیں تو والد صاحبؒ نے گردن سے مجھے پکڑا اور پیچھے بٹھا دیا۔ خود مائیک پر آکر ارشاد فرمایا، بچہ ہے، جذبات میں غلط باتیں کر گیا ہے، میں معافی مانگتا ہوں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ ہم آج کل مائیک پر کھڑے ہو کر کیا کچھ نہیں کہتے؟ میں اپنی بات کیا کرتا ہوں کہ میری تربیت اس ماحول میں ہوئی ہے، اس لیے میری زبان سے سخت لفظ کی کسی شدید ترین مخالف کے لیے بھی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ الحمدللہ !میں آج اپنے کسی شدید ترین مخالف کانام بھی لیتا ہوں تو احترام کے ساتھ لیتا ہوں۔ خیر، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو بولنے اور تقریر کرنے کی صلاحیت اور ذوق ہے، اس کی ابتدا بھی حضرت قاری صاحبؒ نے کی تھی۔

ایک اور واقعہ حضرت قاری صاحبؒ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ۱۹۷۷ء میں تحریک نظام مصطفیٰ چلی جو بہت بڑی تحریک تھی۔ جلسوں اور جلوسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک سرکاری فورس ہوتی تھی ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس) کہلاتی تھی۔ گکھڑ میں حکومت کے خلاف تحریک کا ایک جلوس تھا، حضرت والد صاحبؒ نے قیادت کرنی تھی۔ گورنمنٹ نے پابندی لگا دی کہ جلوس نہیں نکالیں گے لیکن جمعہ کے بعد والد صاحبؒ کی قیادت میں لوگ جلوس کے لیے جمع ہوگئے کہ جلوس نکالیں گے۔ جلوس جب آگے بڑھا تو فورس کے کمانڈر نے ایک لکیر کھینچ دی اور چاروں طرف سپاہی کھڑے کردیے اور کہا کہ جو اس لکیر کوعبور کرے گا اسے گولی ماردیں گے۔ اس زمانے میں ایسے ہوتا تھا۔ اب بغیر وارننگ کے مارتے ہیں، اس وقت وارننگ دے کر مارتے تھے ۔اس کا یہ اعلان سن کر سناٹا چھا گیا کہ یہ کیا ہوا، چاروں طرف سپاہی گنیں نشانہ پر لیے ہوئے کھڑے تھے کہ کون لکیر عبور کرتاہے اور پھر کیا ہوتا ہے۔ ادھر فورس کھڑی ہے، اِدھر یہ ہیں ۔حضرت والدصاحبؒ، حضرت قاری محمد انور صاحبؒ اور ایک گکھڑ کے حاجی سید ڈار مرحوم تھے، یہ تین آدمی جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ آگے بڑھے اور کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے لکیر عبور کر گئے۔ اس موقع پر والد صاحبؒ نے ایک جملہ کہا کہ مسنون عمر پوری کر چکا ہوں، اگر اب شہادت مل جائے تو بڑی سعادت کی بات ہے۔ کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے لکیر عبور کرگئے،سب سناٹے میں آگئے لیکن کسی کو کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔یہ بھی قاری صاحبؒ کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے کہ انہوں نے اس طرح اپنی جان کی پروا کیے بغیر ساتھ نبھایا۔

حضرت قاری صاحبؒ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو میں ان کی خدمت میں وہاں جایا کرتا تھا۔ بہت واقعات ہیں، دو تین عرض کرتا ہوں۔ پہلی دفعہ ۱۹۸۴ء میں جب میں مدینہ منورہ گیا تو آپؒ وہاں پڑھاتے تھے۔ میں نے اطلاع بھیجی کہ فلاں وقت آرہا ہوں۔ میرا زندگی میں مدینہ منورہ جانے کا پہلا موقع تھا، راستے کا پتہ نہیں تھا اس لیے جو وقت بتایا تھا اس سے دو تین گھنٹے لیٹ پہنچا۔ قاری صاحبؒ میرے بتائے ہوئے وقت پر آئے اور اڈے پر ڈیڑھ دو گھنٹے تلاش کرتے رہے، میں نہ ملا توپریشان واپس چلے گئے۔ میں مدینہ منورہ دیرسے پہنچا ،وہاں عصر سے مغرب تک کلاس ہوتی ہے۔ وہ لوگ عصر اول وقت میں پڑھتے ہیں جیسے ہمارے ہاں اہل حدیث حضرات پڑھتے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان خاصا وقت ہوتا ہے، میں نے عصر کی نماز پڑھی اور تلاش کرتے کرتے قاری صاحبؒ کی کلاس تک پہنچ گیا ۔مجھے جونہی دور سے دیکھا تو بے ساختہ فرمایااوئے مولوی !کان پکڑ لے۔میں نے بیگ نیچے رکھا اور مرغا بن گیا ۔آپؒ اٹھ کر آئے اور کہا ارے میں نے یہ تو نہیں کہا تھا۔ میں نے عرض کیا یہ نہیں کہا تھا تو اور کیا کہا تھا؟ فرمایا اللہ کے بندے! میں دو گھنٹے پریشان رہا تمہیں ڈھونڈتا رہا تم نہیں ملے تو میں واپس آگیا۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے راستے کاعلم نہیں تھا اس لیے دیر ہوگئی۔ سچی بات ہے حضرت قاری صاحبؒ کو وہاں پڑھاتے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی تھی کہ میرے استاذِ محترم ہیں اور مدینہ منورہ میں بیٹھے پڑھا رہے ہیں۔فجر کی نماز کے بعد مسجد نبویؐ کے برآمدے میں بیٹھ کر طلبہ کی منزلیں سنا کرتے تھے اور میں قریب کسی ستون کی اوٹ میں کھڑا دیکھتا اور خوش ہوتا رہتا کہ کیا خوش نصیبی ہے کہ مسجد نبویؐ کے برآمدے میں بیٹھے شاگردوں کی منزلیں سن رہے ہیں۔ بڑی خوشی ہوتی تھی اور بڑا رشک آتا تھا۔ میں اپنا اعزاز سمجھتا کہ میرے استاذِ محترم ہیں اور یہاں بیٹھے پڑھا رہے ہیں۔

میرا ایک یا دو سال میں وہاں چکر لگ ہی جاتا ہے۔ میں ان کے پاس جاتا کچھ دیر ان کے پاس ٹھہرتا ،کوئی ساتھی ملتا تو میں اسے تعارف کرواتا کہ یہ میرے استاد محترم ہیں۔ ایک دن کہنے لگے اس طرح نہ کہا کرو ۔میں نے کہا کیوں؟ فرمایا مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے بے تکلفی میں کہا مجھے شرم نہیں آتی تو آپ کو کیوں آتی ہے۔ میں تو ایسے ہی کہوں گا، کیا آپ مجھے ڈنڈے نہیں مارتے رہے؟ ان کی ڈاڑھی دیر سے سفید ہوئی،ایک دور وہ بھی گزرا کہ میری ڈاڑھی آدھی سفید تھی اور ان کی کالی تھی۔میں یہ کہتا کہ یہ میرے استاذ ہیں تو لوگ حیران ہوتے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ میرا جب بھی مدینہ منورہ جانا ہوتا تو ان کا اصرار ہوتا تھا کہ میرے پاس ٹھہرو۔ ہمارا ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا گہرا تعلق تھا، اور ان کا بھی صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہمارے پورے خاندان کے ساتھ شفقت کا تعلق تھا۔ ہمارے خاندان کا کوئی آدمی عمرے یاحج پر جاتا تو قاری صاحبؒ کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ بہت خوش ہوتے کہ مولوی صاحبؒ (حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ) کے بچے آئے ہیں، بیٹے آئے ہیں، بھانجے آئے ہیں اور بڑی خدمت اور بڑا اعزاز فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میں گیا لیکن انہیں بتایا نہیں اور قاری ریاض انصاری صاحب کے بیٹے حافظ محمد یحییٰ ابوبکر فاضل نصرۃ العلوم کے پاس ٹھہر گیا۔مغرب اور عشاءکے درمیان مسجد نبویؐ میں حضرت قاری صاحبؒ کی چھتری متعین ہوتی تھی۔ پہلی صف کی دوسری چھتری کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ قاری صاحبؒ سے جاکر ملا۔ انہوں نے پوچھا کب آئے ہو؟ میں نے بتایا کل آیا تھا۔ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا ابوبکر کے پاس۔ فرمایاسامان اٹھاکرگھر آجاؤ۔ابوبکر سے کہا چلو جاؤ، مولوی کاسامان اٹھا کر ابھی یہاں لے آؤ۔اس شفقت اور عنایت کا برتاؤ فرماتے تھے۔

ہمارے ہاں الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں ایک دفعہ تشریف لائے، آخر عمر میں بیمار ہوگئے تھے۔میں نے پروگرام بنایا کہ ان کے اس علاقے میں بہت سے شاگرد ہیں تو قاری صاحبؒ کے جو شاگرد میرے علم میں تھے ان کو یہاں اکٹھا کیا۔ ایک نشست کا اہتمام کیا اور قاری صاحبؒ کو دعوت دی۔ قاری صاحبؒ تشریف لائے اور بہت زیادہ خوش ہوئے کہ یہ تو تم نے بڑا کام کردیا ،میں کس کس کے پاس جاتا اور کس کس سے ملتا،تم نے اکثر شاگردوں سے اکٹھے ملاقات کروا دی۔

پچھلے سال سعودی حکومت کی دعوت پر میراحج پر جانا ہوا، وہ پروٹوکول کاحج تھا۔ مدینہ منورہ میں ہم تین چار دن ٹھہرے تھے۔ شام کو میں حسبِ معمول ملنے کے لیے گیا تو قاری صاحبؒ مسجد میں نہیں آرہے تھے،معذور تھے۔ ان کے گھر گیا اور ملاقات کی،تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس آگیا۔ دوسرے دن ان کے فرزند برادرم محمداشفاق کا فون آگیا کہ ابوجی آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتے ہیں، کہتے ہیں کہ مولوی کو ملنے ہوٹل جانا ہے۔ میں نے کہا وہ کیوں آئیں،میں خود حاضر خدمت ہوں گا۔ شام کو پھر میں آپؒ کے گھر گیا اور ملاقات کی۔ قاری صاحبؒ بڑی محبت بڑی عزت کرتے تھے بڑی شفقت سے نوازتے تھے۔

حضرت قاری محمد انور صاحبؒ کافی عرصہ سے سعودی عرب میں رہ رہے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک الجھن پیدا ہوگئی کہ سعودیہ نے کچھ ایسے قوانین نافذ کیے کہ لگتا تھا کہ شاید انہیں واپس آنا پڑے گا کہ وہاں کی شہریت نہیں تھی۔ سعودیہ والے شہریت نہیں دیتے۔ میں ان کے پاس گیا تو کہنے لگے کہ سعودیہ والے اب شاید نکال دیں گے، میں تو یہاں دفن ہونے کی نیت سے آیا ہوں۔ دعا کرو میرے لیے۔ میں نے کہا اللہ پاک مہربانی فرمائیں گے، نیتوں کو اور نیتوں کے خلوص کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔اس سال میں وہاں نہیں جاسکا ۔استاذِ محترمؒ حج کے موقع پر ساتھیوں سے پوچھتے رہے کہ مولوی نہیں آیا،کیوں نہیں آیا؟ مجھے بھی حسرت رہی کہ پچھلے سال ہی ملاقات ہوئی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ کوئی موقع مل جائے اور ملاقات کا کوئی وسیلہ بن جائے۔ سچی بات ہے کہ میں تو ان کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ میرا دعاؤں کا خزانہ مسجد نبویؐ میں بیٹھا ہوا ہے۔جب کبھی روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے تو میری طرف سے سلام کہتے اور بے شمار دعائیں دیتے تھے۔

پچھلے دنوں ہمارے لیے دو تین صدمے اکٹھے ہی آگئے۔حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ کا انتقال ہوا، ابھی ان کاجنازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مدینہ منورہ سے فون آگیا کہ حضرت قاری صاحبؒ فوت ہوگئے ہی۔ ابھی اسی صدمے میں تھے کہ تیسری خبر آگئی کہ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔یہ دو دن میں تین ایسی خبریں سن کرمیری عجیب کیفیت تھی کہ یا اللہ کیا کریں۔بہت صدمہ تھا اپنے بزرگوں کی جدائی کا۔ سچی بات ہے کہ باپ ہی کی طرح تھے،باپ ہی کی جگہ تھے۔ بہرحال اللہ پاک ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں ان کے صدقہ جاریہ کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter