دو انتہاؤں پر کھڑے مذہبی طبقات

   
تاریخ اشاعت: 
۶ ستمبر ۲۰۰۸ء

مجھے امریکہ میں آئے تقریباً ایک ماہ ہوگیا ہے، اس دوران نیویارک، واشنگٹن ڈی سی، بالٹی مور، ڈیٹرائیٹ، ہیوسٹن، ڈیلاس اور شارلٹ وغیرہ میں بہت سے احباب سے ملاقاتوں اور تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ میری یہاں ہر سفر میں کوشش ہوتی ہے کہ دینی حلقوں، بالخصوص پاکستانیوں کی مذہبی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کروں اور انہیں بہتر بنانے کے لیے جو صورت سمجھ میں آئے اس کا دوستوں کے سامنے اظہار بھی کروں۔ میرا زیادہ تر تعلق پاکستانی حلقوں سے رہتا ہے اور دینی درسگاہیں اور مساجد میری جولانگاہ ہوتی ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اردو دان دوست بھی ملاقاتوں اور مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔ اس سفر میں بھی حسب سابق کم و بیش وہی مسائل دوستوں کے ساتھ گفتگو کا موضوع بنے جو امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو درپیش ہیں اور ان میں سے تین باتوں کا بطور خاص تذکرہ رہا۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال سب دوستوں کے لیے باعث تشویش و اضطراب ہے اور ہر جگہ مجھے ایک ہی سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ جنرل (ر) پرویز مشرف کے جانے پر ہر جگہ خوشی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن متبادل لیڈرشپ کے منظر نے پاکستانیوں کی اس خوشی کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہنے دیا۔ عام پاکستانی خاص طور پر مذہبی حلقے جناب آصف علی زرداری کے صدر کے طور پر سامنے آنے پر تحفظات رکھتے ہیں۔ ہیوسٹن کی ایک مجلس میں جس میں پشاور، مردان، فیصل آباد، کراچی اور بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے دوست چائے پر جمع تھے سبھی حضرات نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ایجنڈا تبدیل نہیں ہوا صرف ٹیم بدلی ہے اور نئے چہرے لوگوں کے سامنے لائے جا رہے ہیں تاکہ اس ایجنڈے تازہ دم ٹیم کے ذریعے زیادہ مؤثر طور پر آگے بڑھایا جا سکے جو جنرل پرویز مشرف کی زیرقیادت مسلسل آگے بڑھ رہا تھا۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو اور پاکستان کے عوام نے گزشتہ انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے جن پالیسیوں کو مسترد کیا ہے، نئی منتخب حکومت عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ان پالیسیوں میں کوئی مثبت تبدیلی لا سکے، لیکن عام لوگوں کو اس کی توقع نہیں اور وہ مسلسل مایوسی اور اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں۔

قبائلی علاقوں کا آپریشن اور ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے خودکش حملے یکساں طور پر پاکستانیوں کے لیے باعث تکلیف ہیں۔ایک صاحب دکھی دل کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ دونوں طرف مسلمان مر رہے ہیں اور دونوں طرف پاکستانی مر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کو اس دلدل سے نکلنے کا راستہ کیوں دکھائی نہیں دے رہا اور وہ اس سے نکلنے کی بجائے اس میں مزید کیوں دھنستی چلی جا رہی ہے؟ ایک دوست نے اپنی تکلیف اور دکھ کا اظہار یوں کیا کہ کیا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بالخصوص پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں اپنے اختلافات اور اقتدار کی ترجیحات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے ایک جگہ مل کر نہیں بیٹھ سکتیں؟ اور وہ سیاسی لیڈر جو بات بات پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے لیے معروف ہیں اس مسئلہ پر وہ کسی آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کر رہے ؟

ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا مستقبل کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نفاذ شریعت کے لیے جب تک جمہوری عمل اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے محنت ہوتی رہی ہم نے مسلسل پیش رفت کی۔ قرارداد مقاصد جمہوری عمل کا ثمرہ ہے، ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہیں، قادیانی مسئلہ کا مستقل حل پارلیمنٹ کا کارنامہ ہے، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں شراب پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی وغیرہ کے جو اعلانات کیے تھے وہ بھی ایک جمہوری تحریک کے پس منظر میں تھے۔ پھر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے نفاذ شریعت کے لیے جو چند اقدامات کیے ان کی پشت پر بھی پاکستان قومی اتحاد کی ملک گیر تحریک تھی۔ اس لیے میرا موقف تو واضح ہے کہ جب تک نفاذ شریعت کے لیے سیاسی عمل کے ذریعے جدوجہد کرتے رہے ہیں، بتدریج اور سست رفتار سہی، مگر کامیابیاں حاصل ہوتی رہیں۔لیکن جب سے کچھ حلقوں نے تشدد اور قوت کے بے جا استعمال کو تحریک نفاذ شریعت میں شامل کیا ہے ہم دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ کسی مزید پیش رفت کی بجائے اب تک کیے جانے والے دستوری اور قانونی اقدامات کا تحفظ بھی ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔

میں آج بھی پورے شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ نفاذ شریعت کی توقع پر موجودہ حکومتی نظام اور اقتدار کا حصہ بن جانا کوئی درست طرز عمل نہیں ہے اور اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کے لیے تشدد، لاقانونیت اور ہتھیار اٹھانے کا عمل بھی قطعی طور پر غلط ہے۔ ان دونوں طریقوں سے پاکستان کے ماحول میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی امید رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نفاذ شریعت کی جدوجہد کے اصل ہتھیار ووٹ، رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور ہیں۔ میں صرف ووٹ کو کافی ذریعہ نہیں سمجھتا، اس کے ساتھ اسٹریٹ پاور بھی ضروری ہے جو ہماری اصل قوت ہے اور ہم نے اپنی حماقتوں سے کھو دی ہے۔ ایک حلقے نے کلاشنکوف ہاتھ میں لے لی ہے اور دوسرا حلقہ اقتدار میں ہر حال میں شریک رہنے کو ہی مسائل کا حل سمجھنے لگا ہے۔ جبکہ نفاذ شریعت کی جدوجہد کے نظریاتی کارکن ان دو انتہا پسندانہ پالیسیوں کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گئے ہیں اور مایوسی کی دھند میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ نفاذ شریعت کی جدوجہد کو صحیح ٹریک پر ڈالنے کے لیے میرے نزدیک ضروری ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے ہتھیار اٹھانے کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور اس مقصد کے لیے اقتدار کا حصہ بن جانے کو واحد راستہ سمجھنے کا طریقہ بھی ترک کیا جائے۔ دینی جماعتیں اپنے تحریکی کردار کی طرف واپس آئیں کیونکہ سیاسی عمل، ووٹ اور پر امن عوامی تحریک ہی نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صحیح ٹریک ہے لیکن اس کے لیے ’’فائیو اسٹار سیاست‘‘ کی بجائے مسجد اور حجرے کی سیاست کی طرف واپس آنا ہوگا اور چٹائی پر بیٹھ کر قوم کی دینی قیادت کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔

ایک مجلس میں مہنگائی پر گفتگو چل پڑی، ایک صاحب جو حال ہی میں پاکستان میں ایک ماہ گزار کر واپس آئے ہیں کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے کہ اتنی مہنگائی میں پاکستان کے عام آدمی پر کیا گزرتی ہوگی؟ میں نے عرض کیا کہ مہنگائی بین الاقوامی مسئلہ ہے اس سے جان تو نہیں چھڑائی جا سکتی۔ اشیائے صرف کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ نتھی ہیں اور ہم اکیلے اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کی قوت خرید دم توڑتی جا رہی ہے اور غریب عوام کے لیے جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل تر ہوگیا ہے۔ میرے نزدیک اس مسئلہ کا حل ملک کی لگژری اور اَپر کلاس کے پاس ہے۔ وہ اگر قربانی دے تو غریب آدمی کو زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ موجودہ معاشی اور تجارتی ماحول میں عام آدمی کو اشیائے ضرورت کی خریداری کے لیے وسیع پیمانے پر سبسڈی دینے کی ضرورت ہے اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ سبسڈی اس قدر وسیع پیمانے پر اس کے بغیر نہیں دی جا سکتی کہ لگژری کلاس اور اَپر کلاس اپنے معیار زندگی میں تبدیلی لائے اور اپنے ہی ملک کے غریب عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے تعیش اور لگژری کی قربانی دے۔ اس رضاکارانہ قربانی کا بھی ایک وقت ہے کیونکہ اگر غربت اور بھوک سے بے بس ہوجانے والے لوگوں نے اپنی ضروریات از خود چھیننا شروع کر دیں تو پھر منظر یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ اس مرحلہ پر مجھے حبیب جالب مرحوم یاد آگئے اور میں نے دوستوں سے عرض کیا کہ میرا موقف وہی ہے جو حبیب جالب مرحوم نے ان الفاظ میں پیش کیا تھا:

جو پہنو ہم کو پہناؤ پھر اسلام کی بات کرو
گھر گھر جیون دیپ جلاؤ پھر اسلام کی بات کرو
کوٹھی بیس کنالوں کی اور نیچے ایک پجارو بھی
ہم کو سائیکل ہی دلواؤ پھر اسلام کی بات کرو
دیکھو کچھ تو رہ بھی گیا ہے اپنے دیس خزانے میں
کھاؤ لیکن تھوڑا کھاؤ پھر اسلام کی بات کرو
اللہ ہو کا ورد بجا ہے نبی کے گن بھی ٹھیک مگر
کچھ تو ان کا رنگ دکھاؤ پھر اسلام کی بات کرو
توڑو یہ کشکول گدائی اترو قرض کی سولی سے
امریکہ سے جان چھڑاؤ پھر اسلام کی بات کرو

ظاہر ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی تو نہیں لائی جا سکتی، البتہ عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ کر کے اس مسئلہ کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے ۱۹۷۰ء کے انتخابی منشور میں مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی زیر قیادت اس مسئلہ کا یہ حل پیش کیا تھا کہ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں ہوشربا تفاوت کو کم کر کے فوری طور پر ایک اور دس کے تناسب پر لایا جائے، پھر اسے بتدریج مزید کم کرتے ہوئے ایک اور پانچ کے تناسب پر فکس کر دیا جائے۔ یہ ایک اچھی تجویز تھی مگر اب تو خود جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت ۲۲ ویں گریڈ سے نیچے اترنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صورت میں اس کی جانب سے پیش کی گئی ۳۸ سال قبل کی اس تجویز کو دوبارہ سامنے لانے کی ہمت کون کرے گا؟

ایک مجلس میں سوال ہوا کہ ہم امریکہ میں رہنے والے پاکستانی کیا کریں؟ میں نے عرض کیا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہاں کے دستور و قانون کی پابندی کریں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو پاکستان کی بدنامی اور یہاں کی پاکستانی کمیونٹی کے لیے پریشانی کا باعث ہو۔ پھر دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اسلام کے لیے، پاکستان کے لیے، پاکستانی عوام کے لیے اور امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہوں اس سے گریز نہ کریں۔

ابھی میں مزید دو ہفتے امریکہ میں ہوں، دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی جاری ہیں اس لیے باقی تاثرات پھر سہی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter