’’مشرقِ وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک ۔۔۔ تلاشِ امن‘‘

   
تاریخ اشاعت: 
۱۶ فروری ۲۰۰۹ء

گزشتہ ماہ کے آخری روز وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی دستور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک جانے کا پروگرام بنا رہا تھا کہ وفاق کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے فون پر کہا کہ آپ کو اسی روز ۱۱ بجے اسلام آباد میں ایک اہم سیمینار میں شریک ہونا ہے اور سیمینار کی نوعیت کے حوالے سے آپ کی شرکت بے حد ضروری ہے۔ وفاق المدارس کی دستور کمیٹی کا ظہر کے بعد اجلاس طے تھا جس میں مولانا انوار الحق حقانی (اکوڑہ)، مولانا مفتی کفایت اللہ ایم پی اے (مانسہرہ) اور مولانا عطاء اللہ شہاب (گلگت) شامل ہیں۔ مجھے اس کمیٹی کی مسئولیت سونپی گئی ہے چنانچہ ہم نے فون پر باہمی مشورہ کر کے اجلاس کو مغرب کے بعد تک کے لیے مؤخر کیا اور میں ۱۱ بجے اسلام آباد پہنچ گیا۔

اسلام آباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ سیمینار اسلام آباد ہوٹل میں ’’مشرقِ وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک ۔۔۔ تلاشِ امن‘‘ کے عنوان سے منعقد ہو رہا ہے جس کا اہتمام جوہر ٹاؤن لاہور کے انٹرنیشنل اسلامک سنٹر نے انٹرنیشنل اسلامک میڈیا فورم کے تعاون سے کیا ہے۔ ’’انٹرنیشنل اسلامک سنٹر لاہور‘‘ ملتان کے جامعہ خیر المدارس کی شاخ ہے، اس کے سربراہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ہیں۔ جبکہ ’’انٹرنیشنل اسلامک میڈیا فورم‘‘ میڈیا سے تعلق یا دلچسپی رکھنے والے چند نظریاتی دینی کارکنوں کا ایک نو تشکیل یافتہ فورم ہے جس کا قیام چند ماہ قبل لاہور میں عمل میں لایا گیا، اس کے اساسی اجلاس میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا ہے، اس کے اصل محرک جمعیۃ علماء اسلام کے ایک سرگرم رہنما مولانا قاری عبید اللہ قریشی ہیں جن کا تعلق مانسہرہ سے ہے، وہ ایک عرصہ سے متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں تدریس القرآن کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ فورم کی سربراہی مولانا مفتی عبد الرحمان کر رہے ہیں جو راولپنڈی کے سرگرم علماء میں شمار ہوتے ہیں، جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے حوالے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کرام نے جو رابطہ کمیٹی قائم کر رکھی ہے، اس کے ترجمان ہیں۔

سیمینار میں شرکت کے لیے پاکستان شریعت کونسل کے رہنما جناب صلاح الدین فاروقی آف ٹیکسلا کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا تو مولانا قاری محمد حنیف جالندھری گیٹ پر آنے والے مہمانوں کا خیرمقدم کر رہے تھے، ان سے مل کر آگے بڑھا تو پہلی ملاقات انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمان سے ہوئی، اسٹیج کی طرف نظر اٹھی تو جناب خورشید احمد ندیم دکھائی دیے اور کچھ کچھ اندازہ ہوگیا کہ سیمینار کی نوعیت اور سطح کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سینیٹر سید مشاہد حسین اور جناب احسن اقبال تشریف لے آئے۔ صوبہ سرحد کے سابق وزیر قاری روح اللہ مدنی، پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر قبلہ ایاز، دعوہ اکیڈمی اسلام آباد کے جناب پروفیسر عبد الجبار شاکر، جمعیۃ علماء اسلام کے رہنما سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو اور لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبد الغفار بھی تھوڑے تھوڑے سے وقفے کے ساتھ تشریف لا کر اپنی اپنی سیٹوں پر رونق افروز ہوگئے۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور جناب ڈاکٹر بابر اعوان سب سے آخرمیں تشریف لائے، اس کے ساتھ یہ سیمینار کم و بیش اکثر اہم سیاسی و دینی حلقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے مشترکہ فورم کی حیثیت اختیار کر گیا۔

سیمینار کے عنوان سے ظاہر تھا کہ اس میں زیادہ تر گفتگو غزہ کے المیہ اور ممبئی بم دھماکوں کے حوالے سے ہوگی۔ چنانچہ سیمینار کے داعی اور میزبان مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اپنی ابتدائی اور تعارفی گفتگو میں یہ بات واضح کر دی کہ اس بحث و مباحثہ کا دائرہ غزہ سے ممبئی تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں شرکت کے لیے مختلف مکاتب فکر اور علمی حلقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو اس لیے زحمت دی گئی ہے کہ ایک دوسرے کے خیالات کو سنا جائے، ان پر غور کیا جائے اور مختلف نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھ کر امت مسلمہ کی فکری رہنمائی کے مشترکہ نکات تلاش کیے جائیں۔

  • مقررین نے غزہ کی صورتحالِ کا تفصیل سے ذکر کیا، اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی، مسلم ممالک کی حکومتوں خاص طور پر عرب حکمرانوں کی سردمہری کا ماتم ہوا، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی اسرائیل نوازی اور عالمی معاملات میں ان کے دہرے معیار کا شکوہ کیا گیا۔
  • ممبئی بم دھماکوں کے مضمرات اور اثرات کا جائزہ لیا گیا اور بھارت کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں پر ردعمل کا اظہار ہوا۔
  • سوات، مالاکنڈ اور وزیرستان کی صورتحال کا تذکرہ ہوا اور وہاں فوجی آپریشن کے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
  • عالمِ اسلام کی موجودہ معروضی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل پر بھی گفتگو ہوئی اور متنوع سوچوں کے حامل دانشوروں نے کھل کر اپنے موقف کی وضاحت کی۔

الغرض بد اَمنی اور تلاشِ امن سے متعلقہ تمام پہلوؤں پر گفتگو ہوئی، سب سے بڑھ یہ کہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو تحمل کے ساتھ سنا گیا اور ایک مشترکہ سوچ کی طرف آگے بڑھنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ جناب خورشید احمد ندیم نے اپنا یہ موقف دردِ دل اور منطق و استدلال کے ساتھ پیش کیا کہ موجودہ عالمی حالات میں بالادست قوتوں کے ساتھ مزاحمت حکمت و دانش کے خلاف ہے کیونکہ ان کے خیال میں کسی جگہ بھی مزاحمت کامیاب نہیں ہو رہی، عراق و افغانستان سمیت ہر جگہ مزاحمت کرنے والوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس لیے سرِدست مزاحمت کا راستہ ترک کر کے صلحِ حدیبیہ جیسی صورت اختیار کی جائے اور ایک ایسا وقفۂ امن حاصل کیا جائے جس میں مسلم امہ مقابلے کی پوری تیاری کر سکے، نیز طاقت کا وہ توازن حاصل کیا جائے جس کے ساتھ ان قوتوں کا مقابلہ کرنا ممکن ہو جائے۔

خورشید احمد ندیم صاحب کے اس موقف کا جائزہ لیتے ہوئے راقم الحروف نے یہ سوال اٹھایا کہ مزاحمتی گروہوں کو مزاحمت ترک کرنے کا مشورہ دینے سے پہلے اس امر کا جائزہ لے لیا جائے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس لیے کہ جنوبی ایشیا میں ہمارے اردگرد کا منظر یہ ہے کہ کشمیری عوام گزشتہ ساٹھ برس سے مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں اس لیے ان کا مسئلہ عالمی سطح پر زندہ ہے اور اس پر ہر فورم پر بات ہو رہی ہے۔ جبکہ اسی خطے میں میانمار (برما) کے صوبے اراکان کی مسلم اکثریت کو بھی کشمیریوں جیسی صورتحال کا سامنا ہے، ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے، ہزاروں خاندان جلاوطن ہو کر بنگلہ دیش کے کیمپوں اور دنیا کے مختلف ممالک میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اراکان کی مسلم اکثریت کو اپنے مذہبی شعائر پر عمل کرنے کی آزادی نہیں، ان کی جان و مال اور آبرو کو تحفظ حاصل نہیں اور وہ مسلسل ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ لیکن ان کا مسئلہ دنیا کے کسی فورم پر موجود نہیں، کوئی ادارہ ان کے حق میں آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے، کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کشمیری عوام ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں جبکہ میانمار اور برما کے مسلمان مزاحمت نہ کر سکنے کی وجہ سے دنیا کی رسمی حمایت سے بھی محروم ہیں؟

میری اس گزارش کے جواب میں سینیٹر سید مشاہد حسین نے فرمایا کہ کشیر کا مسئلہ اس لیے زندہ ہے کہ ان کے حق میں پاکستان آواز اٹھا رہا ہے۔ مجھے ان کے بعد گفتگو کا موقع نہ مل سکا ورنہ میں یہ عرض کرتا کہ پاکستان بھی کشمیری عوام کے حق میں اس لیے آواز اٹھا رہا ہے کہ کشمیریوں کا جذبۂ حریت زندہ ہے اور وہ اس کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، ورنہ اگر وہ بھی سپراندازی اختیار کر لیتے تو ان کا انجام حیدر آباد اور جوناگڑھ سے مختلف نہ ہوتا۔ سید مشاہد حسین نے جناب خورشید احمد ندیم کی گفتگو کے اس پہلو کا جائزہ لیا کہ افغانستان اور عراق سمیت ہر جگہ مزاحمتی گروپوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کامیابی حاصل نہیں ہو رہی بلکہ روز بروز حالات زیادہ خراب ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ مزاحمتی گروپوں کو پسپائی پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں ایک سوال اور اٹھایا کہ ہم ’’تلاشِ امن‘‘ میں یہاں بیٹھے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ امن کا مفہوم کیا ہے؟ کیونکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں ریاستی جبر اور بیرونی جارحیت کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے صرف وہیں امن کی ضرورت کی بات کی جا رہی ہے۔ اور جہاں لوگ ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہے وہاں امن کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا۔ اس طرح آج کی بالادست قوتوں کے نزدیک امن کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کےخلاف مزاحمت بداَمنی ہے، اور ان کے جبر و ظلم کو خاموشی کے ساتھ قبول کر لینے کا نام امن ہے۔ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا ہم بھی اسی امن کی تلاش میں ہیں اور امن کے اسی مفہوم کو سپورٹ کر رہے ہیں؟

بہرحال یہ سیمینار مختلف حوالوں سے بہت خوب رہا، اس کے اہتمام پر سب شرکاء نے قاری محمد حنیف جالندھری اور ان کے رفقاء کو مبارکباد پیش کی اور امید ظاہر کی کہ اس سے باہمی مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter