ورلڈ اسلامک فورم کا قیام

   
تاریخ : 
جنوری ۱۹۹۳ء

پاکستان سے میری طویل غیر حاضری اور لندن میں قیام کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد کی طرف بحمد اللہ تعالیٰ پیش رفت ہوئی ہے اور چند اصحاب فکر نے راقم الحروف کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے ایک نیا فکری حلقہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’الشریعہ‘‘ کے قارئین گواہ ہیں کہ راقم الحروف نے علمائے کرام اور دینی تحریکات کے قائدین کی خدمت میں ہمیشہ یہ عرض کیا ہے کہ اسلام کے غلبہ و نفاذ کی جدوجہد میں مؤثر پیش قدمی کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے حوالہ سے مغربی فلسفہ کا مکمل ادراک حاصل کیا جائے، مغرب کے چیلنج کی نوعیت اور سنگینی کو پوری طرح سمجھا جائے اور مغربی میڈیا کے مزاج اور طریق واردات سے کماحقہ واقفیت حاصل کی جائے۔ کیونکہ مغربی فلسفہ پوری قوت اور وسائل کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہے اور دشمن کی تکنیک اور ہتھیاروں سے واقفیت حاصل کیے بغیر محض جذبات کے سہارے خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑنے کا نتیجہ ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ دینی تحریکات کے قائدین، دانشوروں اور کارکنوں میں احساس کو اجاگر کرنے کے لیے فکری کام کو منظم کیا جائے اور اس کام کے لیے سب سے زیادہ موزوں مقام لندن ہے، اس لیے بھی کہ لندن مغربی تہذیب اور میڈیا کا ہیڈکوارٹر ہے اور اس لیے بھی کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک اور اقوام کے ساتھ رابطہ کے لیے یہ سب سے بہتر مرکز ہے۔

راقم الحروف نے گزشتہ پانچ ماہ کے قیامِ برطانیہ کے دوران بیسیوں اجتماعات اور علماء و دانشوروں کے ساتھ سینکڑوں ملاقاتوں میں اس احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور بحمد اللہ کچھ سنجیدہ اصحابِ فکر و دانش کو تلاش کر لیا جو اپنے اپنے مقام پر اسی اضطراب اور بے چینی کا شکار تھے لیکن انہیں کسی اجتماعی عمل کی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں پہلا اجلاس ۲۲ نومبر ۱۹۹۲ء کو لیٹن سٹون لندن میں جناب غلام قادر کی رہائش گاہ پر بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد الباقی مدظلہ العالی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں بنیادی طور پر فیصلہ کیا گیا کہ اس مقصد کے لیے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے ایک فکری حلقہ قائم کیا جائے۔ دوسرا اجلاس ۵ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ختم نبوت سنٹر لندن میں ہوا، اس کی صدارت بھی حضرت مولانا مفتی عبد الباقی مدظلہ العالی نے کی اور اجلاس میں تیس کے قریب سرکردہ علمائے کرام اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں جو اہم فیصلے کیے گئے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

  • راقم الحروف کو ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین کی حیثیت سے ذمہ داری سونپی گئی جبکہ مولانا محمد عیسیٰ منصوری کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ مولانا منصوری کا تعلق گجرات (انڈیا) سے ہے لیکن ایک مدت سے لندن میں مقیم ہیں۔ کچھ عرصہ لندن کے تبلیغی مرکز امام رہے ہیں، صاحبِ مطالعہ، صاحبِ قلم اور صاحبِ دانش عالم دین ہیں، باصلاحیت اور سرگرم راہنما ہیں۔ ہمارے ساتھ جناب غلام قادر، جناب عبد الرحمان باوا، جناب انور شریف، حاجی ولی آدم پٹیل، مولانا کلام احمد، ایم افتخار احمد اور محمد الطاف رانا پر مشتمل ورکنگ کونسل تشکیل دی گئی۔
  • حضرت مولانا مفتی عبد الباقی مدظلہ العالی نے فورم کی سرپرستی قبول فرمائی۔ مفتی صاحب صوبہ سرحد کے بزرگ علماء میں سے ہیں، حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے رفقاء میں سے ہیں، طویل عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں اور لندن میں انہیں مفتیٔ شہر کی حیثیت حاصل ہے۔
  • علماء اور دانشوروں کو مغربی میڈیا کے مزاج اور طریق واردات سے روشناس کرانے کے لیے لندن میں اکیڈمی طرز کا تربیتی ادارہ قائم کیا جائے گا اور کچھ انگلش جاننے والے علماء کو بطور خاص اس کام کے لیے ٹریننگ دی جائے گی۔
  • لندن میں ماہانہ فکری نشست کا اہتمام کیا جائے گا جس میں مختلف مکاتب فکر کے اصحابِ علم و دانش کو اہم موضوعات پر اظہار خیال کی دعوت دی جائے گی۔
  • یورپ میں مقیم مسلمانوں کے تعلیمی و معاشرتی مسائل کا دینی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے اگلے سال ۱۹۹۳ء میں جولائی کے دوران لندن میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جائے گا۔
  • عالم اسلام کی دینی تحریکات کے درمیان باہمی روابط اور اشتراک و مشاورت کی فضا قائم کرنے کے لیے منظم کوشش کی جائے گی۔
  • مشرقی یورپ کے کمیونزم سے آزاد ہونے والے ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لیے بطور خاص ان کی علاقائی زبانوں میں دینی لٹریچر کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔
  • نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو دینی معلومات مہیا کرنے کے لیے خط و کتابت اور آڈیو کورسز کا اجرا کیا جائے گا۔
  • اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ علمی و فکری مسائل میں اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلمات کی پابندی کی جائے گی اور ائمہ اربعہؒ کے قائم کردہ اصولِ اجتہاد سے کسی صورت میں خروج نہیں کیا جائے گا۔
  • تمام دینی جماعتوں اور حلقوں کے ساتھ یکساں روابط کی پالیسی اختیار کی جائے گی اور ان کے باہمی تنازعات میں فریق بننے سے گریز کیا جائے گا۔
  • مسلم حکومتوں کی معروف لابیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ وابستگی سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔
  • مختلف موضوعات پر مختلف زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت کے علاوہ اردو اور انگلش میں ایک ماہنامہ جریدہ فورم کے ترجمان کی حیثیت سے شائع کیا جائے گا۔

یہ سب امور ابھی عزائم ہیں، انہیں عمل کے دائرہ میں داخل ہونے کے لیے خدا جانے ابھی کتنے مراحل سے گزرنا ہے اور ہمارے پاس ان مسائل کی سنگینی کا احساس اور ان کے لیے کچھ کر گزرنے کی تڑپ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے نا امیدی نہیں ہے، اس ذاتِ عالی نے اگر کچھ دلوں کو ایک عرصہ تک احساس اور اضطراب کی تپش سے گرمائے رکھا ہے اور پھر چند سلگتے دلوں کو یکجا کر دیا ہے تو اس کے دربار سے کچھ کر گزرنے کی توفیق بھی ضرور ملے گی۔ بس اسی ایک امید کے سہارے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ بے شک ہماری نیتیں اور ارادے اس کی بارگاہ میں پیش کیے جانے کے قابل نہیں ہیں لیکن جب اس کے سوا دامن میں کچھ ہے ہی نہیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح ’’جئنا ببضاعۃ مزجاۃ‘‘ کے اعتراف کے سوا ہم اور کیا کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خلوصِ نیت نصیب فرمائیں، توفیقِ عمل سے نوازیں اور مذکورہ بالا عزائم کی تکمیل آسان کر دیں کہ اس کی عطا کردہ توفیق ہی سب پونجیوں سے بڑی پونجی ہے اور تمام قوتوں سے بالاتر قوت ہے۔ آمین یا الہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter