اربابِ علم و تحقیق کی خدمت میں چند سوالات

   
تاریخ : 
۲۱ اکتوبر ۲۰۱۸ء

کراچی میں چار روز گزارنے کے بعد جمعرات کی شب گوجرانوالہ واپسی ہوگئی ہے، اس سفر میں میرے سوشل میڈیا کے ایڈمن اور عزیز نواسہ حافظ محمد خزیمہ خان سواتی بھی ہمراہ تھے، اس دوران بیشتر مصروفیات کی جولانگاہ تعلیمی ادارے رہے اور اساتذہ و طلبہ کے ساتھ مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔

جامعہ انوار القرآن نارتھ کراچی میں ’’ریاست مدینہ اور عصر حاضر‘‘ کے موضوع پر مسلسل تین روز تک گفتگو ہوئی۔ چھ نشستوں میں مجموعی طور پر ساڑھے سات گھنٹے بات ہوئی اور ریاست مدینہ کے تاریخی، سماجی اور نظریاتی پس منظر کے ساتھ ساتھ دس سال کے مختصر عرصہ میں اس ریاست کا دائرہ پورے جزیرۃ العرب تک پھیل جانے اور پھر ایک صدی میں ایشیا، افریقہ اور یورپ کے بہت سے علاقوں کو حصار میں لے لینے کے اسباب پر گفتگو کی۔ اور یہ عرض کیا کہ ریاست مدینہ کے قیام اور مسلسل توسیع کے ساتھ معاشرہ میں سیاسی، معاشی، خاندانی، معاشرتی اور تہذیبی طور پر جو تغیرات ہوئے وہ کیا تھے اور دنیا پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ گفتگو کا ایک حصہ موجودہ حالات میں ریاست مدینہ طرز کی رفاہی ریاست کے امکانات اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر مشتمل تھا۔ چھ نشستوں کی یہ پوری بات چیت عزیزم خزیمہ نے سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کی جو ویڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں http://facebook.com/mufakireislam پر موجود ہے۔

جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے ادارہ مجلس صوت الاسلام میں علماء کرام کی تخصص کی کلاس میں دو روز تک اس موضوع پر معروضات پیش کیں کہ ہمارے دور میں نفاذ اسلام اور نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ تو مروجہ بین الاقوامی معاہدات ہیں جن کا صحیح طور پر ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ مسلم ممالک کے حکمران طبقات ہیں جو نہ تو ذہنی اور فکری طور پر نفاذ اسلام کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے اس کی صلاحیت و اہلیت سے بہرہ ور ہیں۔ جبکہ تیسری بڑی رکاوٹ ہم خود یعنی نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعتیں اور طبقات ہیں کہ ہم جدوجہد کے جذباتی اور سطحی ماحول میں خود کو بند رکھے ہوئے ہیں اور نفاذ شریعت کے علمی و فکری تقاضوں کا فہم اور اس کے لیے ہوم ورک اور فیلڈ ورک ہم نہیں کر پا رہے، جس کی وجہ سے جو تھوڑا بہت کام ہوتا ہے وہ بھی بے نتیجہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے مختلف مکاتب فکر اور دینی جماعتوں کے درمیان مسلسل تعاون و اشتراک اور باہمی اعتماد کا جو ماحول نفاذ شریعت کی جدوجہد کے لیے ضروری ہے وہ ابھی تک قائم نہیں ہو سکا۔

جامعۃ الرشید میں حاضری میرے سفر کراچی کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ ایک رات وہاں گزاری، عشاء کے بعد طلبہ سے مختصر اجتماعی بات چیت کے علاوہ حضرت مولانا مفتی محمد صاحب کے ارشاد پر دورۂ حدیث کے طلبہ کے سامنے بھی کچھ معروضات پیش کیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے یہ بات ان کے سامنے بھی دہرا دی جو میں حدیث کے طلبہ سے عام طور پر کیا کرتا ہوں کہ قرآن و سنت اور حدیث و فقہ کو آج کے حالات کے تناظر میں اس طور پر پڑھنے پڑھانے کی ضرورت ہے کہ نسل انسانی کے موجودہ مسائل کو سامنے رکھ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے حل کی نشاندہی کی جائے اور اس سلسلہ معاشرتی و سماجی مسائل و امور کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کراچی میں ریجنل دعوہ سنٹر میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمان کے ارشاد پر حاضری ہوئی اور علماء و طلبہ کی ایک نشست میں ’’حضرات انبیاء کرامؑ کی دعوت کے مختلف مناہج‘‘ کے حوالہ سے معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

کراچی یونیورسٹی کے ’’کلیہ معارف اسلامیہ‘‘ میں اصول الدین کا شعبہ ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر اسحاق عالم کی نگرانی میں کام کر رہا ہے، انہوں نے ’’ریاست مدینہ اور آئین پاکستان‘‘ کے موضوع پر ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں تحقیق و مطالعہ میں مصروف بہت سے طلبہ اور طالبات کے علاوہ متعدد اساتذہ بھی موجود تھے، اس لیے میں نے روایتی گفتگو کا رخ تبدیل کرتے ہوئے عرض کیا کہ ریاست مدینہ اور دستور پاکستان کے بارے میں خود کچھ عرض کرنے کی بجائے آپ لوگوں کے سامنے کچھ سوالات رکھوں گا اور چاہوں گا کہ ان سوالات پر یہاں تحقیق و ریسرچ کا کام ہو اور علمی مقالات کی صورت میں نئی نسل کی راہنمائی کا اہتمام کیا جائے۔ چنانچہ تین سوالات میں نے ریاست مدینہ کے حوالہ سے اور تین سوالات دستور پاکستان کے سلسلہ میں پیش کیے جو مختصرًا درج ذیل ہیں:

  1. جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے اور ان کی ظاہری پوزیشن پناہ گزینوں کی تھی، آتے ہی آنحضرتؐ کی سربراہی میں ریاست کیسے قائم ہوگئی اور ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کیسے وجود میں آگیا؟
  2. جزیرۃ العرب جو ریاست و حکومت اور سیاسی مرکزیت سے ہی ناآشنا تھا، صرف دس سال کے عرصہ میں ریاست مدینہ کا حصہ کیسے بن گیا؟
  3. ریاست مدینہ قائم ہونے کے بعد جزیرۃ العرب میں خاندانی نظام، معیشت و تجارت، سیاست و حکومت، عدالت و قانون اور معاشرت و تہذیب کے شعبوں میں کیا تغیرات رونما ہوئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو یہ ارشاد فرمایا کہ ’’کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں، تو وہ کونسی معاشرتی روایات و اقدار تھیں جنہیں اللہ تعالٰی کے آخری رسول نے جاہلی اقدار قرار دے کر مسترد کر دیا تھا؟
  4. اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام پر انقلاب فرانس کے بعد دنیا بھر میں ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق سے دستبرداری اختیار کر لی گئی تھی، حتٰی کہ ہم مسلمانوں نے بھی ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے معاہدہ پر دستخط کر دیے تھے، تو اس کے صرف تئیس سال کے بعد مذہب کے عنوان سے ایک نئی ریاست (پاکستان) کیسے قائم ہوگئی؟
  5. پاکستان کا قیام اور دستور اللہ تعالٰی کی حاکمیت، قرآن و سنت کی بالادستی اور عوامی نمائندوں کی حکومت کے تین اصولوں پر تشکیل پایا تھا۔ مگر پاکستان کے قیام کے ستر سال بعد بھی اللہ تعالٰی کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کا عملی ماحول قائم نہیں ہو سکا، اس کے اسباب کیا ہیں؟
  6. موجودہ حالات میں مدینہ طرز کی ریاست کے قیام اور دستور پاکستان کے نظریاتی تقاضوں کی تکمیل کے لیے عملی طور پر کیا اقدامات ضروری ہیں اور تعلیمی نظام اس میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

اس کے علاوہ گرومندر چوک کراچی کے قریب شہزادہ مسجد کی ایک تقریب میں تصوف کے بعض پہلوؤں پر معروضات پیش کیں۔ جبکہ جمعرات کے روز لاہور پہنچنے پر کوٹ لکھپت جیل کے قریب ذکر و اذکار اور حزب البحر کے تین روزہ تربیتی کورس کی اختتامی تقریب میں ’’ذکر الٰہی کی اہمیت‘‘ پر کچھ گزارشات پیش کر کے ہم نے گوجرانوالہ واپسی کی۔

   
2016ء سے
Flag Counter