سعودی عرب اور اقوام متحدہ میں قادیانیوں کی سرگرمیاں

   
تاریخ : 
۲۹ ستمبر ۲۰۱۹ء

حرمین شریفین اور حجاج کرام و معتمرین کی مسلسل خدمت کی وجہ سے سعودی عرب پورے عالم اسلام کی عقیدتوں کا مرکز ہے، اور حرمین شریفین کے تقدس و تحفظ کے حوالہ سے سعودی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی و یکجہتی کا اظہار بلاشبہ ہمارے ایمانی تقاضوں میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی دینی و ملی امور میں راہنمائی کے لیے مسلمانوں کا سعودی عرب بالخصوص ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ اور سعودی علماء و مشائخ کی طرف متوجہ رہنا بھی فطری امر ہے، چنانچہ ۱۹۷۴ء کے دوران جب پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مسئلہ درپیش تھا تو رابطہ عالم اسلامی کی ایک متفقہ قرارداد نے اس معاملہ میں بنیادی راہنمائی فراہم کی تھی جو ۱۰ اپریل ۱۹۷۴ء کو اس کے مکہ مکرمہ کے اجلاس میں منظور کی گئی تھی، اور اس میں قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج ایک کافر اور اسلام سے باغی گروہ قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب کے مشائخ عظام و علماء کرام نے مختلف مواقع پر امت مسلمہ کی راہنمائی کی ہے جس کی بدولت اہل اسلام کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملی ہے۔

مگر گزشتہ دنوں قادیانیوں کے حوالہ سے ایک خبر نے تشویش کا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ برطانیہ سے قادیانی راہنما لارڈ طارق احمد نے ایک وفد کے ہمراہ ۱۸ ستمبر کو سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور معالی الشیخ عبد اللطیف آل شیخ حفظہ اللہ تعالٰی سے ملاقات کر کے انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے حوالہ سے ان سے مذاکرات کیے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے اس حقیقت کی ایک بار پھر یاددہانی ضروری ہوگئی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج ایک کافر گروہ قرار دے رکھا ہے جس کی توثیق ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے دستوری ترمیم کے ذریعے ۱۹۷۴ء میں کی تھی اور عدالت عظمٰی بھی متعدد بار اس کی توثیق کر چکی ہے۔ مگر قادیانی گروہ ان تمام فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے خود کو مسلمان کہلانے اور اسلام کے نام پر اپنے مذہب کے فروغ اور اس کی دعوت پر بضد ہے اور دنیا بھر میں اس انحراف اور بغاوت کا کھلم کھلا اظہار کر رہا ہے۔ جبکہ اس گروہ نے اپنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے اور عالمی اداروں کے اثرورسوخ کے ذریعے خود کو مسلمان تسلیم کرانے کے لیے ’’انسانی حقوق‘‘ کا عنوان اختیار کر رکھا ہے، جو سراسر مکر و فریب ہے اور انسانی حقوق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اسی غرض سے قادیانی گروہ کے نمائندے مختلف مسلمان حکومتوں سے رابطے کر کے اپنی مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں، حتٰی کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر ٹرمپ سے ایک قادیانی وفد نے ملاقات کر کے یہی شکایت کی ہے۔

نیز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بین الاقوامی این جی او کی طرف سے پیش کردہ مختلف تجاویز اس وقت زیر بحث ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت پاکستان سے قادیانیوں کے بارے میں ملک کے دستور و قانون کی دفعات پر نظرثانی کے لیے کہا جائے۔ جبکہ اس سلسلہ میں پاکستان شریعت کونسل نے پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر نور الحق قادری سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی میں زیربحث اس مسئلہ کو معمول کی کاروائی سمجھنے اور محض سفارتی عملہ کی صوابدید پر چھوڑ دینے کی بجائے حکومت پاکستان کی طرف سے نمائندگی اور وکالت کے لیے سرکردہ علماء کرام اور ممتاز قانونی ماہرین کا وفد بھیجا جائے، جیسا کہ جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں زیر بحث اسی مسئلہ کے لیے سرکاری وفد بھیجا گیا تھا جس نے سپریم کورٹ آف جنوبی افریقہ کو صحیح فیصلہ کرنے میں مدد دی تھی اور وہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا تھا۔

اس پس منظر میں ہمارا خیال ہے کہ برطانیہ کے قادیانی لارڈ طارق احمد کی سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور سے مذکورہ ملاقات دنیا بھر کے مسلمانوں اور خاص طور پر عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے مسلسل محنت کرنے والے علماء کرام اور جماعتوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ چنانچہ سعودی وزارت مذہبی امور سے ہماری استدعا ہے کہ قادیانی جماعت کو ایسی ملاقاتوں سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملنا چاہیے اور اس حوالہ سے جلد کوئی نہ کوئی وضاحت سامنے آنی چاہیے تاکہ مسلمانوں کا اضطراب دور ہو، کیونکہ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ حرمین شریفین کی مسلسل خدمت و انتظام اور ملت اسلامیہ کے مسائل میں مخلصانہ توجہات کی وجہ سے مسلمانان عالم کی عقیدت و محبت کا مرکز ہے اور دنیا بھر کے مسلمان راہنمائی کے لیے اس کی طرف دیکھتے ہیں، اس لیے اس کی طرف سے ایسے کسی معاملہ میں ہلکی سی لچک کا شبہ بھی مسلمانوں کے لیے تشویش و اضطراب کا باعث بن جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے حالیہ خطاب کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ضرورت کی طرف پیشرفت سمجھتے ہیں اور ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کی طرف سے مغرب کی ’’اسلام فوبیا مہم‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ میڈیا چینل کے قیام کے اعلان کو بھی خوش آئند قرار دیتے ہیں، البتہ اس سلسلہ میں تفصیلی گزارشات چند روز تک پیش کریں گے، ان شاء اللہ تعالٰی۔

   
2016ء سے
Flag Counter