قومی تعلیمی کمیشن کے سوالنامہ کے جوابات

   
تاریخ : 
جنوری ۱۹۹۲ء

(حکومت پاکستان کے قائم کردہ قومی تعلیمی کمیشن کی خصوصی کمیٹی نمبر ۵ کے کنوینر جناب جسٹس (ریٹائرڈ) محمد ظہور الحق کی طرف سے دینی مدارس اور عصری اسکولوں و کالجوں کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی کے سلسلہ میں ماہرین تعلیم کو ارسال کیے جانے والے سوالنامہ کا مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے جواب۔)

سوالنامہ

محترم و مکرم السلام علیکم!

حکومت پاکستان نے شریعت کے نفاذ کے لیے اپنی کاوشوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ شریعت بل ۱۹۹۱ء کے تحت قومی تعلیمی کمیشن برائے اسلامائزیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کمیشن کی پہلی نشست ۳ ستمبر ۱۹۹۱ء کو ہوئی تھی اور کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ کمیٹی نمبر ۵ کا میں کنوینر ہوں۔ یہ کمیٹی دینی مدارس کے مسائل، ضروریات اور سہولتوں کے مسائل پر غور و فکر کر رہی ہے۔ دینی مدارس کے مسائل کا علم آپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں کمیشن کی اعانت فرمائیں اور دینی مدارس کو کیا سہولتیں حکومت سے درکار ہیں یا ہو سکتی ہیں، اس کی وضاحت فرما دیں۔

سفارشات ۵ دسمبر سے پہلے ارسال فرمائیں۔

  1. دینی مدارس کو حکومت کی مالی معاونت کی ضرورت سے متعلق آپ کی تجاویز۔
  2. دینی مدارس کے مسائل اور ضروریات۔
  3. دینی مدارس کو حکومت کس طرح کی سہولتیں مہیا کرے؟
  4. جدید نظام تعلیم کو اسلامی خطوط پر کس طرح استوار کیا جائے؟
  5. دینی مدارس میں جدید علوم کو کس طرح متعارف کرایا جائے؟
  6. یہ بھی درخواست ہے کہ دینی مدارس اور عام مدارس کے نصاب اور نظام میں کس طرح ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں بھی اپنی تجاویز تحریر فرما دیں۔ نوازش ہوگی۔
تعاون کا پیشگی شکریہ۔ والسلام
جسٹس (ریٹائرڈ) محمد ظہور الحق
کنوینر نیشنل ایجوکیشنل کونسل، اسلام آباد

جواب

حکومت پاکستان کے قائم کردہ نیشنل ایجوکیشنل کمیشن کی کمیٹی نمبر ۵ نے دینی مدارس اور مروجہ تعلیمی اداروں کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جو سوالنامہ جاری کیا ہے، اگرچہ اس میں چھ سوالات ہیں، لیکن یہ سب سوالات بنیادی طور پر دو سوالوں پر مشتمل ہیں:

  1. ایک یہ کہ عصری اسکولوں اور کالجوں کے نصاب و نظام کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب و نظام کو کس طرح زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟
  2. اور دوسرا یہ کہ دینی مدارس کو درپیش مسائل و ضروریات میں حکومت کیا تعاون کر سکتی ہے؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس ضمن میں یہ گزارش ہے کہ اگرچہ یہ بظاہر ایک دلکش اور خوشنما تصور ہے لیکن اصولی طور پر یہ غلط اور غیر منطقی سوچ ہے، کیونکہ اس سوچ کی بنیاد ان دونوں نظام ہائے تعلیم کی جداگانہ ضرورت و اہمیت کو تسلیم کرنے پر ہے جبکہ یہ ضرورت و اہمیت بجائے خود محل نظر ہے۔

عصری اسکولوں اور کالجوں کا نظام تعلیم مستقل حیثیت کا حامل ہے اور دینی مدارس کا نظام تعلیم اس سے بالکل مختلف اور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ ان دونوں کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اس دور کی قومی ضروریات کے پیش نظر ہوا تھا۔ دونوں تعلیمی نظاموں کی بنیاد خوف اور تحفظات پر تھی۔

  • جدید تعلیم کا نظام کھڑا کرنے والوں کے سامنے یہ خوف تھا کہ اگر مسلمانوں نے انگریزی تعلیم حاصل نہ کی تو وہ نئے قومی نظام میں شریک نہیں ہو سکیں گے اور ان کے ہندو معاصرین اس دوڑ میں آگے بڑھ کر قومی زندگی پر تسلط جما لیں گے جس سے مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔
  • جبکہ دینی تعلیمی نظام کے بانیوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر قرآن و سنت اور عربی علوم کی تعلیم کا اہتمام نہ کیا گیا تو مسلمانوں کا رشتہ اپنے مذہب اور اعتقاد سے کٹ جائے گا اور وہ دینی تشخص سے محروم ہو جائیں گے۔

یہ دونوں خوف اپنی اپنی جگہ صحیح تھے اور انہی کی بنیاد پر دو الگ اور مستقل نظام ہائے تعلیم وجود میں آگئے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ان میں سے کسی خوف کے تسلسل کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا اور قومی دانشوروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان دو طرفہ خدشات کی نفی کرتے اور دونوں محاذوں پر قوم کو خوف سے نجات دلا کر خوف اور تحفظات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے دونوں تعلیمی نظاموں کے خاتمہ کی راہ ہموار کرتے، لیکن بدقسمتی سے اب تک ایسا نہیں ہوا اور ہم حصول آزادی کے تقریباً نصف صدی بعد بھی تعلیمی پالیسیوں کے لحاظ سے ابھی تک انیسویں صدی کے اواخر کے ذہنی دائروں میں کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹ رہے ہیں۔

کالجوں اور دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہماری بنیادی تعلیمی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایڈہاک ازم ہے جو کسی ٹھوس اور واضح تعلیمی پالیسی کے جڑ پکڑنے تک ایک عبوری اور عارضی انتظام کا درجہ تو پا سکتی ہے، لیکن یہ ہمارے تعلیمی مسائل کا حل نہیں ہے۔ اور اگر سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو دونوں نصابوں کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنا قابل عمل اور ممکن بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر دونوں نصاب پورے کے پورے یکجا کر دیے جائیں تو طلبہ کی میسر کھیپ میں سے شاید پانچ فیصد اسے بمشکل کور کر سکیں۔ اور اگر ایک کو بنیاد بنا کر دوسرے نصاب کی چند چیزیں اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے تو اسے ’’ہم آہنگی‘‘ قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔

اس لیے ہمارے نزدیک یہ تصور ہی سرے سے غلط ہے کہ دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ جرات و حوصلہ سے کام لے کر ان دونوں نظاموں کی نفی کرتے ہوئے ایک نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جائے۔ ان دو نظام ہائے تعلیم کی نفی کا مطلب ان کے معاشرتی کردار کی نفی نہیں ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے دائرے میں قوم کی خدمت کی ہے اور ان میں سے کسی کے کردار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان کی ضرورت اور اہمیت کا دور گزر چکا ہے اور دونوں نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں، اس لیے انہیں مصنوعی تنفس کے ذریعے سے زندہ رکھنے کی کوشش نہ عقل و دانش کا تقاضا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا نئی نسل کے ساتھ انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ ہمارے خیال میں قومی تعلیمی کمیشن کا اصل رول یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک نئے اور انقلابی تعلیمی نظام کے لیے قوم کی ذہن سازی کرے اور دونوں طبقوں کے ماہرین تعلیم کو اعتماد میں لے کر نئے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ تشکیل دے۔

نئے تعلیمی نظام کو بنیادی شخصی ضروریات اور قومی تقاضوں کے دو دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک تعلیمی نظام کا پہلا حصہ بنیادی شخصی ضروریات پر مشتمل ہونا چاہیے اور دوسرے حصے میں قومی ضروریات کو ایک حسین توازن و تناسب کے ساتھ سمو دینا چاہیے۔ مثلاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر شہری کی بنیادی ضروریات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. اس کی مادری اور علاقائی زبان پر اسے عبور ہو اور وہ اسے لکھنے پڑھنے پر قادر ہو۔
  2. قومی زبان اردو پر بھی اسے یہی قدرت حاصل ہو۔
  3. دینی زبان عربی کے ساتھ اس کا اتنا تعلق ضرور ہو کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھ سکے۔
  4. بین الاقوامی زبان انگریزی پر بھی اسے دسترس حاصل ہو۔
  5. عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات کے بارے میں اسے اتنا دینی علم حاصل ہو کہ وہ ایک صحیح مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکے۔
  6. اتنا حساب کتاب جانتا ہو کہ روز مرہ کے معاملات میں اسے دقت پیش نہ آئے۔
  7. ملکی اور بین الاقوامی حالات سے اس قدر ضرور واقف ہو کہ قومی تقاضوں کو سمجھ سکے۔
  8. وہ جدید سائنسی علوم کے بارے میں بھی بنیادی معلومات سے بہرہ ور ہو۔

ہماری تجویز یہ ہے کہ ان بنیادی ضروریات پر مشتمل نصاب تعلیم میٹرک تک از سر نو مرتب کیا جائے اور اسے ہر شہری کے لیے قانوناً لازمی قرار دے دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے کے تعلیمی نظام میں قومی تقاضوں کو سامنے رکھ کر شعبوں کی تقسیم کی جائے۔ مثلاً ہمیں اچھے علماء کی ضرورت ہے، بہترین سائنس دانوں کی ضرورت ہے، قابل ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، ماہر انجینئروں کی ضرورت ہے، اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں ماہرین درکار ہیں۔ اس لیے میٹرک کے بعد ہر طالب علم کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق ان میں سے کسی ایک شعبہ میں تعلیم و مہارت حاصل کرے اور قومی پالیسی کے طور پر ایک ایسا توازن قائم کیا جائے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کی ضروریات تناسب کے ساتھ پوری ہوتی رہیں۔

دوسرا اہم سوال دینی مدارس کی ضروریات و مسائل میں حکومت کے ممکنہ تعاون کی صورت کے بارے میں ہے۔

اس سلسلہ میں عرض ہے کہ دینی مدارس معاشرہ میں قرآن و سنت اور دیگر دینی علوم کی ترویج اور بقا و تحفظ کا جو کردار ادا کر رہے ہیں، وہ بہت بڑی قومی خدمت ہے اور جب تک دینی تعلیم کی تمام ضروریات کو اپنے اندر سمونے والا کوئی ہمہ گیر نظام تعلیم وجود میں آکر مستحکم نہیں ہو جاتا، اس وقت تک دینی مدارس کی ضروریات اور ان کا کردار بہرحال ایک ناگزیر قومی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ دینی مدارس کا یہ کردار ان کے اس آزادانہ نظام کی بدولت ہی تاریخ میں اپنی جگہ بنا سکا ہے جو ہر دور میں حکومت کی سرپرستی اور دخل اندازی سے بے نیاز رہا ہے۔ اگر دینی مدارس کو وقت کی حکومتوں کی دخل اندازی سے آزادی اور بے نیازی حاصل نہ ہوتی تو ان کی خدمات اور جدوجہد کے نتائج کی موجودہ شکل سامنے نہیں آ سکتی تھی۔ اس لیے ہمارے نزدیک دینی مدارس کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی سب سے اہم ضرورت ان کے آزادانہ تعلیمی کردار کا تحفظ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جو دینی ادارے اپنے معاشرتی کردار کی اہمیت سے شعوری طور پر آگاہ ہیں، وہ ہر دور میں سرکاری امداد قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں اور آج بھی بے نیازی کی اسی روش پر گامزن ہیں۔ محتاط دینی اداروں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کا اسلام کے ساتھ تعلق مخلصانہ اور نظریاتی نہیں بلکہ مصلحت پرستانہ ہے، اور وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی سرکاری امداد حکومت کی پالیسیوں اور مصلحتوں کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں وابستگی کا احساس ضرور پیدا کر دیتی ہے۔ پھر بعض تجربات نے اس احساس کو بھی جنم دیا ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں آنے کے بعد دینی مدارس شاید اپنے موجودہ کردار کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے، جیسا کہ محکمہ تعلیم کی تحویل میں آنے والے جامعہ عباسیہ بہاولپور، محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں آنے والے جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ، اور ان جیسے بیسیوں دیگر دینی مدارس کے انجام سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔

اس لیے اگر حکومت دینی مدارس کو ان کے آزادانہ کردار کے تحفظ کا یقین اور اعتماد دلا سکے تو یہ ان مدارس کے ساتھ حکومت کا سب سے بڑا تعاون ہوگا اور پھر آزادانہ کردار کے تحفظ کے ساتھ دینی مدارس کے اخراجات میں ان سے تعاون، ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں ماہرین کے ذریعے سے ان کی راہنمائی، ان کی سندات کی مسلمہ حیثیت کو یقینی اور قابل عمل بنانے اور ان کے درمیان رابطہ و تعاون کی فضا کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے سے حکومت دینی مدارس کی بہتر خدمت کر سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter