قربانی کی کھالوں کا مسئلہ

   
تاریخ : 
۹ ستمبر ۲۰۱۷ء

عید الاضحیٰ گزر گئی ہے اور دیگر قومی شعبوں کی طرح اکثر و بیشتر دینی مدارس بھی اپنی چھٹیاں گزار کر تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ عید الاضحیٰ پر دینی مدارس کی ایک مصروفیت یہ ہوتی ہے کہ ملک کے دیگر رفاہی اداروں کے ساتھ وہ بھی قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہیں جو ان کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہیں، اس لیے کہ سوسائٹی کے دیگر مستحقین کی طرح دینی مدارس کے مسافر اور نادار طلبہ بھی زکوٰۃ و صدقات اور قربانی کی کھالوں کا اہم مصرف ہیں۔ اور معاشرہ میں دینی تعلیم کے فروغ کے خواہاں مسلمان اس مد میں ان سے بھرپور تعاون کرتے ہیں جو کہ دینی تعلیم کے فروغ سے پریشان عالمی اور ملکی حلقوں کے لیے بہرحال ایک تکلیف دہ امر ہے۔ معاشرہ میں قرآن و سنت کی تعلیم اور اس کے مطابق تہذیبی اقدار و ثقافت کا تحفظ و بقا آج کے مروجہ عالمی فلسفہ و نظام کے تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بالخصوص مسلم معاشروں میں مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت اسے اپنی بالادستی کے منافی تصور کرتی ہے۔ اس لیے مختلف حیلوں بہانوں سے دنیا بھر میں دینی تعلیم کا دائرہ محدود کر دینے کی ہر سطح پر کوششیں جاری ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ان منفی کوششوں کی ایک بڑی آماجگاہ ہے۔

دستور پاکستان میں قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنا اور اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیل ریاست و حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ریاست کے تعلیمی اداروں میں قرآن و حدیث اور عربی کی بنیادی تعلیم کا بھی کوئی باقاعدہ نظم موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ابھی تک قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم اور قومی و علاقائی زبانوں میں اس کے سادہ ترجمہ سے طلبہ و طالبات کو روشناس کرانے کا بھی کوئی پروگرام ریاستی نظام تعلیم میں تشکیل نہیں پا سکا۔ پاکستانی معاشرہ کی اس اہم ترین معاشرتی و دستوری ضرورت کو دینی مدارس ایک حد تک پورا کر رہے ہیں جو پرائیویٹ سیکٹر میں عام مسلمانوں کے رضاکارانہ تعاون سے چلتے ہیں۔ اور چونکہ عام مسلمان اپنی نئی نسل کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ ان مدارس سے تعاون کرتے ہیں اور مختلف صورتوں میں انہیں اخراجات فراہم کرتے ہیں۔ دینی مدارس کی یہ محنت گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں اسی طرح جاری ہے اور جب تک قرآن و حدیث اور دیگر متعلقہ علوم کی عام سطح پر تعلیم کا کوئی متبادل تسلی بخش نظام سامنے نہیں آجاتا اس نے بہرحال جاری رہنا ہے۔ اس لیے کہ ملک کے عام شہری اسے اپنی ضرورت سمجھتے ہیں اور اس میں رکاوٹ ڈالنے میں عالمی اور ملکی حلقوں کی منفی کوششوں کا ادراک رکھتے ہیں، اس لیے وہ ان سے تعاون کو اپنی دینی و قومی ذمہ داریوں میں شمار کرتے ہیں جو ان مدارس کی بقا و ترقی کی ایک مستحکم معاشرتی بنیاد ہے۔

دوسری طرف معاشرہ میں دینی مدارس کے کردار اور اثرات کو محدود کرنے کے لیے پہلے اس ایجنڈے پر کام ہوتا رہا کہ انہیں کسی طرح سرکاری تحویل میں لے لیا جائے اور پھر اپنی مرضی کے مطابق انہیں چلایا جائے۔ اس پر سب سے پہلے پاکستان میں صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں پیش رفت ہوئی اور بہت سے دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں یہ کہہ کر لے لیا گیا کہ ریاستی نظم کے تحت ان مدارس کو زیادہ بہتر طریقے سے چلایا جائے گا اور دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی ان میں اہتمام کیا جائے گا۔ لیکن بہت سے دینی مدارس قومیائے جانے کے بعد رفتہ رفتہ اپنے وجود سے ہی محروم ہوگئے جس کی وجہ سے دینی مدارس کے منتظمین و معاونین محتاط ہوگئے اور آئندہ ایسی کوششوں کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے بعد مختلف حکومتوں نے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی بلکہ جنرل پرویز مشرف نے تو اپنے دور میں ملک کے تمام دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ ہی کر لیا مگر مختلف مسالک کے دینی مدارس کے وفاقوں نے اتحاد کر کے اس کی مزاحمت کا اعلان کر دیا جسے عام مسلمانوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی اس لیے یہ مہم آگے نہ بڑھ سکی۔ چنانچہ دینی مدارس معاشرہ میں اپنا آزادانہ تعلیمی کردار نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کے بعد یہ حکمت عملی اختیار کی گئی کہ دینی مدارس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جہاں جہاں سے تعاون ہوتا ہے اسے روکا جائے اور ان کی ’’سپلائی لائن‘‘ کاٹ دی جائے۔ اس کے تحت پہلے بیرونی ممالک سے آنے والی امداد کوروکا گیا جو زیادہ تر بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ہی کرتے تھے۔ لیکن اس سے کچھ خاص فرق نہ پڑا تو ملک کے اندر دینی مدارس کی مالی امداد کے راستوں کو بند کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور آج کل اس پر پورے زور و شور کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔ اس کے لیے دینی مدارس کو بدنام کرنا اور ان کے خلاف نفرت کی فضا قائم کرنا ضروری سمجھا گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں جاری دہشت گردی کا رشتہ دینی مدارس کے ساتھ جوڑ کر یہ مہم چلائی گئی کہ یہ دینی مدارس دہشت گردی کے سرچشمے ہیں اس لیے ان کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ دہشت گردی صرف مذہبی حوالہ سے نہیں ہو رہی بلکہ نسلی، علاقائی، لسانی اور قومیتوں کی عصبیتیں بھی ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کا سبب ہیں۔ جبکہ دہشت گردی میں پکڑے جانے والے بہت سے لوگ جس طرح دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اسی طرح ان کی بڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں کی بھی ہے لیکن ان کے بارے میں کسی طرف سے بھی یہ نہیں کہا جا رہا کہ جن کالجوں میں ان دہشت گردوں نے تعلیم حاصل کی ہے انہیں بند کر دیا جائے یا ان کی گرانٹ روک لی جائے۔

چونکہ ملک کے عام شہری اس ساری صورتحال کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اس لیے دینی مدارس کی کردارکشی اور ان کے خلاف منفی پراپیگنڈا کی اس وسیع تر مہم کے باوجود عوام کی طرف سے دینی مدارس کے تعاون میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ چنانچہ اب قانونی ذرائع سے اسے روکنے کی نئی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس کے تحت گزشتہ تین چار سال سے قربانی کی کھالوں تک دینی مدارس کی رسائی ختم کرنے کے لیے حکومتی اداروں کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ اس مقصد کے لیے دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ چمڑے کے بڑے تاجروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے عید قربانی کے موقع پر کھالوں کی قیمت کو نصف سے بھی کم سطح پر گرا دینے کی پالیسی اپنائی گئی ہے جو گزشتہ دو تین سال سے جاری ہے۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا کیونکہ قربانی کی کھالیں دینی مدارس کی آمدنی کا ایک حصہ ہیں لیکن صرف اسی پر ان کا انحصار نہیں ہے، اس مد میں ہونے والی کمی کو دینی مدارس کے معاونین دوسری مدات میں پوری کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اس سال اس سلسلہ میں ایک اور حرکت بھی کی گئی کہ عید سے دو روز قبل مختلف علاقوں کے پولیس افسران نے چمڑے کے تاجروں کو دینی مدارس سے کھالیں خریدنے سے منع کر دیا۔ مبینہ طور پر لاہور میں مصری شاہ تھانے کے ایس ایچ او نے چمڑا منڈی سے تاجروں کو بلا کر دھمکایا کہ دینی مدارس سے کھالیں لینے والے اس کے نتیجے کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ گوجرانوالہ میں چمڑے کے تاجروں کو بلا کر کہا گیا کہ چھوٹی کھال کی قیمت ایک سو روپے اور بڑی کھال کی قیمت دو ہزار روپے سے زیادہ ادا نہیں کرنی۔ جبکہ راولپنڈی کے ایک قومی اخبار میں ۵ ستمبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق وہاں بھی یہ دونوں حربے اختیار کیے گئے کہ دینی مدارس سے کھالیں نہ لی جائیں اور کھالوں کی قیمت بہت کم ادا کی جائے۔ اسی طرح دیگر شہروں سے بھی اسی قسم کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ بعض مقامات پر دینی مدارس کے ذمہ داران کو کھالیں جمع کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، ان میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ناظم مفتی محمد عثمان جتوئی بھی شامل ہیں جن کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے انہیں حوالات میں بند کیا گیا اور اگلے روز عدالت نے اڑھائی ہزار روپے جرمانہ وصول کر کے انہیں رہا کیا۔

عید الاضحیٰ کے موقع پر دینی مدارس کو پابند کیا گیا کہ وہ کھالیں جمع کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر سے باقاعدہ اجازت نامہ لیں۔ عید سے کئی روز قبل پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان اور وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری خود ملاقات کر کے بات کی تو انہیں یقین دلایا گیا کہ درخواست دینے والے مدارس کو اجازت دے دی جائے گی۔ لیکن جب درخواستیں دی گئیں تو انہیں عید سے ایک دو روز قبل تک ٹال مٹول میں رکھا گیا اور عین وقت پر بہت سے دینی مدارس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ گوجرانوالہ میں جامعۃ نصرۃ العلوم، مدرسہ اشرف العلوم اور مدرسہ انوار العلوم جیسے قدیمی اداروں کو بھی اجازت دینے سے انکار کیا گیا۔ مدرسہ انوارالعلوم شہر کا سب سے قدیمی مدرسہ ہے اور ۱۹۲۶ء سے کام کر رہا ہے۔ جامعۃ نصرۃ العلوم ۱۹۵۲ء سے مصروف عمل ہے جبکہ مدرسہ اشرف العلوم بھی لگ بھگ اسی وقت سے قائم ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے دینی مدارس شہر اور ضلع میں اس انکار کی زد میں آئے ہیں جنہیں اس کی کوئی وجہ باضابطہ طور پر نہیں بتائی گئی۔

البتہ مدرسہ انوارالعلوم کے بارے میں رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یہاں سیاسی لوگ بہت آتے ہیں اور جلسے ہوتے ہیں۔ مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ کے ساتھ ملحق ہے جہاں گزشتہ نصف صدی سے راقم الحروف خطابت کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہا ہے۔ میں نے گزشتہ جمعہ کے خطاب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھئی! ہم تو یہ کام سوا صدی سے زیادہ عرصہ سے کر رہے ہیں۔ مرکزی جامع مسجد ۱۳۰۱ ہجری میں تعمیر ہوئی تھی تب سے یہ دینی و قومی تحریکات کا مرکز چلی آرہی ہے۔ ۱۹۱۹ء میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت سے لے کر شہر میں ہر دینی و قومی تحریک کا مرکز یہ مسجد چلی آ رہی ہے۔ ہم دینی، قومی اور شہری مسائل پر تمام مکاتب فکر اور طبقات کو جمع کر کے مشترکہ اجلاس کرتے ہیں، عوامی جلسے کرتے ہیں، حسب ضرورت جلوس نکالتے ہیں اور اجتماعی معاملات میں جدوجہد کرتے ہیں۔ بحمد اللہ گزشتہ نصف صدی سے ان کاموں کا اہتمام میرے ذریعہ ہو رہا ہے جو آئندہ بھی اسی طرح جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اسی طرح مدرسہ انوارالعلوم کے مہتمم مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے ۱۹۷۰ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اور جنرل مشرف کے دور میں اسی مدرسہ کے مہتمم مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ شہر سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ میں بحمد اللہ تعالیٰ اس مسجد کے خطیب کی حیثیت سے قومی و دینی تحریکات میں چار دفعہ جیل جا چکا ہوں اور قومی و صوبائی سطح پر متعدد سیاسی محاذوں اور تحریکوں کی قیادت میں شامل رہا ہوں۔ اس لیے حکومتی حلقے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے وہ ہمارے اس قومی اور تحریکی کردار کو ختم کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے، ہمارا یہ تحریکی کردار ان شاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا کیونکہ یہ ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے۔

بعض دوست یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس سال اتنی سختی کیوں کی گئی ہے؟ میں ان سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پنجاب حکومت زکوٰۃ و صدقات کے حوالہ سے ’’چیریٹی بل‘‘ لا رہی ہے جس کے تحت دینی مدارس کو پابند کیا جائے گا کہ وہ زکوٰۃ و صدقات کی وصولی کے لیے ڈپٹی کمشنر سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کریں ورنہ وہ زکوٰۃ وصول نہیں کر سکیں گے۔ یہ بل دینی مدارس کے ذرائع آمدنی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی لایا جا رہا ہے جبکہ اس سے قبل اس کے مؤثر ہونے کے امکانات چیک کرنے کے لیے ’’ٹیسٹ کیس‘‘ کے طور پر قربانی کی کھالوں کے حوالہ سے یہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ یہ ایک معاشرتی حقیقت ہے کہ دینی مدارس چلانے والے پاکستانی ہیں اور ان سے تعاون کرنے والے بھی پاکستانی ہیں، اور یہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی دینی و معاشرتی ضرورت سمجھتے ہیں۔ پاکستانیوں کے مزاج کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہیں جس کام سے روکا جائے وہ اسے زیادہ اہتمام اور دل جمعی کے ساتھ کرتے ہیں، جبکہ روکے جانے والے راستوں کا متبادل تلاش کرنے میں پاکستانیوں کا شاید پوری دنیا میں کوئی ثانی نہ ہو۔ چنانچہ ان وقتی پریشانیوں کے باوجود ماضی کی طرح اب بھی دینی مدارس کا نظام چلتا رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

البتہ اس کا ایک اور پہلو بھی توجہ کا طالب ہے جس پر سنجیدہ ارباب دانش کو غوروخوض کی دعوت دے رہا ہوں کہ عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ دینی طبقات، مدارس اور اقدار و روایات کے خلاف یہ ہمہ جہتی اور ہمہ نوعی مہم ’’مغربی ایجنڈے‘‘ کا حصہ ہے جو اپنے آخری راؤنڈ میں داخل ہو چکا ہے۔ لیکن یہ مغربی ایجنڈے کا آخری آئیٹم ہونے کی بجائے ’’مشرقی ایجنڈے‘‘ کا نقطۂ آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارا رخ دھیرے دھیرے مغرب سے مشرق کی طرف مڑ رہا ہے، اس لیے دینی اقدار و روایات اور طبقات کے بارے میں مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کے مزاج، نفسیات اور طریق کار پر بھی ہماری مسلسل نظر رہنی چاہیے۔ آخر مشرقی ایجنڈے کی پیش رفت سے پیدا ہونے والے دینی، علمی، تہذیبی، معاشی اور فکری مسائل پر قوم کی راہنمائی دینی قیادتوں نے ہی کرنی ہے، اس لیے ابھی سے اس کے امکانات، اثرات اور نتائج کا جائزہ لے لینا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter