جامعہ حفصہ کا سانحہ ۔ کچھ پس پردہ حقائق

   
تاریخ اشاعت: 
یکم دسمبر ۲۰۰۷ء

(اس دفعہ ادارتی صفحات میں ہم ایک خاتون کا خط شائع کر رہے ہیں جو حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ کے نام ہے۔ اس میں جامعہ حفصہ کے المناک سانحہ کے بارے میں جامعہ کی طالبات ہی کے حوالے سے کچھ پس پردہ حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے اور بہت سے توجہ طلب امور کی نشان دہی کی گئی ہے جن پر علمی و دینی حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔

ہماری رائے میں افغانستان سے روسی استعمار کے انخلا کے بعد سے ہی پاکستان کے ان ہزاروں نوجوانوں کی فہرستوں کی تیاری اور ان کی درجہ بندی شروع ہو گئی تھی جنہوں نے افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور ٹریننگ حاصل کی تھی۔ اسی وقت سے یہ حکمت عملی بھی طے کر لی گئی تھی کہ مرحلہ وار مختلف علاقوں میں ان مجاہدین کو کسی نہ کسی طرح اشتعال دلا کر سامنے لایا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ یہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جائیں اور پھر فوجی آپریشن کے ذریعے ان کی قوت کو ختم کر دیا جائے۔ وزیرستان، اسلام آباد اور سوات کے آپریشن اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور ملک کے بہت سے دیگر حصوں میں بھی اس قسم کی کارروائیوں کی راہ ہموار کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

غزوۂ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہم کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید نے ازخود آگے بڑھ کر مسلمان فوج کی کمان سنبھال لی تھی اور بڑی حکمت عملی کے ساتھ اسے دشمن کے نرغے سے بحفاظت نکال کر واپس لانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر ’’سیف من سیوف اللہ‘‘ کا خطاب دیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ مخواہ دشمن سے بھڑ جانے اور اپنی قوت کو ضائع کرتے چلے جانے کی بجائے اپنی قوت کو مشکل وقت میں بچا لینے کی حکمت عملی اختیار کرنا بھی بہادری اور شجاعت کہلاتا ہے۔ اے کاش ہمارے عسکری حلقے اس پہلو پر غور کر سکیں اور جوش و جذبہ کے ساتھ ساتھ حکمت و تدبر کے تقاضوں کا بھی احساس کر لیں۔

بہرحال ایک محترم خاتون کا یہ فکر انگیز خط ملاحظہ فرمائیے اور اس بات کا جائزہ لیجیے کہ ہم اس خط میں اٹھائے گئے نکات کے حوالے سے ہم اپنے اپنے دائرے میں عملی طور پر کیا کر سکتے ہیں۔ راشدی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

بخدمت اقدس گرامی قدر حضرت مفتی صاحب، دامت برکاتکم العالیہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس ماہ البلاغ میں جامعہ حفصہ سے متعلق آپ کا مضمون پڑھا، اس سلسلہ میں چند مزید باتیں آپ کے علم میں لانا چاہتی ہوں۔ یہ باتیں میرا عینی مشاہدہ تو نہیں مگر جامعہ حفصہ سے آنی والی طالبات کی بیان کردہ ہیں۔

  1. جامعہ حفصہ گزشتہ کئی سال سے انٹرنیشنل شہر میں دینی تہذیب کا داعی تھا اور ہزاروں کی تعداد میں باپردہ طالبات کا آنا جانا اور اسلام آباد کے ماڈرن گھرانوں کی عورتوں اور لڑکیوں کا اس کی طرف میلان، روشن خیال طبقہ اور امریکہ کو برداشت نہ تھا۔ اس لیے گزشتہ دو سال سے جامعہ کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کا کام کرنے کے لیے دینی احکام کو پامال کرنا یا مشورہ اور صحیح حکمت عملی، نیز طویل منصوبہ بندی نہ کرنا سخت نقصان کا باعث ہے۔ دینی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں، مگر ہم ان سے سبق حاصل نہیں کرتے اور نہ تاریخ کا مضمون اس نقطہ نظر سے درس نظامی میں شامل ہے جس کی وجہ سے اس کی طرف توجہ بہت کم ہوتی ہے۔

    مولانا عبداللہ صاحب کے طالبان کے ساتھ براہ راست مراسم تھے اور وہ انقلابی ذہن کے حامل تھے، ان کی شہادت کے بعد برادران میں شدت آنا فطری عمل تھا، خصوصاً جب مظلوم کو عدالت سے انصاف نہ ملے اور نہ اس کی بات سنی جائے۔ چنانچہ جامعہ حفصہ کو ختم کرنے کے لیے ان کی سوچ میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے مزید شدت پیدا کی گئی تاکہ وہ ایسا اقدام کریں جس سے قانونی گرفت میں آسکیں اور آپریشن کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سات اعلیٰ تعلیم یافتہ جن میں بعض اعلیٰ افسران کی بیویاں بھی تھیں ان کو تربیت دی گئی، جہاد کی آیات و احادیث، طاغوتی نظام کے خلاف جان دے دینے کے جذبات پر مشتمل اشعار، تاریخ میں اصحاب عزیمت کے واقعات، پرجوش تقاریر، اور ذہن سازی کی تربیت دی گئی۔ پھر ان خواتین نے جامعہ حفصہ میں آنا شروع کیا۔ ام حسان اور غازی برادران سے تعلقات مضبوط کیے۔ جامعہ میں تعلیم لینا شروع کی اور طالبات میں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، ان کی ذہن سازی شروع کی۔ فحاشی اور عریانی کے خلاف طاقت کا استعمال، اسلامی نظام کے لیے عملی جہاد کا ذہن بنایا۔ اس محنت کے نتیجے میں ۷۰ طالبات جن میں لیڈر شپ کی کوالٹی تھی تیار ہوگئیں۔ ان طالبات میں بھی بعض طالبات کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ خفیہ ایجنسی کی تربیت یافتہ ہیں۔ ان کی پر جوش تقاریر سے انقلابی سوچ اور جہادی جذبہ اس قدر عروج پر تھا کہ معاملہ اب غازی برادران کے بس میں بھی نہ تھا، اور خلاف قانون اقدام ہونا شروع ہوئے اور آپریشن لمبا کرنے کے حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آخری لمحات تک یہ نمائندہ خواتین جامعہ میں رہیں تاکہ جذبات میں کمی نہ آنے پائے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ان خواتین کو بحفاظت باہر لایا گیا اور منظر سے غائب کر دیا گیا۔ ان خواتین کے صحیح ایڈریس شاید اب ام حسان کو بھی معلوم نہ ہوں کیوں کہ اپنے تعارف کے متعلق جو معلومات دیں، وہ سب غلط تھیں۔

  2. بعض وزراء جو علماء سے دوستی کے رنگ میں منافقت کر رہے تھے اور علماء سے ذاتی گہرے مراسم رکھتے تھے وہ بھی غازی برادران کو ملاقاتوں میں کہتے تھے کہ تم اپنے مطالبات میں حق پر ہو، اپنے مقصد پر ڈٹ جاؤ۔ ان کا اصل مقصد بھی آپریشن کا جواز پیدا کرنا تھا جبکہ میڈیا پر ان کے بیان اور تھے۔
  3. مولانا صاحب! ایک ملنے والے اسلام آباد خفیہ سرکاری ایجنسی کے ملازم ہیں۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ بندی ہو چکی ہے کہ بڑے بڑے دینی مدارس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبا و طالبات کو داخل کیا جائے گا جس کا اہم مقصد طلبا اور اساتذہ میں نفرتیں پیدا کر کے مقابلہ میں لانا ہوگا تاکہ اساتذہ پر اعتماد کی فضا ختم ہو۔ یہ طلبا دین پر عمل کرنے میں اساتذہ کی نظر میں دوسروں سے ممتاز ہوں گے۔ اساتذہ کا خصوصی قرب حاصل کریں گے، عربی، انگریزی، دینی علوم میں ممتاز اور قوت بیان کی خصوصی تربیت یافتہ ہوں گے۔
  4. طالبات مذکورہ بالا مقصد کے علاوہ مزید یہ کام انجام دیں گی کہ مدرسہ سے اچانک غائب ہوں گی، ان کے سرپرست جامعہ کی انتظامیہ سے رابطہ کریں گے۔ آخر معاملہ متعلقہ تھانہ تک جائے گا، اور میڈیا کے ذریعہ بنات کے مدارس کو بدنام کیا جائے گا۔
  5. یہ طلبا اور طالبات منتظمین کے سرکاری انتظامیہ سے خفیہ تعلقات استوار کرائیں گے اور ڈالروں کے ذریعہ ان کو خرید کر اپنے وفاقوں سے بدگمان کیا جائے گا، اور مزید دوسرے مقاصد میں استعمال کیا جائے گا۔
  6. پبلک مقامات پر تربیت یافتہ لوگ عوام سے مدارس اور علماء کے کردار پر بحث و مباحثہ کریں گے اور عوام میں مدارس اور علماء کی نفرت پیدا کریں گے اور جو چینل مدارس، علماء اور اختلافی مسائل پر زیادہ مذاکرے کرائے گا، اسے مراعات دی جائیں گی۔
  7. اسکولوں سے یونیورسٹی کی سطح تک تفریح گاہوں اور پبلک مقامات پر تربیت یافتہ تنخواہ دار مرد و خواتین مغربی تہذیب و تمدن پھیلانے کے لیے اپنے لباس اور حرکتوں سے ایسے امور انجام دیں گے کہ آہستہ آہستہ ان کی برائی ختم ہو اور یہ ذہن بنے کہ ہر آدمی آزاد ہے، کسی کو روک ٹوک کرنا گویا ایک عظیم جرم ہے۔ یہ نوجوان اس مقصد کے لیے ملازم ہوں گے۔ یومیہ آٹھ گھنٹے مختلف پبلک مقامات پر اپنے لباس اور حرکتوں سے یہ امور انجام دیں گے۔
  8. یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر مخلوط محافل موسیقی اور ناچ ہوگا جس کا خرچ غیر ملکی تنظیمیں برداشت کریں گی، یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کو یہ تنظیمیں اپنے خرچ پر پہاڑی مقامات کی سیر کرائیں گی جہاں ان کا قیام و طعام اکٹھا ہوگا، گانا اور ناچ کے مقابلے ہوں گے اور غیر ملکی سفر کے ٹکٹ دے کر لڑکے اور لڑکی کو باہر بھیجا جائے گا اور باہر بریفنگ کے ذریعے ان کی ذہن سازی کی جائے گی اور اپنا نمائندہ بنایا جائے گا۔
  9. بعض فوجی افسران کو درس نظامی کا مختصر نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ وہ علماء کے رنگ اپنا کر مدارس کے منتظم بنیں گے اور ان کے کردار پر طویل منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
  10. تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران باقاعدہ مقیم ہیں، جماعتوں میں جاتے ہیں، بعض اب منبر سے ہدایات بھی دیتے ہیں، مشوروں میں باقاعدہ شامل ہوتے ہیں اور بزرگوں کی صف میں شامل ہو کر مکمل کنٹرول کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

حضرت مفتی صاحب! آپ غور فرمائیں کتنی طویل منصوبہ بندی مذہبی طبقہ کے لیے ہو رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں کیا دینی طبقہ اپنی پوری ذمہ داری کا احساس کر رہا ہے؟ اس سلسلہ میں چند تجاویز ارسال خدمت ہیں۔ شاید علماء ان پر غور فرما لیں:

  1. مدارس میں عرصہ سے تربیت کا نظام نہایت کمزور ہو چکا ہے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق صرف کتاب تک اور درسگاہ تک محدود ہے جس کی وجہ سے دینی مزاج نہیں بن رہا، لہٰذا تربیتی نظام کو مضبوط ترین کرنے کی ضرورت ہے۔
  2. حضرت امام احمد ؒ کا قول ہے: علم سے قبل حکمت سیکھو۔ لہٰذا سیرت کا مضمون باقاعدہ سبقاً پڑھایا جائے اور واقعات کے نتائج پر خصوصی توجہ دی جائے۔ خصوصاً وہ واقعات جن میں حالات کے پیش نظر حکمت سے کام لیا گیا، جذبات میں جوش پیدا کرنے والے واقعات کے باوجود تحمل و برداشت سے امور انجام دیے۔ ان واقعات پر خصوصی توجہ دی جائے۔
  3. ملکی آئین و دستور اور قوانین کا مختصر تعارف، جدید معیشت و تجارت، تاریخ اسلام مکمل ضرور پڑھائے جائیں۔
  4. آپ اکثر سفر پر رہتے ہیں۔ حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کرتے ہیں۔ آپ کو تجربہ ہے کہ ان کے موقف کو سمجھنے اور ان کے دجل و فریب سے بچنے کے لیے انگریزی کی اعلیٰ مہارت کتنی ضروری ہے، جبکہ یہ دوسری قومی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اور پہلی جماعت سے سرکاری اسکولوں میں اردو کے علاوہ تمام مضامین کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے۔ لہٰذا مدارس دینیہ کے اصل مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
  5. بنات کا نصاب میں پڑھ چکی ہوں۔ اس نصاب سے حضرات کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس کی ترتیب سے میرے اساتذہ بھی مطمئن نہ تھے۔ اس نصاب پر غور کی ضرورت ہے۔
  6. دینی مدارس کا مقصد اخلاقی تربیت کے ساتھ دینی علوم میں اعلیٰ مہارت اور دینی راہنمائی کرنے والے اہل علم تیار کرنا ہے، کیا یہ نصاب پڑھ کر فارغ ہونے والے معاشرہ کی دینی ضروریات کو سمجھ کر دینی راہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں گے؟ لہٰذا گزارش ہے کہ موجودہ صدی میں معاشرتی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنات اور اعدادیہ کے نصاب پر خصوصی توجہ دی جائے اور مرحلہ وار بنین میں ترامیم اس طرح کی جائیں کہ اصل مقصد فوت نہ ہو اور معاشرہ کے بدلتے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو۔
  7. تمام مدارس کے اساتذہ اور فاضلات پردہ کے اہتمام کے ساتھ درس قرآن و حدیث کے ذریعہ عوامی رابطہ مہم شروع کریں۔
  8. بنات کے نصاب میں گھرداری، بچوں کی نگہداشت، سسرالی رشتوں سے نباہ، عورتیں دین کا کام کیسے کریں، جیسے مضامین ضرور پڑھائے جائیں۔ دینی کام کرنے کا جو رخ جامعہ حفصہ کی طالبات سے سامنے آیا، اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے۔ گھرداری اور بچوں کی نگہداشت کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اختیاری مضامین میں کافی مواد آچکا ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
  9. معلمین اور معلمات نے تدریسی کام کیسے کرنا ہے، یہ مستقل سائنس ہے۔ مگر مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں۔ حالانکہ تدریسی میدان میں طلبا کی نفسیات اور تعلیم کے قدیم و جدید طریقوں اور مہارتوں کا علم بہت ضروری ہے۔
  10. مساجد کے مؤذنین اور خدام علاقہ میں دینی ماحول بنانے میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں مگر اکثر بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ ان کے لیے شارٹ کورسز، اور تربیت کا کوئی ادارہ نہیں۔ علماء کی ایک جماعت کو اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
  11. علاقہ کے سنجیدہ علماء اپنے شہر کے ارکان اسمبلی اور ناظمین سے دینی معاملات میں باربار ملاقاتیں کریں اور کبھی کبھی مدارس کے ماحول میں بلا کر مانوس کریں۔ ان کے ذریعہ دینی آواز قانون ساز اداروں تک جائے گی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے امراء اور حکام سے تعلقات استوار کیے، خط و کتابت کی اس طرز سے کتنے فتنوں سے حفاظت ہوئی۔
  12. اہل مدارس جس طرح تدریس کے لیے علماء کا انتخاب کرتے ہیں اسی طرح ہر مدرسہ ایک سنجیدہ واعظ تعینات کرے اور اپنے شہر کو اور قریبی دیہات کو تیس (۳۰) یونٹ میں تقسیم کر لیں۔ ہر یونٹ میں مہینہ میں ایک مرتبہ مردوں اور عورتوں میں ان کی ضروریات کے اعتبار سے وعظ ہو۔ اس طرح ایک ماہ میں ایک دور مکمل ہوگا اور دینی فضا بنے گی اور علماء اور عوام کا رابطہ ہوگا۔ یہ واعظ صاحب درجہ ذیل امور کا اہتمام کریں:
    (۱) کسی قسم کا چندہ نہ کریں
    (۲) ہدیہ نہ لیں
    (۳) جن مسائل میں دو رائے ہو سکتی ہیں، بیان نہ کریں
    (۴) حالات حاضرہ پر تبصرہ نہ کریں
    (۵) ضروریات دین، اعمال صالحہ اور معاشرت و اخلاق، اصلاح معاملات پر گفتگو کریں، جس کے لیے آپ کے خطبات، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے خطبات اصلاحی مجالس، حضرت قاری محمد طیب صاحب کے خطبات کافی ہیں۔

حضرت مفتی صاحب! بعض وجوہات کی بنا پر مکمل تعارف کرانے سے معذور ہوں جس پر معذرت خواہ ہوں۔

فقط والسلام
آپ کی ایک بیٹی



   
2016ء سے
Flag Counter