آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس کے مطالبات

   
تاریخ : 
۲ جون ۲۰۰۲ء

۲۸ مئی ۲۰۰۲ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان کی طلب کردہ ’’آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس‘‘ دینی اور سیاسی راہنماؤں کا ایک اہم اجتماع ثابت ہوئی جس سے قومی سیاست اور دینی جماعتوں کی جدوجہد کے مستقبل کےحوالہ سے بہت سے نئے رجحانات سامنے آئے۔ کانفرنس میں دینی جماعتوں کی بھرپور نمائندگی تھی اور تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات موجود تھے۔ دیوبندی مکتب فکر سے خود مولانا فضل الرحمان کے علاوہ مولانا سمیع الحق، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا محمد حنیف جالندھری، اور مولانا صاحبزادہ عزیز احمد آف کندیاں شریف سمیت بیسیوں سرکردہ حضرات شریک تھے۔ بریلوی مکتب فکر کی نمائندگی دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ جنرل (ر) کے ایم ظہیر، پیر اعجاز احمد ہاشمی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، انجینئر سلیم اللہ خان اور صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے کی۔ اہل حدیث مکتب فکر کی نمائندگی کے لیے مولانا معین الدین لکھوی، پروفیسر ساجد میر، حافظ زبیر احمد ظہیر، حافظ عبد الرحمان مکی اور عبد القدیر خاموش تشریف فرما تھے۔ جبکہ اہل تشیع کی طرف سے علامہ ساجد نقوی اور علامہ علی غضنفر کراروی نے نمائندگی کی۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی سے جناب سید منور حسن، جناب لیاقت بلوچ، مولانا عبد المالک خان، جمعیۃ اشاعت التوحید و سنہ کی طرف سے مولانا اشرف علی، تنظیم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد اور ان کے ساتھ ساتھ ملی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی کے راہنماؤں اور آے آر ڈی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔ اس طرح یہ کانفرنس دینی و سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کے ایک اہم اجتماع کی حیثیت اختیار کر گئی۔

آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس کا ایجنڈا ایک نکتہ پر مشتمل تھا کہ حکومت نے مخلوط انتخاب کی آڑ میں ووٹرز فارم سے ’’عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ‘‘ خارج کرنے کا جو اقدام کیا ہے وہ قادیانیوں کو چور دروازے سے مسلمانوں کی صف میں شامل ہونے کا موقع دینے کی کوشش ہے اور دستور کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے حکومت اس فیصلہ کو واپس لیتے ہوئے ووٹرز فارم میں ختم نبوت کے عقیدہ کا حلف نامہ بحال کرے۔ اجلاس کے تمام شرکاء نے اس ایک نکاتی ایجنڈے سے اتفاق کرتے ہوئے مذکورہ مطالبہ کی حمایت کی۔

اس موقع پر صحافی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب سعید آسی نے کانفرنس کے شرکاء کی اس پہلو کی طرف توجہ دلائی کہ ووٹرز فارم سے عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کے مقاصد تو پورے ہو چکے ہیں۔ کیونکہ اس دوران نئے ووٹروں کا اندراج مکمل ہو چکا ہے جو حلف نامہ کے بغیر ہے اور اس طرح جن قادیانیوں نے اپنے ووٹ مسلم ووٹر کے طور پر درج کرانے تھے وہ درج ہو چکے ہیں۔ اب اگر حکومت اس حلف نامہ کو دوبارہ ووٹر فارم میں شامل کرنے کا مطالبہ منظور کر بھی لے تو اس سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ حلف نامہ خارج کرنے کے اقدام کے ذریعہ قادیانی جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ انہوں نے حاصل کر لیے ہیں۔ اس نکتہ کا کانفرنس کے شرکاء نے بطور خاص نوٹس لیا اور کانفرنس کے متفقہ مطالبہ میں اس بات کو شامل کرنے پر متعدد مقررین نے زور دیا کہ حلف نامہ خارج کرنے کے بعد جو نئے ووٹ درج کیے گئے ہیں ان کے اندارج پر نظر ثانی کی جائے اور تحریک ختم نبوت کے قائدین کو اعتماد میں لے کر اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔

مولانا منظور احمد چنیوٹی اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ ووٹرز فارم میں عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ دوبارہ شامل کرنے کے علاوہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کا اضافہ بھی ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ موجود ہے تو جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر پاسپورٹ جاری ہوتا ہے اس میں مذہب کا خانہ بڑھانے میں کیا رکاوٹ ہے؟

کانفرنس میں یک نکاتی ایجنڈے کے حوالہ سے طے ہوا کہ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر ووٹرز فارم میں عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ دوبارہ شامل کیا جائے ورنہ اس کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس تحریک کے لیے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کو دوبارہ متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تحریک کا طریق کار اور دیگر تفصیلات طے کرنے کے لیے آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ’’سٹیئرنگ کمیٹی‘‘ قائم کی گئی جو ۶ جون کے فورًا بعد اجلاس کر کے لائحہ عمل طے کرے گی۔ اس یک نکاتی ایجنڈے کے علاوہ کانفرنس میں اور بھی بہت سے امور زیر بحث آئے اور اگرچہ اسٹیج کی طرف سے بار بار توجہ دلائی جاتی رہی کہ گفتگو کو کانفرنس کے ایجنڈے تک محدود رکھا جائے مگر مقررین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف مسائل پر جذبات کا اظہار کیا اور اپنا موقف پیش کیا۔

نوابزادہ نصر اللہ خان نے قادیانیت کا سیاسی پس منظر بیان کیا اور کہا کہ یہ فتنہ انگریزوں نے جہاد کے حوالہ سے مسلمانوں کے عقیدہ اور جذبہ کو کمزور کرنے کے لیے جنم دیا تھا۔ انہوں نے قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کے بہت سے اشعار اور ارشادات کا حوالہ دیا کہ وہ قادیانیت اور اس کی دعوت و تعلیم کو مسلمانوں کے لیے غلامی کا پیغام سمجھتے تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے کہا کہ صرف ختم نبوت کے حلف کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کا پورا دستور سازشوں کی زد میں ہے اور اسے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ ۱۹۷۳ء کا دستور ختم کر دیا گیا تو اس ملک میں نیا دستور نہیں بن سکے گا اور جو دستور بنے گا وہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا دستور نہیں ہوگا۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اصل بات امریکہ کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کی ہے کیونکہ جب تک غلامی کا یہ طوق ہماری گردن سے نہیں اترتا اس قسم کے جزوی مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم ان کے حل میں لگے رہیں گے۔ اصل مسئلہ قومی آزادی کی بحالی کا ہے اور ہمیں عالمی استعمار سے مکمل آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کے لیے ایک نئی جنگ آزادی کا آغاز کرنا ہوگا۔

راقم الحروف نے اس طرف توجہ دلائی کہ عقیدۂ ختم نبوت کے علاوہ اور مسائل بھی بیرونی دباؤ کی زد میں ہیں:

  • امریکی کانگریس کی قرارداد کے بعد قادیانیوں کو مسلمانوں کی صف میں دوبارہ شامل کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے جس کی پہلی قسط ووٹرز فارم سے عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامہ کا اخراج ہے،
  • تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے،
  • حدود آرڈیننس پر نظر ثانی کےلیے سرکاری کمیٹی نے کام مکمل کر لیا ہے،
  • خاندانی نظام، نکاح و طلاق اور موروثیت کے قوانین میں رد و بدل کے لیے مسودات تیار ہیں،
  • اور سودی نظام کے بار ےمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے حوالہ سے اسے معطل کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔

اس لیے دینی حلقوں کو اس صورتحال پر نظر رکھنی چاہیے اور اگر تحفظ ختم نبوت کے فورم سے مناسب نہ ہو تو متحدہ مجلس عمل یا کسی اور فورم سے ان مسائل پر سنجیدہ کام ہونا چاہیے۔

کانفرنس میں شریک ملت پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے نمائندوں نے بہت عمدہ بات کی کہ ختم نبوت کا عقیدہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے اس لیے تحفظ ختم نبوت کا مسئلہ صرف دینی جماعتوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter