یہ بھی امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے!

   
تاریخ اشاعت: 
۱۶ اکتوبر ۱۹۹۹ء

دہشت گردی کی موجودہ لہر کے بارے میں وفاقی وزیرداخلہ کے اس بیان کے بعد صورتحال کچھ کچھ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ یہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی کارستانی ہے جس کا مقصد پاکستان کے داخلی امن کو تباہ کر کے جنوبی ایشیا کی معروضی صورتحال میں اس کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ اس دہشت گردی میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں، خود ہمارے شہرے گوجرانوالہ میں تحریک جعفریہ کے ڈویژنل صدر اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر اعجاز حسین رسول نگری کا قتل ایک شریف شہری اور امن پسند راہنما کا قتل ہے جس کا مجھے ذاتی طور پر بہت افسوس ہے۔ اعجاز رسول نگری مرحوم شیعہ رہنما تھے مگر ان لوگوں میں سے تھے جو مسائل کو الجھانے کی بجائے سلجھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، ضلعی امن کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے وہ امن کی بحالی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے، اہل تشیع کی وکالت پورے اعتماد کے ساتھ کرتے تھے لیکن مخالفین کی بات بھی حوصلہ کے ساتھ سننے کے عادی تھے، میرے ساتھ ان کے اچھے مراسم تھے جب ملتے احترام سے ملتے اور مشترکہ مسائل پر تعاون کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں شیعہ اور سنی رہنماؤں کا قتل بہت افسوسناک ہے اور ملک کے ہر باشعور شہری نے اس کی مذمت کی ہے۔

مگر اس قتل عام کی آڑ میں ملک کے مختلف حصوں میں پولیس نے جس وسیع تر ایکشن کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی کم افسوسناک نہیں ہے۔ گوجرانوالہ میں بڑے دینی مدارس مدرسہ نصرۃ العلوم، مدرسہ اشرف العلوم، جامعہ قاسمیہ، جامعہ حقانیہ، ریحان المدارس اور مدرسہ فیضان سرفراز پر چھاپے مارے گئے اور مولانا محمد نعیم اللہ اشرفی، حافظ محمد ریاض خان سواتی، حافظ محمد عرباض خان سواتی اور دیگر حضرات کو گرفتار کیا گیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ضلع گوجرانوالہ میں جن علماء اور دینی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا یا انہیں حراست میں لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سپاہ صحابہؓ کے کارکن بھی ہیں، جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام بھی ہیں، پاکستان شریعت کونسل کے ارکان بھی ہیں اور ایسے حضرات بھی ہیں جن کا کسی دینی جماعت کے ساتھ کوئی باضابطہ تعلق نہیں ہے۔ مگر پولیس کسی جماعت کی تفریق کیے بغیر ہر اس دیوبندی عالم اور کارکن پر نظر رکھے ہوئے ہے جو کسی نہ کسی حوالہ سے اپنے علاقہ میں متحرک ہے اور ہر وہ دینی مدرسہ پولیس ایکشن کی زد میں ہے جہاں طلبہ کی ایک معقول تعداد دینی تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ان مدارس سے طلبہ کے نام پتے اور کوائف طلب کیے جا رہے ہیں اور مدارس کے خلاف پولیس کی کارروائی کے انداز سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ ہوا ہی اس لیے ہے کہ اس کی آڑ میں دینی مدارس کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کی کوئی صورت نکالی جائے۔

آج سے آٹھ برس قبل امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے حوالہ سے عالم اسلام کے بارے میں ایک امریکی پلان کی کچھ تفصیلات سامنے آئی تھیں جو مبینہ طور پر وائس آف امریکہ نے ۱۶ مارچ ۱۹۹۱ء کو نشر کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ پاکستان کے معروف دانشور اور قومی اسمبلی کے مسلم لیگی رکن پروفیسر ڈاکٹر نور محمد غفاری نے کیا تھا اور روزنامہ جنگ نے ۲۵ جولائی ۱۹۹۲ء کو اسے شائع کیا ہے۔ اس میں واضح طور پر جن اہداف کا اعلان کیا گیا ہے ان میں یہ بات شامل ہے کہ مذہبی قوتوں کو آپس میں لڑانے کی منصوبہ بندی کی جائے، اسلامی سوچ رکھنے والے دانشوروں کو اقتدار اور میڈیا سے دور رکھا جائے، عام مسلمانوں کو ان سے دور اور متنفر کرنے کی کوشش کی جائے اور مذہبی جماعتوں کے باہمی جھگڑوں اور تنازعات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ بات اگر کسی امریکی پلان کا باضابطہ حصہ نہ ہو تب بھی امریکہ عالم اسلام میں دینی قوتوں کو کچلنے، اسلامی نظام کی راہ روکنے اور اپنی بالادستی کو مستحکم کرنے کے لیے جو عزائم رکھتا ہے ان کی تکمیل کے لیے مذہبی قوتوں کا باہم دست و گریبان ہونا ضروری ہے کیونکہ عالم اسلام میں امریکی عزائم اور بالادستی کو اگر کوئی قوت چیلنج کر سکتی ہے تو وہ صرف مذہبی قوت ہے، باقی کم و بیش سارے طبقے امریکی بالادستی کے سامنے سرنڈر ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ امریکہ کی ضرورت ہے کہ شیعہ اور سنی آپس میں ایک دوسرے کا خون بہائیں، دیوبندی اور بریلوی آمنے سامنے محاذ آرا ہوں اور اہل حدیث اور حنفی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں۔

اس پس منظر میں اب تک کے حالات کے پیش نظر جو خدشات محسوس ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے نام سے اس باہمی قتل و قتال کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اس کے لیے اگلے دو ماہ بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اکتوبر اور نومبر میں دینی حلقوں کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ مریدکے میں اہل حدیث مکتب فکر کی لشکر طیبہ، ملتان میں بریلوی مکتب فکر کی دعوت اسلامی، رائے ونڈ میں دیوبندی مکتب فکر سے منسوب تبلیغی جماعت اور دیگر دینی جماعتوں کے اجتماعات تسلسل کے ساتھ ان دو مہینوں میں ہو رہے ہیں۔ چند سال قبل انہی اجتماعات کو دیکھ کر ایک مغربی صحافی نے لکھا تھا کہ ’’وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان میں بنیاد پرست اتنی بڑی تعداد میں رہتے ہیں‘‘۔ اس لیے امریکہ کی مجبوری ہےکہ وہ اگر جنوبی ایشیا میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتا ہے تو ان اجتماعات کی قوت کو آپس میں الجھا دے اور خاص طور پر دیوبندی حلقہ کے گرد مختلف قسم کی سازشوں کا حصار سخت کرتا جائے جسے نہ امریکہ بلکہ تمام مغربی قوتیں جنوبی ایشیا میں اپنا اصل حریف سمجھتی ہیں۔

اس لیے ہم ملک بھر کی دینی قوتوں سے بالعموم اور دیوبندی مکتب فکر کی جماعتوں سے بالخصوص عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اس سازش کو پہچانیں اور عالمی استعمار کے اس مقصد کو سمجھیں کہ وہ انہیں مختلف محاذوں پر الجھا کر ان کی توجہ خود سے ہٹانا چاہتا ہے تاکہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے اپنے ایجنڈے پر چلنے کے لیے آمادہ کر سکے۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے حکمران طبقات مثلاً فوج اور بیوروکریسی کے علاوہ جاگیردار اور صنعتکار طبقوں کے ان افراد سے بھی ہم یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی سالمیت، قومی خودمختاری اور اسلامی اقدار کے تحفظ سے دلچسپی رکھتے ہیں کہ اب امریکی یلغار کے راستہ میں آپ کی آخری دفاعی لائن یہی مذہبی طبقہ ہے، دینی جماعتیں ہیں، دینی مدارس ہیں اور مختلف مکاتب کے سنجیدہ علمی حلقے ہیں۔ اس دفاعی لائن کو خود اپنے ہاتھوں سے کمزور نہ کریں بلکہ اسے توڑنے کی عالمی سازشوں کا ادراک حاصل کر کے ان کا سدباب کریں ورنہ اس کے بعد کچھ بھی نہیں بچے گا۔ یہ بات حکمران طبقات کے ہر ہر فرد کو یاد رکھنی چاہیے کہ دینی حلقے تو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر عالمی استعمار کے خلاف صف آرا ہیں، وہ موت کی وادی سے گزر کر بھی سرخرو رہیں گے اور تاریخ ان کا نام ہمیشہ احترام سے لے گی مگر ان کے خون کی قیمت پر استعمار سے زندگی اور اس کی سہولتوں کی بھیک مانگنے والے زندہ رہ کر بھی ذلت و رسوائی سے اپنا دامن نہیں بچا سکیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter