حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ

   
تاریخ : 
یکم فروری ۲۰۰۴ء

حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ پاکستان میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے آخری خلفاء میں سے تھے اور ان کے بعد ہمارے علم کے مطابق پاکستان میں اب ایسے کوئی بزرگ باقی نہیں رہے جنہیں حضرت مدنی نے اپنے روحانی سلسلہ میں خلافت سے نوازا ہو۔ بنگلہ دیش میں دو تین بزرگ ابھی موجود ہیں جن میں سے ایک بزرگ حضرت مولانا عبد الحق صاحب آف درگاپور ضلع سونام گنج کا میں ایک کالم میں تذکرہ کر چکا ہوں۔

حضرت مولانا قاضی مظہر حسین ۱۹۱۴ء کے دوران ضلع چکوال کے گاؤں بھیس میں پیدا ہوئے۔ عیسوی حساب سے شمار کیا جائے تو وفات کے وقت ان کی عمر نوے برس بنتی ہے، لیکن اگر ہجری سن کا اعتبار کیا جائے تو دو اڑھائی برس بڑھ جائیں گے اور ان کی عمر ترانوے برس شمار ہوگی۔ حضرت قاضی صاحب کے والد محترم حضرت مولانا کرم الدین دبیرؒ اپنے دور کے بڑے علماء میں سے تھے اور ان کی شہرت دور دراز تک تھی۔ انہوں نے قادیانیت اور روافض کے خلاف اہل سنت کے موقف کے دفاع میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ قادیانیوں کے ساتھ ان کی عدالتی معرکہ آرائی ’’تازیانۂ عبرت‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے جبکہ روافض پر ان کی معرکۃ الآراء کتاب ’’آفتابِ ہدایت‘‘ نے خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ وہ اپنے دور کے معروف مناظر اور واعظ تھے اور انہوں نے بہت سے مناظروں اور مباحثوں میں حصہ لیا۔

مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی، گورنمنٹ ہائی سکول چکوال سے ۱۹۲۸ء میں میٹرک کیا، اس کے بعد دارالعلوم عزیزیہ بھیرہ میں درس نظامی کی تعلیم پائی اور ۱۹۳۹ء میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث مکمل کر کے سندِ فراغت حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے علاوہ علامہ شمس الحقؒ افغانی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ اور حضرت مولانا پیر مبارک شاہؒ جیسے اکابر شامل ہیں۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کا سن ولادت بھی ۱۹۱۴ء ہے جبکہ انہوں نے دارالعلوم میں دورۂ حدیث ۱۹۴۱ء میں کیا، ان کے بخاری شریف کے استاذ بھی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی ہیں۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا دینی، تعلیمی اور مسلکی امور میں ابتداء سے ہی ساتھ رہا۔ تینوں فضلائے دیوبند تھے اور حضرت مولانا حسین احمدؒ مدنی کے شاگرد تھے، اس لیے ذوق و مشرب مشترک تھا اور علمائے دیوبند کے مسلک کی ترویج اور دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے تینوں بزرگوں کا باہمی تعاون و اعتماد اور اشتراک و رابطہ اس حد تک آگے بڑھا کہ خاندانی تعلقات اور رشتہ داریاں بھی قائم ہوگئیں۔ میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد الحق خان بشیر جو گجرات کی امام ابوحنیفہؒ کے خطیب ہیں، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے داماد ہیں۔ جبکہ مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے بڑے فرزند مولانا قاری خبیب احمد عمر جو ان کے جانشین بھی ہیں، میرے بہنوئی ہیں۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے فرزند مولانا قاضی ظہور حسین صاحب اور مولانا قاری خبیب احمد عمر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے شاگرد ہیں۔ اس طرح مسلکی رفاقت اور تعلیمی ربط و مشاورت نے تینوں خاندانوں کو باہمی رشتوں سے منسلک کر دیا اور بحمد اللہ تعالیٰ یہ باہمی ربط و اعتماد مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔

ہمارے طالب علمی کے دور میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اکثر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تشریف لایا کرتے تھے اور ہمیں ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملا کرتا تھا، بلکہ مجھے اپنی تربیت و اصلاح میں بھی ان سے بہت استفادہ کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ کا تذکرہ مناسب ہوگا، طالب علمی کے ابتدائی ایام میں ’’صاحبزدگی‘‘ کے جراثیم چند برس تک میرے دماغ پر بھی مسلط رہے کہ میرے کپڑے عام درزی سے نہیں سلتے تھے، استری کیے بغیر رومال کندھے پر رکھنے کا روادار نہیں ہوتا تھا، نمائشی چشمہ ہر وقت آنکھوں پر ہوتا تھا، حسب موقع سر پر قراقلی اور ہاتھ میں چھڑی کا تکلف بھی پال رکھا تھا، اور دوسری طرف تحریر و تقریر اور تنظیمی کاموں کا ذوق بھی تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں طلبہ کی پہلی یونین ۱۹۶۳ء میں بنی جس کے صدر مولانا سید عطاء اللہ شیرازیؒ تھے جو نصرۃ العلوم کے فاضل ہوئے اور مدرسہ کے سکول میں ایک عرصہ تک ٹیچر رہنے کے بعد گزشتہ سال وفات پا گئے ہیں۔ میں اس یونین کا سیکرٹری تھا۔ ہم ہر جمعرات کو عشاء کے بعد طلبہ کا اجتماع منعقد کر کے تقریریں کیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ جمعرات کو ہمارے تشریف لائے ہوئے تھے، ہم نے ان سے طلبہ کے ہفتہ وار اجلاس میں شرکت کی درخواست کی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ میں نے اس محفل میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جدوجہد کے حوالہ سے تقریر کی۔ اگلے روز صبح ناشتہ کے وقت میں حضرت قاضی صاحبؒ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ انہوں نے رات کی میری تقریر کا ذکر چھیڑ دیا اور تعریف کی کہ تمہارا ذوق اچھا ہے، لیکن ساتھ میرے لباس اور ہیئت کذائیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت شیخ الہندؒ ایسے نہیں رہتے تھے۔

قاضی صاحبؒ نے یہ جملہ کچھ اس انداز سے کہاکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے دل سے کوئی چیز نکل کر اڑ گئی ہے۔ اور اس کے بعد سے آج تک میری صورتحال یہ ہے کہ گھر والے اپنی طرف سے ہر طرح کے تکلفات کا اہتمام کرتے ہیں لیکن میرے دل میں بحمد اللہ تعالیٰ کبھی کسی تکلف کا داعیہ پیدا نہیں ہوا اور صاحبزدگی کا وہ بت جو میرے قلب و دماغ میں اس سے قبل خاصی جگہ گھیرے ہوئے تھا، اس مردِ درویش کی ایک ہی ضرب سے ریزہ ریزہ ہوگیا۔

جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان میں میری عملی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تو حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور حضرت مولانا عبدا للطیف جہلمیؒ دونوں بزرگ جمعیۃ میں شامل تھے جمعیۃ کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ بعد میں دونوں بزرگ یکے بعد دیگرے جمعیۃ سے الگ ہوگئے اور جمعیۃ کی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ ان کا بعد بڑھتا گیا۔ جبکہ میں جمعیۃ کی پالیسیوں کے ساتھ مسلسل پیش رفت کی حالت میں تھا، لیکن اس کے باوجود میری نیازمندی اور ان کی شفقت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ میں کبھی کبھی زیارت اور دعاء کے لیے حضرت قاضی صاحبؒ کی خدمت میں حاضری دیا کرتا تھا اور مجھے اس بات کا ڈر بھی ہوتا تھا کہ حضرت قاضی صاحبؒ نے میرا کوئی نہ کوئی بیان سنبھال رکھا ہوگا جس پر مجھ سے جواب طلبی ہو سکتی ہے۔ اور اکثر ایسا ہو جاتا تھا کہ ان کے ریکارڈ میں سے میرا کوئی بیان یا تحریر ملاقات کے وقت اچانک نکل آتی اور مجھے اس کی وضاحت کرنا پڑتی۔ بزرگوں کے حوالہ سے میرا معمول یہ ہے کہ بحث سے گریز کرتا ہوں، اگر ایک آدھ مرتبہ کی وضاحت سے غلط فہمی دور کر سکوں تو کوشش کر لیتا ہوں لیکن اگر اس سے بات نہ بنے تو خاموشی سے ان کی بات سنتا رہتا ہوں اور اسے ان کی شفقت اور محبت کے باعث ان کا حق سمجھتا ہوں۔ حضرت قاضی صاحبؒ کے ساتھ بھی میرا معاملہ ایسا ہی تھا۔ ان کی خدمت میں حاضری پر میں بہت کچھ سنتا تھا اور کچھ نہ کچھ عرض بھی کر دیا کرتا تھا۔ ہمیشہ شفقت فرماتے، دعاؤں اور نصیحتوں سے نوازتے اور ایمان و زندگی کی حفاظت کے لیے وظائف کی تلقین بھی فرماتے تھے۔

حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کی جدوجہد دین کے ہر شعبے میں تھی لیکن دو باتوں کو ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی اور ان کی تگ و دو کا اکثر و بیشتر حصہ انہی دو امور کے گرد گھومتا تھا۔ ایک اہل سنت کے مذہب و عقائد کی ترویج اور دوسرا علماء دیوبند کے مسلک کا تحفظ۔ ان دو حوالوں سے وہ کسی مصلحت یا لچک کے روادار نہیں تھے اور کسی کو رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ ان کے نزدیک عقائد اور ان کی تعبیرات کے باب میں اکابر علماء دیوبند کی تصریحات ہی فائنل اتھارٹی کی حیثیت رکھتی تھیں۔ کسی بھی حلقہ یا شخصیت کی طرف سے اس سے ہٹ کر کوئی بات سامنے آتی تو کسی جھجھک کے بغیر اس کی تردید کر دیتے اور اس معاملہ میں ان کے ہاں کوئی ترجیحات یا پروٹوکول نہیں تھا۔
ایک بار انہوں نے مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ کی زندگی میں ان کی کسی تقریر یا تحریر پر گرفت کرتے ہوئے ایک پمفلٹ شائع کر دیا۔ اس کے بعد کسی مرحلہ پر میری ان کے ہاں حاضری ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضرت ! ضیاء الرحمان فاروقی یا میرے جیسے لوگوں کے خلاف آپ پمفلٹ شائع نہ کیا کریں۔ ہم آپ کے بچے ہیں، ہماری کسی بات میں غلطی دیکھیں تو خود بلا کر ڈانٹ دیا کریں اور سمجھا دیا کریں۔ ہم اس سطح کے لوگ نہیں ہیں کہ آپ ہمیں اپنے خلاف حریف بنائیں، یہ آپ کی شخصیت اور مقام کے خلاف ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے ایک جملہ فرمایا جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ ’’میں اپنی شخصیت کو دیکھوں یا مسلک کی حفاظت کروں؟‘‘

آج حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں تو میں اس حوالہ سے بھی غمزدہ ہوں کہ اب ہم سے جواب طلبی کرنے والا کون ہوگا، ہماری غلطیوں کی نشاندہی کون کرے گا، اور کس کی خدمت میں حاضر ہوتے وقت ہمارے دل میں ڈر ہوگا کہ فلاں بات کے بارے میں اگر انہوں نے پوچھ لیا تو ہم کیا جواب دیں گے؟ اللہ تعالیٰ اپنی جوارِ رحمت میں ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter