مدارس اور مغربی حکومتیں

   
تاریخ : 
اپریل ۲۰۰۴ء

دینی مدارس کے بارے میں مغربی ممالک کی دلچسپی اور سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مختلف ممالک کے سفارت کار، این جی اوز اور انسانی حقوق کے ادارے دینی اداروں کے ساتھ روابط اور ان کے حوالہ سے معلومات حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مالی تعاون اور فنی امداد کی پیشکشیں ہو رہی ہیں، اصلاحات کی باتیں ہو رہی ہیں، مدارس کے جداگانہ تشخص اور کردار پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، انہیں اجتماعی دھارے میں لانے کے عزائم ظاہر کیے جا رہے ہیں اور انہیں معاشرہ کا ’’کارآمد حصہ‘‘ بنانے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔

اس سب کچھ کے پیچھے ایک ہی سوچ کارفرما ہے کہ جنوبی ایشیا کے دینی مدارس نے عام مسلمانوں کے رضاکارانہ تعاون کے ساتھ دینی تعلیم کا جو الگ نظام قائم کر رکھا ہے اور حکومتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد رہتے ہوئے پالیسی اور طریق کار کے تعین میں آزادی کی وجہ سے ان کا جو جداگانہ تشخص مستحکم ہوتا جا رہا ہے اسے کسی نہ کسی طرح توڑ دیا جائے اور ’’اجتماعی دھارے‘‘ میں شامل کرنے کے خوش کن نعرے کے ساتھ انہیں ریاستی تعلیمی نظام کا حصہ بنا دیا جائے۔ کیونکہ مغربی دانشوروں کے تجزیہ کے مطابق مسلم معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے ساتھ عام مسلمانوں کی بے لچک وابستگی اور مغرب کی بالادست تہذیب میں ضم ہونے سے ان کے گریز کی اصل وجہ یہ دینی مدارس ہیں۔ کیونکہ دینی مدارس کے اس آزادانہ تعلیمی و معاشرتی کردار کی موجودگی میں بالادست مغربی تہذیب کے تسلط کے وہ تقاضے پورے ہوتے ممکن نظر نہیں آرہے جس کے لیے مغرب مسلسل دو صدیوں سے کوشاں ہے۔

اس پس منظر میں یورپی یونین کا ایک وفد ۱۸ مارچ ۲۰۰۴ء کو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی آیا۔ اس وفد کی قیادت اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کے مشیر برائے انسانی حقوق مسٹر مائیکل سمپل کر رہے تھے اور اس میں ایک خاتون سمیت چار یورپی نمائندوں کے علاوہ پاکستان کی ایک این جی او ’’انسان‘‘ کے ذمہ دار حضرات بھی شامل تھے۔ وفد نے مدرسہ میں تقریباً اڑھائی گھنٹے گزارے، مہتمم صاحب اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کے علاوہ طلبہ کی مختلف کلاسوں میں بھی وفد کے ارکان گئے، طلبہ سے گھل مل گئے، مدرسہ کے مختلف شعبے دیکھے، مہمان خانہ میں مدرسہ کی طرف سے ضیافت میں شرکت کی اور دفتر اہتمام میں ان کے ساتھ گفتگو کا ایک دور ہوا۔ اس گفتگو میں مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی، ناظم مولانا محمد ریاض خان سواتی اور مدرسہ کے استاذ مولانا محمد ظفر فیاض کے علاوہ راقم الحروف نے بھی حصہ لیا، دونوں طرف سے سوالات و جوابات کا سلسلہ چلا اور خوشگوار ماحول میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے نظام اور دینی مدارس کے عمومی کردار کے بارے میں وفد کے ارکان کو بریفنگ دی گئی۔ وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ وہ کراچی سے پشاور تک مختلف مدارس میں جا رہے ہیں اور ان کے نظام اور طریق کار کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ:

  1. ان مدارس کے جداگانہ نظام تعلیم کا مقصد کیا ہے؟
  2. ان کے مالی اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟
  3. یہ حکومت کی مداخلت اور امداد قبول کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟
  4. عصری تعلیم ان کے نصاب میں کیوں شامل نہیں ہے؟
  5. اور یہ مدارس اپنے نظام کو بہتر بنانے کے لیے وہ اصلاحات کیوں قبول نہیں کر رہے جو متعدد قومی اور عالمی حلقوں کی طرف سے تجویز کی جا رہی ہیں؟

ہماری طرف سے وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے مدرسہ میں ان کی آمد پر خوش آمدید کہا گیا اور ان کے سوالات کے جواب میں تفصیل سے گزارشات پیش کی گئیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

  • دینی مدارس کے تعلیمی نظام کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کا آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے ساتھ تعلق قائم رہے تاکہ انسانی سوسائٹی اپنی سوچ اور خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بجائے آسمانی تعلیمات کی راہنمائی میں زندگی گزارے۔ کیونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انسانی معاشرہ اپنی سوچ اور خواہشات پر عمل کرکے دنیا کی فلاح اور آخرت کی نجات حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی راہنمائی اور بالادستی کو قبول کرے۔
  • مسلم معاشرہ میں ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات زیادہ سے زیادہ عام ہوں، زیادہ سے زیادہ مسلمان دینی تعلیم حاصل کریں اور اس کے مطابق زندگی بسر کریں۔ ہماری اس جدوجہد کے دو حصے ہیں، ایک عام مسلمانوں کے لیے کہ ان تک قرآن و سنت کا پیغام اور تعلیمات پہنچتی رہیں اور ان کی دینی تعلیم اور راہنمائی کا سلسلہ قائم رہے اور دوسرا یہ کہ مسلم معاشرہ میں مسجد اور مدرسہ کا نظام باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کوالیفائیڈ امام، خطیب، حافظ، قاری، مدرس اور مفتی فراہم ہوتے رہیں تاکہ رجال کار کے فقدان کے باعث یہ ادارے ویران نہ ہوجائیں۔ مسجد اور مدرسہ کی ضرورت کے یہ افراد ملک کا کوئی ادارہ تیار نہیں کر رہا اس لیے یہ ذمہ داری دینی مدارس نے سنبھال رکھی ہے، اس لیے ہم ان مدارس میں ایسا تعلیمی نصاب و نظام اپنائے ہوئے ہیں کہ مسلم معاشرہ کو ضرورت کے مطابق امام، خطیب، حافظ، قاری، مفتی، مدرس اور مصنف فراہم ہوتے رہیں تاکہ مسجد و مدرسہ کا نظام کسی رکاوٹ کے بغیر چلتا رہے۔
  • عصری تعلیم اور جدید علوم ہمارے نصاب میں اس درجہ میں شامل نہیں ہیں جس کا دینی مدارس سے تقاضہ کیا جا رہا ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہماری تعلیمی پالیسی اور حکمت عملی کا یہ ایک اہم حصہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ حضرات کی کھیپ دوسرے شعبوں میں منتقل ہوجانے کی بجائے مسجد و مدرسہ کے نظام میں کھپتی رہے کیونکہ اگر ہمارے تعلیم یافتہ حضرات بھی دوسرے شعبوں میں چلے جائیں گے تو مسجد و مدرسہ کے نظام کے لیے مطلوبہ رجال کار کی فراہمی میں خلا واقع ہوگا اور یہ ہمارے اس نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے ہم نے بعض تحفظات اس ضرورت کے تحت اختیار کر رکھے ہیں، اس کا مطلب جدید علوم اور عصری تعلیم کی مخالفت نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کبھی اس کی مخالفت کی ہے البتہ ہماری خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ جدید علوم و فنون کی تعلیم کے لیے لوگ ریاستی اداروں کا رخ کریں اور ہمارے ہاں صرف دینی تعلیم دی جائے تاکہ دینی مدارس کے اس نظام تعلیم کے بنیادی اہداف متاثر نہ ہوں۔ اس کی دوسری وجہ اسباب و وسائل کی کمی ہے کہ ہمارے پاس اس قدر وسائل نہیں ہوتے کہ ہم جدید علوم و فنون کا اس طرح اہتمام کر سکیں جو ریاستی اداروں میں ہوتا ہے اور چونکہ اس کام کے لیے ریاستی ادارے اور نظام موجود ہے اس لیے ہم اس کی الگ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ البتہ اپنی ضروریات کی حد تک ہم بعض جدید علوم اور زبانوں کی تعلیم کی اہمیت کو محسوس کر رہے ہیں، اسی ضرورت کے تحت وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے میٹرک تک کا ریاستی نصاب قبول کر لیا ہے اور اسے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
  • اخراجات کے حوالے سے ہماری پالیسی شروع سے یہ رہی ہے کہ مدارس کا نظام عام مسلمانوں کے رضاکارانہ مالی تعاون کے ساتھ چلتا رہے اور اس کے لیے حکومتی امداد قبول نہ کی جائے۔ اس لیے کہ حکومتی امداد ہمیشہ مدارس کے نظام میں سرکاری اداروں کی مداخلت کا ذریعہ بنتی ہے اور ہم اسے قبول نہیں کر سکتے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اہداف و مقاصد کی طرف آزادانہ نظام کی صورت میں ہی صحیح طور پر پیشرفت کر سکتے ہیں۔
  • ہمیں رجسٹریشن اور ڈاکومنٹیشن سے بھی انکار نہیں ہے اور ملک کے کم و بیش ۸۰ فیصد مدارس ہمارے اندازے کے مطابق رجسٹرڈ ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سرکاری قانون کے تحت گزشتہ ربع صدی سے رجسٹرڈ چلا آرہا ہے جس کی قانون کے مطابق تجدید بھی کرائی جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت رجسٹریشن کے مروجہ طریقہ کو تبدیل کرکے نیا طریق کار رائج کرنا چاہتی ہے جس میں رجسٹریشن کے مقاصد کم اور سرکاری مداخلت اور کنٹرول کے عزائم زیادہ کارفرما ہیں، ہمیں اس طریق کار سے اختلاف ہے اور ہم رجسٹریشن کے نام پر سرکاری مداخلت اور کنٹرول کو قبول کرنے کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہیں۔
  • حکومت کی مداخلت اور امداد کو قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اس سے قبل یہ تجربہ کر چکے ہیں کہ درس نظامی کے ایک بڑے مدرسے جامعہ عباسیہ بہاولپور کو حکومت نے یہ کہہ کر تحویل میں لیا کہ اسے اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا، اس میں درس نظامی کے ساتھ عصری علوم پڑھائے جائیں گے اور اسے دینی و عصری علوم کی ایک مثالی درسگاہ بنایا جائے گا، چنانچہ اسے سرکاری کنٹرول میں لیا گیا، اسلامی یونیورسٹی قرار دیا گیا اور اس میں درس نظامی اور عصری علوم کا مشترکہ نصاب شروع کیا گیا لیکن آپ خود وہاں جا کر دیکھ لیں کہ اس نصاب سے درس نظامی کو مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے اور وہاں اب وہی نصاب پڑھایا جا رہا ہے جو دوسری سرکاری یونیورسٹیوں میں رائج ہے۔ دوسرا تجربہ ہمیں محکمہ اوقاف کے قیام کے وقت ہوا کہ ملک کے بیسیوں دینی مدارس محکمہ اوقاف نے یہ کہہ کر تحویل میں لیے کہ ہم ان کا نظام علماء سے بہتر چلائیں گے اور انہیں جدید خطوط پر منظم کیا جائے گا لیکن وفد کے ارکان سے ہماری گزارش ہے کہ وہ خود ان مدارس کا وزٹ کریں اور دیکھیں کہ ان مدارس کی آج کیا حالت ہے ؟ خاص طور پر جامعہ عثمانیہ گول چوک اوکاڑہ کو ضرور دیکھیں جو محکمہ اوقاف کے قبضے میں جانے سے قبل ایک بڑا دینی مدرسہ تھا مگر اب وہاں مدرسہ کا کوئی وجود نہیں ہے اور مدرسہ کے کمرے محکمہ اوقاف نے مختلف اداروں اور افراد کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔ چنانچہ اس تجربہ کے بعد ہم کوئی اور تجربہ نہیں دہرانا چاہتے۔
  • اس مرحلہ پر وفد کے پاکستانی ارکان میں سے کسی نے کہا کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے جو کام بھی سرکاری تحویل میں جاتا ہے اس کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔ اس پر راقم الحروف نے وفد کے برطانوی ارکان سے عرض کیا کہ ہمارے ہاں حکومتوں کا جو طریق کار اور معیار نظر آ رہا ہے اس کے بارے میں بطور شکوہ آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے اس خطے میں دو سو برس تک حکومت کی ہے مگر اپنے ان شاگردوں کو اچھے طریقے سے حکومت کرنے کا سلیقہ نہیں سکھایا، اب یہ معلوم نہیں کہ آپ نے صحیح تعلیم نہیں دی یا انہوں نے صحیح طریقے سے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے اس لیے یہ کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ آپ ہی کے کھاتے میں جاتا ہے۔
  • دینی مدارس کے نظام و نصاب کے لیے مجوزہ اصلاحات کے بارے میں گزارش ہے کہ ان میں جو بات ہمارے اہداف و مقاصد کے حوالہ سے مفید ہے اسے قبول کرنے سے ہمیں کوئی انکار نہیں ہے۔ یہ بات کسی بھی فورم سے آئے ہم خیر مقدم کریں گے اور قبول کریں گے لیکن جو بات ہمیں ہمارے بنیادی اہداف سے ہٹانے کے لیے ہو اور دینی مدارس کے کردار کا رخ تبدیل کرنے کے لیے ہو اسے ہم سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ’’سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘‘ کے جملے پر وفد کے ارکان چونکے اور دوبارہ اس کے بارے میں پوچھا تو راقم الحروف نے مکرر عرض کیا کہ جو اصلاح، ترمیم یا تجویز دینی مدارس کے رخ کو تبدیل کرنے اور بنیادی اہداف سے ہٹانے کے لیے ہو ہم وہ بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

اس طرح مذکورہ وفد دس سے ساڑھے بارہ بجے تک کا وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں مصروف طور پر گزار کر واپس روانہ ہوگیا۔ جہاں تک وفد کی آمد اور مغربی حکومتوں کا دینی مدارس کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرنے کی کوششوں کا تعلق ہے ہم اسے ایک صحیح اقدام سمجھتے ہیں اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اس سے غلط فہمیاں کم ہوں گی اور دینی مدارس کے تعلیمی و معاشرتی کردار کے بارے میں جو شکوک و شبہات خواہ مخواہ پھیلائے جا رہے ہیں ان کا ازالہ ہوگا۔ البتہ اس کے ساتھ مغربی حکومتوں اور دانشوروں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ان دینی مدارس کے بنیادی مقصد اور ان کے پیغام پر بھی توجہ دیں، ہم پورے خلوص اور شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب نے آسمانی تعلیمات کو انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے بے دخل کرکے انسانی سوچ اور خواہشات پر مبنی جو نظام دنیا کو دیا ہے اور جو تہذیب متعارف کرائی ہے اس نے انسانی نسل کو قلبی بے سکونی، ذہنی افراتفری اور معاشرتی انارکی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اور گزشتہ دو صدیوں کی مغربی کاوشوں کے نتائج نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ انسانی سوسائٹی آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی نگرانی میں ہی امن و سکون کی حقیقی منزل حاصل کر سکتی ہے، خدا کرے کہ مغربی سوسائٹی اسلامی دینی مدارس کے اس پیغام کو سنجیدگی کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہوجائے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter