حضرت درخواستیؒ کی پون صدی کی جدوجہد اور اہداف

   
تاریخ : 
۱۱ اکتوبر ۲۰۰۰ء

ماہِ رواں کی پہلی تاریخ کو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی یاد میں پاکستان شریعت کونسل کے زیرِ اہتمام ’’حافظ الحدیث کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کی سرکردہ دینی شخصیات کے علاوہ کراچی، حیدر آباد اور دیگر شہروں سے بڑی تعداد میں علماء کرام اور دینی کارکنوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کی پہلی نشست کی صدارت حضرت درخواستیؒ کے منجھلے صاحبزادے اور جامعہ مخزن العلوم خانپور کے نائب مہتمم مولانا حاجی مطیع الرحمان درخواستی نے کی، جبکہ دوسری نشست کی صدارت حضرت درخواستیؒ کے بڑے فرزند و جانشین اور پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے کی۔ کانفرنس سے خطاب کرنے والوں اور دیگر اہم شرکاء میں مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا ضیاء القاسمی، مولانا زر ولی خان، مولانا قاضی عبد اللطیف، مولانا بشیر احمد شاد، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا سیف الرحمان ارائیں، مفتی حبیب الرحمان درخواستی، مولانا قاری اللہ داد، بریگیڈیئر (ر) فیوض الرحمان اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر فضل احمد بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ کانفرنس میں راقم الحروف کو بھی کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے۔

حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستیؒ اپنے دور کے اکابر علماء کرام میں سے تھے اور انہوں نے کم و بیش پون صدی تک دینی علوم کی ترویج و اشاعت، اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ اور نظام شریعت کے نفاذ کے لیے عملی جدوجہد کی۔ اور اس میں پینتیس برس کا وہ عرصہ بھی شامل ہے جس میں وہ جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے علماء حق کے اس عظیم قافلہ کی متحرک قیادت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مجھے ۱۹۶۰ء میں حضرت درخواستیؒ کو قرآن کریم حفظ کا آخری سبق سنا کر ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا اور پھر ان کی وفات تک ان سے عقیدت و محبت اور وفاداری کا سلسلہ قائم رہا۔ ان کے ساتھ سفر و حضر اور جلوت و خلوت کی رفاقت کے اس طویل سلسلہ کی بے شمار یادیں ہیں جن کا تذکرہ شروع کردوں تو کسی ایک پہلو کا بھی اس محفل میں شاید احاطہ نہ ہو سکے۔ چنانچہ ان میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ ہے جس کا تعلق ہمارے آج کے حالات اور جدوجہد سے بھی ہے۔ اور چونکہ میں خود اس مورچے اور محاذ کا آدمی ہوں اس لیے طبعی طور پر اسی پہلو کو گفتگو کے لیے ترجیح دینا زیادہ پسند کروں گا۔

یہ پہلو حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کی زندگی بھر کی جدوجہد کے اہداف سے تعلق رکھتا ہے کہ انہوں نے پون صدی کی اس طویل جدوجہد میں کن اہداف کو سامنے رکھا اور کن مقاصد کے لیے وہ عمر بھر ایک مضطرب اور بے چین روح کی طرح طول و عرض میں دیوانہ وار گھومتے رہے۔ جن حضرات نے حضرت درخواستیؒ کو خصوصی مجالس اور عوامی اجتماعات میں گفتگو کرتے سنا ہے اور ان کے چار چار پانچ پانچ گھنٹوں پر مشتمل طویل خطبات و مواعظ کی محفلوں میں بار بار حاضری دی ہے وہ میری اس بات کی تائید کریں گے کہ حضرت درخواستیؒ کی جدوجہد اس ملک میں صرف اور صرف دینِ اسلام کے نفاذ اور اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے تعاقب کے لیے تھی۔ اور ان کی اس محنت و کاوش کو اہداف کے حوالہ سے سات خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  1. سب سے پہلے وہ اس ملک میں کفر و استبداد اور ظلم و استعمار کے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور اس کی جگہ اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے خواہاں تھے۔ اس مقصد کے لیے جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے پلیٹ فارم پر ان کی امارت میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا شمس الحقؒ افغانی، حضرت مولانا عبد الحقؒ، حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ، حضرت مولانا عرض محمدؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، حضرت مولانا پیر محسن الدین اور حضرت مولانا مفتی عبد القیوم پوپلزئی جیسے اکابر نے جدوجہد کی ہے، اور حضرت درخواستیؒ تیس برس سے زائد عرصہ تک امیر کی حیثیت سے اس قافلہ کی قیادت کرتے رہے۔
  2. دوسرے نمبر پر حضرت درخواستیؒ کی محنت عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور منکرین ختم نبوت کے تعاقب کے لیے تھی۔ وہ کم و بیش اپنے ہر تفصیلی بیان میں اس دینی فریضہ کا ذکر کرتے اور شرکائے محفل سے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کام کرنے کا عہد لیتے تھے۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے کئی عملی مہمات کی قیادت بھی کی جو تحریک تحفظ ختم نبوت کی تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
  3. تیسرے نمبر پر حضرت درخواستیؒ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ محبت و عقیدت کے جذبات کو بیدار کرتے تھے، ان کے واقعات اور کارناموں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کرتے تھے، اور ان کے ناموس کے تحفظ کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ وہ بعض حلقوں کی طرف سے حضراتِ صحابہ کرامؓ کے ایمان اور عدالت کے بارے میں کیے گئے اعتراضات و شبہات کا جواب دیتے تھے اور صحابہ کرامؓ پر اعتراض و تنقید کرنے والوں کو کھلے بندوں للکارتے تھے۔
  4. چوتھے نمبر پر حضرت درخواستیؒ کے خطابات و تقاریر کا ایک اہم موضوع ’’جہاد‘‘ ہوتا تھا۔ جس دور میں جہادِ افغانستان کا آغاز نہیں ہوا تھا وہ اس وقت بھی عام طور پر جہاد کے فضائل بیان کرتے اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کو جہاد میں حصہ لینے کی تلقین کرتے تھے۔ اور جب افغانستان میں جہاد کا عملی آغاز ہوا تو وہ اس جہادی تحریک کے پشت پناہ بن گئے، انہوں نے افغان علماء کی اس جدوجہد کو شرعی جہاد قرار دیا، اس کی حمایت میں ملک بھر کا دورہ کیا اور خاص طور پر افغانستان کی طویل سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں کا طوفانی دورہ اور تفصیلی دورہ کر کے علماء کرام اور عوام کو جہادِ افغانستان کی حمایت و نصرت کے لیے تیار کیا۔ پاکستان کے علماء کرام اور کم و بیش سب اہم دینی جماعتوں نے جہادِ افغانستان کی حمایت و اعانت کی ہے لیکن اس جہاد کی پشتی بانی میں جو عظیم کردار حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا عبد الحقؒ کا ہے وہ افغان جہاد کی تاریخ میں ایک مستقل اور روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
  5. پانچویں نمبر پر حضرت درخواستیؒ دینی مدارس کے قیام اور ان کی ترقی و استحکام کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ اس سلسلہ میں ملک بھر پر ان کی نظر ہوتی تھی، جس علاقہ میں دینی مدرسہ نہ ہوتا وہ خود وہاں جا کر علماء کرام کو دینی درسگاہ قائم کرنے کی ترغیب دیتے اور چندہ جمع کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کرتے۔ حضرت درخواستیؒ مدرسہ و مسجد کا سنگِ بنیاد رکھتے اور بعد میں بھی ان مدارس کی نگرانی و سرپرستی کرتے رہتے تھے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے مدارس کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں یقیناً ہوگی جو حضرت درخواستیؒ کی ترغیب و توجہ سے قائم ہوئے اور ان کی سرپرستی میں چلتے رہے۔ وہ ان مدارس کو دین کے قلعے کہا کرتے تھے۔ اس مردِ قلندر کی اس بات کا اعتراف آج کے بین الاقوامی میڈیا اور عالمی ادارے بھی کرنے پر مجبور ہیں جو نفاذِ اسلام کی جدوجہد، جہادی تحریکات، اسلامی علوم کے تحفظ و ترویج اور اسلامی معاشرت و تمدن کی بقاء کا سب سے بڑا سبب اور سرچشمہ ان مدارس کو قرار دے رہے ہیں۔
  6. چھٹے نمبر پر حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ علماء کرام، دینی کارکنوں، اپنے ارادت مندوں اور اپنے اجتماعات کے شرکاء کو اللہ اللہ کے ذکر کی خاطر خاص طور پر تلقین کرتے تھے۔ وہ عام اجتماعات میں اللہ اللہ کا ورد کراتے، سبحان اللہ ذوق و شوق سے کہنے کی ترغیب دیتے اور اللہ والوں کی مجالس میں جا کر ذکر اللہ سیکھنے اور دلوں کی صفائی کا درس دیا کرتے تھے۔ وہ جس جذب و کیف کے عالم میں کھلے جلسے میں کلمہ طیبہ اور تسبیحات و اذکار کا ورد کراتے تھے اس کے اثر سے بڑے بڑے سخت دل بھی موم ہوجایا کرتے تھے اور بہت سے لوگوں کی زندگیوں کے رخ تبدیل ہو جاتے تھے۔
  7. ساتویں نمبر پر مختلف دینی حلقوں، بالخصوص علمائے دیوبند سے تعلق رکھنے والی متعدد دینی جماعتوں اور مراکز میں باہمی ربط و مفاہمت کو فروغ دینا اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لا کر مشترکہ جدوجہد کے لیے تیار کرنا حضرت درخواستیؒ کا خصوصی ذوق تھا۔ مختلف جماعتوں اور مراکز کے اجتماعات میں شریک ہوتے، ان کے راہنماؤں کو اپنے اجتماعات میں بلاتے اور ایک دوسرے سے تعاون اور باہمی احترام کی تلقین کیا کرتے تھے۔

میں نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی جدوجہد کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان میں سے صرف سات اہم اہداف کا ذکر کیا ہے جو آج بھی ہماری دینی جدوجہد کے بنیادی مقاصد اور اہداف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی مقاصد ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے حوالہ سے ہمارے اہم دینی فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ اور ہمارے مرحوم پیشوا اور امیر حضرت درخواستیؒ رحمہ اللہ کے ساتھ نسبت و تعلق اور محبت و عقیدت کے پس منظر میں یہ اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ آئیے حضرت درخواستیؒ کے اس مشن اور جدوجہد کی تکمیل کے لیے مسلسل محنت اور کاوش کے عزم کی تجدید کرتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہوں کہ اللہ رب العزت حضرت درخواستیؒ کے درجات کو جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں آخر دم تک ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter