میاں اجمل قادری، سردار عبد القیوم اور اسرائیل

   
تاریخ : 
۱۵ جولائی ۲۰۰۳ء

مولانا میاں محمد اجمل قادری کا ’’دورۂ اسرائیل‘‘ ایک بار پھر اخبارات میں زیر بحث ہے۔ چند روز قبل انہوں نے کہا تھا کہ ان کے اسرائیل کے دورے کو میاں شہباز شریف کی حمایت حاصل تھی، لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمان پیر محمد بنیامین رضوی نے میاں شہباز شریف کی طرف سے اس کی تردید کر دی ہے۔ میاں محمد اجمل قادری نے اس بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ سردار محمد عبد القیوم خان سمیت بہت سے سیاسی لیڈر اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں، لیکن سردار صاحب نے بھی ایک بیان میں اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ کبھی اسرائیل نہیں گئے۔

میاں محمد اجمل قادری میرے مخدوم زادہ ہیں، وہ میرے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے فرزند و جانشین ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اپنے والد مرحوم کے قریبی ساتھیوں سے کٹنے کے بعد ان کا تعلق کسی حد تک ’’فرقہ ملامتیہ‘‘ سے قائم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اس قسم کے امور کا ان سے صدور عموماً ہو جاتا ہے۔ فرقہ ملامتیہ تصوف و سلوک کی لائن کے شاذ گروہوں میں شمار ہوتا ہے جس میں مریدین کو خاص طور پر اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اچھا بننے اور انسانوں سے داد وصول کرنے کی بجائے اپنا معاملہ صرف خدا سے رکھیں اور اس بات کی پروا نہ کریں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے اور کیا سوچتے ہیں، حتیٰ کہ کبھی کبھی ایسی حرکات بھی کر دیا کریں کہ لوگ انہیں اچھا سمجھنے کی بجائے ان کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار ہونے لگیں۔ سلسلہ ملامتیہ کے بعض بزرگوں کے نزدیک عام لوگوں کی ملامت سے ان کا سلوک پختہ ہوتا ہے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ محترم میاں محمد اجمل قادری نے بھی سلسلہ ملامتیہ کے بارے میں کچھ باتیں پڑھ لی ہیں اور وہ انہیں اچھی لگی ہیں، اسی لیے وقفہ وقفہ سے کوئی نہ کوئی ایسی بات فرما دیتے ہیں کہ کچھ دنوں تک اخبارات میں موضوع بحث بنے رہیں۔ ورنہ جہاں تک ان کے ’’دورۂ اسرائیل‘‘ کا تعلق ہے میرے نزدیک اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ لندن سے جو لوگ جارڈن ایئر کے ذریعے پاکستان یا بھارت آتے ہیں انہیں یہ سہولت مل جاتی ہے کہ عمان میں فلائٹ تبدیل کرنے کے وقفہ کے دوران، جو عموماً دس بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے، انہیں بذریعہ بس بیت المقدس لے جا کر واپس اگلی فلائٹ پر سوار کرا دیا جاتا ہے۔ بہت سے حضرات اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بیت المقدس کی زیارت سے مشرف ہو جاتے ہیں۔ برٹش اور بھارتی پاسپورٹ والوں کو تو کوئی دقت نہیں ہوتی کہ اسرائیل ان کے لیے ممنوعہ ملک نہیں ہے، البتہ پاکستانی پاسپورٹ کے حاملین کے لیے یہ بات مشکل ہوتی ہے جس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ اسرائیل کی سرحد پر سب کے پاسپورٹ امیگریشن کا عملہ اپنے پاس رکھ کر ایک راہداری جاری کر دیتا ہے جس پر پانچ چھ گھنٹے کا یہ سفر ہو جاتا ہے۔

مجھے اس طریق کار کا علم اس لیے ہے کہ چند سال قبل مجھے بھی اس کی پیشکش ہوئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اگر آپ جارڈن ایئر کے ذریعے لندن سے پاکستان واپسی کریں تو آپ بیت المقدس کی زیارت کر سکتے ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ کیسے ممکن ہے تو مجھے اس طریق کار کی خبر دی گئی اور کہا گیا کہ تیس چالیس برٹش اور بھارتی پاسپورٹوں کے گروپ میں ایک دو پاکستانی پاسپورٹ آسانی سے کھپ جاتے ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ بیت المقدس کی زیارت کی خواہش کے باوجود میں اس طریق کار کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ میں اسے درست نہیں سمجھتا اور اس لیے بھی کہ میرے جیسے شخص کا ’’خفیہ آنکھوں‘‘ سے اوجھل رہنا آسان نہیں ہوتا اور یہ ایسا رسک ہے جو کم از کم مجھے نہیں لینا چاہیے۔ ویسے تو میاں محمد اجمل قادری صاحب جرأت و حوصلہ والے بزرگ ہیں کہ انہوں نے یہ رسک لے لیا۔ لیکن اسے ہضم کرنے کا مرحلہ وہ آسانی سے عبور نہ کر سکے اور پھر وہ سب کچھ ہوتا چلا گیا جو ہم اس کے بعد وقفہ وقفہ سے اخبارات میں پڑھتے آرہے ہیں۔

محترم سردار عبد القیوم خان کی اس وضاحت سے مجھے اتفاق ہے کہ وہ یقیناً اسرائیل نہیں گئے ہوں گے، اس لیے کہ ان جیسا جہاندیدہ اور تجربہ کار بزرگ کسی طرح بھی ایسے رسک کا متحمل نہیں ہو سکتا، البتہ سردار صاحب محترم نے اس وضاحت کے ساتھ اسرائیل کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کر لینے کا جو مشورہ دیا ہے اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ سردار محمد عبد القیوم خان صاحب کا ارشاد ہے کہ

  1. بھارت کے ساتھ حالت جنگ کے باوجود سفارتی تعلقات قائم ہیں تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کیا حرج ہے؟
  2. دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے اس لیے اسے تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
  3. اس حوالے سے ان کا تیسرا ارشاد یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔

میرے خیال میں سردار صاحب محترم ان تینوں امور کے بارے میں مغالطوں کا شکار ہیں، لہٰذا ان کی کچھ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

جہاں تک پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات کا مسئلہ ہے اس کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقہ کے سوا باقی تمام برصغیر کی تقسیم دونوں ملکوں نے تسلیم کر رکھی ہے جو ۱۹۴۷ء میں عمل میں آئی تھی۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، ایک دوسرے کے درمیان سرحد کو بین الاقوامی سرحد کا درجہ دیتے ہیں، دونوں ملکوں کی حکومتیں و عوام اور دینی و سیاسی جماعتیں سب کی سب اسے ذہنی و عملی طور پر قبول کر چکی ہیں، اور ان کے درمیان سرحدی حوالے سے ریاست جموں و کشمیر کے سوا اور کوئی تنازعہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام اور تسلسل میں حالت جنگ کے باوجود کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ جبکہ فلسطین اور اسرائیل کی صورتحال اس سے قطعی مختلف ہے۔ دونوں کے درمیان سرے سے کوئی سرحد موجود ہی نہیں بلکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اگر اسے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا پڑا تو وہ اس شرط پر اس ریاست کو تسلیم کرے گا کہ اس کی کوئی سرحد نہ ہو اور اس کی اپنی کوئی فوج نہ ہو۔ پھر فلسطین کے عوام کی اکثریت، بیشتر عرب ممالک، متعدد غیر مسلم ممالک، اور بہت سی دینی و سیاسی جماعتیں فلسطین کی اس تقسیم کو ابھی تک قبول نہیں کر رہے جس کی بنیاد پر اسرائیل کی ریاست وجود میں آئی تھی۔ اس پس منظر میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنا اور اسے پاک بھارت سفارتی تعلقات پر قیاس کرنا نہ صرف حقائق اور انصاف کے اصولوں سے انحراف ہے بلکہ بچے کھچے فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے یہودی حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کے مترادف بھی ہے۔

سردار محمد عبد القیوم خان صاحب کا یہ ارشاد بھی ہمارے نزدیک محل نظر ہے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل کا وجود اور اس کا حقیقت نظر آنا ایک مصنوعی امر ہے جو امریکی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے۔ فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے لیے برطانیہ نے ۱۹۱۷ء میں فلسطین پر طاقت کے زور سے قبضہ کر کے برطانوی وزیر خارجہ کے ’’بالفور ڈکلیریشن‘‘ کے مطابق یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی تھی اور برطانوی فوجوں کی قوت پر یہودیوں کو فلسطین کے بہت سے حصوں کا قبضہ دلایا تھا۔ پھر اسرائیل کے قیام کے بعد امریکہ اس کی پشت پناہی کے لیے خود موجود ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحاد کی فوجیں اسرائیل کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں، عراق پر امریکہ کا قبضہ اسرائیل کی پشت پناہی کے لیے ہے، اور فلسطین میں یہودیوں کی موجودگی امریکی طاقت کے بل پر قائم ہے۔ اسے اگر سردار صاحب ’’حقیقت‘‘ قرار دیتے ہیں تو انہیں کشمیر کے مسئلہ پر بھی اپنے موقف سے دستبرداری اختیار کرنا پڑے گی کیونکہ اسی طاقت کے بل پر بھارت کشمیر میں موجود ہے- اس لیے اگر کسی جگہ طاقت کے زور پر کسی کی موجودگی اس کے ’’حقیقت‘‘ ہونے کے لیے کافی ہے تو پھر کشمیر میں بھارت کی موجودگی بھی ایک حقیقت ہے اور سردار صاحب کی منطق کی رو سے اسے تسلیم کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔

کشمیر کے بارے میں سردار عبد القیوم خان صاحب کا موقف یہ ہے کہ بھارتی فوجیں کشمیر سے نکل جائیں اور کشمیریوں کو اپنا فیصلہ کسی مداخلت کے بغیر خود کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہمیں سردار صاحب کے اس موقف سے سو فیصد اتفاق ہے لیکن ہم فلسطین کے حوالے سے بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ امریکی فوجیں عراق اور خلیج سے نکل جائیں اور فلسطین کے باشندوں کو اپنے معاملات کسی بیرونی مداخلت کے بغیر خود طے کرنے کا موقع دیا جائے۔ کیونکہ امریکہ کی سرپرستی اور اس کی فوجوں کی موجودگی میں عربوں اور فلسطینیوں سے اسرائیل کو تسلیم کرانا بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح کشمیر میں بھارتی فوجوں کی موجودگی میں ہونے والے انتخابات کو کشمیری عوام کی مرضی قرار دے کر بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل مسترد کرتا آرہا ہے۔ اور یہ بات سردار صاحب کے علم میں ہے کہ بھارت اپنے اس موقف پر عالمی برادری کے ایک بڑے حصے کو قائل بھی کر چکا ہے جسے مطمئن کرنے کے لیے سردار صاحب پاکستان کو اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔سردار محمد عبد القیوم خان صاحب سے ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ وہ لینے اور دینے کا پیمانہ ایک ہی رکھیں کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ اگر فلسطین میں طاقت کے زور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا گیا تو کشمیر میں اس اصول کو لاگو ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

سردار صاحب کا یہ کہنا کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے، یہ بات اگر کوئی سیکولر لیڈر یا دانشور کہتا تو ہمیں کوئی اشکال نہ ہوتا لیکن سردار محمد عبد القیوم خان کی زبان سے یہ جملہ سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون کا مسلسل ورد کرنے کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ اگر ۱۹۶۷ء کے اسرائیلی حملے میں شام کی گولان پہاڑیوں، مصر کے صحرائے سینا اور غزہ کی پٹی، اردن کے مغربی کنارے اور یروشلم (جس میں بیت المقدس واقع ہے) کا مسلمان سے چھن جانا، لاکھوں فلسطینیوں کا قتل عام، اور باقی ماندہ فلسطینیوں کو کسی سرحد اور فوجی تحفظ کے بغیر اسرائیلی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہمارے مسائل نہیں ہیں اور ان تنازعات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر سردار صاحب ہی فرمائیں کہ کشمیری مسلمانوں کے قتل عام اور کشمیر پر بھارت کے جارحانہ تسلط کے مسئلہ سے پنجاب، سندھ، سرحد، اور بلوچستان کے عوام کا کیا تعلق باقی رہ جاتا ہے؟ اور پھر مسئلہ کشمیر کو عالم اسلام کا مسئلہ قرار دینے اور تنظیم تعاون اسلامی (OIC) سے اس کے لیے قراردادیں منظور کرانے کی کیا تک باقی رہتی ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter