مولانا منظور احمد چنیوٹی کا عرب ممالک کا دورہ

   
تاریخ : 
۲۵ اپریل ۱۹۷۵ء

جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما مولانا منظور احمد چنیوٹی خوش قسمت ہیں کہ عقیدۂ ختم نبوت کے ساتھ والہانہ عقیدت کے باعث انہیں عرب ممالک میں اس مشن کی خدمت اور حرمین شریفین کی بار بار زیارت کا موقع ملتا رہتا ہے اور اس ضمن میں ان کی خدمات وقیع ہیں۔ جن دنوں پاکستان میں تحریک ختم نبوت جاری تھی مولانا موصوف سعودی عرب میں تھے اور تحریک کے عالمی سفیر کے طور پر اس محاذ پر کام کر رہے تھے جس کی اجمالی رپورٹ قارئین ترجمان اسلام میں پڑھ چکے ہیں۔

قادیانیوں کے بارے میں قومی اسمبلی کے فیصلے کے بعد بھی سعودی عرب میں مقیم پاکستانی احباب نے مولانا چنیوٹی کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے کی دعوت دی تاکہ قومی اسمبلی کے فیصلہ کے مضمرات اور نتائج سے عرب عوام کو آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ ۱۹ دسمبر کو کراچی سے جدہ پہنچے اور حرمین شریفین کی زیارت اور حج و عمرہ سے مشرف ہونے کے بعد حج پر آئے ہوئے مختلف ممالک کے وفود سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان قومی اسمبلی کے اس فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ضلع جھنگ کے موضع گھوڑی والا کا ایک قادیانی جوڑا محمد خان بھٹی اور اس کی زوجہ بھی مسلمانوں کے بھیس میں حج پر آئے ہوئے تھے، مولانا چنیوٹی نے ان کا تعاقب کیا اور پولیس سے رابطہ قائم کر کے انہیں گرفتار کرا دیا۔ مولانا کو کم و بیش دو ہفتے اس کیس کی پیروی پر لگے بالآخر انہوں نے قادیانیت سے توبہ کی۔ ہائی کورٹ نے یہ توبہ تو قبول کر لی لیکن اپنے فیصلہ میں اس توبہ کو ناقابل اطمینان قرار دیتے ہوئے گورنر مکہ سے کہا کہ انہیں سعودی عرب سے واپس بھیج دیا جائے اور ملک کی سرحد سے نکلنے تک یہ قیدی رہیں اور کوئی شخص ان سے ملاقات نہ کر سکے، چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔ اس کیس کی کچھ تفصیلات ’’نوائے وقت‘‘ اور دیگر جرائد میں شائع ہو چکی ہے۔

اس کے بعد مولانا چنیوٹی نے رابطہ عالم اسلام کے جنرل سیکرٹری الشیخ صالح قزاز، رئیس اشراف دینیہ شیخ عبد اللہ بن حمید، رئیس المدرسین شیخ السبیل، مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر شیخ بن باز اور دیگر علماءو مشائخ کے علاوہ خاندان سعودی کے سرپرست اور شاہ فیصلؒ کے چچا امیر عبد اللہ سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے سفارتخانہ کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ وہاں کسی بھی نمایاں شخصیت کو قومی اسمبلی کے فیصلے کی نقول نہیں پہنچائی گئیں۔ حالانکہ ہماری حکومت کی طرف سے عربی، انگلش، فرانسیسی اور اردو میں فیصلہ طبع کرا کے تمام سفارت خانوں کو بھیجا گیا تھا حتیٰ کہ امیر عبد اللہ جو خاندان سعودی کی محترم شخصیت ہیں ان کو بھی یہ قرارداد نہیں پہنچائی گئی اور میں نے اپنے پاس سے انہیں اس قرارداد کی ایک عربی کاپی دی۔

مصر کے مفتی اعظم شیخ حسنین مخلوف بھی مدینہ منورہ تشریف لائے ہوئے تھے مولانا چنیوٹی نے ان سے ملاقات کی اور وہیں الفیصل ادویہ کے مالک جناب فضل حق سیالکوٹی نے عزیزیہ ہوٹل میں حضرت الشیخ مولانا محمد یوسف صاحب بنوری مدظلہ اور مولانا چنیوٹی کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جس کی رپورٹ ہفت روزہ ترجمان اسلام میں شائع ہو چکی ہے۔ مکہ مکرمہ کے احباب نے مولانا منظور احمد چنیوٹی سے اصرار کیا کہ اس فتنہ کے مکمل تعاقب کے لیے مستقل طور پر مرکز اسلام مکہ مکرمہ میں قیام کریں، سارے اخراجات ہم ادا کریں گے ورنہ سال میں چار ماہ تو ضرور یہاں رہیں تاکہ یہاں سے پوری دنیائے اسلام کے ساتھ اس سلسلہ میں رابطہ قائم کیا جا سکے۔

مولانا چنیوٹی نے سعودی عرب میں پاکستانی سفیر سے ملاقات کی اور انہیں سعودی عوام کے اس تاثر سے آگاہ کیا کہ چونکہ سعودی حکومت نے مدت سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ان کا داخلہ سعودی حکومت میں بند کر رکھا ہے اور اب حکومت پاکستان نے بھی انہیں غیر مسلم قرار دے دیا ہے لیکن اس کے باوجود قادیانی مسلمانوں کے بھیس میں سعودی عرب میں آجاتے ہیں۔ اس لیے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پاسپورٹ پر قادیانیوں کی اس حیثیت کو اندراج کیا جائے تاکہ یہ الجھن ختم ہو سکے۔

مولانا چنیوٹی نے ان اٹھائیس افراد کی فہرست سعودی وزارت داخلہ کو مہیا کی جو قادیانی ہیں لیکن مسلمانوں کے بھیس میں سعودی عرب میں قیام پذیر بلکہ حکومت کے ملازم ہیں۔ ان امور کے علاوہ مولانا ریاض اور الخیر بھی گئے اور حرم شریف میں جتنی دیر رہے مختلف اوقات میں اجتماعات سے خطاب کیا۔ مکہ مکرمہ کے احباب نے یہ پیشکش بھی کی کہ افریقہ میں چونکہ قادیانیت نے اپنی جڑیں زیادہ پھیلائی ہیں اس لیے وہاں پر بہت جلد ایک وفد کا دورہ ہونا چاہیے جو اس کے بارے میں وہاں کے عوام اور حکام کو آگاہ کرے، اس سلسلہ میں تین افراد کے دورہ کے اخراجات کی ذمہ داری مکہ مکرمہ کے احباب نے اٹھا لی ہے۔

جدہ میں پاکستانی احباب کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا چنیوٹی نے انہیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ امیر عبد اللہ اور مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراہیم سے ملاقات کی اور ان سے استدعا کی کہ آپ افریقی ممالک میں سعودی حکومت کی طرف سے بھیجے جانے والے مبلغین و مدرسین کو عیسائیت اور قادیانیت کے بارے میں تربیت دینے کا اہتمام فرمائیں اور اس سلسلہ میں ہماری خدمات حاضر ہیں۔مفتیٔ اکبر نے آئندہ اس سلسلہ کا انتظام کرنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ آپ جب افریقہ کے دورے پر جائیں گے تو ہمیں پہلے اطلاع کر دیں ہم وہاں پر موجود تمام مبلغین اور مدرسین کو اپنے افریقی ہیڈکوارٹر میں جمع ہونے کی ہدایت بھیج دیں گے، آپ وہاں انہیں قادیانیت کے بارے میں ضروری تفصیلات سے آگاہ کریں۔

جدہ میں دارالافتاء والدعوت والارشاد کے جریدہ ہفت روزہ ’’الدعوت‘‘ نے مولانا چنیوٹی سے انٹرویو لیا جس میں انہوں نے تحریک ختم نبوت کے مختلف ادوار خصوصاً اکابر علماء دیوبند، مجلس احرار اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیۃ علماء اسلام کی خدمات سے عوام کو تفصیل کے ساتھ روشناس کرایا، یہ انٹرویو شائع ہو چکا ہے۔ یکم مارچ کو مولانا چنیوٹی عرب امارات کے دورے پر روانہ ہوگئے۔

سعودی عرب سے فراغت کے بعد آپ بحرین پہنچے، پاکستانی احباب سے ملاقاتیں کیں، اردو اور عربی میں متعدد تقاریر ہوئیں جن میں پاکستانی اور عرب احباب کو اپنے مشن سے آگاہ کیا۔ پاکستانی سفارت خانہ میں گئے اور قاضی القضاۃ شیخ محمد یوسف الصدیقی سے ملاقات کی۔

بحرین میں تین دن کے قیام کے بعد مولانا دوبئی پہنچے، تبلیغی جماعت کے جناب ڈاکٹر ملک الطاف حسین نے بھرپور تعاون کیا، انہی کی سعی سے وزارت شئون اسلامیہ نے عرب امارات کا ویزا آپ کو بھیجا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے علاوہ شئون اسلامیہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر شیخ عمر جن کے والد شیخ محمد اسمبلی کے رکن ہیں، وہ بھی عرب امارات کے دورہ میں مولانا کے ساتھ رہے اور پوری توجہ اور دل چسپی کے ساتھ تعاون کیا۔ عرب امارات میں رہائش، تجارت وغیرہ کا انتظام بلدیات کے کنٹرول میں ہے اس لیے مولانا نے میونسپل کمیٹی کے رئیس شیخ سعید اور شیخ احمد بحیری مصری کی معیت میں بلدیات کے ڈائریکٹر کمال حمزہ سے ملاقات کی۔ ان کے علاوہ اوقاف کے ڈائریکٹر شیخ عبد الجبار، وزیرتعلیم شیخ سلیمان، قاضی القضاۃ، اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے بھی ملاقاتیں کیں۔ مولانا چنیوٹی عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان سے بھی ملے۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں طے پایا کہ وزارت شئون اسلامیہ کی طرف سے ایک بل اور ایک قرارداد اسمبلی میں پیش کی جائے گی اور سعودی عرب کی طرح عرب امارات میں بھی قادیانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔

مولانا چنیوٹی دوبئی کے بعد شارجہ گئے جہاں بلدیات کے ڈائریکٹر اور اوقاف کے ڈائریکٹر کے علاوہ قاضی القضاۃ شیخ احمد سے ملاقات کی۔ وہاں سے عجمان پہنچے، ریاست کے شیخ راشد بن حمید سے ملاقات کر کے قادیانیت کے متعلق معلومات اور دستاویزات انہیں مہیا کیں۔ وہاں سے ابوظہبی پہنچے جہاں قاضی القضاۃ شیخ عبد العزیز سے ملاقات کی اور وزیر شئون اسلامیہ عرب امارات کے نمائندہ کو اسمبلی میں پیش ہونے والی یادداشت کے سلسلہ میں ضروری معلومات قلمبند کرائیں۔ جمعہ کے اجتماع کے علاوہ دیگر اہم مساجد میں تقاریر کیں اور سفارت خانہ بھی گئے۔ اور یہاں سے فراغت کے بعد ۲۵ مارچ کو کراچی واپس پہنچ گئے۔

مولانا چنیوٹی نے دورہ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی ممالک میں قادیانیت کے بارے میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کی تشہیر نہیں کی گئی، خصوصاً سفارت خانوں نے اس ضمن میں کوئی کام نہیں کیا۔ بعض سفارت خانوں میں ہم نے خود جا کر قرارداد کی نقول کے بنڈل کھلوائے۔ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے افریقی طلبہ نے بتایا کہ ہمیں اپنے ممالک میں کوئی اطلاع نہیں ملی، مدینہ یونیورسٹی پہنچ کر ہم اس فیصلہ سے آگاہ ہوئے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب کے امیر عبد اللہ اور عجمان کے شیخ راشد تک بھی یہ قرارداد نہ پہنچ سکی۔ اس لیے ضروری امر ہے کہ مجلس عمل کے ذمہ دار حضرات خصوصاً افریقی ممالک کا دورہ کریں۔ مولانا چنیوٹی نے کہا کہ مکہ مکرمہ کے احباب نے تین افراد کے دورہ کی جو پیشکش کی ہے میری سعی یہ ہے کہ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری مدظلہ اور حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ اگر وقت نکال سکیں تو ان کا دورہ اس سلسلہ میں وقیع اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter