دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق

   
تاریخ : 
جنوری ۱۹۹۵ء

روزنامہ جنگ لاہور ۴ دسمبر ۱۹۹۴ء کے مطابق گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین نے دینی مدارس کی کارکردگی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور فرقہ وارانہ کردار کے حامل مدارس کی بندش کا عندیہ دیا ہے۔ اسی طرح بعض اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے ملک میں نئے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور پرانے مدارس کی رجسٹریشن کی تجدید کے لیے وزارت داخلہ سے پیشگی اجازت کی شرط عائد کر دی ہے، اور متعلقہ حکام کو ہدایت کر دی ہے کہ اس اجازت کے بغیر کسی نئے مدرسہ کو رجسٹرڈ نہ کیا جائے اور نہ ہی پہلے سے قائم کسی مدرسہ کی رجسٹریشن کی تجدید کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی بہاولپور پولیس کے حوالہ سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ حکام بالا کی ہدایت پر پولیس دینی مدارس کا سروے کر رہی ہے تاکہ اس الزام کی حقیقت معلوم کی جا سکے کہ بعض مدارس میں بچوں سے جبری بیگار لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں وزیراعظم پاکستان کے ایک مشیر نے کسی مدرسہ کے بارے میں اخبارات میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کا ذکر کیا ہے کہ وہاں طلبہ کو زنجیروں سے باندھ کر قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے بقول وزیراعظم نے اس سلسلہ میں انکوائری کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بارے میں بھی یہ خبر سامنے آچکی ہے کہ اس نے پاکستان کے دینی مدارس میں طلبہ پر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالہ سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

دینی مدارس کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس تحقیقات مہم کا پس منظر کیا ہے اور یہ سب کچھ کن مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ دینی مدارس کے موجودہ نظام پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس کے خلاف اس مہم کے مقاصد کو صحیح طور پر سامنے لایا جا سکے۔

دینی مدارس کا پس منظر

پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے دینی مدارس و مکاتب کا موجودہ نظام ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ ہے۔ اس سے قبل پورے برصغیر میں درس نظامی کا یہی نصاب تعلیمی اداروں میں رائج تھا جو مغل بادشاہت کے دور میں اس وقت کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا تھا اور جو اب بھی ہمارے دینی مدارس میں بدستور رائج چلا آرہا ہے۔ فارسی اس دور میں سرکاری زبان تھی اور عدالتوں میں فقہ حنفی رائج تھی۔ اس لیے درس نظامی کا یہ نصاب اس دور کی دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کرتا تھا اور دینی تقاضوں کی تکمیل بھی اس سے ہو جاتی تھی۔ اس لیے اکثر و بیشتر مدارس کا نصاب یہی تھا اور تقریباً تمام مدارس سرکار کے تعاون سے بلکہ سرکار کی بخشی ہوئی زمینوں اور جاگیروں کے باعث تعلیمی خدمات سرانجام دیتے چلے آرہے تھے۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد جب دہلی کا اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہ راست تاجِ برطانیہ کو منتقل ہوا اور انگریزی حکومت قائم ہوگئی تو سرکاری زبان فارسی کی بجائے انگریزی کر دی گئی اور عدالتی نظام سے فقہ حنفی کو خارج کر کے برطانوی قوانین نافذ کر دیے گئے جس سے ہماری تعلیمی ضروریات دو حصوں میں منقسم ہوگئیں۔ دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لیے انگریزی تعلیم ناگزیر ہوگئی،اور دینی و قومی ضروریات کے لیے درس نظامی کے سابقہ نظام کو برقرار رکھنا ضروری سمجھا گیا جبکہ مدارس و مکاتب کا سابقہ نظام ختم کر دیا گیا۔علماء کی ایک بڑی تعداد جنگ آزادی میں کام آگئی، باقی ماندہ میں سے ایک کھیپ کالاپانی اور دیگر جیلوں کی نذر ہوگئی اور پیچھے رہ جانے والے لوگ شکست کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے مستقبل کے بارے میں سوچنے میں مصروف ہوگئے۔ مدارس و مکاتب کے لیے مغل حکمرانوں کی عطا کردہ جاگیریں ضبط کر لی گئیں اور اس طرح ۱۸۵۷ء سے پہلے کا تعلیمی نظام مکمل طور پر تتربتر ہوکر رہ گیا۔

نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی۔ سرسید احمد خان مرحوم نے ایک محاذ سنبھال لیا اور دفتری و عدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لیے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنا لیا، جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماء کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے رفقاء نے علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کے کالج کا آغاز کیا اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء نے دیوبند میں مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ سرسید احمد خان مرحوم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ دونوں ایک ہی استاد مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگرد تھے اور دونوں نے مختلف سمتوں پر تعلیمی سفر کا آغاز کیا جو آگے چل کر دو مستقل تعلیمی نظاموں کی شکل اختیار کر گئے۔ ابتداء میں سرسید احمد خان مرحوم کے انگریزی کالج اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے مدرسہ عربیہ دونوں کی بنیاد عوامی چندہ اور امداد باہمی کے طریق کار پر تھی، لیکن بعد میں کالج اور اسکول کے نظام کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی اور رفتہ رفتہ پورا نظام سرکار کی تحویل میں آکر مصارف و اخراجات کے جھنجھٹ سے آزاد ہوگیا، جبکہ دینی مدارس سرکاری سرپرستی سے آزاد رہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے اخراجات و ضروریات کے لیے ہر دور میں عوامی چندہ پر انحصار کرنا پڑا، اور آج بھی یہ صورتحال بدستور قائم ہے۔

دینی مدارس کے اس آزادانہ اور متوازی نظام کے بنیادی مقاصد درج ذیل تھے:

  • قرآن و سنت، عربی زبان اور دیگر اسلامی علوم کی حفاظت اور مسلم معاشرہ کا ان سے تعلق برقرار رکھنا۔
  • مساجد و مدارس کے نظام کو قائم رکھنا اور ان کے لیے ائمہ، خطباء اور مدرسین کی فراہمی۔
  • یورپ کی نظریاتی اور تہذیبی یلغار کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی طرز معاشرت اور عقائد کی حفاظت۔
  • جدید عقلیت کے پیدا کردہ اعتقادی و نظریاتی فتنوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ یہ مدارس سرکار کے اثر سے آزاد رہیں اور ایسا تعلیمی نصاب و نظام اختیار کریں کہ ان کے تیار کردہ افراد صرف ان کے مقاصد کے خانہ میں فٹ ہو سکیں۔ اس بات کو زیادہ بہتر طور پر واضح کرنے کے لیے ایک واقعہ بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو میں نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی زبانی سنا۔ ان کی روایت کے مطابق یہ اس دور کا واقعہ ہے جب دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے فرزند مولانا حافظ محمد احمدؒ تھے۔ اس دور میں دارالعلوم کے فارغ التحصیل کچھ نوجوان حیدرآباد دکن کی ریاست میں ملازمتوں پر فائز ہوئے اور کارکردگی اور صلاحیت کے لحاظ سے دوسرے ملازمین سے بہتر ثابت ہوئے۔ مولانا حافظ محمد احمدؒ کے دورہ حیدر آباد کے موقع پر نظام حیدر آباد نے ایک ملاقات میں ان سے اس بات کا ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر دارالعلوم دیوبند کے فضلاء ہر سال سارے کے سارے حیدرآباد بھجوا دیے جائیں تو نظام حیدر آباد انہیں ملازمتیں دیں گے اور دارالعلوم کے سالانہ اخراجات کا بار، نظام خود اٹھائیں گے۔ مولانا حافظ محمد احمدؒ نے دیوبند واپسی پر یہ پیشکش دارالعلوم کے صدر مدرس شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے سامنے بیان کی اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ مولانا محمود حسنؒ نے خود کوئی مشورہ دینے کی بجائے حافظ محمد احمدؒ کو دارالعلوم دیوبند کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں بھیج دیا جو اس وقت بقید حیات تھے۔ انہوں نے مولانا حافظ محمد احمدؒ سے نظام حیدر آباد کی پیشکش کے بارے میں سن کر جو جواب دیا وہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب کے الفاظ میں یوں تھا:

’’بھاڑ میں جائے حیدرآباد کی ریاست! ہم اس ریاست کو چلانے کے لیے طلبہ کو نہیں پڑھا رہے۔ ہم تو اس لیے پڑھاتے ہیں کہ مسجدیں اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نمازیں اور قرآن کریم پڑھانے والے ائمہ اور استاذ ملتے رہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں انگریزی تعلیم کا داخلہ بند رہا اور علماء اور دینی طلبہ کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے سختی سے منع کیا جاتا رہا۔ کیونکہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے افراد لازماً سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے اور دینی مدارس سے فارغ ہونے والوں کی ایک بڑی کھیپ بھی اسی طرف منتقل ہو جاتی جس سے دینی مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا۔ جبکہ دینی مدارس کے نظام کا آغاز کرنے والوں کے ذہن میں سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ایسی کھیپ تیار ہو جو قرآن کریم کے مکاتب کو آباد رکھے۔ اس لیے حکمت عملی کے تحت عملاً ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات مسجد و مدرسہ کے سوا کسی دوسری جگہ نہ کھپ سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے حوالہ سے یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور اس کے نتیجہ میں برصغیر کے طول و عرض میں دینی مدارس و مکاتب کا جال بچھ گیا اور مساجد میں ائمہ و خطباء کی کھیپ بھی فراہم ہوتی رہی۔

دینی مدارس کے منتظمین نے ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا کیا جتن کیے، یہ ایک الگ داستان ہے جس کی تفصیلات کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے۔ تاہم اس قدر عرض کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے سہولتوں کی زندگی ترک کر کے فقر و فاقہ اور تنگی و ترشی کی زندگی اختیار کی، لوگوں سے صدقات و خیرات مانگ کر مدارس کو آباد رکھا، بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو محلہ کے ایک ایک گھر سے روٹیاں مانگنے کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ اس لیے یہ بات بلا جھجھک کہی جا سکتی ہے کہ علماء کے اس طبقہ نے اپنی ’’عزت نفس‘‘ تک کی قربانی دے کر معاشرہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم اور اسلامی عقائد و معاشرت کو برقرار رکھا۔ ورنہ عالم اسباب میں اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو اسپین کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی (نعوذ باللہ) اسلام ایک قصہ پارینہ بن چکا ہوتا۔ صدقہ و خیرات، گھر گھر سے مانگی ہوئی روٹیوں اور عام لوگوں کے چندوں کی بنیاد پر قائم ہونے والا دینی مدارس کا یہ نظام برطانوی استعمار کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط حصار ثابت ہوا۔ اس نظام نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے عقائد وافکار، معاشرت اور اسلامی علوم و فنون کی حفاظت کی بلکہ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کو نظریاتی راہ نماؤں اور کارکنوں کی کھیپ بھی فراہم کی جس میں مولانا محمود حسنؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمدؒ مدنی، مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور ان کے ہزاروں رفقاء بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد دینی مدارس کا کردار

دور غلامی میں دینی مدارس کی حکمت عملی دفاعی تھی جس کے لیے انہیں بہت سے تحفظات اختیار کرنے پڑے، اور اگر وہ ان تحفظات کے بارے میں سختی نہ کرتے تو اپنے بنیادی مقاصد کی طرف اس قدر کامیابی کے ساتھ پیش رفت نہ کر پاتے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد صورتحال خاصی تبدیل ہوگئی اور آزادی کے حوالہ سے نئے تقاضے اور ضروریات سامنے آگئیں جن کے بارے میں دینی مدارس کی تمام تر مجبوریوں اور مشکلات کے باوجود بہرحال یہ کہنا پڑتا ہے کہ نئی ضروریات اور تقاضوں کو اپنے مقاصد میں شامل کرنے کے لیے وہ ابھی تک تیار نہیں ہوئے جس کے نقصانات قومی سطح پر بہت دیر تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ قیام پاکستان کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ مساجد و مدارس کے لیے رجال کار کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و تحفظ کی ذمہ داری ریاستی نظام تعلیم کے سپرد کر دی جاتی اور دینی مدارس کے الگ نظام کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔ لیکن ریاستی نظام تعلیم نے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ ریاستی نظام تعلیم نے تو قیام پاکستان کے بعد آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے مقاصد کے حوالہ سے اس قدر مایوس کیا کہ آزاد قوموں کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ:

  • پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی نظریاتی ریاست کی حیثیت دینے اور ایک فلاحی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر قومی شعبوں میں اسلامی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افراد کار مہیا کرتا۔
  • معاشرہ کے عام افراد کو قرآن و سنت کی ضروری تعلیم سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرتا۔
  • مساجد اور دینی مکاتب کا نظام چلانے کے لیے ائمہ اور مدرسین کی فراہمی کی ذمہ داری قبول کرتا۔
  • اسلامی تعلیمات و احکام کو عالمی برادری کے سامنے نئے انداز اور اسلوب سے پیش کرنے کے لیے اسکالرز تیار کرتا اور انہیں جدید علوم اور فلسفہ کے چیلنج کا سامنا کرنے کی تربیت دیتا۔

لیکن ریاستی نظام تعلیم نے نہ صرف یہ کہ ان ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ عملاً یہ نظام سیکولر اور اسلام مخالف عناصر کی کمین گاہ ثابت ہوا۔ اور پاکستان میں اسلامی احکام و تعلیمات کی ترویج کو روکنے اور اس کی اسلامی حیثیت کو غیر مؤثر بنانے میں اس نظام تعلیم نے مضبوط مورچے کا کام دیا۔ جبکہ اس کے برعکس دینی مدارس نے جو ذمہ داریاں ۱۸۵۷ء کے بعد قبول کی تھیں ان پر وہ اب بھی پوری دل جمعی کے ساتھ گامزن ہیں اور ان کے طریق کار اور دائرہ عمل میں کوئی فرق نمودار نہیں ہوا۔ بلکہ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے کہ اسلامی علوم کی حفاظت و ترویج اور مساجد و مدارس کے لیے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی کے لیے دینی مدارس کے کردار کا تسلسل کسی خلا اور تعطل کے بغیر بدستور قائم ہے تو ریاستی نظام تعلیم کے ساتھ تقابل کے تناظر میں دینی مدارس کا یہ کردار بڑے سے بڑے قومی اعزاز کا مستحق ہے۔ کیونکہ آج بھی ان دو مقاصد کے حوالے سے معاشرہ کی ضروریات یہی دینی مدارس پوری کر رہے ہیں اور اگر دینی مدارس اپنا یہ کردار چھوڑ دیں تو مساجد و مدارس کے لیے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و حفاظت کے شعبہ میں جو خلا واقع ہوگا وہ کسی باشعور شہری کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

دینی مدارس سے شکایات

دینی مدارس کے موجودہ کردار اور خدمات کے بارے میں عام طور پر شکایات کا اظہار کیا جاتا ہے اور شکوہ کرنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں۔ لیکن ان شکایات اور دینی مدارس کی مشکلات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ صحیح صورتحال سامنے آسکے۔

دینی مدارس کا نصاب تعلیم

دینی مدارس سے سب سے بڑی شکایت یہ کی جاتی ہے کہ ان کے نصاب میں آج کے علوم شامل نہیں ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو انگریزی، ریاضی، سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کی تعلیم نہیں دیتے۔ یہ شکایت ایسی ہے جسے نہ تو پوری طرح قبول کیا جا سکتا ہے اور نہ مسترد کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں تک عصری علوم کی مکمل تعلیم کا سوال ہے وہ نہ تو دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ پوری طرح شامل کی جا سکتی ہے اور نہ ایسا کرنا ضروری ہی ہے۔ شامل اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ مستند اور پختہ عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لیے فارسی و عربی، صرف و نحو، قرآن و حدیث، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب اور منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصاب ہے جسے پوری طرح پڑھے بغیر کوئی شخص ’’عالم دین‘‘ کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اور یہ نصاب اس قدر بھاری بھر کم ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے علم یا فن کے مکمل نصاب کو شامل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر اس نصاب میں کمی کی جائے تو دینی علوم میں مہارت کا پہلو تشنہ رہ جاتا ہے۔ اور ضروری اس لیے نہیں ہے کہ یہ تخصصات اور اسپسلائزیشن کا دور ہے، اب ہر شعبہ کے لیے الگ ماہرین تیار ہوتے ہیں اور کسی ایک شعبہ کے ماہر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے شعبہ کی مہارت بھی رکھتا ہو۔ مثلاً کسی انجینئر کے لیے قطعی طور پر یہ ضروری نہیں کہ وہ میڈیکل سائنس کے علم سے بہرہ ور ہو، اور کسی ڈاکٹر کے لیے ضروری نہیں کہ اس نے انجینئرنگ کا علم بھی حاصل کر رکھا ہو۔ اسی طرح کسی عالم دین کے لیے بھی یہ ضروری نہیں کہ وہ میڈیکل سائنس ، انجینئرنگ یا کسی شعبہ کی مہارت بھی رکھتا ہو۔

تاہم ایک فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جہاں تک کسی شعبہ میں پوری مہارت اور مکمل تعلیم کا تعلق ہے وہ تو کسی دوسرے شعبہ کے فرد کے لیے ضروری نہیں ہے، لیکن بنیادی اور جنرل معلومات ہر شعبہ کے بارے میں حاصل ہونی چاہئیں اور اس کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی ڈاکٹر یا انجینئر کے لیے دین کا مکمل عالم ہونا ضروری نہیں مگر دین کی بنیادی معلومات و مسائل سے آگاہی ان کے لیے لازمی ہے تاکہ وہ اپنے شعبہ میں دینی احکام کے دائرہ کو ملحوظ رکھ سکیں، اسی طرح ایک عالم دین کے لیے ڈاکٹر یا انجینئر ہونا ضروری نہیں البتہ ان شعبوں کے بارے میں بنیادی معلومات علماء کو ضروری طور پر حاصل ہونی چاہئیں تاکہ وہ ان شعبوں کے افراد کی دینی راہنمائی صحیح طور پر کر سکیں۔

اسی طرح انگریزی آج کی بین الاقوامی زبان ہے، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا عالمی میڈیا کی زبان ہے اور پاکستان کی دفتری و عدالتی زبان ہے۔ اس لیے عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سے کماحقہ بہرہ ور ہونا علماء کے لیے آج کے دور میں ضروری ہے۔ اس بنا پر ہم دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں کسی بنیادی تبدیلی یا تخفیف کی حمایت تو نہیں کریں گے البتہ اس میں انگریزی زبان اور میڈیکل سائنس، جنرل سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کے بارے میں بنیادی معلومات کی حد تک نصاب کے اضافے کو ضروری سمجھتے ہیں اور دینی مدارس کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے۔

اس سلسلہ میں دینی مدارس کی مشکلات کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً ان کی ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ جو طلبہ انگریزی یا دیگر عصری علوم سے آراستہ ہو جاتے ہیں اور سرکاری اسناد حاصل کر لیتے ہیں ان کی اکثریت مساجد یا دینی مدارس کی بجائے ملازمت کے لیے سرکاری اداروں کا رخ کرتی ہے جس کی وجہ سے مساجد و مدارس کو ضرورت اور معیار کے مطابق ائمہ، خطباء اور مدرس میسر نہیں آتے۔ ظاہر بات ہے کہ مساجد و مدارس میں مشاہروں اور دیگر سہولتوں کا مروجہ معیار کسی طرح بھی اس درجہ کا نہیں ہے کہ کوئی خطیب، امام یا مدرس اطمینان کے ساتھ ایک عام آدمی جیسی زندگی بسر کر سکے۔ پھر یہاں ملازمت کا تحفظ بھی نہیں ہے اس لیے جسے سرکاری ملازمت میں جانے کا راستہ مل جاتا ہے وہ لازماً ادھر کا رخ کرے گا اور مساجد و مدارس کے لیے رجال کار کے فقدان اور خلاء کا مسئلہ پریشان کن صورت اختیار کر جائے گا۔

اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمود صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے ساتھ ایک گفتگو کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے بعد ضلع اور تحصیل کی سطح پر شرعی قاضی مقرر کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور قاضی کورس کے لیے آرڈیننس کے نفاذ کی تیاری ہو رہی تھی۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ راولپنڈی کینٹ کے ملٹری ہسپتال میں زیر علاج تھے، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سلسلہ میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ مجھے پریشانی یہ تھی کہ پاکستان بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقرر کرنے کے لیے اس قدر تربیت یافتہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ اگرچہ اس زمانے میں بعض دینی اداروں نے قاضیوں کی تربیت کے لیے چار ماہ، چھ ماہ اور ایک سال کے کورس شروع کر رکھے تھے لیکن میں ان سے مطمئن نہیں تھا کہ قاضی بہرحال قاضی ہوتا ہے اور سال چھ ماہ کا کورس کسی شخص کو قاضی نہیں بنا سکتا۔ اور اگر ہم نے پاکستان میں قاضی کورس کا آغاز اس طرح کے نیم قاضیوں سے کیا تو اسلام کے عدالتی نظام کا پہلا تاثر ہی اپنے نتائج کے لحاظ سے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

چنانچہ میں نے مولانا مفتی محمودؒ سے سوال کیا کہ حضرت! یہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ جن مدرسین نے دینی مدارس میں ہدایہ کی سطح تک کتابیں چار پانچ سال پڑھائی ہیں وہ نظام قضا کے مختصر کورس کے بعد قضا کا منصب سنبھال سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی مقرر کرنے کے لیے پاکستان کے اضلاع اور تحصیلوں کی تعداد کے مطابق اس سطح کے مدرسین مل جائیں گے یا نہیں؟ اور اگر ہمارے پاس اتنی تعداد میں اس معیار کے مدرسین مل بھی جائیں تو انہیں عدالتوں میں بھیج کر دینی مدارس میں ہدایہ کی سطح کی کتابیں کون پڑھائے گا؟ اس سوال کا جواب حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے اپنے مخصوص انداز میں ٹال دیا لیکن میں نے ان کے چہرے کی سلوٹوں سے اندازہ لگا لیا کہ اس سوال نے خود انہیں بھی پریشان کر دیا ہے۔

دینی مدارس کو ابھی تک اپنے وجود کے تحفظ اور اپنے کردار کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے تحفظات کی فضا کا سامنا ہے اور وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنی تیار کردہ کھیپ کو دوسرے شعبوں کے حوالے کر کے اپنے کام کو جاری رکھ سکیں۔ اس لیے اگر دینی مدارس اپنے تیار کردہ افراد کو مسجد و مدرسہ تک محدود رکھنے کے لیے کچھ تحفظات اختیار کیے ہوئے ہیں تو ان کی اس مشکل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پھر ایک اور پہلو سے بھی اس مسئلہ کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ وہ یہ کہ اس وقت پاکستان بھر کی مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے والے افراد میں مستند و غیر مستند کا تناسب کیا ہے؟ اگر اس کا غیر جانبدارانہ سروے کیا جائے تو غیر مستند ائمہ و خطباء کا تناسب مستند حضرات سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اور ہمارے ہاں مذہبی معاملات میں خرابیوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہے جس کی طرف اکثر حضرات کی توجہ نہیں ہے۔ اور جو اہل دانش اس کا ادراک رکھتے ہیں وہ کسی فتوے کی زد میں آجانے کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کرتے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اور اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کے ناتے سے اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح دوسرے شعبوں میں اَن کوالیفائیڈ افراد کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کوالیفائیڈ افراد کی فراہمی پر زور دیا جاتا ہے ، امامت و خطابت اور دینی تعلیم کے شعبہ میں بھی اَن کوالیفائیڈ افراد کا تناسب کم سے کم کرنے اور بالآخر اسے ختم کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے۔ اور جس طرح ملک میں عمومی خواندگی کا تناسب بہتر بنانے کے لیے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ایک معقول بجٹ اس کام کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے، دینی شعبہ میں کوالیفائیڈ افراد کا تناسب بڑھانے کے لیے دینی مدارس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور قومی تعلیمی بجٹ میں ان کے لیے معقول حصہ مختص کیا جائے۔

ریاستی اداروں کے لیے رجال کار کی فراہمی

دینی مدارس سے دوسر ی شکایت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مختلف شعبوں بالخصوص عدلیہ میں مطلوبہ معیار کے رجال کار کی فراہمی کو دینی مدارس کے نظام نے اپنے مقاصد میں شامل نہیں کیا۔ یہ کام اگرچہ اصلاً ریاستی نظام تعلیم کا تھا لیکن ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ریاستی نظام تعلیم نے اس سمت سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور اس کے بعد اس خلا کو پر کرنے کے لیے لوگوں کی نظریں بہرحال دینی مدارس کی طرف اٹھتی ہیں۔ اگر دینی مدارس اپنے نصاب تعلیم کا ازسرنو جائزہ لے کر اسلام کو بطور نظام زندگی دوسرے مروجہ نظاموں کے ساتھ تقابل کے ساتھ پڑھانے کا اہتمام کرتے اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے حدیث و فقہ کے ابواب کو ضروری اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا تو دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے تربیت یافتہ اور شعوری کارکن ثابت ہوتے۔ اور اس کے ساتھ اگر تجارت، عدالت، انتظامیہ اور دیگر شعبوں کے افراد کے لیے ہلکے پھلکے کورسز تیار کر کے انہیں دینی مدارس کے تعلیمی دائرہ میں شریک کر لیا جاتا تو اسلامی نظام کے لیے رجال کار کی فراہمی کی ایک اچھی بنیاد مل سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اورا اس کے نتائج آج معاشرہ میں فکری انتشار اور اخلاقی انارکی کی صورت میں سب کے سامنے ہیں۔

مغربی لابیوں اور ورلڈ میڈیا کا چیلنج

دینی مدارس سے تیسری شکایت اسلام کے بارے میں مغربی لابیوں اور ورلڈ میڈیا کے منفی پراپیگنڈا کی صورت میں سامنے آنے والے چیلنج کو نظر انداز کرنے کی ہے۔ آج اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں اور بنیادی حقوق کے مغربی تصورات کے حوالہ سے اسلامی احکام اور قوانین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ جرائم کی شرعی سزاؤں کو انسانی حقوق کے منافی قرر دیا جا رہا ہے، ارتداد اور توہین رسالتؐ پر قدغن کے بارے میں اسلامی قوانین کو آزادی رائے کے بنیادی حق سے متصادم کہا جا رہا ہے، اور دنیا میں کسی بھی جگہ اسلامی معاشرہ کے قیام کو قرون وسطیٰ کے ظالمانہ دور کی طرف واپسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

اس چیلنج کا سامنا کرنے اور آج کی زبان میں اسلام کو انسانی حقوق کے علمبردار اور محافظ نظام کے طور پر پیش کرنے کے لیے لوگوں کی نظریں دینی مدارس اور اداروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ اور عام مسلمان یہ توقع کرتا ہے کہ جس طرح دینی مدارس کے نظام نے برطانوی استعمار کے دور میں اعتقادی اور معاشرتی فتنوں کا دل جمعی سے مقابلہ کیا تھا، آج بھی وہ مغربی فلسفہ کی نئی اور تازہ دم یلغار کے سامنے خم ٹھونک کر میدان میں آئے گا۔ مگر چند استثناؤں کو چھوڑ کر دینی مدارس میں اس چیلنج کے ادراک کی فضا ہی سرے سے موجود نہیں جو بلاشبہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

نیا دور اور ہمارا روایتی اسلوب

دینی مدرس سے چوتھی شکایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اساتذہ اور طلبہ کو گفتگو اور مباحثہ کے نئے اسلوب اور ہتھیاروں سے روشناس نہیں کرایا۔ فتویٰ اور مناظرہ کی زبان قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر دینی مدارس بلکہ ہمارے منبر و محراب پر بھی ابھی تک اسی زبان کا سکہ چلتا ہے۔ اخبارات پڑھنے والوں اور ٹی وی دیکھنے والوں کے لیے ہماری زبان اور اسلوب بیان دونوں اجنبی ہو چکے ہیں مگر ہم کوئی پروا کیے بغیر اسی ڈگر پر قائم ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر دینی مجالس میں تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔

آج کی زبان منطق و استدلال کی زبان ہے، مشاہدات کی زبان ہے، کسی بھی مسئلہ کو اس کے پس منظر اور تنائج کے ساتھ پیش کرنے کی زبان ہے، اور انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو کی زبان ہے۔ مگر دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت اس زبان سے ناآشنا ہے اور ستم بالائے ستم کہ اچھا بولنے اور اچھا لکھنے والوں کا تناسب جو دینی حلقوں میں پہلے ہی بہت کم تھا، مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ انگلش اور عربی تو رہی ایک طرف، اردو زبان میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی تحریر کی صورت میں پیش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک پختہ کار عالم دین نے شکایت کی کہ فلاں قومی اخبار کو میں نے درجنوں مضامین بھجوائے ہیں ان میں سے ایک بھی شائع نہیں ہوا۔ میں نے اس اخبار کے ایڈیٹر سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جو مضمون ہمیں پورے کا پورا ازسرنو لکھنا پڑے، اسے شائع کرنے کا تکلف ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟

دینی و اخلاقی تربیت

دینی مدارس سے پانچویں شکایت یہ ہے کہ دینی اور اخلاقی تربیت کا جو ماحول کچھ عرصہ پہلے تک ان مدارس میں قائم رہا ہے، وہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور گنتی کے چند اداروں کے سوا دینی مدارس کی اکثریت ایسی ہے جن میں طلبہ کی فکری، دینی اور اخلاقی تربیت کا نظام موجود نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے فضلاء کی اکثریت کے ذہنوں میں مشنری جذبہ کے طور پر کوئی واضح اور متعین مقصد زندگی نہیں ہوتا، اور اگر کسی کے ذہن میں کوئی مقصد ہو بھی تو اس کے مطابق اس کی تربیت نہیں ہوتی اور اس کے نقصانات بھی قدم قدم پر سامنے آرہے ہیں۔

معیاری اور غیر معیاری ادارے

دینی مدارس سے چھٹی شکایت یہ ہے کہ ان کا باہمی ربط و مشاورت کا نظام انتہائی کمزور ہے۔ پہلے تو بالکل نہیں تھا مگر کچھ عرصہ سے تمام مذہبی مکاتب فکر کے مدارس نے اپنے اپنے وفاق قائم کر لیے ہیں جو اگرچہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہیں لیکن اپنے اپنے مکتب فکر کی حد تک انہوں نے باہمی ربط کا ایک نظام قائم کر لیا ہے جس سے امتحانات کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور کچھ دیگر فوائد بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن معاشرہ میں دینی مدارس کی کارکردگی اور اثرات کا دائرہ جس قدر وسیع ہے اس کے مطابق موجودہ ربط و نظم قطعی طور پر ناکافی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مدارس کے قیام میں کوئی منصوبہ بندی اور ترجیحات نہیں ہیں۔ جہاں جس کا جی چاہتا ہے ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر کسی بھی معیار اور سائز کا دینی ادارہ قائم کر لیتا ہے۔ اور چونکہ اوپر چیکنگ کا کوئی نظم موجود نہیں ہے اس لیے کارکردگی اور اخراجات کا دائرہ شخص واحد یا زیادہ سے زیادہ اس کے منظور نظر چند افراد تک محدود رہتا ہے۔ ان خودرو دینی مدارس میں ایک بڑی تعداد ایسے اداروں کی ہے جو تعلیمی اداروں کی بجائے ’’مذہبی دکانیں‘‘ کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں اور ان میں مالی بدعنوانیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔

ضیاء الحق مرحوم کے دور میں سرکاری زکوٰۃ کا ایک حصہ دینی مدارس کے لیے مخصوص کیا گیا تو اس کے حصول کے لیے دنوں میں کئی مدرسے وجود میں آگئے۔ اور پھر سرکاری زکوٰۃ کی رقم حاصل کرنے کے لیے رشوت، سفارشات اور بدعنوانیوں کے جو دروازے کھلے انہوں نے دینی اداروں کو بھی دیگر سرکاری محکموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اس حوالہ سے دینی مدارس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. ایک حصہ وہ معیاری دینی ادارے ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰۃ کی وصولی سے گریز کیا اور اپنی چادر کے دائرے میں پاؤں پھیلانے کے باوقار طریق کار پر گامزن رہے۔
  2. دوسرے نمبر پر وہ دینی ادارے ہیں جو اپنی کارکردگی اور معاملات میں دیانت اور اعتماد کے معیار پر پورا اترتے ہیں اور انہوں سرکاری زکوٰۃ وصول کر کے اسے صحیح مصرف پر صرف کیا۔
  3. اور تیسرے نمبر پر وہ مدارس ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰۃ وصول اور خرچ کرنے میں کسی دینی اور اخلاقی معیار کی پابندی کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ بدقسمتی سے سرکاری ریکارڈ میں تیسری قسم کے مدارس کی فہرست زیادہ لمبی ہے اور دینی مدارس کے مجموعی نظام کے بارے میں سرکاری محکموں کی رائے قائم ہونے میں یہی فہرست بنیاد بن رہی ہے۔

پھر چند بڑے اور معیاری دینی مدارس کو چھوڑ کر اکثر و بیشتر دینی مدارس نے عوامی چندہ کے حصول کے لیے جو طریقے کچھ عرصہ سے اختیار کر لیے ہیں انہوں نے چندہ دینے والے اصحاب خیر کو پریشان کر دیا ہے اور اس سے مدارس کی نیک نامی اور اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔ کراچی، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے کاروباری شہروں میں رمضان المبارک کے دوران مساجد اور دکانوں پر دینی مدارس کے سفیروں کی جو یلغار ہوتی ہے اور لوگوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے گفتگو کا جو اسلوب اختیار کیا جاتا ہے اس سے دینی اداروں کے اعتماد اور وقار کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے جا رہا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ کی بات نہیں کہ کاروباری شہروں میں بہت سے دکاندار رمضان المبارک کے دوران سفیروں کی یلغار کے خوف سے خود اپنی دکانوں پر بیٹھنے سے کترانے لگے ہیں اور مساجد میں نمازوں کے بعد کھڑے ہو کر اپیل کرنے والے سفیروں کو اب نمازیوں نے ٹوکنا شروع کر دیا ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے پریشان کن صورتحال پاکستان سے باہر لندن میں دیکھنے میں آتی ہے جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مدارس کے سفراء نماز کے بعد کھڑے ہو کر اپنے مدرسے کے لیے اپیل کرتے ہیں اور پھر دروازے پر رومال بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں نمازی گزرتے ہوئے پاؤنڈ اور سکے پھینکتے جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے جیسے حساس دینی کارکن کی نظریں شرم سے زمین پر گڑ جاتی ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل جنگ لندن میں ایک مسلم نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا جس میں اس نے بتایا کہ برطانیہ میں پلنے بڑھنے والے مسلمان نوجوانوں کی اکثریت مساجد میں اس لیے نہیں آتی کہ ایک تو ائمہ اور خطباء کی زبان ان کی سمجھ میں نہیں آتی، دوسرے جن موضوعات پر وہ گفتگو کرتے ہیں ان سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تیسرے ہر نماز کے بعد کسی نہ کسی مدرسہ کا سفیر چندہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور ان کے پاس ہر آدمی کو دینے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے۔ یہ صورتحال برطانیہ کی مساجد کی ہے جو ہزاروں میل دور اور اکثر مدارس کے سفراء کی دسترس سے باہر ہے۔ جب وہاں کا یہ حال ہے تو اپنے ملک کی مساجد کا کیا حال ہو سکتا ہے؟ اور قیاس کرنے کی ضرورت کیا ہے، سارا منظر تو ہم رمضان المبارک میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ لوگ دینی مدارس سے تعاون نہیں کرتے اس لیے مدارس کو مجبورًا ایسے طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ بیسیوں ایسے اداروں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کا سالانہ بجٹ لاکھوں سے متجاوز ہے اور بعض کا کروڑوں کی حدود میں قدم رکھ رہا ہے، وہ مدارس نہ سرکاری امداد لیتے ہیں اور نہ ہی ان کے سفیر اس طرح چندہ کے لیے گھومتے پھرتے ہیں مگر ان کا بجٹ صاحب خیر مسلمانوں کے تعاون سے باوقار طریقہ سے فراہم ہو جاتا ہے۔

سیکولر عناصر کا پراپیگنڈا

یہ ہے دینی مدارس کا ماضی اور حال جسے اب پاکستان کی وزارت داخلہ اور اس سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی تحقیقات اور سروے کی بنیاد بنا کر دنیا کو ان کی منفی تصویر دکھانے کے درپے ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا تو یہ نظریاتی محاذ ہے، وہ ان مغربی حکومتوں اور لابیوں کی نمائندہ ہے جن کا موقف یہ ہے کہ اسلام آج کے دور میں بطور ’’نظام زندگی‘‘ قابل عمل نہیں ہے اور اسلامی احکام و قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں۔ اس لیے عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو ناکام بنانا ضروری ہے ورنہ قرون وسطیٰ کا وحشیانہ دور پھر واپس آسکتا ہے جس سے ویسٹرن سولائزیشن اور تہذیب و ترقی سب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لیے مغربی حکومتیں اور ان کے مفاد میں کام کرنے والی لابیاں عالم اسلام میں دینی بیداری کے سرچشموں کو بند کرنا چاہتی ہیں، ان کی نظر میں پاکستان دنیا کا سب سے بڑا بنیاد پرست ملک ہے اور پاکستان کی بنیاد پرستی کا سرچشمہ دینی مدارس ہیں، اس لیے دینی مدارس کو غیر مؤثر بنانا اور عوام کے ساتھ ان کے اعتماد کے رشتے کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اسی بنیاد پر علماء کرام اور دینی مدارس کی کردار کشی اور انہیں منتشر رکھنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اس مہم کو لے کر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور پاکستان کے غیر معیاری اور برائے نام دینی مدارس کو بنیاد بنا کر ایک رپورٹ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہے جس میں دکھایا جائے گا کہ پاکستان کے دینی مدارس میں طلبہ کو آج کے تقاضوں سے بے خبر رکھا جاتا ہے، انہیں مارا جاتا ہے، زنجیروں سے باندھا جاتا ہے، ان سے جبری بیگار لی جاتی ہے، ان کی خوراک، رہائش اور صفائی کا معیار ناقص ہے، انہیں ان مدارس میں آزادی رائے اور دیگر بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں، انہیں جان بوجھ کر ناقص رکھا جا رہا ہے تاکہ وہ قومی زندگی کے کسی شعبے میں کھپ نہ سکیں، ان کے نام پر چندہ کر کے مدارس کے منتظمین کھا پی جاتے ہیں اور طلبہ کو انتہائی تنگی کی حالت میں رکھ کر خود عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان مدرس میں طلبہ کو اسلحہ کی ٹریننگ دے کر دہشت گرد بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کا حصہ ہوگا جو اگلے سال جون تک منظر عام پر آرہی ہے اور اس کے لیے بطور خاص ایسے غیر معیاری مدارس کو سروے کی بنیاد بنایا جا رہا ہے جہاں یہ کچھ ہوتا ہے تاکہ رپورٹ پر ’’غیر حقیقت پسندانہ‘‘ اور ’’خلاف واقعہ‘‘ ہونے کا الزام عائد نہ کیا جا سکے۔ اس سروے مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کوئی ٹیم معیاری دینی مدارس میں نہیں جائے گی اور نہ ہی رپورٹ میں ان کا تذکرہ ہوگا۔ پاکستان کی وزارت داخلہ اور دیگر محکمے اس مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے معاون ہیں اور دینی مدارس کے خلاف اس مہم میں ان کے مقاصد بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔

آئندہ کے لیے لائحہ عمل

کسی بھی طبقہ کی کمزوریاں ہمیشہ اس کے خلاف دشمن کا ہتھیار بنتی ہیں اور دینی مدارس کے نظام سے نالاں قوتوں نے اس کے خلاف ان کمزوروں کو ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس لیے دینی مدارس اور دینی مدارس کے وفاقوں کو خوداحتسابی کا ایک مضبوط نظام قائم کرنا ہوگا اور اپنی کمزوریوں کو خود اپنے ہاتھوں دور کرنے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ کمزوریاں ان کے خلاف صرف مغربی لابیوں کی پراپیگنڈا مہم کا ہتھیار نہیں ہوں گی بلکہ ان مدارس پر ریاستی کنٹرول کی مہم میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔ اس لیے ہم دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کی خدمت میں عرض کریں گے کہ

  • تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے الگ الگ وفاق اپنا وجود اور نظم قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بورڈ قائم کریں اور مشترکہ معاملات کو اس بورڈ کے ذریعہ کنٹرول کیا جائے۔
  • درس نظامی کے موجودہ نصاب کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں انگریزی زبان اور عصری علوم کو بنیادی معلومات کی حد تک ضرور شامل کیا جائے۔
  • گفتگو اور مباحثہ کے جدید اسلوب اور انگریزی اور اردو میں صحافتی زبان سے طلبہ کو متعارف کرایا جائے۔
  • اسلام کو بطور نظام حیات پڑھایا جائے اور دیگر نظام ہائے حیات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کرا کے نظام شریعت کی اہمیت و ضرورت کو ان کے ذہنوں میں اجاگر کیا جائے۔
  • مدارس کی درجہ بندی کر کے ہر علاقہ میں وہاں کی ضروریات کے مطابق مدارس کے قیام کے لیے قومی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے۔
  • اباحت مطلقہ (فری سوسائٹی) کے مغربی تصور اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے پس منظر اور نتائج سے طلبہ کو آگاہ کیا جائے۔
  • دینی، اخلاقی اور روحانی تربیت کا بطور خاص اہتمام کیا جائے اور دینی مقاصد کے حصول کے لیے ان میں مشنری جذبہ اجاگر کیا جائے۔
  • مالی امداد کے حصول کے لیے باوقار اور آبرومندانہ طریق کار کی پابندی اور غیر معیاری طریقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اور اس سلسلہ میں وفاقوں کی سطح پر ضابطہ اخلاق طے کر کے مدارس سے اس کی پابندی کرائی جائے۔
  • اساتذہ کے مشاہروں اور طلبہ کی رہائش، خوراک اور صفائی کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور کام کو پھیلانے کی بجائے تھوڑے اور معیاری کام کو اصول قرار دیا جائے۔
  • مسلم معاشرہ میں دینی مدارس کی اہمیت، خدمات اور کردار کے حوالہ سے معیاری مضامین کی انگلش اور اردو میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔

ہمیں امید ہے کہ دینی مدارس کے ارباب حل و عقد ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرما کر اصلاح احوال کی ضروری تدابیر اختیار کریں گے تاکہ دینی مدارس کا یہ نظام ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اسلامی علوم کی حفاظت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں مفید اور مؤثر کردار ادا کر سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter