امریکہ کا نرالا الیکشن اور مسلمان

   
تاریخ : 
۳۱ اکتوبر ۲۰۰۴ء

اس بار امریکہ میں زیادہ گھومنے پھرنے کا موقع نہیں ملا، صرف ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں تقریباً بیس دن گزار کر واپسی ہو رہی ہے۔ ۱۱ اکتوبر کو لندن سے نیویارک کے لیے سیٹ بک کرالی تھی کہ دارالہدٰی سپرنگ فیلڈ (ورجینیا، امریکہ) کے پرنسپل مولانا عبدا لحمید اصغر کا پیغام ملا کہ آپ نیویارک کی بجائے سیدھے واشنگٹن آئیں کیونکہ نیویارک سے آنے جانے میں دو تین دن نیویارک میں صرف ہو جائیں گے اور ہمارے لیے وقت کم رہے گا اس لیے کہ ۲۲ اکتوبر کو امریکہ سے میری واپسی کا پروگرام تھا۔ بہرحال ان کے حکم کی تعمیل میں سیٹیں بدلوائیں اور ۱۱ اکتوبر کو واشنگٹن ڈی سی کے ڈلس ایئرپورٹ پر پہنچ گیا۔ مولانا عبد الحمید اصغر کے ساتھ میرا چھوٹا بیٹا حافظ عامر خان بھی ایئرپورٹ پر موجود تھا جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے ان کے پاس مقیم ہے اور کمپیوٹنگ کے شعبے میں کام کرتا ہے۔

میرا خیال تھا کہ دو چار جگہ جاؤں گا ،امریکہ کے صدارتی انتخاب کے مناظر دیکھوں گا، انتخابی گہماگہمی کا نظارہ کروں گا اور امریکیوں کے انتخابی جوش و خروش کا مشاہدہ کروں گا۔ مگر دونوں حوالوں سے مجھے مایوسی ہوئی، کہیں اور آنے جانے کا موقع تو اس لیے نہیں مل سکا کہ رمضان المبارک کی آمد آمد تھی اور باقی دنیا کی طرح یہاں بھی رمضان المبارک کے دوران علماء کرام اور دینی اداروں کا نظام الاوقات اور سرگرمیاں عام دنوں سے مختلف ہو جاتی ہیں۔ دارالہدٰی میں فجر کی نماز کے بعد درسِ حدیث اور نماز تراویح کے بعد روزانہ عمومی بیان کے پروگرام کا اعلان ہو چکا تھا اس لیے کسی دوسرے شہر میں جانے کی گنجائش نہیں رہی تھی، اسی وجہ سے بہت سے دوستوں کو اپنے آنے کی اطلاع بھی نہیں کی کہ امریکہ آکر ان کے پاس حاضری نہ دینے پر وہ ناراض ہوں گے۔

نیویارک میں حافظ اعجاز احمد، اٹلانٹک سٹی (نیو جرسی) میں خالد مسعود بٹ اور برمنگھم (الاباما) میں افتخار رانا کو اطلاع مل گئی تھی، یہ تینوں دوست گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے فون پر ناراضگی کا اظہار بھی کر دیا مگر میرے پاس معذرت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جبکہ انتخابی مہم دیکھنے کا شوق اس لیے ادھورا رہ گیا کہ یہاں تو ساری مہم ٹیلی ویژن پر ہوتی ہے، اگرچہ یہ مہم ٹیلی ویژن پر مختلف اوقات میں دیکھنے کا موقع ملا حتیٰ کہ صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کے حریف جان کیری کے درمیان تیسرے مباحثے کا نظارہ بھی کیا مگر الیکشن مہم مجھے کہیں دکھائی نہ دی۔ نہ دیواروں پر قد آور پوسٹر اور پورٹریٹ نظر آئے، نہ ڈھول کی تھاپ پر رقص دیکھنے میں آیا، نہ جلوس، نہ جلسہ، نہ ہلا گلا، نہ شور شرابا، نہ امیدواروں کے ڈیروں پر چائے مٹھائی اور کھانے کی رونقیں اور نہ آدھی رات تک ووٹروں کے دروازوں پر دستک۔ یا اللہ! کیا یہ وہ الیکشن ہے کہ جس کے نتائج پر پوری دنیا نظریں لگائے بیٹھی ہے اور جس کی مہم کے بارے میں سروے رپورٹوں کے اتار چڑھاؤ پر بہت سے ملکوں کے حکمرانوں کے دلوں کی حرکت کا نظام ڈسٹرب ہونے لگتا ہے۔ اس صدارتی انتخاب کی الیکشن مہم کا خود اس ملک کے دارالحکومت کی گلیوں، بازاروں اور پارکوں میں کوئی سراغ نہیں مل رہا۔

میں ریاست ورجینیا کے شہر سپرنگ فیلڈ میں مقیم رہا۔ یہ علاقہ انتظامی طور پر دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کا حصہ نہیں ہے لیکن معاملہ اسلام آباد اور راولپنڈی والا ہی ہے۔ ۲۰ اکتوبر کو لورل کے علاقے میں مقیم مولانا عبد المتین کے ہاں جانا ہوا جو ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک اسلامی مرکز میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہاں جانے کے لیے واشنگٹن ڈی سی کو عبور کر کے جانا پڑتا ہے۔ میں جب سے یہاں آیا ہوں اس علاقے میں الیکشن مہم کو تلاش کر رہا ہوں مگر وہ مجھے ٹی وی اور نجی محفلوں کے سوا کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ کہتے ہیں کہ انتخابی مہم کے سلسلے میں یہاں ہوٹلوں میں لنچ اور ڈنر بھی ہوتے ہیں مگر ان میں ووٹر اور سپورٹر امیدوار کی جیب پر ہاتھ صاف کرنے کی بجائے فنڈ ریزنگ کے نام پر الٹا اس کی مالی مدد کرتے ہیں۔ البتہ نجی محفلوں میں الیکشن کا ذکر ہوتا ہے اور لوگوں کے جذبات کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔

ڈمفریز کے علاقے میں افطاری پر ایک پاکستانی فیملی کے ہاں مدعو تھا ان سے الیکشن کے موضوع پر بات کی تو فیملی کے سربراہ کہنے لگے کہ پہلی بار ہم نے ووٹ بنوائے ہیں اور صرف اس لیے بنوائے ہیں کہ انہیں بش کے خلاف استعمال کر سکیں۔ میں نے کہا کہ پالیسیوں کے حوالے سے تو بش اور کیری میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آرہا، کہنے لگے کہ ہمیں تو بش کے جانے سے غرض ہے کہ اس کو ضرور ہارنا چاہیے۔ مجھے یہ بات سن کر نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم یاد آگئے، وہ میاں محمد نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں ان کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے اور حکومت کو ہٹانے کی مہم منظم کرنے میں مصروف تھے، کسی نے سوال کیا کہ نواب صاحب! اس حکومت کے جانے کے بعد کسی بہتر حکومت کے آنے کی توقع ہے؟ اس کے جواب میں نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم نے ایک شعر پڑھا جس کا پہلا مصرعہ مجھے یاد نہیں آرہا جبکہ دوسرا مصرعہ یہ تھا

خزاں جائے بہار آئے نہ آئے

اس وقت امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے جذبات کچھ اسی طرح کے نظر آرہے ہیں۔ میری ملاقات جتنے مسلمانوں سے ہوئی کم و بیش سبھی نے جان کیری کو ووٹ دینے کا عزم ظاہر کیا اور جب تھوڑا سا کریدا تو اس کے پیچھے ’’حبِ کیری‘‘ نہیں بلکہ ’’بغضِ بش‘‘ کا جذبہ ہی کار فرما دکھائی دیا۔ بعض دوست بش اور کیری میں تھوڑا بہت فرق بھی بتاتے ہیں۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ بنیادی پالیسیاں تو جان کیری کی وہی ہوں گی جو بش کی ہیں لیکن طریق کار میں فرق ضرور ہوگا اور اس فرق کا فائدہ بہرحال مسلمانوں کو ملے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیموکریٹک حکمرانوں کی زیادہ توجہ داخلی مسائل پر ہوتی ہے جبکہ ری پبلکن کے ایجنڈے میں خارجی اور عالمی امور کو ترجیح دی جاتی ہے، اس لیے بھی جان کیری کا منتخب ہونا مسلمانوں کے مفاد میں ہوگا کہ داخلی مسائل پر زیادہ توجہ کی وجہ سے عالمی مسائل کے حوالے سے مسلمانوں پر دباؤ میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور آئے گی۔ بہرحال مسلمانوں میں اس وقت جان کیری کی حمایت کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ اس بار مسلمانوں کی اکثریت اپنے ووٹ کا منظم طور پر استعمال کرے گی اور وہ ووٹ صدر بش کے خلاف استعمال ہوں گے۔

گزشتہ الیکشن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے صدر بش کو ووٹ دیا تھا اور اس کے لیے باقاعدہ مہم چلائی تھی۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اس لیے جان کیری کی کامیابی کی صورت میں بھی سنجیدہ مسلمانوں کو کسی مثبت تبدیلی کی توقع نہیں ہے، البتہ ایک بات پر بعض مسلمان حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں میں اپنے ووٹ کی طاقت کا احساس بڑھ رہا ہے اور اسے منظم طور پر استعمال کرنے کا شعور بھی بیدار ہو رہا ہے۔ اگر یہ احساس اور شعور اسی طرح ترقی کرتا رہا تو آئندہ دو تین الیکشنوں کے بعد امریکہ میں مقیم مسلمانوں کا اجتماعی ووٹ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے ان عناصر کو بھی اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب ہو جائے گا جو بنیادی پالیساں بناتے ہیں اور جن کے ہاتھوں میں ترجیحات کی باگ ڈور ہوتی ہے۔

جوہر آباد کے محمد اشرف صاحب اور سیالکوٹ کے ناہن علی صاحب کا تعارف ایک گزشتہ کالم میں ہو چکا ہے کہ وہ ہمارے پرانے دوست ہیں اور امریکہ آنے پر میرا سیروسیاحت کا شوق زیادہ تر انہی کے ذریعے پورا ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے وقت فارغ کرتے ہیں اور کسی نہ کسی اہم علاقے میں لے جانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس سفر میں ان کے ساتھ ریڈ انڈینز کے علاقے میں جانے کا پروگرام تھا جو امریکہ کے اصل باشندے ہیں اور جنہیں آبادیوں سے جنگلوں کی طرف دھکیل کر یورپی آبادکاروں نے امریکہ پر قبضہ کیا تھا۔ انہیں دیکھنے، ان کے رہن سہن کا مشاہدہ کرنے، ان سے باتیں کریں اور ان کے ماضی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا ایک مدت سے اشتیاق تھا لیکن گزشتہ اٹھارہ برس کے دوران کم و بیش آٹھ نو مرتبہ امریکہ آنے کے باوجود یہ خواہش ابھی تک پوری نہیں ہو سکی۔ اس بار پروگرام طے تھا مگر میرے لیٹ آنے اور رمضان المبارک کی مصروفیات شروع ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ امید ہے کہ اگلے سفر میں ان شاء اللہ تعالیٰ یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔

دارالہدٰی میں جنوبی افریقہ سے ایک نوجوان عالم دین مولانا مفتی محمد ابراہیم ڈیسائی آئے ہوئے تھے، وہ گزشتہ کئی برسوں سے رمضان المبارک یہیں گزارتے ہیں اور عمومی بیانات کے علاوہ دارالہدٰی کی بعض کلاسوں کو خصوصی کورسز بھی پڑھاتے ہیں۔ رات کو نماز تراویح میں یہاں خاصا رش ہوتا ہے، اردگرد بہت جگہ تراویح کا اہتمام ہے لیکن اس کے باوجود دارالہدٰی کی مسجد کا ہال نمازیوں سے بھرا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات صفوں کو تنگ کر کے مزید گنجائش پیدا کرنا پڑتی ہے۔ تراویح سے قبل مفتی صاحب موصوف انگلش میں قرآن کریم کے اس حصے کا خلاصہ بیان کرتے ہیں جو تراویح میں پڑھا جانے والا ہوتا ہے۔ جبکہ نماز تراویح کے بعد اردو میں کم و بیش نصف گھنٹہ کسی دینی موضوع پر میرا بیان ہوتا ہے۔ لوگ بڑے شوق سے بیٹھتے ہیں اور اہتمام سے آتے ہیں۔ ۲۱ اکتوبر کو جمعہ کا خطبہ دارالہدٰی میں دیا، ہفتہ کا دن مسجد ابوبکرؓ ساؤتھال لندن میں گزرا اور پیر کو بفضلہٖ تعالیٰ گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter